عوام دوست حکمراں ہوگو شاویز
سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی میں کی جانے والی بڑی اصلاحات کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کا کردار ناہموار ہے
انقلابی ہوگو شاویز تادم مرگ محنت کشوں اورعام شہریوں کی بھلائی کے لیے لڑتا رہا، جس کے نتیجے میں لاطینی امریکا اور دنیا بھر میں انقلابی ہلچل پیدا ہوئی۔ انقلاب سے قبل وینزویلا میں 25 فیصد عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے تھے اور اب 5 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں 350,000 نئے گھر تعمیر کرکے مقامی کونسلوں کے ذریعے تقسیم کیے گئے، یہ گھر سیلابوں، مٹی کے تودوں اور دیگر قدرتی آفات میں بے گھر ہوجانے والوں کو دیے گئے،2 کروڑ70 لاکھ کی آبادی میں سے اس منصوبے کے تحت 15 لاکھ لوگ فیض یاب ہوئے جن میں جھونپڑیوں جیسے تنگ وتاریک گھروں میں رہنے والے بھی شامل ہیں۔
اس برس 380,000 مزید گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ بزرگوں، تنہا والدین اور بے روزگاروں کی بھی قابل ذکر مالی معاونت کی گئی۔ ہوگوشاویز کی بیماری کی وجہ سے سرگرمی میں گزشتہ عرصے غیر حاضری پر 10 جنوری 2013 کو ہونے والی نئی مدت صدارت کے لیے حلف برداری کے التوا کے بعد میڈیا میں نہ صرف شاویز کی سرطان سے صحت یابی بلکہ وینزویلا میں ایک دہائی سے زیادہ مدت سے جاری انقلابی عمل کے مستقبل سے متعلق ہر طرح کی قیاس آرائیاں جاری تھیں، اگرچہ شاویز کا چوتھے آپریشن کے بعد کچھ عرصہ کیوبا میں گزارنے کے بعد واپس وینزویلا پہنچنے کے بعد ہی انتقال ہوا۔
جنوری میں وینزویلا کی عدالت نے حلف برداری کو موخر کرنے کی اجازت دے دی اور شاویز کا نامزد کردہ جانشیں اور نائب صدر نکولس مادورو اس کی عدم موجودگی کے دوران نازک وقت میں قائم مقام صدر کے فرائض انجام دیتے رہے، گزشتہ برس 7 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں شاویز 55 فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے جب کہ حزب اختلاف کا مشترکہ امیدوار ایزک کاپریلس کو 44 فیصد ووٹ پڑے۔ حالیہ صدارتی انتخابات سے قبل اشرافیہ اور عالمی سرمایہ دار میڈیا اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ 1998 کے انتخابات میں شاویزکی فتح کے چودہ برس بعد اب وہ اسے شکست دے کر ایک بار پھر سے دائیں بازوکی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔
لیکن شاویز کے خلاف فتح یاب ہونے کی یہ توقعات بالکل غیر حقیقی بھی نہیں تھی۔ بولیویرین حکومت کے اقتدار میں آنے کے کئی برس بعد بھی، انقلاب مکمل نہیں ہوسکا اور وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ داری ہی مروجہ معاشی نظام ہے۔ اس وجہ سے بے پناہ افراط زر اور شکستہ سماجی ڈھانچے کی وجہ سے بجلی کی طویل بندش جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جو جرائم اور عدم تحفظ میں اضافے کا موجب ہیں۔ حکمران نوکر شاہی کی بدامنی، نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے محنت کشوں اور نوجوانوں کی باشعور پرتوں میں جھنجھلاہٹ بڑھ رہی ہے، لیکن انتخابات کے سال کچھ ایسے عوامل اور اقدامات سامنے آئے جن سے سیاسی اور مالی طور پر امریکی سامراج کی حمایت یافتہ اشرافیہ اور دائیں بازو کی امیدیں اور سپنے خاک میں مل گئے۔
اس برس حکومت نے انقلاب کے سماجی اثرات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اخراجات کیے جس کا لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات کے علاوہ رہائش کے شعبے میں بڑے پیمانے کے اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ حزب اختلاف کے برسر اقتدار آنے پر ان تمام حاصلات اور سہولیات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ شاویز کی فتح کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ انتخابی مہم کی کمزور شروعات کے باوجود شکست کے منڈلاتے ہوئے خطرے نے پی ایس یووی (یونائیٹڈ سوشلسٹ موومنٹ آف وینزویلا) کی قیادت کو انتخابی مہم کو ازسرنو طبقاتی اور نظریاتی بنیادوں پر چلانے اور سرمایہ داری کے خلاف اور انقلابی سوشلزم کا پروگرام دینے پر مجبور کیا۔ اس نے عوام میں تحریک اور انقلابی جذبے کو جنم دیا جو شاویز کی فتح کی کلید بنا۔
سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی میں کی جانے والی بڑی اصلاحات کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کا کردار ناہموار ہے، جس کی وجہ سے نئے تضادات جنم لے رہے ہیں۔ ایک جانب عوام کے معیار زندگی میں قابل ذکر بہتری آئی ہے، جب کہ دوسری طرف پیداواری سماجی ڈھانچے میں بہت کم سرمایہ کاری کی گئی ہے اور سرمایہ داروں نے کئی طریقوں سے معیشت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں پیسے کی بیرون ملک منتقلی اور بنیادی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی وغیرہ شامل ہیں۔ انتخابات کے سال کیے جانے والے بڑے پیمانے کے اخراجات سے معیشت کی حالت بہت نازک ہے، تیل کی آمدنی عالمی منڈی سے کی جانے والی درآمدات کے اخراجات کو پورا نہیں کر رہی ہے۔
بولیوار کرنسی کی زیادہ قدر سے تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے، بجٹ کا حقیقی خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 20 فیصد کے قریب جا پہنچا ہے۔ رد انقلاب نے اس عمل کو روکنے اور واپس لے جانے کی بہت کوششیں کی ہیں۔ 2002 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے شاویز کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ لیکن 48 گھنٹوں میں عوام نے اس بغاوت کو شکست دے دی اور شاویز صدارتی محل میں لوٹ آئے۔ اس وقت انقلاب بہت پرامن انداز میں مکمل ہوسکتا تھا کیونکہ فوج، پولیس، چرچ اور میڈیا مفلوج ہوچکے تھے، انقلاب وینزویلا قدرت کے قوانین کے برخلاف 10 سال سے زیادہ عرصے سے حرکت میں ہے۔
اس وجہ سے یہ ایک غیر معمولی انقلابی عمل ہے جہاں اتنے طویل دورانیے کے بعد بھی حتمی مقاصد حاصل نہیں ہوئے، اگرچہ عوام شاویز کی حمایت اور تعریف کرتے ہیں لیکن وہ سرکاری نوکر شاہی سے سخت متنفر ہیں، اس کے باوجود عوام کی عزم و ہمت حیرت انگیز ہے۔ 16 دسمبر 2012 کو ہونے والے علاقائی انتخابات میں شاویز (جو اس وقت علاج کے لیے کیوبا جارہے تھے) کے امیدواروں کو ہمدردی کا ووٹ ملا۔ پی ایس یووی کے امیدوار گورنروں کی 23 میں سے 20 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اس طرح سے جب دائیں بازو نے شاویز کی بیماری کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی تو عوام نے شاویز کی حمایت میں بہت بڑی ریلی نکال کر حزب اختلاف کو منہ توڑ جواب دیا، شاویز کے علاج کے لیے کیوبا جانے سے نوکر شاہی کے مختلف دھڑوں کے درمیان طاقت کے حصول کی شدید لڑائی شروع ہوگئی۔
اگرچہ اس وقت دایاں بازو اور رد انقلابی قوتیں کئی سالوں تک انقلاب کو تھکا کر ختم کرنے کے طویل مدتی تناظر پر عمل پیرا ہیں، لیکن یہ لوگ سامنے آکر بھی انقلاب کے خلاف وار کرسکتے ہیں۔ شاویز کی جانب سے فوج کی کئی مرتبہ تطہیر کے باوجود مال کمانے والے اشرافیہ جرنیلوں کی جانب سے فوجی بغاوت کا امکان موجود ہے، لیکن سامراج کی کوششیں بولیویرین تحریک کے نوکر شاہی دائیں بازو کے ذریعے رد انقلاب کو کامیاب بنانے پر مرکوز ہیں۔ کیوبا کی جانب جھکاؤ رکھنے والا ماڈورو صدر منتخب ہوجاتا ہے تو یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی اور 10 برس سے خوف میں مبتلا ظالم بورژوازی انتہائی بے رحم رد انقلاب کرسکتی ہے، لیکن عوام اپنے عدم اطمینان کے اظہار کا راستہ تراش رہے ہیں۔
پی ایس یووی کے اندر طبقاتی بنیادوں پر صف آرائی بڑھ رہی ہے۔ اگر محنت کش اور عالم شہری متحد ہوجاتے ہیں، پی ایس یووی سرمایہ دارانہ اثاثوں اور وسائل کو عوامی ملکیت میں لے کر انقلاب کو آگے بڑھاتے ہیں تو اسٹیٹ لیسں سوسائٹی کی جانب جاسکتا ہے جو ایک ایسا امداد باہمی کا معاشرہ تشکیل پائیگا جہاں فطری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔ سارے وسائل اور ملکیت سارے لوگوں کے ہوں گے، پھر انقلاب امریکا تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عالمی انقلاب کی جانب پیش قدمی کرے گا۔
اس برس 380,000 مزید گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ بزرگوں، تنہا والدین اور بے روزگاروں کی بھی قابل ذکر مالی معاونت کی گئی۔ ہوگوشاویز کی بیماری کی وجہ سے سرگرمی میں گزشتہ عرصے غیر حاضری پر 10 جنوری 2013 کو ہونے والی نئی مدت صدارت کے لیے حلف برداری کے التوا کے بعد میڈیا میں نہ صرف شاویز کی سرطان سے صحت یابی بلکہ وینزویلا میں ایک دہائی سے زیادہ مدت سے جاری انقلابی عمل کے مستقبل سے متعلق ہر طرح کی قیاس آرائیاں جاری تھیں، اگرچہ شاویز کا چوتھے آپریشن کے بعد کچھ عرصہ کیوبا میں گزارنے کے بعد واپس وینزویلا پہنچنے کے بعد ہی انتقال ہوا۔
جنوری میں وینزویلا کی عدالت نے حلف برداری کو موخر کرنے کی اجازت دے دی اور شاویز کا نامزد کردہ جانشیں اور نائب صدر نکولس مادورو اس کی عدم موجودگی کے دوران نازک وقت میں قائم مقام صدر کے فرائض انجام دیتے رہے، گزشتہ برس 7 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات میں شاویز 55 فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے جب کہ حزب اختلاف کا مشترکہ امیدوار ایزک کاپریلس کو 44 فیصد ووٹ پڑے۔ حالیہ صدارتی انتخابات سے قبل اشرافیہ اور عالمی سرمایہ دار میڈیا اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ 1998 کے انتخابات میں شاویزکی فتح کے چودہ برس بعد اب وہ اسے شکست دے کر ایک بار پھر سے دائیں بازوکی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔
لیکن شاویز کے خلاف فتح یاب ہونے کی یہ توقعات بالکل غیر حقیقی بھی نہیں تھی۔ بولیویرین حکومت کے اقتدار میں آنے کے کئی برس بعد بھی، انقلاب مکمل نہیں ہوسکا اور وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ داری ہی مروجہ معاشی نظام ہے۔ اس وجہ سے بے پناہ افراط زر اور شکستہ سماجی ڈھانچے کی وجہ سے بجلی کی طویل بندش جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جو جرائم اور عدم تحفظ میں اضافے کا موجب ہیں۔ حکمران نوکر شاہی کی بدامنی، نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے محنت کشوں اور نوجوانوں کی باشعور پرتوں میں جھنجھلاہٹ بڑھ رہی ہے، لیکن انتخابات کے سال کچھ ایسے عوامل اور اقدامات سامنے آئے جن سے سیاسی اور مالی طور پر امریکی سامراج کی حمایت یافتہ اشرافیہ اور دائیں بازو کی امیدیں اور سپنے خاک میں مل گئے۔
اس برس حکومت نے انقلاب کے سماجی اثرات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اخراجات کیے جس کا لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ صحت اور تعلیم کی مفت سہولیات کے علاوہ رہائش کے شعبے میں بڑے پیمانے کے اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ حزب اختلاف کے برسر اقتدار آنے پر ان تمام حاصلات اور سہولیات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ شاویز کی فتح کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ انتخابی مہم کی کمزور شروعات کے باوجود شکست کے منڈلاتے ہوئے خطرے نے پی ایس یووی (یونائیٹڈ سوشلسٹ موومنٹ آف وینزویلا) کی قیادت کو انتخابی مہم کو ازسرنو طبقاتی اور نظریاتی بنیادوں پر چلانے اور سرمایہ داری کے خلاف اور انقلابی سوشلزم کا پروگرام دینے پر مجبور کیا۔ اس نے عوام میں تحریک اور انقلابی جذبے کو جنم دیا جو شاویز کی فتح کی کلید بنا۔
سرمایہ دارانہ رشتوں کی موجودگی میں کی جانے والی بڑی اصلاحات کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کا کردار ناہموار ہے، جس کی وجہ سے نئے تضادات جنم لے رہے ہیں۔ ایک جانب عوام کے معیار زندگی میں قابل ذکر بہتری آئی ہے، جب کہ دوسری طرف پیداواری سماجی ڈھانچے میں بہت کم سرمایہ کاری کی گئی ہے اور سرمایہ داروں نے کئی طریقوں سے معیشت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں پیسے کی بیرون ملک منتقلی اور بنیادی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی وغیرہ شامل ہیں۔ انتخابات کے سال کیے جانے والے بڑے پیمانے کے اخراجات سے معیشت کی حالت بہت نازک ہے، تیل کی آمدنی عالمی منڈی سے کی جانے والی درآمدات کے اخراجات کو پورا نہیں کر رہی ہے۔
بولیوار کرنسی کی زیادہ قدر سے تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے، بجٹ کا حقیقی خسارہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 20 فیصد کے قریب جا پہنچا ہے۔ رد انقلاب نے اس عمل کو روکنے اور واپس لے جانے کی بہت کوششیں کی ہیں۔ 2002 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے شاویز کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ لیکن 48 گھنٹوں میں عوام نے اس بغاوت کو شکست دے دی اور شاویز صدارتی محل میں لوٹ آئے۔ اس وقت انقلاب بہت پرامن انداز میں مکمل ہوسکتا تھا کیونکہ فوج، پولیس، چرچ اور میڈیا مفلوج ہوچکے تھے، انقلاب وینزویلا قدرت کے قوانین کے برخلاف 10 سال سے زیادہ عرصے سے حرکت میں ہے۔
اس وجہ سے یہ ایک غیر معمولی انقلابی عمل ہے جہاں اتنے طویل دورانیے کے بعد بھی حتمی مقاصد حاصل نہیں ہوئے، اگرچہ عوام شاویز کی حمایت اور تعریف کرتے ہیں لیکن وہ سرکاری نوکر شاہی سے سخت متنفر ہیں، اس کے باوجود عوام کی عزم و ہمت حیرت انگیز ہے۔ 16 دسمبر 2012 کو ہونے والے علاقائی انتخابات میں شاویز (جو اس وقت علاج کے لیے کیوبا جارہے تھے) کے امیدواروں کو ہمدردی کا ووٹ ملا۔ پی ایس یووی کے امیدوار گورنروں کی 23 میں سے 20 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ اس طرح سے جب دائیں بازو نے شاویز کی بیماری کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی تو عوام نے شاویز کی حمایت میں بہت بڑی ریلی نکال کر حزب اختلاف کو منہ توڑ جواب دیا، شاویز کے علاج کے لیے کیوبا جانے سے نوکر شاہی کے مختلف دھڑوں کے درمیان طاقت کے حصول کی شدید لڑائی شروع ہوگئی۔
اگرچہ اس وقت دایاں بازو اور رد انقلابی قوتیں کئی سالوں تک انقلاب کو تھکا کر ختم کرنے کے طویل مدتی تناظر پر عمل پیرا ہیں، لیکن یہ لوگ سامنے آکر بھی انقلاب کے خلاف وار کرسکتے ہیں۔ شاویز کی جانب سے فوج کی کئی مرتبہ تطہیر کے باوجود مال کمانے والے اشرافیہ جرنیلوں کی جانب سے فوجی بغاوت کا امکان موجود ہے، لیکن سامراج کی کوششیں بولیویرین تحریک کے نوکر شاہی دائیں بازو کے ذریعے رد انقلاب کو کامیاب بنانے پر مرکوز ہیں۔ کیوبا کی جانب جھکاؤ رکھنے والا ماڈورو صدر منتخب ہوجاتا ہے تو یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی اور 10 برس سے خوف میں مبتلا ظالم بورژوازی انتہائی بے رحم رد انقلاب کرسکتی ہے، لیکن عوام اپنے عدم اطمینان کے اظہار کا راستہ تراش رہے ہیں۔
پی ایس یووی کے اندر طبقاتی بنیادوں پر صف آرائی بڑھ رہی ہے۔ اگر محنت کش اور عالم شہری متحد ہوجاتے ہیں، پی ایس یووی سرمایہ دارانہ اثاثوں اور وسائل کو عوامی ملکیت میں لے کر انقلاب کو آگے بڑھاتے ہیں تو اسٹیٹ لیسں سوسائٹی کی جانب جاسکتا ہے جو ایک ایسا امداد باہمی کا معاشرہ تشکیل پائیگا جہاں فطری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔ سارے وسائل اور ملکیت سارے لوگوں کے ہوں گے، پھر انقلاب امریکا تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عالمی انقلاب کی جانب پیش قدمی کرے گا۔