بھارت سے ہرجانہ وصولی کا خواب ’’سراب‘‘ نظر آنے لگا

ماضی کے غلط فیصلوں کی خفت مٹانا آسان نہیں ہوگا۔

باہمی کرکٹ روابط نہ ہونے کے باوجود بلو شرٹس ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی میں گرین شرٹس کے ساتھ میچز کھیلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

TAXILA:
طویل صحافتی کیریئر ہونے کی وجہ سے چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ میڈیا میں اِن رہنے کے کیا طریقے ہوسکتے ہیں۔

اپنے پیش رو شہریار خان کے دور میں گرچہ وہ ایگزیکٹو کمیٹی اور پاکستان سپر لیگ کی گورننگ کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ایک طاقتور عہدیدارتھے،اس دوران کئی بار ایسا ہوا کہ آئی سی سی سمیت کوئی اہم میٹنگ ختم ہوئی تو پی سی بی کی جانب سے باضابطہ اعلان سے قبل ہی سوشل میڈیا پر ان کا ''انکشاف'' سامنے آگیا،ان میں سے بیشتر بعد ازاں غلط ثابت ہوتے رہے۔

ماضی میں بطور چیئرمین بورڈ ''بگ تھری'' کی حمایت کے بدلے میں 6 پاک بھارت سیریز اور دولت کی بوریاں بھر لے لانے کا دعویٰ کیا جو بعد میں غلط ثابت ہوا، دونوں ملکوں کے کشیدہ سیاسی تعلقات اور زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے وابستہ کی جانے والی توقعات غلط ثابت ہوئیں، نجم سیٹھی معاہدے کی خلاف ورزی پر ہرجانہ وصولی کے پلان کا اعلان کر کے ماضی میں کئے جانے والے غلط فیصلے کی خفت مٹانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب بھارتی بورڈ کا موقف ہے کہ معاہدہ حکومتی اجازت سے مشروط تھا، حکام ہی نہیں مانتے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔

پی سی بی نے آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں کیس لے جانے کے لیے تیاریاں شروع کررکھی ہیں،گزشتہ دنوں گورننگ بورڈ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے پہلے بھی کئی بار کیا جانے والا دعویٰ ایک بار ''بریکنگ نیوز'' بنا کر دہرایا کہ جنوری میں بی سی سی آئی کے خلاف کیس دائر کررہے ہیں،ساتھ ہی انہوں نے بغیر کسی ہوم ورک کے یہ اعلان بھی کردیا کہ عالمی کرکٹ میں متعارف کروائے جانے والے نئے سٹرکچر کے تحت آئی سی سی ٹیسٹ اور ون ڈے چیمپئن شپ میں اگر بھارت نے کھیلنے سے انکار کیا تو پاکستان کو پوائنٹس حاصل ہوجائیں گے۔

باہمی کرکٹ روابط نہ ہونے کے باوجود بلو شرٹس ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی میں گرین شرٹس کے ساتھ میچز کھیلنے پر مجبور ہوتے ہیں، اسی طرح ٹیسٹ اور ون ڈے چیمپئن شپ میں بھی کرنا پڑے گا،نجم سیٹھی کا یہ دعویٰ لاعلمی کا نتیجہ ہے کیونکہ آئی سی سی کی اکتوبر میں ہونے والی گزشتہ بورڈ میٹنگ میں کرکٹ کا نیا سٹرکچر متعارف کرواتے ہوئے جس پلان کو حتمی شکل دی گئی تھی، اس کے مطابق معاملہ قطعی مختلف ہے۔

اس موقع پر طے پایا تھا 2019میں شروع ہونے والی ٹیسٹ لیگ کے 2سال میں ہر ٹیم 6حریفوں کے خلاف سیریز کھیلے گی جن میں سے 3ہوم اور اتنی ہی اوے ہوں گی،ہر سیریز کم از کم 2اور زیادہ سے زیادہ 5ٹیسٹ میچز پر مشتمل ہوگی،پوائنٹس سسٹم کے تحت لیگ کے اختتام پر سرفہرست ٹیموں کے مابین فائنل کھیلا جائے گا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارتی ٹیم پاکستان سے گریز کرتے ہوئے دیگر 6مختلف ٹیموں کے ساتھ میچز کھیل سکتی ہے۔

اس فیصلے میں کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ ہر ٹیم دیگر آٹھوں سے لازمی طور پر سیریز کھیلے گی، اسی طرح آئی سی سی ون ڈے چیمپئن شپ میں 13ٹیموں کے لیگ میچز میں بھی بھارتی ٹیم کھیلنے کی پابند نہیں ہوگی، قوی امکان ہے کہ آئی سی سی ون ڈے یا ٹیسٹ چیمپئن شپ میں میچز سے انکار کے باوجود بھارت کو پوائنٹس نہیں گنوانا پڑیں گے، یاد رہے کہ باہمی سیریز کے معاملے میں حکومتی رکاوٹوں پر آئی سی سی بھی میچز کھیلنے پر زور نہیں دیتی، باہمی میچز شیڈول کرنا دونوں ٹیموں کے کرکٹ بورڈز کی صوابدید ہے۔

بی سی سی آئی پہلے ہی اپنے ڈراز اس طرح کے بنانے کے لیے کوشاں ہے کہ پاکستان کے ساتھ کوئی میچ کھیلنا ہی نہ پڑے، فیوچر ٹور پروگرام کے حوالے سے ورکشاپ 7اور 8دسمبر کو سنگاپور میں ہوگی،''بگ تھری'' ختم ہونے کے باوجود بھارت،آسٹریلیا اور انگلینڈ کی عالمی کرکٹ پر اجاری داری برقرار ہے، ایف ٹی پی میں بھی یہ بڑی ٹیموں کے بورڈز مستقبل میں سیریز کے حوالے سے اپنی مرضی کے فیصلے کرتے ہوئے تجوریاں بھرنے کی تیاری کرلیں گے۔

بھارتی ٹیم کے پوائنٹس سے محروم ہوجانے کا امکان نہیں،اگر ایسا ہو بھی جائے تو پاکستان کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا، بھارتی ٹیم ایک عرصہ سے گرین شرٹس کے ساتھ باہمی سیریز نہ کھیلنے کے باوجود رینکنگ اور ریونیو کے لحاظ سے مستحکم ہے،بہتر یہی ہوگا کہ پی سی بی بھارتی بورڈ کے پیچھے توانائی ضائع کرنے کے بجائے فیوچر ٹور پروگرام میں بہتر حصہ وصول کرنے کے لیے اچھا ہوم ورک کرے،گزشتہ کچھ عرصہ میں پاکستان ٹیم کو ٹیسٹ میچز بہت کم ملتے رہے ہیں،اس حوالے سے کام کیا جائے تو بہتر ہوگا۔

دوسری جانب جونیئرز کرکٹ کا مستقبل خیال کئے جاتے ہیں،پاکستان کو سرفراز احمد، بابر اعظم سمیت کئی نامور کرکٹرز اسی کھیپ سے ملے ہیں لیکن پی ایس ایل پر بھرپور توجہ دینے والا پی سی بی نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے اور نکھارنے میں یکسر ناکام رہا ہے، پہلے من مانے فیصلے کئے گئے، کوالالمپور میں کھیلے جانے والے ایشیا کپ میںافغانستان کے خلاف بدترین کارکردگی کے بعد اب قومی انڈر19ٹیم میں اچانک اکھاڑ پچھاڑ کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، جونیئر ورلڈکپ کے لیے ٹیم کے انتخاب سے پہلے 3 ٹرائل میچز کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،اس مقصد کے لیے پی سی بی کی جانب سے 35 کرکٹرز کو بلایا گیا ہے، آئندہ سال 13جنوری سے 3دسمبر تک نیوزی لینڈ میں شیڈول جونیئر ورلڈکپ میں کنڈیشنز بھی مشکل ہوں گی۔


بیشتر ٹیموں نے اپنے سکواڈز کو ایک عرصہ قبل حتمی شکل دے دی تھی جبکہ پاکستان ٹیم کی تشکیل نو کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے،حیرت کی بات یہ ہے اقرباپروری کی بنیاد پر منتخب کئے جانے والے آفیشلز بھی اپنی اپنی ہانک رہے ہیں۔ کوچ منصور راناکا کہنا ہے کہ کھلاڑی فائنل کا دباؤ برداشت نہیں کر پائے۔

منیجر ندیم خان نے سلیکٹرز پر ذمہ داری ڈالتے ہوئے کہا کہ سکواڈ میں 5اوپنرز شامل کئے گئے تھے،جونیئر سلیکشن کمیٹی کے سربراہ باسط علی کا جواب تھا کہ نام گنوا دیں، استعفیٰ دے دوں گا، معاملات میرٹ کے بجائے ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر چلائیں تو ٹیمیں نہیں کھچڑی بنتی ہے، یہی پاکستان جونیئر کرکٹ کے ساتھ کرتے ہوئے مستقبل کی امیدوں پر پانی پھیرا جارہا ہے۔

دریں اثناء کئی بار ملتوی ہونے کے بعد راولپنڈی میں کروایا جانے والے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ شائقین کی توجہ سے محروم رہا اور خالی سٹینڈز شائقین کا منہ چڑھاتے رہے، سٹار کرکٹرز کی بی پی ایل کے لیے رخصتی نے رن مزید پھیکا کر دیا، ڈومیسٹک کرکٹ کے ہیرو کامران اکمل نے لیگ مرحلے کے آخری روز ہونے والے تنازع نے بھی کئے سوال چھوڑ دیئے، میچ میں ٹی وی پر یہی دکھایا جاتا رہا کہ فیصل آباد سے میچ میں اگر فاٹا نے ہدف 16.3 اوورز میں عبور کریا تو سیمی فائنل میں جگہ مل جائے گی، ایسا نہ ہونے پر کمنٹیٹرز نے کراچی کی فائنل فور میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

حیران کن طور پر انتہائی تجربہ کار سپنر سعید اجمل کی اگلی گیند پر محمد عرفان نے وننگ چھکا لگایا تو پھر اعلان ہوا کہ فاٹا کی ٹیم کا رن ریٹ کراچی سے بہتر ہو گیا، کرکٹ حلقوں میں میچ فکس کئے جانے کے الزامات سامنے آنے لگے، کراچی کے آفیشلزمعاملہ منیجر ڈومیسٹک کرکٹ ثاقب عرفان سے رابطہ کیا اور ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید،چیئرمین بورڈ کے مشیر شکیل شیخ کے علم میں لانے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔

براڈکاسٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں جو میچ ریفری نے بتایا اسی کو نشر کیا،دنیا بھر میں جگ ہنسائی کروانے والے اس میچ کی مکمل تحقیقات کروانے کی ضرورت ہے، آج کے جدید دور میں رن ریٹ کا حساب رکھنے کے لیے موبائل میں ہی کیلکولیٹر موجود ہوتا ہے،پھر اتنی بڑی غلطی کیوں ہوئی،اس کا جواب ملنا چاہیے۔

حال ہی میں پی سی بی نے ایک اور معاملے کو پہلے نظر انداز کیا، پھر جلدی بازی میں فیصلہ کرتے ہوئے مزید الجھن پیدا کردی،کیریئر میں تیسری بار پابندی کا شکار ہونے والے محمد حفیظ کو انگلینڈ کی لفبرا یونیورسٹی میں ٹیسٹ کے دوران کنسلٹنٹ کارل کرو کی معاونت حاصل رہی لیکن کلیئرنس کے لیے اصلاح کے عمل میں پی سی بی کی کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی تھی، میڈیا میں یہ خبریں گردش میں رہیں کہ بورڈ نے آل راؤنڈر کے بولنگ ایکشن میں بہتری کیلیے ٹرینر کا انتظام نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔

ان رپورٹس پر پی سی بی نے پریس ریلیز جاری کردی کہ محمد حفیظ کے بولنگ ایکشن کی اصلاح کے عمل میں بھرپور سپورٹ کر رہا ہے، اس مقصد کے لیے 4 رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس میں احسن رضا، علی ضیا، سلیم جعفر اور سجاد اکبر شامل ہیں، کمیٹی محمد حفیظ کے بولنگ ایکشن کو آئی سی سی قوانین کے مطابق بنانے کے لیے ہر ممکن ٹریننگ اور معاونت فراہم کرے گی، آل راؤنڈر کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ایکشن کی اصلاح کے لیے کام کریں گے۔

ہر 10روز بعد نجی یونیورسٹی میں بائیو میکنک ٹیسٹ ہوگا،رپورٹس کی روشنی میں ان کو آئی سی سی کی منظور شدہ لیب میں ریویو کے لیے بھجوایا جائے گا،محمد حفیظ کو قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے بعد نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ایکشن کی درستگی کے لیے کام کا آغاز کرنا ہے لیکن کمیٹی کا کوئی ایک رکن بھی براہ راست بائیومکینک کی تکنیکی مہارت نہیں رکھتا،احسن رضا 21میچز پر مشتمل فرسٹ کلاس کیریئر میں وکٹ کیپر بیٹسمین رہے ہیں، انٹرنیشنل امپائر ہونے کے ناطے بولنگ ایکشن میں خامیوں کی نشاندہی تو شاید کر سکیں لیکن درستگی کے لیے رہنمائی نہیں کرپائیں گے۔

سینئر جنرل منیجر اکیڈمیز علی ضیاء صرف فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے، اس دوران میڈیم پیسر اور لیگ سپنر کے طور پر ایکشن میں نظر آئے، کراچی کے کوچ سلیم جعفر 14ٹیسٹ اور 39ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں میڈیم پیس بولنگ کرتے رہے ہیں۔ لاہور کے کوچ صرف 2ایک روزہ میچز کھیلے اور آف بریک بولر تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی بولنگ ایکشن کا ماہر نہیں کہا جاسکتا۔

 
Load Next Story