ججز کا دورہ بن قاسم ٹاؤن کے اسکولوں سے طلبا غائب اساتذہ تنخواہ وصولی میں مصروف
ججز نے اسکولوں میں لگے تالے کھلوائے، اسکول پر چوکیدار کا قبضہ،ٹیچر نے اسکول کرائے پر دیدیا.
بن قاسم ٹاؤن کے سرکاری اسکولوں سے اے ڈی او( ایلیمنٹری فیمل)2 ہزار روپے سی این جی کے نام سے وصول کررہی ہیں۔
اسکول کی خاکروب گھر پر کام کررہی ہیں اسکول کی بچیوں سے صفائی کرائی جاتی ہے،اسکولوں میں تالا، مقامی لوگوں نے رہائش اختیار کرلی ہے،2008 سے تدریس نہیں ہورہی،سرکاری ٹیچر گھر بیٹھے تنخواہ وصول کررہے ہیں،اسکول چوکیدار نے تمام اسکول کا سامان چوری کرکے فروخت کردیا، ججز نے فوری معطل کرنے کے احکامات اور رپورٹ طلب کرلی ہے، خاکروبوں نے20 برس سے اسکول پر قبضہ کیا ہوا ہے خالی کرنے سے انکار، 22 برس سے قائم اسکول میں پڑھنے والا کوئی بچہ نہیں،بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں ٹیچرز اسکول نہیںآتے۔
والدین ،پانچ برس قبل ایم پی اے نے سرکاری اسکول کا افتتاح کیا لیکن تاحال کوئی بچہ داخل نہیں ہوسکا ججز کے سرکاری دورے کے موقع پر انکشافات، ہفتے کو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر محمد یامین اور ججز ، پی اے زبیر بن محمود نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ بن قاسم ٹاؤن میں قائم سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا،اس موقع پر گورنمنٹ گرلز لوئر اسکول کنڈو رزاق آباد کی ہیڈ مسٹرس سکینہ خانم چانڈیو نے بتایا کہ علاقے کی اے ڈی او آمنہ سومرو سی این جی کی مد میں ہرماہ دو ہزار روپے وصول کرتی ہیں اسکول کے خاکروب کو اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کیلیے رکھا ہوا ہے۔
اسکول کی بچیوں سے صفائی کرائی جاتی ہے اسکول ٹیچرسلمیٰ نے بتایا کہ اس نے دو ہزار روپے بطور رشوت دیکر اس اسکول میں تبادلہ کرایا ہے، اسکول ٹیچر شاہدہ کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب کے علاقے لیہ کی رہائشی ہے اور وہاں سرکاری اسکول ٹیچر تھی 2002 کو کراچی اور اس سندھی اسکول میں تبادلہ کردیا گیا ہے جبکہ اسے سندھی نہیں آتی اور نہ ہی پڑھاسکتی ہے، ہیڈمسٹریس نے بتایا کہ اسکول کے چوکیدار عزیزالرحمن نے اسکول کے تمام دروازے کھڑکیاں پانی کی موٹر ٹنکی ، پمپ واش روم کے لوہے کے دروازے ، جالیاں چوری کرکے فروخت کردی ہیں اور ٹیچروں کو دھمکی دیتا ہے کہ وہ ایم پی اے کا خاص ہے کوئی اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
اس موقع پر فاضل جج نے محکمہ تعلیم کے افسر سلیم اعوان کو فوری طلب کیا اور چوکیدار کو معطل اور محکمانہ کارروائی کرکے رپورٹ پیر کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے اور سیکریٹری تعلیم کو اے ڈی او کے خلاف محکمانہ کارراوئی کا حکم دیا ہے،گورئمنٹ بوائز سکینڈری اسکول عثمان گوٹھ پپری کے دورے کے موقع پر اسکول میں موجود ہیڈماسٹر سمیت 19اساتذہ کی تعداد ہے لیکن کوئی بچہ اسکول مین داخل نہیں تھا ججز کو بتایا گیاکہ گوٹھ کے وڈیرے کے حکم پر اسکول میں داخلے نہیں ہوتے فاضل جج نے گوٹھ کے وڈیرے عثمان کو طلب کیا تو انھوں نے بتایا کہ جب سے یہ ہیڈماسٹر تعینات ہوا بچوں نے پڑھائی چھوڑ دی ہے وجہ دریافت کرنے پر کہا گیا کہ اس بات کو پردہ میں رہنے دیا جائے ورنہ ٹیچرز کا تقدس پامال ہوگا ، اسکول یکم اکتوبر1989سے قائم ہے۔
ان 22 برس میں صرف330 بچے داخل ہوئے تھے فاضل جج نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسکول کا تدریسی عملہ مفت میں سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کررہا ہے،گورنمنٹ ایلمینٹری اسکول پیروولیج کے باہر تالا تھا بالائی منزل میں مقامی لوگوں نے رہائش اختیار کی ہوئی تھی فاضل جج نے ایک رہائش پزیر شخص گل رحیم کو طلب کیا اس نے بتایا کہ اسے جگہ بن قاسم ویلفیئر کے آرگنائزر عطااﷲ نے فراہم کی ہے وہ مزدودی کرتا ہے اسکول سے اس کا کوئی تعلق نہیں اسے کہا گیا تھا کہ کوئی پوچھنے آئے تو بتانا کہ وہ چوکیدار ہے،فاضل جج نے جس اسکول کو کھلوایا تو تختہ سیاہ پر2008 کی تاریخ تھی اسکے بعد آج تک کوئی تدریسی عمل نہیں ہوا رہائش اختیار کرنے والوں نے بتایا کہ چھ ماہ قبل ایک اسکول ٹیچر آیا تھا اسکے بعد کسی کو نہیں دیکھا ۔
تمام عملہ گھر بیٹھے تنخواہ وصول کررہا ہے، گورنمنٹ پرائمری اسکول شاہ محمد گوٹھ کے باہر ایک افتتاحی تختی آویزاں تھی جسکا افتتاح پانچ برس قبل ایم پی اے ساجد جوکھیو نے کیا تھا لیکن آج تک اسکول میں کوئی داخلہ نہیں ہوسکا اس اسکول کے بھی ٹیچرز گذشتہ پانچ برس سے تنخواہیں وصول کررہے ہیں،فاضل جج کے دورے کے موقع پر گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول موسیٰ گوٹھ میں دو ٹیچر موجود تھے جوکہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔
اس موقع پر انھوں نے بتایا کہ وہ بچوں کے سالانہ امتحانات میں مصروف ہیں جب فاضل ججز اسکول میں داخل ہوئے تو چند بچے بلا قمیض اور ننگے پاؤں خالی امتحانی گتے ہاتھ میں لیے ہوئے بیٹھے تھے فاضل جج نے برہمی کا اظہار کیا تو بتایا کہ ججز کے آنے سے قبل انھوں نے محلے کے بچوں کو زبردستی بٹھایا ہے اسکول کی نہایت خستہ حالت ہے کوئی بچوں کو داخل نہیں کراتا ، فاضل جج نے 8 اسکولوں کا دورہ کیا تھا گورنمنٹ ایگرو بوائز سکینڈری اسکول زراق آباد جوکہ بہتر حالت میں پایا گیا تمام تدریسی عملہ و بچے موجود تھے ہیڈماسٹر نے فاضل جج سے شکایات کی کہ اسکول کی ایک بلڈنگ پر20 برس سے خاکروبوں نے قبضہ کیا ہوا ہے متعدد بار نوٹس جاری کیے لیکن وہ خالی نہیں کررہے ہیں۔
اسکول کی خاکروب گھر پر کام کررہی ہیں اسکول کی بچیوں سے صفائی کرائی جاتی ہے،اسکولوں میں تالا، مقامی لوگوں نے رہائش اختیار کرلی ہے،2008 سے تدریس نہیں ہورہی،سرکاری ٹیچر گھر بیٹھے تنخواہ وصول کررہے ہیں،اسکول چوکیدار نے تمام اسکول کا سامان چوری کرکے فروخت کردیا، ججز نے فوری معطل کرنے کے احکامات اور رپورٹ طلب کرلی ہے، خاکروبوں نے20 برس سے اسکول پر قبضہ کیا ہوا ہے خالی کرنے سے انکار، 22 برس سے قائم اسکول میں پڑھنے والا کوئی بچہ نہیں،بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں ٹیچرز اسکول نہیںآتے۔
والدین ،پانچ برس قبل ایم پی اے نے سرکاری اسکول کا افتتاح کیا لیکن تاحال کوئی بچہ داخل نہیں ہوسکا ججز کے سرکاری دورے کے موقع پر انکشافات، ہفتے کو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر محمد یامین اور ججز ، پی اے زبیر بن محمود نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ بن قاسم ٹاؤن میں قائم سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا،اس موقع پر گورنمنٹ گرلز لوئر اسکول کنڈو رزاق آباد کی ہیڈ مسٹرس سکینہ خانم چانڈیو نے بتایا کہ علاقے کی اے ڈی او آمنہ سومرو سی این جی کی مد میں ہرماہ دو ہزار روپے وصول کرتی ہیں اسکول کے خاکروب کو اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کیلیے رکھا ہوا ہے۔
اسکول کی بچیوں سے صفائی کرائی جاتی ہے اسکول ٹیچرسلمیٰ نے بتایا کہ اس نے دو ہزار روپے بطور رشوت دیکر اس اسکول میں تبادلہ کرایا ہے، اسکول ٹیچر شاہدہ کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب کے علاقے لیہ کی رہائشی ہے اور وہاں سرکاری اسکول ٹیچر تھی 2002 کو کراچی اور اس سندھی اسکول میں تبادلہ کردیا گیا ہے جبکہ اسے سندھی نہیں آتی اور نہ ہی پڑھاسکتی ہے، ہیڈمسٹریس نے بتایا کہ اسکول کے چوکیدار عزیزالرحمن نے اسکول کے تمام دروازے کھڑکیاں پانی کی موٹر ٹنکی ، پمپ واش روم کے لوہے کے دروازے ، جالیاں چوری کرکے فروخت کردی ہیں اور ٹیچروں کو دھمکی دیتا ہے کہ وہ ایم پی اے کا خاص ہے کوئی اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
اس موقع پر فاضل جج نے محکمہ تعلیم کے افسر سلیم اعوان کو فوری طلب کیا اور چوکیدار کو معطل اور محکمانہ کارروائی کرکے رپورٹ پیر کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے اور سیکریٹری تعلیم کو اے ڈی او کے خلاف محکمانہ کارراوئی کا حکم دیا ہے،گورئمنٹ بوائز سکینڈری اسکول عثمان گوٹھ پپری کے دورے کے موقع پر اسکول میں موجود ہیڈماسٹر سمیت 19اساتذہ کی تعداد ہے لیکن کوئی بچہ اسکول مین داخل نہیں تھا ججز کو بتایا گیاکہ گوٹھ کے وڈیرے کے حکم پر اسکول میں داخلے نہیں ہوتے فاضل جج نے گوٹھ کے وڈیرے عثمان کو طلب کیا تو انھوں نے بتایا کہ جب سے یہ ہیڈماسٹر تعینات ہوا بچوں نے پڑھائی چھوڑ دی ہے وجہ دریافت کرنے پر کہا گیا کہ اس بات کو پردہ میں رہنے دیا جائے ورنہ ٹیچرز کا تقدس پامال ہوگا ، اسکول یکم اکتوبر1989سے قائم ہے۔
ان 22 برس میں صرف330 بچے داخل ہوئے تھے فاضل جج نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسکول کا تدریسی عملہ مفت میں سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کررہا ہے،گورنمنٹ ایلمینٹری اسکول پیروولیج کے باہر تالا تھا بالائی منزل میں مقامی لوگوں نے رہائش اختیار کی ہوئی تھی فاضل جج نے ایک رہائش پزیر شخص گل رحیم کو طلب کیا اس نے بتایا کہ اسے جگہ بن قاسم ویلفیئر کے آرگنائزر عطااﷲ نے فراہم کی ہے وہ مزدودی کرتا ہے اسکول سے اس کا کوئی تعلق نہیں اسے کہا گیا تھا کہ کوئی پوچھنے آئے تو بتانا کہ وہ چوکیدار ہے،فاضل جج نے جس اسکول کو کھلوایا تو تختہ سیاہ پر2008 کی تاریخ تھی اسکے بعد آج تک کوئی تدریسی عمل نہیں ہوا رہائش اختیار کرنے والوں نے بتایا کہ چھ ماہ قبل ایک اسکول ٹیچر آیا تھا اسکے بعد کسی کو نہیں دیکھا ۔
تمام عملہ گھر بیٹھے تنخواہ وصول کررہا ہے، گورنمنٹ پرائمری اسکول شاہ محمد گوٹھ کے باہر ایک افتتاحی تختی آویزاں تھی جسکا افتتاح پانچ برس قبل ایم پی اے ساجد جوکھیو نے کیا تھا لیکن آج تک اسکول میں کوئی داخلہ نہیں ہوسکا اس اسکول کے بھی ٹیچرز گذشتہ پانچ برس سے تنخواہیں وصول کررہے ہیں،فاضل جج کے دورے کے موقع پر گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول موسیٰ گوٹھ میں دو ٹیچر موجود تھے جوکہ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔
اس موقع پر انھوں نے بتایا کہ وہ بچوں کے سالانہ امتحانات میں مصروف ہیں جب فاضل ججز اسکول میں داخل ہوئے تو چند بچے بلا قمیض اور ننگے پاؤں خالی امتحانی گتے ہاتھ میں لیے ہوئے بیٹھے تھے فاضل جج نے برہمی کا اظہار کیا تو بتایا کہ ججز کے آنے سے قبل انھوں نے محلے کے بچوں کو زبردستی بٹھایا ہے اسکول کی نہایت خستہ حالت ہے کوئی بچوں کو داخل نہیں کراتا ، فاضل جج نے 8 اسکولوں کا دورہ کیا تھا گورنمنٹ ایگرو بوائز سکینڈری اسکول زراق آباد جوکہ بہتر حالت میں پایا گیا تمام تدریسی عملہ و بچے موجود تھے ہیڈماسٹر نے فاضل جج سے شکایات کی کہ اسکول کی ایک بلڈنگ پر20 برس سے خاکروبوں نے قبضہ کیا ہوا ہے متعدد بار نوٹس جاری کیے لیکن وہ خالی نہیں کررہے ہیں۔