مرحوم تاج محمد ابڑو… آخری حصہ

1968 میں جب لاڑکانہ میں لاء کالج قائم ہوا تو میں یہاں سے ایل ایل بی کرنے کے بعد 1970 میں وکیل برادری میں شامل ہوگیا۔

SWAT:
ایوب خان کے مارشل لاء دور میں میری نظر بندی 1959 سے 1964 تک تقریباً پانچ سال تک رہی، اس دوران جمال ابڑو اور تاج محمد میرے پاس گائوں میں آئے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں ہندوستان اور چین کے سرحدی تنازعہ کے بارے میں کچھ ایسا معتدل قسم کا بیان دوں کہ حکومت مجھ پر سے نظر بندی کی پابندی ہٹائے، مگر میں نے ان کا یہ مشورہ ماننے سے صاف انکار کردیا، کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ محض میری آزادی کی خاطر یہ ایک سیاسی بد دیانتی ہوگی اور جس مسئلے کی نوعیت کے بارے میں مجھے پوری طرح آگاہی نہ ہو، اس کے متعلق محض حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس قسم کا کوئی بیان دینا میرے نزدیک صرف موقع پرستی تھی۔

1964 میں جب مجھ پر سے نظر بندی کی یہ پابندی ختم کی گئی تو اس میں بھی تاج محمد کی کوششوں کو بڑا عمل دخل تھا، جس نے بھٹو کی منت سماجت کرکے یہ پابندی ہٹوائی تھی۔ ستمبر 1965 میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ شروع ہوئی تو مجھے پھر گرفتار کرکے سی آئی اے نے لاڑکانہ کے تھانے مراد واہن میں رکھا۔ اس وقت حالات ایسے سخت تھے کہ کوئی بھی سیاسی کارکن ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور آپس میں قریب آنے سے خوفزدہ تھا مگر مولوی نذیر حسین اور تاج محمد ابڑو مجھ سے ملنے تھانے میں آئے اور تسلی دی کہ وہ مجھے رہا کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پھر جب مارشل لاء کے اسی دور میں ہمیں نظر بند کیا گیا تو تاج محمد نے دوڑ دھوپ کرکے اور اس وقت لاڑکانہ کے ڈی سی عبدالسمیع سے لڑجھگڑ کر ہمیں بی کلاس بھی دلوائی۔ پھر تین ماہ کی نظر بندی کے بعد جیل سے رہا ہونے کے بعد کچھ عرصے کے لیے میں نے اپنی تمام سرگرمیاں ترک کردیں۔

1968 میں جب لاڑکانہ میں لاء کالج قائم ہوا تو میں یہاں سے ایل ایل بی کرنے کے بعد 1970 میں وکیل برادری میں شامل ہوگیا۔ اپنے وکالت کے پیشے میں برائے نام شاگرد الٰہی بخش کے رکا رہا اور اسی کے ساتھ وکالت شروع کی، مگر اپنے طالب علمی کے دور میں ہمیشہ تاج محمد کے ساتھ رہا اور پھر وکالت کی رجسٹریشن ہوجانے کے بعد عبدالرزاق سومرو سے مل کر وکالت کرنے لگا۔ ایوب خان کے دور میں تاج محمد لاڑکانہ، میرپورخاص، سبی، کوئٹہ اور دادو وغیرہ میں بطور اے پی پی کام کرتا رہا اور اس دوران پورے سندھ اور بلوچستان میں جو کہ ہمارا سیاسی حلقہ اثر تھا، دوستوں سے میل جول اور مراسم پیدا کرکے لاڑکانہ واپس آیا۔

تاج محمد مرحوم تقریباً 1956 سے شوگر کے موذی مرض میں مبتلا تھا، مگر اس کے حال چال سے کبھی بھی مایوسی اور بے زاری کا اظہار نہ ہوتا تھا۔ بحیثیت اے پی پی کئی ملزم اسے رشوت دینے کی کوشش کرتے تھے اور صرف ایسے موقعوں پر ہی میں نے اسے برہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپے سے باہر ہوتے دیکھا تھا۔ پھر 1972 میں اسے سیشن جج مقرر کردیا گیا تو وہ سندھ میں مختلف مقامات پر تعینات رہا، مگر اس دوران بھی اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں اور ساتھیوں سے دوستی کے مراسم اسی طرح قائم کیے رکھے۔


اس تمام عرصے میں وہ دنیا بھر کے سیاسی حالات کا مطالعہ کرکے ان پر غور و فکر کرتا رہا، جیسا کہ اکثر علم دوست اور دانشور لوگ تحریکوں سے الگ تھلگ ہوجانے کے بعد کرتے ہیں، مگر اس کی سوچ اب انتہاپسندانہ بائیں بازو کی ہوکر رہ گئی تھی، جو صرف ایک خیالی انقلاب لانے کی طرف مائل رہتی ہے، تاہم اس کا ایک رویہ کہ جس نے اسے کبھی گمراہ ہونے نہ دیا، یہ تھا کہ وہ اپنے بائیں بازو کے تمام پرانے دوستوں کے لیے گہری محبت اور قربت کا احساس رکھتا تھا۔

اس نے ہم لوگوں سے اپنی دوستی کبھی ختم نہ کی اور آخری وقت تک اپنے ہوش وحواس قائم رکھے اور موت سے چند گھنٹے پہلے جب میں نے جناح اسپتال میں اس سے آخری ملاقات کی تو مجھے یہ محسوس کرکے بے حد حیرت ہوئی کہ اب بھی وہ سیاسی کام کرنے کے سلسلے میں میری حوصلہ افزائی کررہا تھا اور بجائے اس کے کہ مجھے اپنی ڈھارس بندھانے کا موقع دیتا وہ مجھے اپنے سیاسی موقف پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتا رہا۔ 10 مارچ 1986 کو اس نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔

9 مارچ کو 5،6 بجے شام اس سے ملا تو وہ سرہانے کے سہارے بیٹھا تھا مگر اس کی زبان بند ہوچکی تھی، اس لیے اشارے سے اس نے مجھے ڈان اخبار جو وہاں پڑا تھا، اٹھا کر دینے کے لیے کہا، جس کے اندر کے ایک صفحے پر میری بڑی تصویر انجمن ترقی پسند مصنفین کی پچاس سالہ گولڈن کانفرنس کے سلسلے میں چھپی ہوئی تھی، بڑی مسرت سے مجھے میری یہ تصویر دکھائی۔

مٹھیاں بھینچتے ہوئے اس نے مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشاروں ہی اشاروں میں سلام کیا، گویا کہہ رہا ہو کہ کامریڈ تاج محمد سے اپنی چالیس سالہ دوستی اور کامریڈ شپ کے دور میں، میں نے ایک بار بھی یہ محسوس نہ کیا کہ اس نے کبھی ہمت ہاری ہو، بلکہ اپنی ساری زندگی وہ ایک ہنس مکھ اور مصیبتوں پر بھی ہمیشہ مسکراتا رہنے والا پر عزم انسان تھا، اس کے گھر کے دروازے تمام دوستوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے، کھانے پینے کے معاملے میں فراخدل تھا اور دوستوں کی مالی مدد کرنے میں بھی پیچھے نہ رہتا تھا بلکہ ضرورت مند دوستوں اور کارکنوں کی مدد کرنے کے لیے وہ کسی کھاتے پیتے دوست سے ادھار لے کر بھی وقت گزارنے کے لیے ان کی مدد کرتا۔

کیونکہ وہ یاروں کا یار اور کامریڈوں کا ایک وفادار ساتھی تھا اور تاج محمد کی اس صلح کن طبیعت کی وجہ سے اس کی ججی والے زمانے کے کئی غلط کار لوگوں نے بعض اوقات ناجائز فائدہ بھی اٹھایا، جس کی وجہ سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا، مگر ذاتی طور پر مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مرنے کے بعد وہ اپنے لواحقین کے لیے کوئی ترکہ یا ناجائز جائیداد چھوڑ کر نہیں گیا اور جب سے لاڑکانہ میں تاج محمد کی شام والی محفلیں ختم ہوئی ہیں، میں وہاں اور کسی دوست کی طرف مائل نہیں ہوسکا، کیونکہ لاڑکانہ میں تاج محمد کی محفلوں کے بعد کوئی ایسی محفل باقی نہیں رہی اور نہ ہی میرا دل مانتا ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں اور کسی کے پاس جاکر اپنے دکھ سکھ کا اظہار کروں کیونکہ تاج محمد کے بعد اب یہاں کوئی بھی دوست یا وکیل اس جیسا فراخ دل اور بلند کردار نہیں رہا۔

(سندھ کے نامور دانشور و ادیب تاج محمد ابڑو کی 27 ویں برسی کی مناسبت سے تحریر)
Load Next Story