عمر بھر ڈاک بابو ہونے کی قیمت ادا کی
اردو کو مقدس گائے بنانے کے خلاف ہوں، بلوچستان کے دبستان اردو کو...
حساسیت، حقیقت کا احساس، مستقبل کا ادراک، اِس پر مستزاد، تخلیقی جنون، تخیل کی جست، نگارشات میں مزاحمت کا در آنا تو یقینی تھا کہ ماحول پر کشت وخوں، جنگ و جدال کا آسیب چھایا تھا، لیکن ایک سچے ادیب کے مانند توازن کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا!
انسان کی سربلندی کے خواہاں اِس تخلیق کار کے ہاں اپنی زمین کا نوحہ ملتا ہے۔ فنّی گرفت کا تو ذکر ہی کیا، ڈاکٹر انورسجاد اُن کا شمار عہدِ حاضر کے تین بڑے افسانہ نگاروں میں کرتے ہیں۔ نسیم درانی نے اُنھیں بلوچستان کا پہلا اور آخری افسانہ نگار قرار دیا۔ احمد ہمیش نے دلیر افسانہ نگار کے روپ میں دیکھا۔ گوپی چند نارنگ اور نندکشور وکرم کی سند بھی موجود ہے، اور تو اور قرۃ العین حیدر نے بھی اُن کے فن کی تعریف کی، ایسے میں یہ امر باعث افسوس ہے کہ اردو کے قارئین اُن کے فن کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کی حقیقی زندگی بیان کرنے والے آغا گل تخلیق کاروں کے ہجوم میں علیحدہ نظر آتے ہیں۔ اُن کے تین ناول، نو افسانوی مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں۔ دیگر اصناف ادب میں بھی طبع آزمائی کی۔ پیشہ ورانہ سفر میں وہ محکمۂ ڈاک، بلوچستان میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔
اُنھیں شکایت ہے کہ اردو زبان و ادب پر اکثریتی صوبہ قابض ہے، وفاداری کے پروانے بٹتے ہیں، انعامات کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔ فروغ ادب کے لیے قائم اداروں کے کردار سے بھی نالاں ہیں۔ اردو زبان کو مقدس گائے بنانے کے سخت خلاف ہیں۔ یقین رکھتے ہیں کہ زبان کو سیاست سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ اِس ضمن میں سنسکرت کی مثال دیتے ہیں، جسے دیوتائوں کی زبان قرار دے کر مذہبی کتابوں تک محدود کر دیا گیا۔ اُن کے مطابق قائد اعظم کی مادری زبان گجراتی تھی، لیکن سیاسی نعرے کے طور پر اُردو کو قائداعظم کی زبان قرار دے دیا گیا، جس کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔
آغا گل نے 19 نومبر 1951 کو، بعد اذان فجر بلوچستان کے ایک دور افتادہ قصبے، ہرنائی میں معروف ماہر تعلیم، محمد اکبر خان کے گھر آنکھ کھولی، جو ندی کنارے آباد اُس پُرسکون اور سرسبز علاقے میں بہ طور اسکول ہیڈ ماسٹر خدمات انجام دے رہے تھے۔ 39ء میں محکمۂ تعلیم، بلوچستان میں ملازمت اختیار کرنے والے محمد اکبر خان نے متعدد کتابیں تصنیف کیں، مؤقر اردو اخبار میں حالات حاضرہ پر تواتر سے کالم لکھے۔ اُن کے شاگرد اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں طور پر سامنے آئے، جیسے جسٹس خدا بخش مری، بہرام خان مری، جنرل شیر محمد مری (شیروف)، ارباب محمد نواز۔ اجداد کا تعلق لودھی قبیلے کی ذیلی شاخ، سوری سے ہے۔ پیشۂ آبا سپہ گری ہے،
اب بھی عسکری خدمات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دادا، عبدالواحد خان برٹش انڈین آرمی میں رہے۔ چچا، اسد اﷲ خان اور ماموں، کرنل زید آغا پاکستان آرمی میں تھے۔ آغا گل کے مطابق والد انتہائی شفیق انسان تھے۔ ''وہ پیار سے مجھے 'عمّو' کہہ کر پکارتے۔ مزاج میں یوں تو شفقت کا عنصر تھا، مگر محکمے میں سخت گیر افسر تھے۔ ون یونٹ اور جعلی ڈومیسائل بنوا کر ملازمتوں پر قابض ہوجانے والوں کے سخت خلاف تھے، حق و صداقت کے لیے عمر بھر لڑتے رہے۔'' اصول پسندی نے والد کے لیے مسائل بھی پیدا کیے۔ حق گوئی نے محکمۂ تعلیم کے ایک ڈائریکٹر کو اُن کے خلاف کر دیا، اُنھیں ملازمت سے برخاست کرنے کی مہم چلا گئی۔ آغا گل کے بہ قول،''مکافاتِ عمل دیکھیے کہ والد تو محفوظ رہے، البتہ متعلقہ افسر نے منہ کی کھائی، معذرت کرنے گھر آیا۔''
پانچ بھائی بہنوں میں وہ چوتھے ہیں۔ ماضی کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں کہ گھر میں سامانِ آرایش کے بجائے کتابیں ہی رہا کرتیں۔ نہ تو بجلی تھی، نہ ہی پانی۔ ٹیلی ویژن کجا، ریڈیو تک نہیں ہوا کرتا تھا۔ سردیوں کی راتوں میں جب بادل برس پڑتے، اور کوئٹہ پر ''گوریچ'' (سرد برفانی ہوا) کی حکم رانی ہوتی، وہ مطالعے میں غرق رہتے۔ ''میرے دور کے طلبا کتابیں پڑھا کرتے، بلکہ یوں کہیے کہ مطالعے پر مجبور تھے۔ 'سیپ' اور 'ادب لطیف' جیسے جراید سے بچپن کا ناتا ہے۔ ہمارے زمانۂ طالب علمی تک کتابوں کی توقیر تھی، مگر اب اَن پڑھ لوگ اسمبلی میں آ بیٹھے ہیں، جو پڑھے لکھوں کے لیے قوانین بناتے ہیں۔'' اُس عرصے میں تمام اہم شعرا اور ادیبوں کا مطالعہ کیا۔
اکرم الٰہ آبادی اور ابن صفی کا تخلیق کردہ جاسوسی ادب بھی پڑھا۔ رومانوی ناول بھی نہیں چھوڑے۔ یہ سرگرمی لہو گرم رکھنے کا بہانہ تھی کہ آس پاس کی زندگی بہت ہی نامہربان تھی۔ اُس ''رومانس'' کا وہ خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جو فضا پر طاری تھا۔ ''ہمارے بچپن اور لڑکپن کا دور Age of Romance تھا۔ انڈین فلمی ہیروئنز دیومالائی حیثیت کی حامل تھیں۔ رومانوی گیت، عشق و محبت سے بھرپور، بلکہ شرابور فلموں کے سہارے مجھ جیسے لوگ زندہ رہے۔'' اُس کیفیت کا سبب بھی بیان کرتے ہیں۔ ''دراصل دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی کساد بازاری،
بے روزگاری اور پھر تقسیم اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت، نقل مکانی، غربت اور فوجی حکومتوں کے مظالم نے عوام کو دیوانہ بنادیا تھا۔ نتیجتاً مرد و زن سب ہی رومانس کی Sanctuary (پناہ گاہ) میں چلے آئے، ورنہ مارے جاتے یا پھر شدّت غم کے ہاتھوں اجتماعی خودکشی کرلیتے۔'' ایک خاص نوع کی حس مزاح کا بھی ذکر کرتے ہیں، جو اُس زمانے میں معاشرے پر چھائی ہوئی تھی، جس نے، اُن کے بہ قول افغانستان میں مداخلت کے باعث دم توڑ دیا۔
کم سنی میں شرارتوں سے دُور ہی رہے۔ لکھنے پڑھنے سے وقت ملتا، تو ایتھلیٹکس کی جانب متوجہ ہوتے۔ اُن کی کتاب زندگی کے اوراق پلٹے ہوئے ایک ایسے مینڈک سے بھی ملاقات ہوتی ہے، جس سے اُنھیں محبت ہوگئی تھی۔ ''سیوی (سبی) میں ہمارے گھر کے قریب تحصیل دفتر میں ایک تالاب تھا، جس میں کئی مینڈک تھے۔ اُن میں سے ایک مجھے بہت ہی پیارا لگتا تھا۔ ہماری دوستی ہوگئی، اور کانوں تک پھیلا دہانہ میرے لیے حسن کی علامت بن گیا!''
گنتی قابل طلبا میں ہوتی تھی، پانچویں سے آٹھویں جماعت تک وظیفہ بھی پایا۔ سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے اسلامیہ ہائی اسکول، کوئٹہ سے 65ء میں میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج سریاب روڈ کا رخ کیا، جہاں سے 69ء میں گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ بلوچستان یونیورسٹی سے ارد وادب میں ماسٹرز کیا۔ بعد میں انگریزی ادب، سیاسیات میں بھی ایم اے کی اسناد حاصل کیں، ایل ایل بی بھی کیا۔
زمانۂ طالب علمی میں کوئٹہ کی کئی علمی، ادبی و سیاسی شخصیات سے روابط رہے۔ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطاء اﷲ مینگل، میر گل خان نصیر، خان عبدالصمد خان اچکزئی، نور محمد پروانہ، محمد حسین عنقا، صادق کاسی کی محافل میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آغا صادق، ماہر افغانی، رفیق راز جیسے قادر الکلام شعرا سے تعلق رہا۔ ''اُن دنوں کوئٹہ ایک 'ایمرجنگ' شہر تھا۔ اب بہت دنوں سے تپ دق کا مریض بن کر بستر سے جالگا ہے۔
خون تھوکتا ہے۔ شاید اگلے چند برسوں میں دم توڑ دے۔'' بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن بھی رہے۔ ''بی ایس او کا چیئرمین، خیر جان بلوچ میرا دوست اور کلاس فیلو تھا۔ بعد ازاں وہ پہاڑوں میں لڑتا رہا، سپریم کمانڈر کہلایا، تاہم زندہ بچ کر لوٹ آیا۔ اُس زمانے میں نان بلوچ بھی بی ایس او کا ممبر بن سکتا تھا۔ بشرطے کہ ذہنی ہم آہنگی اور رجحان ہو۔''
آغا گل کے بہ قول، والد محب وطن اور سچّے پاکستانی تھے، بڑا بیٹا (بریگیڈیئر آغا احمد گل) ملک کے دفاع کے لیے فوج میں بھجوایا، اور نظریاتی دفاع کے لیے اُنھیں محکمۂ تعلیم کے حوالے کر دیا۔ 72ء میں وہ 495 روپے ماہ وار پر، بہ طور لیکچرار گورنمنٹ کالج، مستونگ کا حصہ بن گئے۔ بہ ذریعہ بس مستونگ آنے جانے اور چائے وغیرہ پر 250 روپے خرچ ہوجاتے۔ گویا ڈھائی سو روپے ماہانہ میں علم پھیلاتے رہے۔ ''ہماری جھولی میں کشکول کے مانند لفظوں کے کھوٹے سکّے ڈال دیے جاتے کہ یہ تو بادشاہی پیشہ ہے، علم پھیلانا تو خدا کے برگزیدہ بندوں کا کام ہے، مگر اِن لفظوں سے نہ تو پیروں کے لیے بوٹ خریدا جاسکتا،
نہ ہی تن ڈھانپنے کے لیے گرم لباس!'' 79ء تک مختلف کالجز میں ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ بلوچستان لیکچرز ایسوسی ایشن (BLA) کے نائب صدر بھی رہے۔ ''ہم نے محسوس کیا کہ محکمۂ تعلیم میں ایک مخصوص طبقہ براجمان ہے، بیس بیس برس تک اساتذہ ایک ہی کالج میں رہتے ہوئے فائدے اٹھاتے ہیں، افسران اعلیٰ کے فیصلوں پر سرہلاتے ہیں، جس پر ہم نے BLA قائم کی۔ ٹرانسفر پالیسی اور ترقی کا S.O.P بنوایا۔''
نہ تو وہ نصاب سے مطمئن تھے، نہ ہی نظام تعلیم سے، سو سات برس محکمۂ تعلیم میں ''ضایع'' کرنے کے بعد والد کے قدموں میں جاگرے کہ ''میں باز آیا تعلیم پھیلانے سے، مجھے محاذ بدلنے یا باالفاظ دیگر پسپا ہونے کی اجازت دی جائے!'' والد ہفتوں گرجتے برستے رہے، لیکن بالآخر اجازت مل ہی گئی۔ کہتے ہیں،''اب جو امتحان دیا سی ایس ایس کا، تو پولیس اور دیگر اچھے محکمے جعلی ڈومیسائل والے لے گئے۔ جعلی ڈومیسائل وہ لعنت زدہ مخلوق ہے، جو بلوچستان کے تمام وسائل نچوڑ لیتی ہے۔ خیر، بزرگوں نے فرمایا ہے:Beggars can't be choosers لہٰذا محکمۂ ڈاک ملا، تو قبول کرتے ہی بن پائی۔''
محکمۂ ڈاک کی بابت کہتے ہیں کہ معاشرہ ایسے محکموں کو قبول نہیں کرتا۔ ''میں نے عمر بھر ڈاک بابو ہونے کی قیمت ادا کی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (B-21) کے عہدے تک جا پہنچا، مگر نہ تو بیوروکریسی نے قبول کیا، نہ ہی سماج نے توقیر دی۔ سول سروس کے ہم شودر رہے۔'' جس زمانے میں گریڈ 18 میں تھے، اُنھیں ڈائریکٹر نئی روشنی اسکولز، بلوچستان میں گریڈ 19 میں تعیناتی کے احکامات ملے، مگر شرط یہ تھی کہ صوبائی وزیر تعلیم کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اُن کے مطابق وہ وزارت ایک انگوٹھا چھاپ خاتون کے پاس تھی، سو گریڈ 19 چھوڑا، اور بدستور گریڈ 18 میں کام کرتے رہے۔
اُن کے نزدیک ادیب کا کام سمت متعین کرنا ہے، اور تخلیق ادب ایک گھر پھونک تماشا ہے۔ آج کل ایک ناول پر کام کررہے ہیں۔ ''ناول خون نچوڑ لیتا ہے، صبح و شام کرداروں کے ساتھ رہنا دشوار مرحلہ ہے۔ میرے دوست، عرفان احمد خان اور محمد الیاس جانے کیسے ناول لکھ لیتے ہیں!''
آغا گل اردو کی ''کمرشل ویلیو'' بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ دنیا کی چھٹی یا ساتویں بڑی زبان ہے، دنیا کے کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِسے خودرو انداز میں پلنے بڑھنے دیا جائے۔ ''انگریزی زبان میں ہر سال تقریباً 35 ہزار الفاظ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اُردو بھی نئے الفاظ قبول کرتی ہے، اِسے شدھ یا خالص بنانے کی کوشش میں محدود نہ کیا جائے۔'' بلوچستان کے دبستان اردو کو تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ ''بلوچستان میں اپنے انداز کی اُردو مروج اور مقبول ہے، اِس کا اظہاریہ بھی واضح اور دبنگ ہے، اِسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔'' اپنے ناول ''بابو'' میں اُنھوں نے کوئٹہ میں بولی جانے والی اردو کو بڑی مہارت سے برتا۔
علم دوست آغا گل کلاشنکوف تھامنے کے تجربے سے بھی گزرے، جس نے طاقت کے عجب احساس سے بھر دیا، درختوں کو چھید ڈالا، پتھر توڑ ڈالے۔ کلاشنکوف کی محبت میں اِس حد تک گرفتار ہوگئے تھے کہ بستر میں، اپنے پہلو میں اُسے جگہ دی، اُن کی رفیقۂ حیات کلاشنکوف کو سوتن کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔
والد کی جدائی زیست کا سب سے کرب ناک لمحہ تھا۔ ''جب میں نے اُنھیں ساکت پایا، تو مجھ پر ایک قیامت گزر گئی۔'' اِس سانحے کے ایک ماہ بعد، انتہائی دُکھ کے عالم میں مرحوم والد کے نام ایک خط لکھا، تاہم اُسے پوسٹ نہیں کر پائے۔ ''جانے کس ڈسٹرکٹ میل آفس (DMO) سے ایسے خط بھجوائے جاسکتے ہیں!''
وہ جعلی ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومتوں کو ملک کا بنیادی مسئلہ تصور کرتے ہیں، جن کے توسط سے جعلی افراد سامنے آتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ موروثی سیاست پر سوال اٹھاتے ہیں، اور اِسے جمہوری عمل کے منافی قرار دیتے ہیں۔
شاعری سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ اُردو اور انگریزی کے علاوہ بلوچی، براہوی اور پشتو کے کئی شعرا پسند ہیں۔ کئی فکشن نگاروں نے متاثر کیا، تاہم گوگول، ٹالسٹائی، ہیرالڈ لیمب، چارلس ڈکنز، تھامس ہارڈی، سرت چندر چٹرجی، قرۃ العین حیدر، محمد الیاس، عرفان احمد خان اور دردانہ نوشین زیادہ پسند ہیں۔ بچپن ہی سے کائو بوائے فلمیں دل چسپی کا محور ہیں۔ جان وین پسندیدہ اداکار ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں لاشعوری طور پر جان وین بننے کی کوشش کرتے تھے۔ ''اب بھی اگر فارمل ڈریس میںنہ ہوں، تو جون جولائی میں زپ والے لمبے بوٹ پہنتا ہوں!'' عامر خان اور رانی مکھرجی کو بھی سراہتے ہیں۔ فلموں میں ''لارڈ آف دی رنگز'' اور ''ٹرائے'' پسند ہیں۔
کھانے میں تنور کی کڑک روٹی بھاتی ہے۔ لباس میں سوٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔
والدین کی پسند سے شادی کی۔ منگنی کی کہانی خاصی دل چسپ ہے۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ والد کے بلوانے پر دوستوں کی محفل سے اٹھ کر گھر پہنچے، جہاں چائے پر مدعو میاں بیوی نے آغا گل کو نظروں میں تولا، نگاہوں میں مشورہ ہوا، پھر خاتون نے کچھ رقم اُنھیں تھما دی۔ حیرت کے زیر اثر آغا گل نے اُن کے ساتھ چائے پی، اور اجازت چاہی۔ رات گئے گھر لوٹے، تو علم ہوا کہ منگنی ہوگئی ہے۔ شادی 1975 میں ہوئی، خدا نے تین بیٹیوں ظاہرہ گل، عنبریں گل اور نیلمبر گل سے نوازا۔ بیٹا، آغا محمد طاہر گل آرمی ایوی ایشن میں میجر ہے۔ بچوں میں بھی شوق مطالعہ منتقل ہوا۔
انسان کی سربلندی کے خواہاں اِس تخلیق کار کے ہاں اپنی زمین کا نوحہ ملتا ہے۔ فنّی گرفت کا تو ذکر ہی کیا، ڈاکٹر انورسجاد اُن کا شمار عہدِ حاضر کے تین بڑے افسانہ نگاروں میں کرتے ہیں۔ نسیم درانی نے اُنھیں بلوچستان کا پہلا اور آخری افسانہ نگار قرار دیا۔ احمد ہمیش نے دلیر افسانہ نگار کے روپ میں دیکھا۔ گوپی چند نارنگ اور نندکشور وکرم کی سند بھی موجود ہے، اور تو اور قرۃ العین حیدر نے بھی اُن کے فن کی تعریف کی، ایسے میں یہ امر باعث افسوس ہے کہ اردو کے قارئین اُن کے فن کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کی حقیقی زندگی بیان کرنے والے آغا گل تخلیق کاروں کے ہجوم میں علیحدہ نظر آتے ہیں۔ اُن کے تین ناول، نو افسانوی مجموعے منظرعام پر آچکے ہیں۔ دیگر اصناف ادب میں بھی طبع آزمائی کی۔ پیشہ ورانہ سفر میں وہ محکمۂ ڈاک، بلوچستان میں اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔
اُنھیں شکایت ہے کہ اردو زبان و ادب پر اکثریتی صوبہ قابض ہے، وفاداری کے پروانے بٹتے ہیں، انعامات کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔ فروغ ادب کے لیے قائم اداروں کے کردار سے بھی نالاں ہیں۔ اردو زبان کو مقدس گائے بنانے کے سخت خلاف ہیں۔ یقین رکھتے ہیں کہ زبان کو سیاست سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ اِس ضمن میں سنسکرت کی مثال دیتے ہیں، جسے دیوتائوں کی زبان قرار دے کر مذہبی کتابوں تک محدود کر دیا گیا۔ اُن کے مطابق قائد اعظم کی مادری زبان گجراتی تھی، لیکن سیاسی نعرے کے طور پر اُردو کو قائداعظم کی زبان قرار دے دیا گیا، جس کے منفی نتائج برآمد ہوئے۔
آغا گل نے 19 نومبر 1951 کو، بعد اذان فجر بلوچستان کے ایک دور افتادہ قصبے، ہرنائی میں معروف ماہر تعلیم، محمد اکبر خان کے گھر آنکھ کھولی، جو ندی کنارے آباد اُس پُرسکون اور سرسبز علاقے میں بہ طور اسکول ہیڈ ماسٹر خدمات انجام دے رہے تھے۔ 39ء میں محکمۂ تعلیم، بلوچستان میں ملازمت اختیار کرنے والے محمد اکبر خان نے متعدد کتابیں تصنیف کیں، مؤقر اردو اخبار میں حالات حاضرہ پر تواتر سے کالم لکھے۔ اُن کے شاگرد اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں طور پر سامنے آئے، جیسے جسٹس خدا بخش مری، بہرام خان مری، جنرل شیر محمد مری (شیروف)، ارباب محمد نواز۔ اجداد کا تعلق لودھی قبیلے کی ذیلی شاخ، سوری سے ہے۔ پیشۂ آبا سپہ گری ہے،
اب بھی عسکری خدمات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دادا، عبدالواحد خان برٹش انڈین آرمی میں رہے۔ چچا، اسد اﷲ خان اور ماموں، کرنل زید آغا پاکستان آرمی میں تھے۔ آغا گل کے مطابق والد انتہائی شفیق انسان تھے۔ ''وہ پیار سے مجھے 'عمّو' کہہ کر پکارتے۔ مزاج میں یوں تو شفقت کا عنصر تھا، مگر محکمے میں سخت گیر افسر تھے۔ ون یونٹ اور جعلی ڈومیسائل بنوا کر ملازمتوں پر قابض ہوجانے والوں کے سخت خلاف تھے، حق و صداقت کے لیے عمر بھر لڑتے رہے۔'' اصول پسندی نے والد کے لیے مسائل بھی پیدا کیے۔ حق گوئی نے محکمۂ تعلیم کے ایک ڈائریکٹر کو اُن کے خلاف کر دیا، اُنھیں ملازمت سے برخاست کرنے کی مہم چلا گئی۔ آغا گل کے بہ قول،''مکافاتِ عمل دیکھیے کہ والد تو محفوظ رہے، البتہ متعلقہ افسر نے منہ کی کھائی، معذرت کرنے گھر آیا۔''
پانچ بھائی بہنوں میں وہ چوتھے ہیں۔ ماضی کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں کہ گھر میں سامانِ آرایش کے بجائے کتابیں ہی رہا کرتیں۔ نہ تو بجلی تھی، نہ ہی پانی۔ ٹیلی ویژن کجا، ریڈیو تک نہیں ہوا کرتا تھا۔ سردیوں کی راتوں میں جب بادل برس پڑتے، اور کوئٹہ پر ''گوریچ'' (سرد برفانی ہوا) کی حکم رانی ہوتی، وہ مطالعے میں غرق رہتے۔ ''میرے دور کے طلبا کتابیں پڑھا کرتے، بلکہ یوں کہیے کہ مطالعے پر مجبور تھے۔ 'سیپ' اور 'ادب لطیف' جیسے جراید سے بچپن کا ناتا ہے۔ ہمارے زمانۂ طالب علمی تک کتابوں کی توقیر تھی، مگر اب اَن پڑھ لوگ اسمبلی میں آ بیٹھے ہیں، جو پڑھے لکھوں کے لیے قوانین بناتے ہیں۔'' اُس عرصے میں تمام اہم شعرا اور ادیبوں کا مطالعہ کیا۔
اکرم الٰہ آبادی اور ابن صفی کا تخلیق کردہ جاسوسی ادب بھی پڑھا۔ رومانوی ناول بھی نہیں چھوڑے۔ یہ سرگرمی لہو گرم رکھنے کا بہانہ تھی کہ آس پاس کی زندگی بہت ہی نامہربان تھی۔ اُس ''رومانس'' کا وہ خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جو فضا پر طاری تھا۔ ''ہمارے بچپن اور لڑکپن کا دور Age of Romance تھا۔ انڈین فلمی ہیروئنز دیومالائی حیثیت کی حامل تھیں۔ رومانوی گیت، عشق و محبت سے بھرپور، بلکہ شرابور فلموں کے سہارے مجھ جیسے لوگ زندہ رہے۔'' اُس کیفیت کا سبب بھی بیان کرتے ہیں۔ ''دراصل دوسری جنگِ عظیم کے بعد کی کساد بازاری،
بے روزگاری اور پھر تقسیم اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت، نقل مکانی، غربت اور فوجی حکومتوں کے مظالم نے عوام کو دیوانہ بنادیا تھا۔ نتیجتاً مرد و زن سب ہی رومانس کی Sanctuary (پناہ گاہ) میں چلے آئے، ورنہ مارے جاتے یا پھر شدّت غم کے ہاتھوں اجتماعی خودکشی کرلیتے۔'' ایک خاص نوع کی حس مزاح کا بھی ذکر کرتے ہیں، جو اُس زمانے میں معاشرے پر چھائی ہوئی تھی، جس نے، اُن کے بہ قول افغانستان میں مداخلت کے باعث دم توڑ دیا۔
کم سنی میں شرارتوں سے دُور ہی رہے۔ لکھنے پڑھنے سے وقت ملتا، تو ایتھلیٹکس کی جانب متوجہ ہوتے۔ اُن کی کتاب زندگی کے اوراق پلٹے ہوئے ایک ایسے مینڈک سے بھی ملاقات ہوتی ہے، جس سے اُنھیں محبت ہوگئی تھی۔ ''سیوی (سبی) میں ہمارے گھر کے قریب تحصیل دفتر میں ایک تالاب تھا، جس میں کئی مینڈک تھے۔ اُن میں سے ایک مجھے بہت ہی پیارا لگتا تھا۔ ہماری دوستی ہوگئی، اور کانوں تک پھیلا دہانہ میرے لیے حسن کی علامت بن گیا!''
گنتی قابل طلبا میں ہوتی تھی، پانچویں سے آٹھویں جماعت تک وظیفہ بھی پایا۔ سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے اسلامیہ ہائی اسکول، کوئٹہ سے 65ء میں میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج سریاب روڈ کا رخ کیا، جہاں سے 69ء میں گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ بلوچستان یونیورسٹی سے ارد وادب میں ماسٹرز کیا۔ بعد میں انگریزی ادب، سیاسیات میں بھی ایم اے کی اسناد حاصل کیں، ایل ایل بی بھی کیا۔
زمانۂ طالب علمی میں کوئٹہ کی کئی علمی، ادبی و سیاسی شخصیات سے روابط رہے۔ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطاء اﷲ مینگل، میر گل خان نصیر، خان عبدالصمد خان اچکزئی، نور محمد پروانہ، محمد حسین عنقا، صادق کاسی کی محافل میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آغا صادق، ماہر افغانی، رفیق راز جیسے قادر الکلام شعرا سے تعلق رہا۔ ''اُن دنوں کوئٹہ ایک 'ایمرجنگ' شہر تھا۔ اب بہت دنوں سے تپ دق کا مریض بن کر بستر سے جالگا ہے۔
خون تھوکتا ہے۔ شاید اگلے چند برسوں میں دم توڑ دے۔'' بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن بھی رہے۔ ''بی ایس او کا چیئرمین، خیر جان بلوچ میرا دوست اور کلاس فیلو تھا۔ بعد ازاں وہ پہاڑوں میں لڑتا رہا، سپریم کمانڈر کہلایا، تاہم زندہ بچ کر لوٹ آیا۔ اُس زمانے میں نان بلوچ بھی بی ایس او کا ممبر بن سکتا تھا۔ بشرطے کہ ذہنی ہم آہنگی اور رجحان ہو۔''
آغا گل کے بہ قول، والد محب وطن اور سچّے پاکستانی تھے، بڑا بیٹا (بریگیڈیئر آغا احمد گل) ملک کے دفاع کے لیے فوج میں بھجوایا، اور نظریاتی دفاع کے لیے اُنھیں محکمۂ تعلیم کے حوالے کر دیا۔ 72ء میں وہ 495 روپے ماہ وار پر، بہ طور لیکچرار گورنمنٹ کالج، مستونگ کا حصہ بن گئے۔ بہ ذریعہ بس مستونگ آنے جانے اور چائے وغیرہ پر 250 روپے خرچ ہوجاتے۔ گویا ڈھائی سو روپے ماہانہ میں علم پھیلاتے رہے۔ ''ہماری جھولی میں کشکول کے مانند لفظوں کے کھوٹے سکّے ڈال دیے جاتے کہ یہ تو بادشاہی پیشہ ہے، علم پھیلانا تو خدا کے برگزیدہ بندوں کا کام ہے، مگر اِن لفظوں سے نہ تو پیروں کے لیے بوٹ خریدا جاسکتا،
نہ ہی تن ڈھانپنے کے لیے گرم لباس!'' 79ء تک مختلف کالجز میں ذمے داریاں نبھاتے رہے۔ بلوچستان لیکچرز ایسوسی ایشن (BLA) کے نائب صدر بھی رہے۔ ''ہم نے محسوس کیا کہ محکمۂ تعلیم میں ایک مخصوص طبقہ براجمان ہے، بیس بیس برس تک اساتذہ ایک ہی کالج میں رہتے ہوئے فائدے اٹھاتے ہیں، افسران اعلیٰ کے فیصلوں پر سرہلاتے ہیں، جس پر ہم نے BLA قائم کی۔ ٹرانسفر پالیسی اور ترقی کا S.O.P بنوایا۔''
نہ تو وہ نصاب سے مطمئن تھے، نہ ہی نظام تعلیم سے، سو سات برس محکمۂ تعلیم میں ''ضایع'' کرنے کے بعد والد کے قدموں میں جاگرے کہ ''میں باز آیا تعلیم پھیلانے سے، مجھے محاذ بدلنے یا باالفاظ دیگر پسپا ہونے کی اجازت دی جائے!'' والد ہفتوں گرجتے برستے رہے، لیکن بالآخر اجازت مل ہی گئی۔ کہتے ہیں،''اب جو امتحان دیا سی ایس ایس کا، تو پولیس اور دیگر اچھے محکمے جعلی ڈومیسائل والے لے گئے۔ جعلی ڈومیسائل وہ لعنت زدہ مخلوق ہے، جو بلوچستان کے تمام وسائل نچوڑ لیتی ہے۔ خیر، بزرگوں نے فرمایا ہے:Beggars can't be choosers لہٰذا محکمۂ ڈاک ملا، تو قبول کرتے ہی بن پائی۔''
محکمۂ ڈاک کی بابت کہتے ہیں کہ معاشرہ ایسے محکموں کو قبول نہیں کرتا۔ ''میں نے عمر بھر ڈاک بابو ہونے کی قیمت ادا کی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (B-21) کے عہدے تک جا پہنچا، مگر نہ تو بیوروکریسی نے قبول کیا، نہ ہی سماج نے توقیر دی۔ سول سروس کے ہم شودر رہے۔'' جس زمانے میں گریڈ 18 میں تھے، اُنھیں ڈائریکٹر نئی روشنی اسکولز، بلوچستان میں گریڈ 19 میں تعیناتی کے احکامات ملے، مگر شرط یہ تھی کہ صوبائی وزیر تعلیم کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اُن کے مطابق وہ وزارت ایک انگوٹھا چھاپ خاتون کے پاس تھی، سو گریڈ 19 چھوڑا، اور بدستور گریڈ 18 میں کام کرتے رہے۔
اُن کے نزدیک ادیب کا کام سمت متعین کرنا ہے، اور تخلیق ادب ایک گھر پھونک تماشا ہے۔ آج کل ایک ناول پر کام کررہے ہیں۔ ''ناول خون نچوڑ لیتا ہے، صبح و شام کرداروں کے ساتھ رہنا دشوار مرحلہ ہے۔ میرے دوست، عرفان احمد خان اور محمد الیاس جانے کیسے ناول لکھ لیتے ہیں!''
آغا گل اردو کی ''کمرشل ویلیو'' بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ دنیا کی چھٹی یا ساتویں بڑی زبان ہے، دنیا کے کئی ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِسے خودرو انداز میں پلنے بڑھنے دیا جائے۔ ''انگریزی زبان میں ہر سال تقریباً 35 ہزار الفاظ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اُردو بھی نئے الفاظ قبول کرتی ہے، اِسے شدھ یا خالص بنانے کی کوشش میں محدود نہ کیا جائے۔'' بلوچستان کے دبستان اردو کو تسلیم کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ ''بلوچستان میں اپنے انداز کی اُردو مروج اور مقبول ہے، اِس کا اظہاریہ بھی واضح اور دبنگ ہے، اِسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔'' اپنے ناول ''بابو'' میں اُنھوں نے کوئٹہ میں بولی جانے والی اردو کو بڑی مہارت سے برتا۔
علم دوست آغا گل کلاشنکوف تھامنے کے تجربے سے بھی گزرے، جس نے طاقت کے عجب احساس سے بھر دیا، درختوں کو چھید ڈالا، پتھر توڑ ڈالے۔ کلاشنکوف کی محبت میں اِس حد تک گرفتار ہوگئے تھے کہ بستر میں، اپنے پہلو میں اُسے جگہ دی، اُن کی رفیقۂ حیات کلاشنکوف کو سوتن کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔
والد کی جدائی زیست کا سب سے کرب ناک لمحہ تھا۔ ''جب میں نے اُنھیں ساکت پایا، تو مجھ پر ایک قیامت گزر گئی۔'' اِس سانحے کے ایک ماہ بعد، انتہائی دُکھ کے عالم میں مرحوم والد کے نام ایک خط لکھا، تاہم اُسے پوسٹ نہیں کر پائے۔ ''جانے کس ڈسٹرکٹ میل آفس (DMO) سے ایسے خط بھجوائے جاسکتے ہیں!''
وہ جعلی ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومتوں کو ملک کا بنیادی مسئلہ تصور کرتے ہیں، جن کے توسط سے جعلی افراد سامنے آتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ موروثی سیاست پر سوال اٹھاتے ہیں، اور اِسے جمہوری عمل کے منافی قرار دیتے ہیں۔
شاعری سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ اُردو اور انگریزی کے علاوہ بلوچی، براہوی اور پشتو کے کئی شعرا پسند ہیں۔ کئی فکشن نگاروں نے متاثر کیا، تاہم گوگول، ٹالسٹائی، ہیرالڈ لیمب، چارلس ڈکنز، تھامس ہارڈی، سرت چندر چٹرجی، قرۃ العین حیدر، محمد الیاس، عرفان احمد خان اور دردانہ نوشین زیادہ پسند ہیں۔ بچپن ہی سے کائو بوائے فلمیں دل چسپی کا محور ہیں۔ جان وین پسندیدہ اداکار ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں لاشعوری طور پر جان وین بننے کی کوشش کرتے تھے۔ ''اب بھی اگر فارمل ڈریس میںنہ ہوں، تو جون جولائی میں زپ والے لمبے بوٹ پہنتا ہوں!'' عامر خان اور رانی مکھرجی کو بھی سراہتے ہیں۔ فلموں میں ''لارڈ آف دی رنگز'' اور ''ٹرائے'' پسند ہیں۔
کھانے میں تنور کی کڑک روٹی بھاتی ہے۔ لباس میں سوٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔
والدین کی پسند سے شادی کی۔ منگنی کی کہانی خاصی دل چسپ ہے۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ والد کے بلوانے پر دوستوں کی محفل سے اٹھ کر گھر پہنچے، جہاں چائے پر مدعو میاں بیوی نے آغا گل کو نظروں میں تولا، نگاہوں میں مشورہ ہوا، پھر خاتون نے کچھ رقم اُنھیں تھما دی۔ حیرت کے زیر اثر آغا گل نے اُن کے ساتھ چائے پی، اور اجازت چاہی۔ رات گئے گھر لوٹے، تو علم ہوا کہ منگنی ہوگئی ہے۔ شادی 1975 میں ہوئی، خدا نے تین بیٹیوں ظاہرہ گل، عنبریں گل اور نیلمبر گل سے نوازا۔ بیٹا، آغا محمد طاہر گل آرمی ایوی ایشن میں میجر ہے۔ بچوں میں بھی شوق مطالعہ منتقل ہوا۔