پاکستان سے سرمایہ دوبارہ متحدہ عرب امارات منتقل ہونا شروع
عرب امارات کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری95فیصد، ذرائع
بلند عمارتوں کی تعمیراتی منصوبوں پر پابندی سے متحدہ عرب امارات کنسٹرکشن انڈسٹری کے لیے دوبارہ پرکشش ثابت ہورہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان سے سرمائے کی دوبارہ منتقلی کا آغاز ہوگیا ہے۔
کنسٹرکشن انڈسٹری کے باخبر ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کی شرح95 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور وہاں رجسٹرڈ ہونے والی پاکستانیوں کی ریئل اسٹیٹ کمپنیوں کی تعداد بڑھ کر 608 ہوگئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں 100 پاکستانی چھوٹے و درمیانے درجے کے ڈیولپرز متحرک ہیں، یواے ای کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری پر انویسٹرز کو سالانہ 8 تا 10 فیصد منافع اور 50 فیصد ایکویٹی پر3.50 فیصد کی شرح پر فنانسنگ کی سہولت ہے۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے سابق چیئرمین محسن شیخانی نے بتایا کہ پاکستان میں یک جنبش قلم پالیسیوں میں تبدیلی، متعلقہ ذمے دار اداروں کی جانب سے انفرااسٹرکچرل مسائل حل نہ کیے جانے اور مستقبل میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں پیشگی حکمت عملی یا منصوبہ بندی کے فقدان سے کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔
محسن شیخانی نے بتایا کہ سال 2017 کے آباد بین الاقوامی ایکسپو میں متحدہ عرب امارات کی 22 کمپنیوں نے پاکستان ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے معاہدے کیے لیکن چند ماہ قبل ہی ملک کے سیاسی افق پر صورتحال خراب ہونے، پالیسیوں میں تبدیلی اور ہائی رائز پر اچانک پابندی کے اعلان نے انہیں اضطراب سے دوچار کردیا حالانکہ ملک بالخصوص کراچی میں امن وامان کی بہترین صورتحال کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے اور پاکستان کو معاشی طور پر اس سے استفادے کی ضرورت ہے لیکن غیردانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے 180 ارب ڈالر کی پاکستانی کنسٹرکشن انڈسٹری میں آتی ہوئی سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے، پاکستان میں سالانہ 12 ملین گھروں کی قلت کا سامنا ہے۔
سابق چیئرمین نے کہا کہ 60 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے جس میں صرف 18 ارب ڈالرانفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لیے مختص ہیں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تو تمام پالیسیاں وترغیبات تبدیل کر دی گئیں لیکن 180 ارب ڈالر کی قومی کنسٹرکشن انڈسٹری پر پالیسی سازوں کی کوئی توجہ نہیں حالانکہ یہ شعبہ پاکستان کے مالی خسارے کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
محسن شیخانی نے بتایا کہ فی الوقت ہائی رائز پر پابندی سے تعمیراتی شعبے پرجمود طاری ہے اور اس کی نمومیں 35 فیصدکی کمی ہوئی ہے تاہم سیمنٹ سیکٹر افزائش بڑھتی جارہی ہے، پاکستان میں لیبر کاسٹ کم ہونے، بنیادی خام مال ریتی بجری کرش کی بوریوں کے بجائے بلک میں ٹرکس وڈمپروں کے ذریعے سپلائی کے باعث تعمیراتی لاگت 22 سے 25 ڈالر ہے جبکہ بھارت میں 40 ڈالر، یواے ای میں 70 ڈالر، بنگلہ دیش میں 35 ڈالر اور افریقہ میں 60 ڈالر ہے، پاکستان میں کم تعمیراتی لاگت کے باوجود صرف یو اے ای کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کاحجم 8 ارب ڈالرہے۔
کنسٹرکشن انڈسٹری کے باخبر ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کی شرح95 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور وہاں رجسٹرڈ ہونے والی پاکستانیوں کی ریئل اسٹیٹ کمپنیوں کی تعداد بڑھ کر 608 ہوگئی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں 100 پاکستانی چھوٹے و درمیانے درجے کے ڈیولپرز متحرک ہیں، یواے ای کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری پر انویسٹرز کو سالانہ 8 تا 10 فیصد منافع اور 50 فیصد ایکویٹی پر3.50 فیصد کی شرح پر فنانسنگ کی سہولت ہے۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے سابق چیئرمین محسن شیخانی نے بتایا کہ پاکستان میں یک جنبش قلم پالیسیوں میں تبدیلی، متعلقہ ذمے دار اداروں کی جانب سے انفرااسٹرکچرل مسائل حل نہ کیے جانے اور مستقبل میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں پیشگی حکمت عملی یا منصوبہ بندی کے فقدان سے کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔
محسن شیخانی نے بتایا کہ سال 2017 کے آباد بین الاقوامی ایکسپو میں متحدہ عرب امارات کی 22 کمپنیوں نے پاکستان ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے معاہدے کیے لیکن چند ماہ قبل ہی ملک کے سیاسی افق پر صورتحال خراب ہونے، پالیسیوں میں تبدیلی اور ہائی رائز پر اچانک پابندی کے اعلان نے انہیں اضطراب سے دوچار کردیا حالانکہ ملک بالخصوص کراچی میں امن وامان کی بہترین صورتحال کنسٹرکشن انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے اور پاکستان کو معاشی طور پر اس سے استفادے کی ضرورت ہے لیکن غیردانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے 180 ارب ڈالر کی پاکستانی کنسٹرکشن انڈسٹری میں آتی ہوئی سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے، پاکستان میں سالانہ 12 ملین گھروں کی قلت کا سامنا ہے۔
سابق چیئرمین نے کہا کہ 60 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے جس میں صرف 18 ارب ڈالرانفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لیے مختص ہیں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تو تمام پالیسیاں وترغیبات تبدیل کر دی گئیں لیکن 180 ارب ڈالر کی قومی کنسٹرکشن انڈسٹری پر پالیسی سازوں کی کوئی توجہ نہیں حالانکہ یہ شعبہ پاکستان کے مالی خسارے کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
محسن شیخانی نے بتایا کہ فی الوقت ہائی رائز پر پابندی سے تعمیراتی شعبے پرجمود طاری ہے اور اس کی نمومیں 35 فیصدکی کمی ہوئی ہے تاہم سیمنٹ سیکٹر افزائش بڑھتی جارہی ہے، پاکستان میں لیبر کاسٹ کم ہونے، بنیادی خام مال ریتی بجری کرش کی بوریوں کے بجائے بلک میں ٹرکس وڈمپروں کے ذریعے سپلائی کے باعث تعمیراتی لاگت 22 سے 25 ڈالر ہے جبکہ بھارت میں 40 ڈالر، یواے ای میں 70 ڈالر، بنگلہ دیش میں 35 ڈالر اور افریقہ میں 60 ڈالر ہے، پاکستان میں کم تعمیراتی لاگت کے باوجود صرف یو اے ای کی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کاحجم 8 ارب ڈالرہے۔