ووٹ ایک امانت ہے
ووٹ وطن کی امانت ہے، وطن کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ووٹ کارکردگی، صلاحیت کی بنیاد پر دیا جائے
اسلام کی روح کے مطابق دنیا دو اقوام میں تقسیم ہے، ایک کو مسلم قوم، دوسرے کو نان مسلم قوم کہا جاتا ہے، اس کی بنیاد دینی و مذہبی عقائد ہیں۔ اسی لیے تمام مسلمان اخوان المسلمین ہیں، ایک دوسرے کے بھائی۔ چاہے ان میں عربی ہوں یا عجمی، ہندی ہوں یا سندھی، گورے ہوں یا کالے، ایشیائی ہوں یا افریقی، امریکی ہوں یا یورپی، ان کو بحیثیت مسلم ایک قوم بن کر رہنا چاہیے۔
مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ سارے مسلمان ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب قرآن، ایک ہی کعبہ قبلہ کے ماننے والے ہیں۔ ایمان کے بنیادی اصولوں پر کوئی اختلاف نہیں، مگر پھر بھی کہیں انھیں مسلک و مذہب کی بنیاد پر، کہیں انھیں لسانیت کی بنیاد پر، کہیں عربی و عجمی کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کردیا گیا، اس طرح ایک دینی بھائی دوسرے دینی بھائی کا دشمن ہوتا چلا گیا۔ یہ تقسیم، یہ اختلاف تحریک پاکستان تقسیم ہند کے وقت نہیں تھا، ہر مسلمان صرف دین اسلام کو بنیاد بنا کر ایک مسلم ریاست کے لیے جدوجہد کرنے لگا، اس وقت ہر ایک صرف اور صرف مسلم بن کر اس جدوجہد میں تھا، اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلم قوم کی مدد کی اور انھیں 27 رمضان المبارک 14 اگست 1947 کو ایک مملکت بطور تحفہ عطا کی۔
اس مملکت میں، جو مسلمانوں کی ریاست بنی، ہر مکتبہ فکر، ہر مسلک و مذہب کے ماننے والوں کو یہ آزادی تھی کہ وہ اپنے اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق اس وطن میں آباد رہیں اور دنیا کے سامنے ایک ایسی ریاست پیش کریں جہاں دین اسلام کے مطابق دنیا کے سامنے ایک مثال ریاست ہو۔ لیکن پاکستان کے بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد ہم ان کے اور علامہ اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کرسکے۔
ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ ہم ایک ایسی قیادت نہ لاسکے جو پاکستان سادگی کے ساتھ چلا سکتی، ایک اچھی انتظامیہ نہ لاسکے جس کے نتیجے میں ملک میں چار دفعہ مارشل لاء لگایا گیا، سول حکمرانی کا حق مارا گیا، مگر یہ مارشل لاء بھی بیڈ گورننس کی وجہ سے لگا، اس کے ذمے دار پاکستان کے نااہل سیاست داں تھے۔
1970 کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو بحیثیت رہنما ابھر ے اور ملک میں پہلی مرتبہ ایک صاف شفاف غیر جانبدرانہ انتخابات ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو ایک مدبر، ذہین سیاستداں کے طور پر مقبول ہوئے، انھوں نے اپنی مدت 1971 تا 1977 اس ملک کی بڑی خدمت کی، جوہری ملک بنایا، مقبوضہ علاقے خالی کروائے، ہندوستان سے 90 ہزار قیدیوں کو واپس لیا، شملہ معاہدہ کیا۔ افغانستان سے بہترین خارجہ پالیسی کی بنیاد پر ان کی مداخلت کو ختم کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں ترقیاتی کام بھی کروائے۔ مگر 5 جولائی 1977 کے مارشل لاء نے، جس کا کوئی جواز بھی نہ تھا، اس ملک کو اندھیروں میں پھنک دیا۔
یہ ملک پھر پیچھے چلا گیا اور امریکا نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں اسی ضیاالحق کے مارشل لاء میں قدم جمائے اور پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں دھکیلا، جس کا خمیازہ پوری امت آج تک بھگت رہی ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو پھر امریکا نے ہمیں افغانستان کے ساتھ ملوث کیا۔ ان مارشل لائی پالسیوں نے کوئی مثبت نتائج نہیں دیے، سوائے اس بات کے کہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں گڈ گورننس تھی اور بلدیاتی کام ہوئے۔
آج بھی امریکا ایسی حکومت کا طالب ہے جہاں اختیارات پارلیمنٹ کے بجائے کسی ایک آمر کے پاس ہوں۔ مگر قوم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی جمہوری حکومت میں کوئی رخنہ نہ ڈالا اور نہ ہی موجودہ چیف آف آرمی جنرل قمر باجوہ جمہوریت کی گاڑی کو روکنا چاہتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے پاک آرمی نے سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتوں میں ملک میں دہشت گردی پر بڑی حکمت عملی سے قابو پایا اور کراچی جو کل تک مقتل بنا ہوا تھا، جہاں ریاست مافیا کے آگے کمزور تھی، وہاں فوج اور رینجرز نے بڑا کام کیا اور اس شہر کی روشنیاں بحال کیں، امن قائم کیا۔ لیکن اب بھی اس شہر، اس وطن میں معاشی دہشت گردی کو ختم کرنا باقی ہے۔
عوام کا فریضہ ہے اس کو ووٹ ہرگز نہ دیں جو کل تک ممبر پارلیمنٹ تھا مگر اس نے اپنے علاقے، اپنے صوبہ، اپنے ملک کے لیے کوئی نمایاں کام نہ کیا ہو۔ کیونکہ ووٹ وطن کی امانت ہے، وطن کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ووٹ کارکردگی، صلاحیت کی بنیاد پر دیا جائے، اس کو ووٹ دیں جس میں نہ مذہبی تعصب ہو، نہ لسانی تعصب، تاکہ آنے والی پارلیمنٹ بہترین پارلیمنٹرین سے بھری ہو۔ نئی جماعت، نئے امیدواروں پر توجہ دی جائے تاکہ کوئی اچھی قیادت سامنے آئے۔
چاہے عمران خان ہی کیوں نہ ہو، چاہے کوئی مسلم لیگ سے ہی کیوں نہ ہو، چاہے کوئی پی پی پی سے ہی کیوں نہ ہو، مگر وہی ہو جس نے کوئی کارکردگی دکھائی ہو۔ ورنہ ان موجودہ حکمرانوں نے ملک کی ترقی میں کوئی نمایاں کام نہیں کیا، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی حکومت۔ ان کی کارکردگی کا پیمانہ ان کے شہر ہیں، چاہے وہ کوئٹہ ہو یا پشاور، لاہور ہو یا کراچی۔ سب سے بدتر حالت شہر قائد کی ہے جہاں ابھی تک بنیادی کاموں، شہر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام نہ سندھ حکومت نے کیا، نہ ہی بلدیاتی اداروں نے، یہ سب وقت گزاری کررہے ہیں، اس لیے شہریوں کو چاہیے اب دوسروں کو موقع دیں۔
مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ سارے مسلمان ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب قرآن، ایک ہی کعبہ قبلہ کے ماننے والے ہیں۔ ایمان کے بنیادی اصولوں پر کوئی اختلاف نہیں، مگر پھر بھی کہیں انھیں مسلک و مذہب کی بنیاد پر، کہیں انھیں لسانیت کی بنیاد پر، کہیں عربی و عجمی کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کردیا گیا، اس طرح ایک دینی بھائی دوسرے دینی بھائی کا دشمن ہوتا چلا گیا۔ یہ تقسیم، یہ اختلاف تحریک پاکستان تقسیم ہند کے وقت نہیں تھا، ہر مسلمان صرف دین اسلام کو بنیاد بنا کر ایک مسلم ریاست کے لیے جدوجہد کرنے لگا، اس وقت ہر ایک صرف اور صرف مسلم بن کر اس جدوجہد میں تھا، اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلم قوم کی مدد کی اور انھیں 27 رمضان المبارک 14 اگست 1947 کو ایک مملکت بطور تحفہ عطا کی۔
اس مملکت میں، جو مسلمانوں کی ریاست بنی، ہر مکتبہ فکر، ہر مسلک و مذہب کے ماننے والوں کو یہ آزادی تھی کہ وہ اپنے اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق اس وطن میں آباد رہیں اور دنیا کے سامنے ایک ایسی ریاست پیش کریں جہاں دین اسلام کے مطابق دنیا کے سامنے ایک مثال ریاست ہو۔ لیکن پاکستان کے بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد ہم ان کے اور علامہ اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کرسکے۔
ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ ہم ایک ایسی قیادت نہ لاسکے جو پاکستان سادگی کے ساتھ چلا سکتی، ایک اچھی انتظامیہ نہ لاسکے جس کے نتیجے میں ملک میں چار دفعہ مارشل لاء لگایا گیا، سول حکمرانی کا حق مارا گیا، مگر یہ مارشل لاء بھی بیڈ گورننس کی وجہ سے لگا، اس کے ذمے دار پاکستان کے نااہل سیاست داں تھے۔
1970 کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو بحیثیت رہنما ابھر ے اور ملک میں پہلی مرتبہ ایک صاف شفاف غیر جانبدرانہ انتخابات ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو ایک مدبر، ذہین سیاستداں کے طور پر مقبول ہوئے، انھوں نے اپنی مدت 1971 تا 1977 اس ملک کی بڑی خدمت کی، جوہری ملک بنایا، مقبوضہ علاقے خالی کروائے، ہندوستان سے 90 ہزار قیدیوں کو واپس لیا، شملہ معاہدہ کیا۔ افغانستان سے بہترین خارجہ پالیسی کی بنیاد پر ان کی مداخلت کو ختم کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں ترقیاتی کام بھی کروائے۔ مگر 5 جولائی 1977 کے مارشل لاء نے، جس کا کوئی جواز بھی نہ تھا، اس ملک کو اندھیروں میں پھنک دیا۔
یہ ملک پھر پیچھے چلا گیا اور امریکا نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں اسی ضیاالحق کے مارشل لاء میں قدم جمائے اور پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں دھکیلا، جس کا خمیازہ پوری امت آج تک بھگت رہی ہے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو پھر امریکا نے ہمیں افغانستان کے ساتھ ملوث کیا۔ ان مارشل لائی پالسیوں نے کوئی مثبت نتائج نہیں دیے، سوائے اس بات کے کہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں گڈ گورننس تھی اور بلدیاتی کام ہوئے۔
آج بھی امریکا ایسی حکومت کا طالب ہے جہاں اختیارات پارلیمنٹ کے بجائے کسی ایک آمر کے پاس ہوں۔ مگر قوم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی جمہوری حکومت میں کوئی رخنہ نہ ڈالا اور نہ ہی موجودہ چیف آف آرمی جنرل قمر باجوہ جمہوریت کی گاڑی کو روکنا چاہتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے پاک آرمی نے سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتوں میں ملک میں دہشت گردی پر بڑی حکمت عملی سے قابو پایا اور کراچی جو کل تک مقتل بنا ہوا تھا، جہاں ریاست مافیا کے آگے کمزور تھی، وہاں فوج اور رینجرز نے بڑا کام کیا اور اس شہر کی روشنیاں بحال کیں، امن قائم کیا۔ لیکن اب بھی اس شہر، اس وطن میں معاشی دہشت گردی کو ختم کرنا باقی ہے۔
عوام کا فریضہ ہے اس کو ووٹ ہرگز نہ دیں جو کل تک ممبر پارلیمنٹ تھا مگر اس نے اپنے علاقے، اپنے صوبہ، اپنے ملک کے لیے کوئی نمایاں کام نہ کیا ہو۔ کیونکہ ووٹ وطن کی امانت ہے، وطن کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ووٹ کارکردگی، صلاحیت کی بنیاد پر دیا جائے، اس کو ووٹ دیں جس میں نہ مذہبی تعصب ہو، نہ لسانی تعصب، تاکہ آنے والی پارلیمنٹ بہترین پارلیمنٹرین سے بھری ہو۔ نئی جماعت، نئے امیدواروں پر توجہ دی جائے تاکہ کوئی اچھی قیادت سامنے آئے۔
چاہے عمران خان ہی کیوں نہ ہو، چاہے کوئی مسلم لیگ سے ہی کیوں نہ ہو، چاہے کوئی پی پی پی سے ہی کیوں نہ ہو، مگر وہی ہو جس نے کوئی کارکردگی دکھائی ہو۔ ورنہ ان موجودہ حکمرانوں نے ملک کی ترقی میں کوئی نمایاں کام نہیں کیا، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی حکومت۔ ان کی کارکردگی کا پیمانہ ان کے شہر ہیں، چاہے وہ کوئٹہ ہو یا پشاور، لاہور ہو یا کراچی۔ سب سے بدتر حالت شہر قائد کی ہے جہاں ابھی تک بنیادی کاموں، شہر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام نہ سندھ حکومت نے کیا، نہ ہی بلدیاتی اداروں نے، یہ سب وقت گزاری کررہے ہیں، اس لیے شہریوں کو چاہیے اب دوسروں کو موقع دیں۔