خطرہ حد سے بڑھ رہا ہے
بیرونی دنیا حیران و پریشان ہوتی ہے جب انھیں پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اسکولوں پر حملے مسلسل جاری ہیں
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پچھلے 6 سال کے دوران 1300سے زائد سرکاری اسکولوں کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کیا گیا۔ حکام کے مطابق ان میں آٹھ سو کے قریب تعلیمی ادارے خیبر پختونخوا جب کہ پانچ سو فاٹا میں نشانہ بنائے گئے۔ اب ان حملوں کا دائرہ کار پشاور تک بھی پھیل چکا ہے جہاں کچھ عرصے میں پچاس کے قریب سرکاری اسکول تباہ کیے جا چکے ہیں۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ان اسکولوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی اور ان کو دوبارہ بحال کرنے کا کوئی منصوبہ بظاہر نہیں نظر آتا۔ مقامی لوگوںکے مطابق عارضی اسکولوں کو گائوں کی مسجدوں یا حجروں میں قائم کیا گیا ہے جہاں بچے سخت مشکل حالات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم نے بتایا کہ ایسا نہیں کہ حکومت اسکولوں پر حملے روکنے میں ناکام ہو گئی ہے، البتہ سیکیورٹی کے جو حالات ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ بہرحال یہ انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ اسکولوں اور مدرسوں پر حملہ ہو اور اس کا ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے جواز بھی پیش کیا جائے۔
بیرونی دنیا حیران و پریشان ہوتی ہے جب انھیں پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اسکولوں پر حملے مسلسل جاری ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول۔ انھیں خصوصی طور پر طالبان ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اسکول کالج اور یونیورسٹیاں ایسی جگہ ہیں جہاں سے امن، روشنی، ترقی بھائی چارہ، برداشت اور رواداری کا پیغام پوری دنیا کو جاتا ہے۔ وہ دین جس کا آغاز ہی اقراء سے ہوتا ہے اس کے نام نہاد نام لیوا اسکولوں کو تباہ کر کے کس قسم کا پیغام دنیا کو پہنچا رہے ہیں اور اس کے لیے لولا لنگڑا جواز بھی تراشتے ہیں۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ ہمارا مذہب اسلام پوری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔
ہمارے مذہب میں تعلیم کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے کفار مکہ کے جنگی قیدیوں کی رہائی کو اس شرط سے مشروط کیا کہ وہ ان لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے جو ان پڑھ ہیں۔ حضورؐ کی نگاہ میں آج سے چودہ سو سال پہلے تعلیم کی اس قدر اہمیت تھی کیونکہ تعلیم کی روشنی سے ہی ذہنی اندھیروں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم جہاں ہمیں دنیا کی بے شمار اچھی چیزیں سکھاتی ہے۔ وہاں یہ بھی سکھاتی ہے کہ کسی فرد کا قانون اپنے ہاتھ میں لینا وحشت و بربریت ہے۔ کیونکہ جب کوئی فرد یا افراد کا گروہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو وہاں جنگل کا قانون نافذ ہو جاتا ہے۔
معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ انسان انسان کے ہاتھوں غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ ہزاروں سال کے خونی تجربے نے انسان کو یہی سکھایا ہے کہ جرم اور مجرم کا تعین اور اس کو سزا دینے کا موزوں ترین ادارہ عدالتیں ہی ہیں۔ ابھی طالبان کے ہاتھوں اسکولوں کی تباہی کا ہم رونا رورہے تھے کہ بادامی باغ لاہور میں مسیحی آبادی جلانے کا سانحہ پیش آ گیا۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کی بنا پر پہلے ہی ہم پوری دنیا میں رسوا ہو رہے ہیں اور اب عیسائی اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بدنامی کا ایک اور تمغہ ہمارے سینے پر چسپاں ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کا جان و مال ہمارے ہاتھوں محفوظ نہیں۔
ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ سوچیں کہ یورپ اور امریکا جو عیسائی ممالک ہیں اگر وہاں پر بھی پاکستانیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے جو پاکستان میں ہو رہا ہے تو آپ کا دل کیا کہے گا۔ ان عیسائی ملکوں میں مسلمانوں کے نہ صرف جان و مال محفوظ ہیں بلکہ مذہب بھی مکمل طور پر محفوظ ہے اور بعض صورتوں میں ان کے اپنے ملکوں میں مسلمانوں کو وہ مذہبی آزادی حاصل نہیں جو ان ملکوں میں ہے۔ مسجدیں عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں اقلیتوں کو گرجے، مندر ،گوردوارے تعمیر کرنے کی آزادی ہے۔
قانونی طور پر وہاں کے مقامی لوگوں اور مسلمانوں کے حقوق میں ذرہ برابر فرق نہیں اور تو اور اگر مسلمان وہاں کی گوری عیسائی خاتون سے شادی کر لے تو وہاں فرقہ وارانہ فسادات بھی نہیں ہوتے۔ سوچئے ذرا ہمارے ملک میں گورا کسی مسلمان خاتون سے شادی کرے تو پورا ملک ہمارے ہاتھوں راکھ کا ڈھیر بن جائے۔ یہ برداشت رواداری اور اقلیتوں سے محبت سیکولر نظام تعلیم نے ہی انھیں سکھائی ورنہ اس سے پہلے وہ ہم جیسے ہی تھے کہ سیکڑوں سال تک عیسائیوں کے دو بڑے فرقے کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ ایک دوسرے کو زندہ جلاکر کروڑوں کی تعداد میں مارتے رہے۔
بادامی باغ سانحہ لاہور سے کچھ عرصہ قبل ایسا ہی سانحہ گوجرہ کے مقام پر ہوا جہاں پوری عیسائی بستی کو جلا یا گیا جب کہ پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ اگر اس وقت شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ لیا جاتا تو آج کا سانحہ پیش نہ آتا۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ تمام بڑی اور چھوٹی مذہبی جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے بیک زبان ہو کر لاہور میں رونما ہونے والے اس سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے تاہم جو بات سمجھنے کی ہے اور جس کو ہم سمجھ نہیں پا رہے یا سمجھنا نہیں چاہ رہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہبی جنونیت خطرے کے نشان سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔
اب تو مذہبی جماعتیں اور ان کے لیڈر بھی اس مذہبی جنونیت کی مذمت کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ملکی سلامتی شدید خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہی وہ مذہبی جماعتیں ہیں جو گو مگو کی کیفیت میں رہتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ اگر ان مذہبی جماعتوں نے اپنی غلطیوں کا ازالہ نہ کیا تو وہ اس جنونیت کا خود بھی شکار بن جائیں گی۔ پاکستانیوں کو ایسا نظام تعلیم نہیں چاہیے جو معاشرے میں عدم برداشت پھیلاتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہوئے گردنیں اتارے۔
...11 سے 14 مارچ کے درمیان موسم خوشگوار ہو جائے گا۔
...پاکستان اس وقت جن مختلف النوع بحرانوں سے گزر رہا ہے 2013ء کا آخر ہی بتائے گا کہ ہم ان بحرانوں سے نکل سکتے ہیں یا کسی ''ان ہونی'' کا شکار ہوں گے اور اس وقت کا آغاز اپریل مئی اور جولائی اگست سے بھی ہو سکتا ہے۔
(سیل فون: 0346-4527997)
صوبائی حکومت کی جانب سے ان اسکولوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی اور ان کو دوبارہ بحال کرنے کا کوئی منصوبہ بظاہر نہیں نظر آتا۔ مقامی لوگوںکے مطابق عارضی اسکولوں کو گائوں کی مسجدوں یا حجروں میں قائم کیا گیا ہے جہاں بچے سخت مشکل حالات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم نے بتایا کہ ایسا نہیں کہ حکومت اسکولوں پر حملے روکنے میں ناکام ہو گئی ہے، البتہ سیکیورٹی کے جو حالات ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ بہرحال یہ انسانی تاریخ کا المیہ ہے کہ اسکولوں اور مدرسوں پر حملہ ہو اور اس کا ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے جواز بھی پیش کیا جائے۔
بیرونی دنیا حیران و پریشان ہوتی ہے جب انھیں پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں اسکولوں پر حملے مسلسل جاری ہیں خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول۔ انھیں خصوصی طور پر طالبان ٹارگٹ کرتے ہیں۔ اسکول کالج اور یونیورسٹیاں ایسی جگہ ہیں جہاں سے امن، روشنی، ترقی بھائی چارہ، برداشت اور رواداری کا پیغام پوری دنیا کو جاتا ہے۔ وہ دین جس کا آغاز ہی اقراء سے ہوتا ہے اس کے نام نہاد نام لیوا اسکولوں کو تباہ کر کے کس قسم کا پیغام دنیا کو پہنچا رہے ہیں اور اس کے لیے لولا لنگڑا جواز بھی تراشتے ہیں۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ ہمارا مذہب اسلام پوری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔
ہمارے مذہب میں تعلیم کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے کفار مکہ کے جنگی قیدیوں کی رہائی کو اس شرط سے مشروط کیا کہ وہ ان لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے جو ان پڑھ ہیں۔ حضورؐ کی نگاہ میں آج سے چودہ سو سال پہلے تعلیم کی اس قدر اہمیت تھی کیونکہ تعلیم کی روشنی سے ہی ذہنی اندھیروں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم جہاں ہمیں دنیا کی بے شمار اچھی چیزیں سکھاتی ہے۔ وہاں یہ بھی سکھاتی ہے کہ کسی فرد کا قانون اپنے ہاتھ میں لینا وحشت و بربریت ہے۔ کیونکہ جب کوئی فرد یا افراد کا گروہ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے تو وہاں جنگل کا قانون نافذ ہو جاتا ہے۔
معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ انسان انسان کے ہاتھوں غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ ہزاروں سال کے خونی تجربے نے انسان کو یہی سکھایا ہے کہ جرم اور مجرم کا تعین اور اس کو سزا دینے کا موزوں ترین ادارہ عدالتیں ہی ہیں۔ ابھی طالبان کے ہاتھوں اسکولوں کی تباہی کا ہم رونا رورہے تھے کہ بادامی باغ لاہور میں مسیحی آبادی جلانے کا سانحہ پیش آ گیا۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کی بنا پر پہلے ہی ہم پوری دنیا میں رسوا ہو رہے ہیں اور اب عیسائی اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بدنامی کا ایک اور تمغہ ہمارے سینے پر چسپاں ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کا جان و مال ہمارے ہاتھوں محفوظ نہیں۔
ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ سوچیں کہ یورپ اور امریکا جو عیسائی ممالک ہیں اگر وہاں پر بھی پاکستانیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے جو پاکستان میں ہو رہا ہے تو آپ کا دل کیا کہے گا۔ ان عیسائی ملکوں میں مسلمانوں کے نہ صرف جان و مال محفوظ ہیں بلکہ مذہب بھی مکمل طور پر محفوظ ہے اور بعض صورتوں میں ان کے اپنے ملکوں میں مسلمانوں کو وہ مذہبی آزادی حاصل نہیں جو ان ملکوں میں ہے۔ مسجدیں عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں اقلیتوں کو گرجے، مندر ،گوردوارے تعمیر کرنے کی آزادی ہے۔
قانونی طور پر وہاں کے مقامی لوگوں اور مسلمانوں کے حقوق میں ذرہ برابر فرق نہیں اور تو اور اگر مسلمان وہاں کی گوری عیسائی خاتون سے شادی کر لے تو وہاں فرقہ وارانہ فسادات بھی نہیں ہوتے۔ سوچئے ذرا ہمارے ملک میں گورا کسی مسلمان خاتون سے شادی کرے تو پورا ملک ہمارے ہاتھوں راکھ کا ڈھیر بن جائے۔ یہ برداشت رواداری اور اقلیتوں سے محبت سیکولر نظام تعلیم نے ہی انھیں سکھائی ورنہ اس سے پہلے وہ ہم جیسے ہی تھے کہ سیکڑوں سال تک عیسائیوں کے دو بڑے فرقے کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ ایک دوسرے کو زندہ جلاکر کروڑوں کی تعداد میں مارتے رہے۔
بادامی باغ سانحہ لاہور سے کچھ عرصہ قبل ایسا ہی سانحہ گوجرہ کے مقام پر ہوا جہاں پوری عیسائی بستی کو جلا یا گیا جب کہ پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ اگر اس وقت شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ لیا جاتا تو آج کا سانحہ پیش نہ آتا۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ تمام بڑی اور چھوٹی مذہبی جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے بیک زبان ہو کر لاہور میں رونما ہونے والے اس سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے تاہم جو بات سمجھنے کی ہے اور جس کو ہم سمجھ نہیں پا رہے یا سمجھنا نہیں چاہ رہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہبی جنونیت خطرے کے نشان سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔
اب تو مذہبی جماعتیں اور ان کے لیڈر بھی اس مذہبی جنونیت کی مذمت کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ملکی سلامتی شدید خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہی وہ مذہبی جماعتیں ہیں جو گو مگو کی کیفیت میں رہتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ اگر ان مذہبی جماعتوں نے اپنی غلطیوں کا ازالہ نہ کیا تو وہ اس جنونیت کا خود بھی شکار بن جائیں گی۔ پاکستانیوں کو ایسا نظام تعلیم نہیں چاہیے جو معاشرے میں عدم برداشت پھیلاتے ہوئے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہوئے گردنیں اتارے۔
...11 سے 14 مارچ کے درمیان موسم خوشگوار ہو جائے گا۔
...پاکستان اس وقت جن مختلف النوع بحرانوں سے گزر رہا ہے 2013ء کا آخر ہی بتائے گا کہ ہم ان بحرانوں سے نکل سکتے ہیں یا کسی ''ان ہونی'' کا شکار ہوں گے اور اس وقت کا آغاز اپریل مئی اور جولائی اگست سے بھی ہو سکتا ہے۔
(سیل فون: 0346-4527997)