وہ گلیاں وہ چوبارے
اب وہاں ماشاء اللہ ہائی اسکول کی سطح تک لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی تعلیم کا انتظام ہے
پہلے کی سب چیزیں اب متروک، مفقود اور ناپید ہوچکی ہیں، اب یاد آتی ہیں تو بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے زمانے کی اس حوالے سے باتیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بن کر روح کوگویا گدگدا جاتی ہیں اور ہم پیچھے کی طرف ماضی میں لوٹ جاتے ہیں، وہ بھی ایسے کہ حال میں واپس آنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ میرے جیون کے یہ تینوں ادوار چونکہ اپنی جنم بھومی اور آبائی شہر ٹنڈو غلام علی میں گذرے ، اس لیے میری یادوں میں محفوظ ان چیزوں کا تعلق بھی وہیں سے تھا۔
شہر تو یہ اب کہلاتا ہے ، تب یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا، جس کی آبادی بمشکل چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی لیکن وہاں سرکاری پرائمری اسکول، سرکاری ڈسپینسری، اینیمل ہسبنڈری (مویشیوں کے اسپتال)، ڈاک خانے ، تارگھر، پولیس اسٹیشن (تھانے )، مسافر خانے اور عبادت گاہوں جیسی بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں موجود تھیں ۔ عبادت گاہوں میں مساجد و امام بارگاہ ہی نہیں ایک مندر بھی شامل تھا اور ان تمام چیزوں میں سے بیشتر تقسیم سے قبل انگریزوں کے دورکی قائم شدہ تھیں ۔ قصبے کو البتہ کسی شہر ہی کی طرح بڑے قرینے اور سلیقے سے بسایا گیا تھا۔ گلیاں، محلے ، سڑکیں اور بازار سب باقاعدہ منصوبہ بندی اور ڈھنگ سے بنائے گئے تھے جس میں ہندو برادری کی نفاست پسندی اور مستقبل بینی کا یقیناً دخل رہا ہوگا جو نہ صرف تجارت پر چھائی ہوئی تھی بلکہ عام مسلمانوں کے مقابلے میں خاصی خوشحال اور تعلیم یافتہ بھی تھی۔
مسلمانوں کے حصے میں ہاریوں (کسانوں) کی حیثیت سے کھیتی باڑی و محنت مزدوری کے دوسرے کام آئے تھے اور وہ انھی میں مگن تھے ۔ نواحی گاؤں دیہات کو چھوڑ کر، جن کے لائف اسٹائل میں اب بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، قصبے میں بھی وہ زیادہ ترکچی اینٹوں،گارے اور لکڑی کے بنے ہوئے مکانات میں رہتے تھے جب کہ ہندوؤں کے گھر پختہ اینٹوں کے بنے ہوتے ،جن کی چھتیں لوہے کے گارڈر، ٹیئرز اور پھولدار چورس اینٹوں کی مدد سے تعمیرکی گئی تھیں، ان میں سے بعض گھروں کی تو بالائی منزلیں بھی تھیں جو ماڑیاں کہلاتے تھے۔
گلیاں اور سڑکیں اگرچہ سب کچی تھیں لیکن صفائی، ستھرائی اور روشنی کا معقول انتظام تھا جو سینیٹری کمیٹی کرتی تھی۔ صبح منہ اندھیرے خاکروب عورتوں کی ٹولیاں، جو گجراتی بولتیں اور گھاگھرے (جنھیں مقامی زبان میں پڑے کہتے تھے ) پہنتی تھیں، پورے قصبے کی صفائی کرکے کچرا ٹھکانے لگاتیں، ان میں سے ایک چمپا کا نام مجھے ابھی تک یاد ہے جو ہمارے گھر بھی صفائی کرنے آتی تھی، اس کا بھائی خانو جو والی بال کا بہترین کھلاڑی بھی تھا، صفائی کا کام مکمل ہوتے ہی اپنی گدھا گاڑی لے کر نکلتا جس پر تارکول کا اوپر سے کٹا ہوا ڈرم نصب ہوتا تھا جس میں وہ گھروں کے آگے بنی ہوئی ہودیوں (پختہ ٹنکیوں) میں سے گندا پانی نکال کر بھرتا اور قصبے سے باہر گرا کر خالی کر آتا۔
پینے ، کھانے پکانے اور نہانے دھونے کے لیے صاف میٹھا پانی کنوؤں سے حاصل کیا جاتا تھا، جو بہت گہرے کھدے ہوئے ہوتے اور ان کی دیواریں پختہ اینٹوں سے گول دائرے کی شکل میں چْنی ہوتی تھیں ۔ ان کنوؤں پر حفاظتی دیوار کے ساتھ دو چار چرخیاں نصب ہوتیں جن پر مضبوط لمبی رسی لپٹی ہوتی، اسی کی مدد سے ڈول بھر بھر کے پانی نکالا جاتا تھا۔ اکثر لوگ اپنی ضرورت کا پانی خود بھرتے تھے جب کہ کچھ اجرت پر پانی بھرنے والوں کی خدمات بھی حاصل کرتے تھے۔
فراہمی و نکاسی آب کے اس بندوبست کے علاوہ روشنی کے لیے سینیٹری کمیٹی نے گلیوں، محلوں اور بازاروں کے ہر چوک پر فانوس لگا رکھے تھے ، جو دراصل زمین میں گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبوں پر چاروں طرف سے شیشے کے بنے ہوئے ایک ڈیڑھ فٹ چوڑے بکس کی شکل کے ہوتے تھے جن پر اوپر چھوٹی سی چمنی بنی ہوئی ہوتی تھی اور اندر مٹی کے تیل سے جلنے والا ٹین کا چراغ دھرا ہوتا تھا۔ ایک آدمی روز شام کو انھیں روشن کرنے کی ڈیوٹی پر مامور ہوتا تھا، کاندھے پر صافہ رکھے اور ہاتھ میں مٹی کے تیل کا پیپا لٹکائے وہ ایک ایک فانوس پر جاتا، پہلے اندر باہر سے شیشے صاف کرتا، پھر چراغ میں تیل ڈال کر جیب سے ماچس کی ڈبیہ نکال کر اسے روشن کرتا اور آگے بڑھ جاتا۔
اب نہ صرف گلیاں اور سڑکیں وغیرہ سب پکی ہیں، فانوسوں کی جگہ بجلی کے کھمبوں اور بلبوں نے لے لی ہے ، نہ صرف شہر اس کی روشنی سے منور رہتا ہے ، لوگ ٹی وی اور انٹرنیٹ سمیت اس سے منسلک دیگر تمام لوازمات سے بھی ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کے باسیوں کی طرح مستفید ہوتے ہیں۔ واٹر سپلائی اور ڈرینیج کا نیا نظام رائج ہونے کے بعد کنوویں تو بند ہونے ہی تھے ، گھروں کے آگے بنی ہوئی ہودیاں بھی نہیں رہیں اور پرانے طرز کے ٹوائلٹس کی جگہ ڈبلیو سی، کموڈ، واش بیسن اور شاورز سے آراستہ فلش سسٹم والے جدید واش رومز نے لے لی ہے۔
میر بندہ علی خان کے بنگلے والے باغ کو سیراب کرنے کے لیے ٹیوب ویل لگے تو مدت ہوئی، امام بارگاہ کے وسیع و عریض کمپاؤنڈ میں لگے درختوں اور پودوں کو پانی پہنچانے کے لیے جو ہْرلہ یا نار چلا کرتا تھا اور جسے کولہو کے بیل کی طرح ایک اونٹ گول دائرے میں کھینچ کر گھماتا رہتا تھا اس کا جانے کیا ہوا ہوگا۔ خانو خاکروب مجھ سے بڑا تھا، میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو وہ کونسا والی بال کھیلتا ہوگا، بیچارہ مرکھپ گیا ہوگا یا پرانے کپڑا بازار میں واقع خاکروبوں کے کمپاؤنڈ کی اپنی کھولی میں پڑا کھانستا اور اپنی بہن چمپا کوکوستا ہوگا۔
کنویں سے ڈول بھر کے گھروں میں اجرت پر پانی پہنچانے والے شیدی پاڑے (محلے ) کے چاچا ڈاڑھوں تو خیر اب کیا ہوں گے ، ان کے پڑوسی جڑواں و ہمشکل بھائی بولو اور بچایو، یعقوب کمپاؤنڈر نیز سرائیوں کے گھروں سے ملحقہ دوسرے شیدی پاڑے کے وسو جیسے محنت کش بھی اب نہ جانے کس حال میں ہوں گے جو روز کماتے اور روز کھاتے تھے ۔ میں یکریو شیدی جیسے جلانے کی لکڑیاں چیرنے اور جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں اور گھاس شہر لاکر بیچنے والوں کو بھی نہیں بھولا جن کا ذریعہ معاش ہی یہی تھا۔
وہ خود یا ان کے بچے جو اسی پیشے سے جڑے ہوئے ہوں گے ، آج کل پہلے کی نسبت کچھ زیادہ ہی کماتے ہوں گے کیونکہ ٹنڈے میں ابھی تک گیس نہیں آئی، گھروں کے چولھے لکڑیوں ہی کی مدد سے جلتے ہوں گے ، گھاس بھی خوب بکتی ہوگی کہ وہاں کی گائے بھیینسوں، بھیڑ بکریوں، گھوڑوں گدھوں اور اونٹوں نے ابھی تک مالکوں کی طرح اپنا لائف اسٹائل نہیں بدلا اور بدستور گھاس ہی چرتے ہیں۔ میں اپنے شہر کے ان لکڑہاروں اور گھسیاروں کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ ان کی روزی روزگار میں برکت ڈالے ، ان کا رزق کشادہ کرے اور انھیں خواہ ان کے بچوں کو خوشحالی اور آسودگی نصیب کرے کہ نفسا نفسی، لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ سے مال بنانے کے اس دور میں ان جیسے قوت بازو سے حق حلال کی کما کر کھانے والوں کا دم غنیمت ہے ۔ اپنے شہر کے ان نئے یا پرانے باسیوں سے بھی، جو پڑھ لکھ کر یا تجارت و ملازمت کے ذریعے آگے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے معاشی طور پر اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کرکے اس مٹی کا قرض اتاریں جس سے ان کا خمیر اٹھا ہے۔
اب وہاں ماشاء اللہ ہائی اسکول کی سطح تک لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی تعلیم کا انتظام ہے، شہری اجتماعی کوشش سے اور اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت اس کو ڈگری کالج تک با آسانی وسعت دے سکتے ہیں، ان کی کوششوں کو بڑھاوا دینے اور متعلقہ حکام و اداروں کا میڈیا کی وساطت سے تعاون حاصل کرنے میں ان کی حتی الوسع مدد کرنے کا میں وعدہ کرتا ہوں ۔ میروں اور الیکشن کے دنوں میں ووٹ مانگنے والے برساتی مینڈکوں جیسے وڈیروں اور با اثر لوگوں سے کوئی امید رکھنا فضول ہے کیونکہ غریبوں کے لیے ترقی کی راہیں کھولنے والی تعلیم کے عام ہونے سے ان کے مفادات پرکاری ضرب پڑتی ہے۔
شہر تو یہ اب کہلاتا ہے ، تب یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتا تھا، جس کی آبادی بمشکل چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی لیکن وہاں سرکاری پرائمری اسکول، سرکاری ڈسپینسری، اینیمل ہسبنڈری (مویشیوں کے اسپتال)، ڈاک خانے ، تارگھر، پولیس اسٹیشن (تھانے )، مسافر خانے اور عبادت گاہوں جیسی بنیادی ضرورت کی تمام چیزیں موجود تھیں ۔ عبادت گاہوں میں مساجد و امام بارگاہ ہی نہیں ایک مندر بھی شامل تھا اور ان تمام چیزوں میں سے بیشتر تقسیم سے قبل انگریزوں کے دورکی قائم شدہ تھیں ۔ قصبے کو البتہ کسی شہر ہی کی طرح بڑے قرینے اور سلیقے سے بسایا گیا تھا۔ گلیاں، محلے ، سڑکیں اور بازار سب باقاعدہ منصوبہ بندی اور ڈھنگ سے بنائے گئے تھے جس میں ہندو برادری کی نفاست پسندی اور مستقبل بینی کا یقیناً دخل رہا ہوگا جو نہ صرف تجارت پر چھائی ہوئی تھی بلکہ عام مسلمانوں کے مقابلے میں خاصی خوشحال اور تعلیم یافتہ بھی تھی۔
مسلمانوں کے حصے میں ہاریوں (کسانوں) کی حیثیت سے کھیتی باڑی و محنت مزدوری کے دوسرے کام آئے تھے اور وہ انھی میں مگن تھے ۔ نواحی گاؤں دیہات کو چھوڑ کر، جن کے لائف اسٹائل میں اب بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی، قصبے میں بھی وہ زیادہ ترکچی اینٹوں،گارے اور لکڑی کے بنے ہوئے مکانات میں رہتے تھے جب کہ ہندوؤں کے گھر پختہ اینٹوں کے بنے ہوتے ،جن کی چھتیں لوہے کے گارڈر، ٹیئرز اور پھولدار چورس اینٹوں کی مدد سے تعمیرکی گئی تھیں، ان میں سے بعض گھروں کی تو بالائی منزلیں بھی تھیں جو ماڑیاں کہلاتے تھے۔
گلیاں اور سڑکیں اگرچہ سب کچی تھیں لیکن صفائی، ستھرائی اور روشنی کا معقول انتظام تھا جو سینیٹری کمیٹی کرتی تھی۔ صبح منہ اندھیرے خاکروب عورتوں کی ٹولیاں، جو گجراتی بولتیں اور گھاگھرے (جنھیں مقامی زبان میں پڑے کہتے تھے ) پہنتی تھیں، پورے قصبے کی صفائی کرکے کچرا ٹھکانے لگاتیں، ان میں سے ایک چمپا کا نام مجھے ابھی تک یاد ہے جو ہمارے گھر بھی صفائی کرنے آتی تھی، اس کا بھائی خانو جو والی بال کا بہترین کھلاڑی بھی تھا، صفائی کا کام مکمل ہوتے ہی اپنی گدھا گاڑی لے کر نکلتا جس پر تارکول کا اوپر سے کٹا ہوا ڈرم نصب ہوتا تھا جس میں وہ گھروں کے آگے بنی ہوئی ہودیوں (پختہ ٹنکیوں) میں سے گندا پانی نکال کر بھرتا اور قصبے سے باہر گرا کر خالی کر آتا۔
پینے ، کھانے پکانے اور نہانے دھونے کے لیے صاف میٹھا پانی کنوؤں سے حاصل کیا جاتا تھا، جو بہت گہرے کھدے ہوئے ہوتے اور ان کی دیواریں پختہ اینٹوں سے گول دائرے کی شکل میں چْنی ہوتی تھیں ۔ ان کنوؤں پر حفاظتی دیوار کے ساتھ دو چار چرخیاں نصب ہوتیں جن پر مضبوط لمبی رسی لپٹی ہوتی، اسی کی مدد سے ڈول بھر بھر کے پانی نکالا جاتا تھا۔ اکثر لوگ اپنی ضرورت کا پانی خود بھرتے تھے جب کہ کچھ اجرت پر پانی بھرنے والوں کی خدمات بھی حاصل کرتے تھے۔
فراہمی و نکاسی آب کے اس بندوبست کے علاوہ روشنی کے لیے سینیٹری کمیٹی نے گلیوں، محلوں اور بازاروں کے ہر چوک پر فانوس لگا رکھے تھے ، جو دراصل زمین میں گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبوں پر چاروں طرف سے شیشے کے بنے ہوئے ایک ڈیڑھ فٹ چوڑے بکس کی شکل کے ہوتے تھے جن پر اوپر چھوٹی سی چمنی بنی ہوئی ہوتی تھی اور اندر مٹی کے تیل سے جلنے والا ٹین کا چراغ دھرا ہوتا تھا۔ ایک آدمی روز شام کو انھیں روشن کرنے کی ڈیوٹی پر مامور ہوتا تھا، کاندھے پر صافہ رکھے اور ہاتھ میں مٹی کے تیل کا پیپا لٹکائے وہ ایک ایک فانوس پر جاتا، پہلے اندر باہر سے شیشے صاف کرتا، پھر چراغ میں تیل ڈال کر جیب سے ماچس کی ڈبیہ نکال کر اسے روشن کرتا اور آگے بڑھ جاتا۔
اب نہ صرف گلیاں اور سڑکیں وغیرہ سب پکی ہیں، فانوسوں کی جگہ بجلی کے کھمبوں اور بلبوں نے لے لی ہے ، نہ صرف شہر اس کی روشنی سے منور رہتا ہے ، لوگ ٹی وی اور انٹرنیٹ سمیت اس سے منسلک دیگر تمام لوازمات سے بھی ملک کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کے باسیوں کی طرح مستفید ہوتے ہیں۔ واٹر سپلائی اور ڈرینیج کا نیا نظام رائج ہونے کے بعد کنوویں تو بند ہونے ہی تھے ، گھروں کے آگے بنی ہوئی ہودیاں بھی نہیں رہیں اور پرانے طرز کے ٹوائلٹس کی جگہ ڈبلیو سی، کموڈ، واش بیسن اور شاورز سے آراستہ فلش سسٹم والے جدید واش رومز نے لے لی ہے۔
میر بندہ علی خان کے بنگلے والے باغ کو سیراب کرنے کے لیے ٹیوب ویل لگے تو مدت ہوئی، امام بارگاہ کے وسیع و عریض کمپاؤنڈ میں لگے درختوں اور پودوں کو پانی پہنچانے کے لیے جو ہْرلہ یا نار چلا کرتا تھا اور جسے کولہو کے بیل کی طرح ایک اونٹ گول دائرے میں کھینچ کر گھماتا رہتا تھا اس کا جانے کیا ہوا ہوگا۔ خانو خاکروب مجھ سے بڑا تھا، میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو وہ کونسا والی بال کھیلتا ہوگا، بیچارہ مرکھپ گیا ہوگا یا پرانے کپڑا بازار میں واقع خاکروبوں کے کمپاؤنڈ کی اپنی کھولی میں پڑا کھانستا اور اپنی بہن چمپا کوکوستا ہوگا۔
کنویں سے ڈول بھر کے گھروں میں اجرت پر پانی پہنچانے والے شیدی پاڑے (محلے ) کے چاچا ڈاڑھوں تو خیر اب کیا ہوں گے ، ان کے پڑوسی جڑواں و ہمشکل بھائی بولو اور بچایو، یعقوب کمپاؤنڈر نیز سرائیوں کے گھروں سے ملحقہ دوسرے شیدی پاڑے کے وسو جیسے محنت کش بھی اب نہ جانے کس حال میں ہوں گے جو روز کماتے اور روز کھاتے تھے ۔ میں یکریو شیدی جیسے جلانے کی لکڑیاں چیرنے اور جنگل سے کاٹی ہوئی لکڑیاں اور گھاس شہر لاکر بیچنے والوں کو بھی نہیں بھولا جن کا ذریعہ معاش ہی یہی تھا۔
وہ خود یا ان کے بچے جو اسی پیشے سے جڑے ہوئے ہوں گے ، آج کل پہلے کی نسبت کچھ زیادہ ہی کماتے ہوں گے کیونکہ ٹنڈے میں ابھی تک گیس نہیں آئی، گھروں کے چولھے لکڑیوں ہی کی مدد سے جلتے ہوں گے ، گھاس بھی خوب بکتی ہوگی کہ وہاں کی گائے بھیینسوں، بھیڑ بکریوں، گھوڑوں گدھوں اور اونٹوں نے ابھی تک مالکوں کی طرح اپنا لائف اسٹائل نہیں بدلا اور بدستور گھاس ہی چرتے ہیں۔ میں اپنے شہر کے ان لکڑہاروں اور گھسیاروں کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ ان کی روزی روزگار میں برکت ڈالے ، ان کا رزق کشادہ کرے اور انھیں خواہ ان کے بچوں کو خوشحالی اور آسودگی نصیب کرے کہ نفسا نفسی، لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ سے مال بنانے کے اس دور میں ان جیسے قوت بازو سے حق حلال کی کما کر کھانے والوں کا دم غنیمت ہے ۔ اپنے شہر کے ان نئے یا پرانے باسیوں سے بھی، جو پڑھ لکھ کر یا تجارت و ملازمت کے ذریعے آگے نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، درخواست کرتا ہوں کہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے معاشی طور پر اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کرکے اس مٹی کا قرض اتاریں جس سے ان کا خمیر اٹھا ہے۔
اب وہاں ماشاء اللہ ہائی اسکول کی سطح تک لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی تعلیم کا انتظام ہے، شہری اجتماعی کوشش سے اور اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت اس کو ڈگری کالج تک با آسانی وسعت دے سکتے ہیں، ان کی کوششوں کو بڑھاوا دینے اور متعلقہ حکام و اداروں کا میڈیا کی وساطت سے تعاون حاصل کرنے میں ان کی حتی الوسع مدد کرنے کا میں وعدہ کرتا ہوں ۔ میروں اور الیکشن کے دنوں میں ووٹ مانگنے والے برساتی مینڈکوں جیسے وڈیروں اور با اثر لوگوں سے کوئی امید رکھنا فضول ہے کیونکہ غریبوں کے لیے ترقی کی راہیں کھولنے والی تعلیم کے عام ہونے سے ان کے مفادات پرکاری ضرب پڑتی ہے۔