پشاور شہر میں پہلی بار
پشاور کراچی اورلاہور جتنا بڑا شہر تو نہیں ہے لیکن اس کے مسائل بڑے بڑے بلکہ ان بڑوں سے بھی بڑے ہیں۔
اب تک تو آپ بھی جان اور مان گئے ہوں گے کہ ہم صرف سخن فہم ہیں اور کسی بھی '' غالبؔ'' کے طرفدار نہیں ہیں اس لیے اس ''سخن'' کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی جو صوبائی حکومت ''ریپڈ بس سروس '' کی صورت میں ارشاد فرما رہی ہے جو تقریباً ویسا ہی ہے کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
پشاور کراچی اورلاہور جتنا بڑا شہر تو نہیں ہے لیکن اس کے مسائل بڑے بڑے بلکہ ان بڑوں سے بھی بڑے ہیں۔ جن شہروں میں اس ملک کے ''بڑے'' بڑے آرام سے رہتے ہیں بلکہ اگر پشاور کو ہم اس ملک کا مہمان خانہ یا سرائے کہہ دیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ مملکت خداد داد پاکستان میں جتنے بھی ''مہمان'' یہاں آتے ہیں یا بلوائے جاتے ہیں ان کے قیام کا بندوبست پشاور ہی میں کیا جاتا ہے، افغانستان کے مہاجر ہوں قبائل کے وی آئی پی یا ڈی آئی پیز ہوں وہ خانہ انوری عرف پشاور کا رخ کرتے ہیں۔
شہر وہی، اس کا رقبہ وہی، سڑکیں وہی، وسائل وہی اور مہمانوں کی یہ بے پناہ یلغار بلکہ سڑکیں تو روز بروز کم بلکہ ختم ہو رہی ہیں کیونکہ ادھر محترمہ سیکیورٹی بیگم بھی تمام اہل وعیال کے ساتھ براجمان ہیں۔ کچھ سڑکیں تو مکمل طور پر سیکیورٹی بیگم کے قبضے میں ہیں جو اکا دکا رہ گئی ہیں ان پر بھی بیگم صاحبہ ہی کا سایہ عاطفت پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ لے دے کر صرف وہی ایک روڈ رہ گئی ہے جسے جی ٹی روڈ یا خیبر روڈ کہا جاتا ہے۔ جسے گرانڈ ٹریفک جام روڈ کہنا چاہیے کیونکہ سیکیورٹی بیگم تو ہر سڑک پر کسی بھی وقت کسی بھی جگہ دھرنا دے سکتی ہے۔ جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے۔
اس محترمہ کے بارے میں کچھ زیادہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں کہ عزت سادات بہر حال ہمیں بھی عزیز ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ بچارے درد کے مارے جو سیکیورٹی کا نفاذ کرتے ہیں اس مسلسل اور بے تھکان ڈیوٹی سے ناک تک آچکے ہوں لیکن چونکہ اوپر بڑے اعضاء ہیں اس لیے ان بچاروں کو اپنا نزلہ گرانے کے لیے وہی ایک عضو ضعیف رہ گیا ہو۔ جس کے نیچے صرف زمین ہے۔چنانچہ جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے۔ سڑکوں کے اوپر تو خیر ٹریفک جام کی جیسے باقاعدہ ٹریفک والوں کی طرح ڈیوٹی لگی ہو لیکن پلوں کے اوپر پلوں کے نیچے پلوں کے دائیں بائیں آگے پیچھے ٹریفک جام ہی ٹریفک جام ٹریفک جام۔
وہ سائیں کبیر جو چلتی کو گاڑی کہنے پر رویا کرتا تھا اگر یہاں پر ''گاڑیوں'' کا گاڑی نہیں دیکھ لے تو کھلکھلا کر ہنس پڑے کہ اب ٹھیک ہے واقعی ''گاڑی'' اس کو کہتے ہیں جو ایک ہی جگہ گڑ جائے۔ یہ ٹریفک جام اتنا بے عیب ہوتا ہے کہ اکثر لوگ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے رشتے ناتے اور کاروباری معاملات بھی طے کر لیتے ہیں کیونکہ اکثر مستقل آنے جانے والے بیک وقت جب گاڑی پر گڑے ہوئے ہوں تو آپس میں تعلق بن ہی جاتا ہے۔ اسے ہم ایک طرح سے موبائل پڑوس بھی کہہ سکتے ہیں۔
ایسے میں یہ شہر ٹریفک کے لحاظ سے نہایت ہی بری حالت میں تھا۔ بالا آخر اس کی فریاد کا نتیجہ ریپڈ بس سروس کی صورت میں نکل ہی آیا۔ جس پر نہایت تیزی بلکہ جنگی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے اور کام کی رفتار سے پتہ چلتا ہے کہ چھ سات مہینے میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا اور ٹریفک جام میں تین چار گھنٹے مستقل خوار ہونے والے نہایت آسانی سے اپنی منزل پر پہنچ پائیں گے۔
آج کل تو ہوتا یہ ہے کہ جن کو شہر کے پار کسی مقام پر پہنچنا ہوتا ہے وہ کم از کم تاخیر سے اپنے دفتر یا اسکول یا کالج پہنچتا ہے تو اتنا تھکا ہوا ہوتا ہے کہ کسی کام کے کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا اور پھر جن دفاتر میں ان کا کام ہوتا ہے ان کو بھی تو دو تین گھنٹے پہلے ہی گھر کے لیے روانہ ہونا ہوتا ہے۔
اکثر کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے ''والی بات ہو جاتی ہے۔ کسی نے اس پر پشتو میں بڑا خوبصورت ٹپہ بھی کسا ہے کہ جن کے ملنے کی قسمت نہیں ہوتی وہ یوں ہی راستے میں آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اوپر سے یہ ستم ظریفی اور ہے کہ جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں تعلیمی ادارے ہیں اور مرکزی مقامات ہیں وہ شہر کے اس پار یونیورسٹی یا حیات آباد میں واقع ہیں ۔ یونہی کہیے کہ پیاسے اس طرف ہیں اور کنوئیں صحرا بلکہ ''شہر'' کے اس پار ہیں،لیکن اب ریپڈ بس سروس سے یہ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
تکالیف کے علاوہ وہ قیمتی وقت بھی بچ جائے گا جو راستے میں ٹریفک جام کی نذر ہو جاتا تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے کتنے ہی سیاسی ٹانکے جوڑے لیکن ہم تو داد ہی دیں گے اور جی کھول کر دیں گے کیونکہ اچھے کام کو اچھا کام نہ کہنا بھی بری بات ہے اور پھر بات جب ''خلق خدا'' کی سہولت کی ہو تو ساتھ میں تالیاں بھی بجائیں گے۔
جیسا کہ ہمارے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہمارا کسی بھی سیاسی خرخشے سے کوئی لینا دینا نہیں، خاص طور پر پارٹیوں کے سلسلے میں تو ہم اتنے الرجک ہیں کہ کوئی کسی بھی پارٹی کا نام لے ہمیں ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ لیکن اچھا کام کوئی بھی کرے اسے اچھا ہی کہیں گے۔اور زیر بحث مسٔلہ پشاور کا اتنا بڑا مسٔلہ ہے کہ اس کے پیٹ میں لاتعداد دوسرے مسائل بھی برابر جنم لیتے رہتے ہیں بلکہ شہر کا سارا ماحول ہی اس کی وجہ سے بگڑا ہو اور ڈسٹرب ہے۔
اور یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ جہاں کوئی بھی کام وقت پر نہ ہو اور کوئی بھی اپنی منزل پر بروقت نہ پہنچ پا رہا ہوں وہاں کتنا سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ایک اور اچھا پہلو بلکہ منفرد پہلو کہیے اس کام کا یہ ہے کہ اس پر کام بالکل ہی الگ انداز میں ہو رہا ہے اب تک تعمیرات کے سلسلے میں تو ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ ٹھیکیدار لوگ کسی سٹرک کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اپنا سارا تام جام ڈال کر سٹرک روک لیتے ہیں۔
سٹرک کھودلی جاتی ہے اور پھر اچانک کام رک جاتا ہے اور دنوں ہفتوں اور مہینوں تک رکا پڑا رہتا ہے اور رات کو تو کام کا رواج ہی ختم ہو گیا تھا لیکن اس پر دن رات مسلسل اور برابر کام چل رہا ہے اس لیے اندازہ ہے کہ اگر ''آسمان'' کی طرف سے خیر رہی تو ریکارڈ مدت میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا اور پشاور والے بھی شاید اس مسلسل عذاب سے چھوٹ جائیں جس میں وہ بیس پچیس سال سے مبتلا ہیں۔
منصوبے کا اچھا پہلو یہ ہے کہ یہ ''ہوا'' ہی ہوا میں چلے گا اور اس ''بلا'' سے بھی بچا رہے گا جو رنگ روڈ پر مسلط ہو کر اسے روڈ کے بجائے ''روک'' بنا چکی ہے کہ یہاں وہاں سے دکانیں مستری خانے کارخانے صماعت خانے اڈے اور کاٹ کباڑ نکل کر روڈ کا حشر نشر کر دیتا ہے۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
پشاور کراچی اورلاہور جتنا بڑا شہر تو نہیں ہے لیکن اس کے مسائل بڑے بڑے بلکہ ان بڑوں سے بھی بڑے ہیں۔ جن شہروں میں اس ملک کے ''بڑے'' بڑے آرام سے رہتے ہیں بلکہ اگر پشاور کو ہم اس ملک کا مہمان خانہ یا سرائے کہہ دیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ مملکت خداد داد پاکستان میں جتنے بھی ''مہمان'' یہاں آتے ہیں یا بلوائے جاتے ہیں ان کے قیام کا بندوبست پشاور ہی میں کیا جاتا ہے، افغانستان کے مہاجر ہوں قبائل کے وی آئی پی یا ڈی آئی پیز ہوں وہ خانہ انوری عرف پشاور کا رخ کرتے ہیں۔
شہر وہی، اس کا رقبہ وہی، سڑکیں وہی، وسائل وہی اور مہمانوں کی یہ بے پناہ یلغار بلکہ سڑکیں تو روز بروز کم بلکہ ختم ہو رہی ہیں کیونکہ ادھر محترمہ سیکیورٹی بیگم بھی تمام اہل وعیال کے ساتھ براجمان ہیں۔ کچھ سڑکیں تو مکمل طور پر سیکیورٹی بیگم کے قبضے میں ہیں جو اکا دکا رہ گئی ہیں ان پر بھی بیگم صاحبہ ہی کا سایہ عاطفت پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ لے دے کر صرف وہی ایک روڈ رہ گئی ہے جسے جی ٹی روڈ یا خیبر روڈ کہا جاتا ہے۔ جسے گرانڈ ٹریفک جام روڈ کہنا چاہیے کیونکہ سیکیورٹی بیگم تو ہر سڑک پر کسی بھی وقت کسی بھی جگہ دھرنا دے سکتی ہے۔ جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے۔
اس محترمہ کے بارے میں کچھ زیادہ تو نہیں کہہ سکتے ہیں کہ عزت سادات بہر حال ہمیں بھی عزیز ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ بچارے درد کے مارے جو سیکیورٹی کا نفاذ کرتے ہیں اس مسلسل اور بے تھکان ڈیوٹی سے ناک تک آچکے ہوں لیکن چونکہ اوپر بڑے اعضاء ہیں اس لیے ان بچاروں کو اپنا نزلہ گرانے کے لیے وہی ایک عضو ضعیف رہ گیا ہو۔ جس کے نیچے صرف زمین ہے۔چنانچہ جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے۔ سڑکوں کے اوپر تو خیر ٹریفک جام کی جیسے باقاعدہ ٹریفک والوں کی طرح ڈیوٹی لگی ہو لیکن پلوں کے اوپر پلوں کے نیچے پلوں کے دائیں بائیں آگے پیچھے ٹریفک جام ہی ٹریفک جام ٹریفک جام۔
وہ سائیں کبیر جو چلتی کو گاڑی کہنے پر رویا کرتا تھا اگر یہاں پر ''گاڑیوں'' کا گاڑی نہیں دیکھ لے تو کھلکھلا کر ہنس پڑے کہ اب ٹھیک ہے واقعی ''گاڑی'' اس کو کہتے ہیں جو ایک ہی جگہ گڑ جائے۔ یہ ٹریفک جام اتنا بے عیب ہوتا ہے کہ اکثر لوگ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے رشتے ناتے اور کاروباری معاملات بھی طے کر لیتے ہیں کیونکہ اکثر مستقل آنے جانے والے بیک وقت جب گاڑی پر گڑے ہوئے ہوں تو آپس میں تعلق بن ہی جاتا ہے۔ اسے ہم ایک طرح سے موبائل پڑوس بھی کہہ سکتے ہیں۔
ایسے میں یہ شہر ٹریفک کے لحاظ سے نہایت ہی بری حالت میں تھا۔ بالا آخر اس کی فریاد کا نتیجہ ریپڈ بس سروس کی صورت میں نکل ہی آیا۔ جس پر نہایت تیزی بلکہ جنگی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے اور کام کی رفتار سے پتہ چلتا ہے کہ چھ سات مہینے میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا اور ٹریفک جام میں تین چار گھنٹے مستقل خوار ہونے والے نہایت آسانی سے اپنی منزل پر پہنچ پائیں گے۔
آج کل تو ہوتا یہ ہے کہ جن کو شہر کے پار کسی مقام پر پہنچنا ہوتا ہے وہ کم از کم تاخیر سے اپنے دفتر یا اسکول یا کالج پہنچتا ہے تو اتنا تھکا ہوا ہوتا ہے کہ کسی کام کے کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا اور پھر جن دفاتر میں ان کا کام ہوتا ہے ان کو بھی تو دو تین گھنٹے پہلے ہی گھر کے لیے روانہ ہونا ہوتا ہے۔
اکثر کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے ''والی بات ہو جاتی ہے۔ کسی نے اس پر پشتو میں بڑا خوبصورت ٹپہ بھی کسا ہے کہ جن کے ملنے کی قسمت نہیں ہوتی وہ یوں ہی راستے میں آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اوپر سے یہ ستم ظریفی اور ہے کہ جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں تعلیمی ادارے ہیں اور مرکزی مقامات ہیں وہ شہر کے اس پار یونیورسٹی یا حیات آباد میں واقع ہیں ۔ یونہی کہیے کہ پیاسے اس طرف ہیں اور کنوئیں صحرا بلکہ ''شہر'' کے اس پار ہیں،لیکن اب ریپڈ بس سروس سے یہ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
تکالیف کے علاوہ وہ قیمتی وقت بھی بچ جائے گا جو راستے میں ٹریفک جام کی نذر ہو جاتا تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے کتنے ہی سیاسی ٹانکے جوڑے لیکن ہم تو داد ہی دیں گے اور جی کھول کر دیں گے کیونکہ اچھے کام کو اچھا کام نہ کہنا بھی بری بات ہے اور پھر بات جب ''خلق خدا'' کی سہولت کی ہو تو ساتھ میں تالیاں بھی بجائیں گے۔
جیسا کہ ہمارے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ہمارا کسی بھی سیاسی خرخشے سے کوئی لینا دینا نہیں، خاص طور پر پارٹیوں کے سلسلے میں تو ہم اتنے الرجک ہیں کہ کوئی کسی بھی پارٹی کا نام لے ہمیں ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ لیکن اچھا کام کوئی بھی کرے اسے اچھا ہی کہیں گے۔اور زیر بحث مسٔلہ پشاور کا اتنا بڑا مسٔلہ ہے کہ اس کے پیٹ میں لاتعداد دوسرے مسائل بھی برابر جنم لیتے رہتے ہیں بلکہ شہر کا سارا ماحول ہی اس کی وجہ سے بگڑا ہو اور ڈسٹرب ہے۔
اور یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ جہاں کوئی بھی کام وقت پر نہ ہو اور کوئی بھی اپنی منزل پر بروقت نہ پہنچ پا رہا ہوں وہاں کتنا سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ایک اور اچھا پہلو بلکہ منفرد پہلو کہیے اس کام کا یہ ہے کہ اس پر کام بالکل ہی الگ انداز میں ہو رہا ہے اب تک تعمیرات کے سلسلے میں تو ہم یہ دیکھتے آئے ہیں کہ ٹھیکیدار لوگ کسی سٹرک کو اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اپنا سارا تام جام ڈال کر سٹرک روک لیتے ہیں۔
سٹرک کھودلی جاتی ہے اور پھر اچانک کام رک جاتا ہے اور دنوں ہفتوں اور مہینوں تک رکا پڑا رہتا ہے اور رات کو تو کام کا رواج ہی ختم ہو گیا تھا لیکن اس پر دن رات مسلسل اور برابر کام چل رہا ہے اس لیے اندازہ ہے کہ اگر ''آسمان'' کی طرف سے خیر رہی تو ریکارڈ مدت میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا اور پشاور والے بھی شاید اس مسلسل عذاب سے چھوٹ جائیں جس میں وہ بیس پچیس سال سے مبتلا ہیں۔
منصوبے کا اچھا پہلو یہ ہے کہ یہ ''ہوا'' ہی ہوا میں چلے گا اور اس ''بلا'' سے بھی بچا رہے گا جو رنگ روڈ پر مسلط ہو کر اسے روڈ کے بجائے ''روک'' بنا چکی ہے کہ یہاں وہاں سے دکانیں مستری خانے کارخانے صماعت خانے اڈے اور کاٹ کباڑ نکل کر روڈ کا حشر نشر کر دیتا ہے۔