دھرنا حکومت نے فہم و فراست کا ثبوت دیا

وفاقی حکومت نے صورتحال کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے علماء و مشائخ کی بر وقت مدد کیوں حاصل نہیں کی۔

tahirnajmi@express.com.pk

اسلام آباد میں آج کل موسم خاصا سرد ہے لیکن سیاسی درجہ حرارت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے، بہت سے معاملات میں حکومتی گرفت کمزور پڑتی محسوس ہورہی ہے اور معاملات میں سلجھاؤ نظر نہیں آرہا ہے۔ اس کا اندازہ اسلام آباد میں گزشتہ سترہ روز سے جاری دھرنے سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت 2ہفتے سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود مذہبی جماعتوں کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے کو ختم نہیں کراسکی ہے، دھرنا دینے والوں کا موقف ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بل میں ختم نبوت کے حلف نامے میں جو ترمیم کی گئی تھی وہ ختم نبوت کے منافی تھی۔

اگرچہ حکومت نے حلف نامے کو من وعن بحال کر دیا ہے لیکن مظاہرین وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر مصر ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ بھی حکومت کو دھرنا ختم کرانے کے احکامات دے چکی ہے اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی دھرنے کا نوٹس لے کر حکومت سے 23نومبر تک جواب طلب کرلیا ہے جب کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے بھی فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے حکومت کو عسکری قیادت سے رابطے کی تجویز دی ہے۔ ڈی جی آئی پی ایس آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ افواج پاکستان ریاست کا ادارہ ہے، اور دھرنے کے سلسلے میں حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی اس پر عمل کریں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ معاملات کی حساسیت انھیں احتیاط سے حل کرنے کی متقاضی ہوا کرتی ہے اور اگر کوئی معاملہ مذہبی یا نظریاتی نوعیت کا ہو تو تدبر و تحمل کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے، ایسی صورتحال میں فہم وفراست کو بروئے کار لاتے ہوئے حکمت عملی کے تحت اصلاح احوال کی کوشش ہی بہترین راہ عمل ہوتی ہے مگر فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کو ختم کرانے میں حکومت کی نااہلی'ناکامی اور بے بسی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نمایاں ہوتی جارہی ہے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ وفاقی حکومت نے صورتحال کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے علماء و مشائخ کی بر وقت مدد کیوں حاصل نہیں کی۔ مظاہرین کی قیادت سے فوری بات چیت شروع کیوں نہیں کی گئی اور انھیں متبادل جگہ پر دھرنا دینے پر قائل کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کی گئیں۔

اس مسئلے کو شروع میں ہی خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا تھا اگر حکومت دھرنے کے آغاز سے ہی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی اور دھرنا دینے والوں سے فوری رابطہ کیا جاتا تو معاملات یہاں تک نہ پہنچتے لیکن حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدہ نہیں سمجھا، حکومت کی جانب سے کی گئی تاخیر کے دوران دھرنے کے شرکاء کی تعداد بڑھتی گئی اور دھرنے کی وجہ سے متاثر ہونیوالے عوام کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ حالانکہ دھرنا دینے والوں کا شروع میں صرف یہی مطالبہ تھا کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں کی گئی ترمیم کے ذمے داران کا تعین کرکے انھیں قرار واقعی سزا دی جائے.

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومت کی جانب سے ہی اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تحقیقات کے بعد کمیٹی کی رپورٹ کو نہ صرف پبلک کیا جائے گا بلکہ ذمے داران کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔ دھرنے کے شرکاء یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ آپ اپنی کہی گئی بات پر عمل کریں لیکن افسوس کہ حکومت نے نہ تو کمیٹی کی رپورٹ جاری کی اور نہ ہی کسی کو ذمے دار ٹھہرا کر اس کے خلاف کارروائی کی۔

اور اب جب صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر ہوتی جارہی ہے تو ایسے میں راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ بھی سامنے آنے یا نہ آنے کی اطلاعات ہیں، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ ختم نبوت کی شق میں تبدیلی وزیرقانون زاہد حامد نے نہیں بلکہ پوری انتخابی اصلاحات کمیٹی کا فیصلہ تھا۔رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے تبدیلی پوری انتخابی اصلاحات کمیٹی اور تمام سیاسی جماعتوں کی34 رکنی پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کا فیصلہ پہلے 16 رکنی ذیلی کمیٹی اس کے بعد 34 رکنی پارلیمانی کمیٹی نے کیا، رپورٹ میں ختم نبوت ترمیم کے حوالے سے کسی ایک شخص کو ذمے دار قرار نہیں دیا گیا اور کہا گیا ہے زاہد حامد نے بحیثیت وزیرقانون رپورٹ ایوان میں پیش کی لہذا ان پر شق کو ختم کرنے یا ترمیم کا الزام لگانا غلط ہوگا مگر اس مبینہ رپورٹ سے راجہ ظفرالحق نے لاتعلقی ظاہر کرکے معاملے کو مزید الجھا دیا ہے۔


ارکان قومی اسمبلی کے حلف نامے میں ختم نبوت کی شق میں تبدیلی کا معاملہ بلاشبہ ایک انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے، کوئی مسلمان نبی آخر الزماں کے خاتم النبین ہونے میں رتی برابر بھی شک نہیں کرسکتا، اور نہ ہی ختم نبوت کے عقیدے اور قوانین میں تبدیلی یا ان سے متعلق سوال اٹھانے کا سوچ سکتا ہے۔ ایک عام شہری یہی سمجھ رہا ہے کہ اس معاملے میں کوئی گمبھیر سازش ہوئی ہے، چنانچہ اسے بے نقاب کرنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ اسلام آباد کو پنجاب اور دیگر علاقوں سے ملانے والے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنے سے دونوں شہروں کی ٹریفک درہم برہم ہوجاتی ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس سے خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس مقام کی اہمیت کے پیش نظر ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے مداخلت کی اور عدالت نے فیض آباد کو خالی کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت اور دھرنے والوں کے مابین مذاکرات بھی ہوئے ہیں مگر یہ مذاکرات اس لیے بے نتیجہ ثابت ہوئے کہ حکومت دھرنے والوں کا کوئی مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہیں، الٹا حیلے بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس غیرسنجیدہ طرز ِ عمل سے دھرنا دینے والوں کے جذبات میں شدت آتی جارہی ہے۔

اس وقت پاکستان چاروں طرف سے اندرونی وبیرونی خطرات میں گھراہوا ہے اور مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان نے سی پیک کی تکمیل کو ایک چیلنج کے طورپر لیا ہے۔ افغانستان میں امریکا اور بھارت بیٹھ کر پاکستان کے گرد گھیراتنگ کررہے ہیں۔ سی پیک کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ انڈیا اس کوکسی بھی صورت کامیاب ہوتے دیکھنا نہیں چاہتا۔

ایسی نازک صورتحال میں حکومت کو دھرنے کو ختم کرانے کے لیے زیادہ معاملہ فہمی کا ثبوت دینا چاہیے تھا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کی نااہلی اور کم فہمی واضح ہوتی جارہی ہے، اگر دھرنے کا اختتام طاقت کے استعمال کے نتیجے میں خون خرابے پر ہوتا ہے تو یہ بڑا المیہ ہوگا اور معاشرے کے لیے بد قسمتی ہوگی، اس سے حالات مزید بگڑ سکتے اور انتشار مزید بڑھ سکتا ہے۔

حکومت ابھی بھی سلیقہ، تدبر، معاملہ فہمی، حکمت اور غیرجذباتی انداز میں قوم کو اس بحران اور ذہنی دباؤ سے نکال سکتی ہے، سیاست میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی، ضرورت احتیاط کی ہے مگربے عملی کی نہیں، یہ بات ہر شہری کی زبان پر ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے کہ اگر کچھ کرلیا تو کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ کیا کاروبار اور امور ریاست اس پست ہمتی اور سیاسی قوت ارادی کے فقدان سے چلائے جاسکتے ہیں؟

ن لیگ کی حکومت طے کرے کہ اسے قوم کو اس دلدل سے ہر قیمت پر جلد نکالنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور فیض آباد دھرنے کے قائدین کے مابین مذاکرات میں ڈیڈلاک ختم ہو، کوئی خونزیزی نہ ہو، سیاستدان تند وتیز بیانات دینے سے گریز کریں۔ سیاستدانوں، دینی و مذہبی جماعتوں کے قائدین، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ملک کسی قسم کی ٹریجڈی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے سیاستدان باہمی گفتگو، مشاورت اور صلح جوئی سے حل نہ کرسکیں۔

اہل سیاست اور طاقتور اسٹیک ہولڈرز کو آگے بڑھ کر تصادم کا ہر امکان ختم کرنے کوئی سبیل نکالنی چاہیے، اس وقت سارے سیاستدان، علمائے کرام، دانشور، تجزیہ کار اور بااثر قوتیں ملک میں امن و استحکام کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔ دھرنا دینے والی جماعتوں کو عوامی مسائل اورعدلیہ کی بات پر دھیان دینا چاہیے کیونکہ دھرنے کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے، دھرنے کے شرکاء کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے کے بجائے بات چیت کی گنجائش رکھنی چاہیے، اگر وہ اپنی سختی کو ضد میں تبدیل کرینگے تو عوامی ہمدردی سے محروم ہوجائینگے۔

یہ امر سب کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ معاملات کتنے ہی پیچیدہ ہوں، آخر کار گفت وشنید ہی سے حل ہوتے ہیں۔ دھرنا دینے والوں کو عوامی مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے، ان کے احتجاج کا پورے ملک نے گہرا اثر لیا ہے لیکن نیک مقصد کے لیے کام کو غلط طریقے سے کرنا بھی غلط ہے، اس لیے انھیں لچک کا مظاہرہ کرناچاہیے۔حکومت کو بھی کچھ ایسی حکمت سے کام لینا ہوگا کہ عوام کے مذہبی جذبات کومزید ٹھیس نہ پہنچے۔
Load Next Story