وہ سورج ضرور نکلے گا

آج تک بھی وہ سورج نہیں نکلا جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے۔ مگر وہ سورج عنقریب نکلنے والا ہے۔

کچھ نہیں تو ''اسموگ'' نے آگھیرا۔ وہ اودھم مچا کہ بیان سے باہر۔ ہماری قسمت میں بھی اسموگ لکھا تھا، سو ہم بھی اچھے بھلے کراچی سے چل پڑے۔ ہمیشہ کی طرح تیز گام میں بیٹھے، سکھر روہڑی تک اسموگ کے بغیر سفر کٹا اور پھر پنجاب میں داخل ہوتے ہیں اسموگ تھی اور ہم تھے۔ صبح ساڑھے 7 بجے ملتان شریف پہنچنے والی تیز گام صبح 10 بجے پہنچی۔ ملتان شریف کی سڑکوں پر اسموگ اتری ہوئی تھی، اور پھر لاہور تک یہی عالم رہا۔

اس بار لاہور میں قیام زیادہ تھا اور اسموگ بھی جیسے مقابلے پر اتری ہوئی تھی کہ تم جب تک پنجاب میں رہو گے میں بھی رہوں گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ پورے پندرہ دن بعد ناک سے اور منہ سے ماسک ہٹا۔ جس روز کراچی واپسی تھی اس روز سورج نکل آیا۔ ادھر ہم جہاز میں بیٹھے، ادھر اسموگ نے بھی روانگی پکڑی۔ ہم بھی خیر خیریت سے کراچی پہنچ گئے اور اسموگ بھی اپنے گھر سدھاری۔ اسلام آباد بھی جانا تھا مگر وہاں فیض آباد دھرنے کی زد میں تھا (اب بھی ہے) یوں اسلام آباد نہ جا سکے۔

پنجاب بھر میں لوگ سورج نکلنے کے منتظر نظر آئے، ادھر میں بھی اپنے افسانوں کی کتاب ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' کی تقریب کے لیے لاہور میں مقیم تھا۔ خیر وہ سورج جس کا انتظار میرے افسانے کررہے ہیں، صدیاں گزر گئیں نہیں نکلا۔ حبیب جالب کے شعر سے میں نے کتاب کا نام لیا ہے۔ شعر ہے:

وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے، نہ اپنے دن بدلتے ہیں

''ہماری دنیا'' اس سورج کے طلوع ہونے کی جستجو میں لگی ہوئی ہے، لاکھوں یہی خواب دیکھتے دیکھتے چلے گئے، اور جاتے جاتے ظہیر کاشمیری بھی یہی کہہ کر رخصت ہوئے

ہمیں یقین ہے ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

یوں وہ ساتھیوں کو کام پر لگا گئے۔ ''ہماری دنیا'' کے ایک اور بڑے نام فیض احمد فیض کا انٹرنیشنل میلہ بھی لاہور میں منایا گیا۔ میں لاہور ہی میں تھا۔ شہر کے ہزاروں کھمبوں پر ''فیض میلہ'' کے بورڈ آویزاں کیے گئے تھے، جن پر مختلف شخصیات کی تصاویر بھی تھیں، ارشد محمود، ٹینا ثانی، عارف لوہار، مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، جاوید شیخ اور فیض صاحب کے دیگر چاہنے والے۔ پورے لاہور پر فیض صاحب چھائے ہوئے تھے۔

خوبصورت الحمرا کی لال اینٹوں پر بھی ''لالی'' فیض بکھرا ہوا تھا۔ فیض صاحب کی اس ''لال فضا'' میں ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' کی تقریب بھی ادبی بیٹھک الحمرا میں 14 نومبر 2017 کے دن ہوئی اور تین دن بعد فیض میلہ 17، 18 اور 19 نومبر رہا۔ ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' کی صدارت عابد حسن منٹو نے کی اور مضامین و گفتگو پروفیسر حسن عسکری کاظمی، پروفیسر حسین مجروح، فرخ سہیل گویندی، ڈاکٹر امجد طفیل موجود تھے۔ پروگرام کے میزبان پروفیسر ناصر بشیر تھے۔


پنجاب میں بھی اس بار سردی جلدی آگئی ہے۔ کراچی میں بھی ٹھنڈ ہوگئی ہے۔ مگر اس ٹھنڈ پر سیاسی گرمی حاوی ہے۔ گرماگرمی کا سب سے بڑا واقعہ تحریک لبیک کے دھرنے کی صورت میں پچھلے انیس دن سے جاری ہے۔ ... خاکم بدہن معاملات ''لال مسجد'' کی طرف جارہے ہیں، لوگ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا بھی ذکر کررہے ہیں۔ مجھ کم عقل کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا 'زاہد حامد'' اتنا اہم آدمی ہے؟ اسے الگ کردیا جائے، اب آگے کیا مسئلہ ہے، یہ حکومت والے جانیں۔ ویسے اسی حکومت نے مشاہد اﷲ خان اور پرویز رشید کو نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی تھی۔

پرویز مشرف بھی پاکستان واپس آنے کا بیان دے چکے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں ان کے تمام اثاثے بحق سرکار ضبط کیے جاچکے ہیں۔ اربوں پتی جہانگیر ترین بھی کالا چشمہ پہنے عمران خان کے عین پیچھے چلتا ہے ۔ کپتان بھی تیز قدم اور جہانگیر بھی تیز ترین۔

کراچی میں بھی موسم ٹھنڈا ہے۔ سرد ہوائیں چل رہی ہیں، شہری لنڈا بازار پر ٹوٹے پڑے ہیں۔ ریڑھیوں، ٹھیلوں سے پرانے گرم کپڑے خریدے جارہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی موسم خوب گرم ہے۔ ایم کیو ایم میں بھی ''پرانے'' اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اور بعض پتا نہیں کدھر سے کدھر جارہے ہیں، اور اپنے ''لال و لال سرخے'' سنا ہے انجمن ترقی پسند مصنفین چار گروپ بن گئے ہیں۔ وہ بیچارا فرا کہہ کر گیا ''اب کے تقسیم نہ ہونا میرے پیارے لوگو''۔ لاہور میں یہ دیکھ کر دل خوش ہوا کہ حلقہ ارباب ذوق دو ہوگئے تھے، پھر ایک ہوگئے، ان کا ہفتہ وار اجلاس بھرا پرا تھا۔

ملک کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور ڈرائنگ روموں، چائے خانوں میں گفتگوئیں ہورہی ہیں۔ جالب کا قطعہ ہے، پہلا مصرعہ یاد نہیں آرہا، تین مصرعے یوں ہیں

آتا ہے کون جرأت اظہار کی طرف

دشت وفا میں آبلہ پا کوئی بھی نہیں

سب جارہے ہیں سایۂ دیوار کی طرف

پاناما نے کئی پاجامہ اتار دیے ہیں، اور ابھی اور بھی پاجامے اترنا چاہئیں۔ مگر آگے پاجاموں کا کیا بنتا ہے؟ ''ہمارے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو''۔

مصر میں قیامت صغریٰ بپا ہوگئی۔ سینائی کی مسجد میں ''خطبہ جمعہ'' کے دوران دہشت گردوں نے دستی بموں سے حملہ کیا، فائرنگ کی۔ خبر ہے کہ 235 افراد (مسلمان) شہید ہوگئے، 109 زخمی ہوئے۔ بلوچستان تو مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے۔ پشاور میں بھی ایڈیشنل آئی جی پولیس دہشت گردی کا نشانہ بن گئے، ان کا ایک ساتھی بھی شہید ہوگیا، باقی زخمی ہیں، اور رحمت عالمؐ کے نام پر فیض آباد میں دھرنا جاری ہے، زاہد حامد بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اور آج تک بھی وہ سورج نہیں نکلا جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے۔ مگر وہ سورج عنقریب نکلنے والا ہے۔
Load Next Story