دور حاضر کی بنت حوا مشکلات میں

ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں43فیصد خواتین دیہی کاموں سے منسلک ہیں۔

عورت کے کئی روپ ہیں، وہ ماں، بہن،بیٹی، بیوی جیسے حسین رشتے سے وابستہ ہے، عورت کے دم سے ہی اس کائنات میں روشنی اورخوبصورتی ہے۔ عورت کو صنف نازک کہاجاتاہے مگر جب مشکل وقت اس صنف نازک پر پڑتاہے تو یہی صنف نازک مضبوط پہاڑکی مانند بن جاتی ہے مگر افسوس ایشیائی ممالک میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں سے امتیازی سلوک برتا جاتاہے، ہمارے اپنے گھرانوں میں لڑکی کے بجائے لڑکے کو بہت اہمیت حاصل ہے اور کسی عورت کے یہاں لڑکیاں زیادہ پیدا ہوجائے اور لڑکا پیدا نہ ہو تو اس بے چاری عورت کی زندگی کا دائرہ کافی حد تک تنگ کردیاجاتاہے، ایک رپورٹ کے مطابق ایشیاء میں60فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔

25نومبر2012خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف عالمی دن منایاگیا، اس موقعے پر جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2011 اور 2012 میں پاکستان میں خواتین پر تشدد میں 49 فیصدغیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں مں27فیصد اور گھریلو تشدد کے واقعات میں26فیصد اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ دو تین برس خواتین سے متعلق7قوانین منظور کیے گئے، تاہم اس پر ابھی تک عمل نہیں کیاجاسکا جیسے کاروکاری کے بارے میں بل تو منظور ہوچکا ہے لیکن ابھی کئی نکات وضاحت طلب ہیں۔ماضی کی طرح خواتین کی بہتری ترقی اور فلاح وبہبود کے لیے خوش کن دعوے کیے گئے لیکن عملا ان کے کوئی ثمرات دیکھنے میں نہیں آئے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں43فیصد خواتین دیہی کاموں سے منسلک ہیں، جنوبی پنجاب کے صرف 19اضلاع میں12لاکھ عورتیں کھیتی باڑی سے وابستہ ہیں،لیکن ان خواتین کو نہ صرف کم معاوضہ ملتا ہے بلکہ ماحول بھی سازگار نہیں، اسی طرح گھروں میں دست کار اور محنت کش خواتین کا معاوضوں کی ادائیگی کے حوالے سے بہت استحصال کیاجاتاہے۔ رپورٹ کے مطابق3فیصد عورتوں کے بچے پیدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں،پاکستان میں ایک ہزار خواتین میں64خواتین زچگی کے وقت مرجاتی ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے ایک تقریب میں بتایاکہ موجودہ دور حکومت میں خواتین کے حقوق کے لیے24بل منظور کیے گئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے بارے میں تمام آئینی اقدامات سست روی کا شکار کیوں ہیں؟

رپورٹ کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے سب سے زیادہ واقعات سندھ میں ریکارڈ کیے گئے ہیں،18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ اختیاردیاگیا کہ وہ خواتین کو با اختیار بنانے اور ان کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کریں اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے2012 میں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر خواتین کے لیے ایک جامع پیکیج، ہیلپ لائن اور کرائسس سینٹرزجیسی سہولتوں کا اعلان کیا، لیکن افسوس اس کے بعد عملاً کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔

ہمارے ملک میں قانون تو بن جاتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم اپنی انتہا پر ہے،کبھی عورت کو زندہ جلادیاگیا تو کبھی بے چاری پر تیزاب پھینکا گیا اور کبھی تو سرعام اس کی عزت کو لوٹا گیا، پاکستان میں عورت کو کبھی جائیداد کے نام پر،کبھی عزت کے نام پر قتل کیاگیا،ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان عورتوں کے لیے بے حد ناک خطرناک ملک میں شمار کیا جاتاہے،اس کا شمار2نمبر پر آتاہے تو سوچیے اسے ملک میں خواتین کو کیسے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے کیسے کیسے حالات سے گزرنا پڑتاہوگا۔

جو مقام ہمارے پیارے نبیؐ نے ہم کو دیا آج وہ مقام عورت سے چھین لیاگیا ہے، دین اسلام میں سب سے پہلے ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو حقوق دلائے، ان کو معاشرے میں اعلیٰ مقام دلایا مگر وقت کے ساتھ ساتھ لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو بھولتے ہی چلے گئے اور جو مقام ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو دیا ہے۔آج معاشرے میں وہ مقام عورت سے چھین لیاگیاہے۔دوبارہ عورت پر ظلم شروع کردیا گیا ہے جو اسلام سے قبل ہوا کرتے تھے۔ آج اکیسویں صدی میں عورت کو جو مقام حاصل ہونا چاہیے تھاآج کے مرد نے اس سے چھین لیے اور ظلم وزیادتی کا نشانہ بنارہے ہیں، آہستہ آہستہ یہ ظلم بڑھتا گیا یہاں تک کہ چھوٹی معصوم بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایاگیا۔


کہاجاتاہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتاہے اور یہ حقیقت بھی ہے، دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ بھی ہے کہ جتنے بھی پیغمبر وبزرگان دین دنیا میں تشریف لائے ان کو پیدا کرنے کا شرف اسی عورت کو حاصل ہوا جس نے ماں کی صورت میں عظیم لوگوں کو پیدا کیا اور آج ویسی عورت کے ساتھ حقیر رویہ اختیارکیا جا رہا ہے۔

حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ بے شمار رکاوٹوں اور مردوں کی بالادست سوسائٹی کے باوجود پاکستانی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں یہ بہت بڑی بات ہے، پاکستان جیسے ملک میں جہاں عورت کو حقیر سمجھاجاتاہے وہاں اب عورتوں میں اپنے حقوق کا بہت شعور آچکا ہے وہ زندگی کے ہر شعبے میں سرگرم عمل دکھائی دیتی ہے، پاکستانی عورت اپنی ہمت سے کئی گنا زیادہ محنت کررہی ہیں، اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اگرچہ خواتین نے انفرادی طورپر زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا احساس دلایاہے، تاہم مجموعی طورپر2012میں بھی یہ روایتی تاثر برقرار رہا کہ پاکستانی خواتین بہر حال پس ماندگی، استحصال اور زیادتیوں کا شکار ہے اور تمام ترکوششوں کے باوجود اسے مردوں کی برابری کے لیے ابھی ایک طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔

دنیا کے ممالک کا اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جہاں جہاں خواتین کو آزادی دی گئی ان کے حقوق کو سرکاری طورپر تسلیم کیاگیا، خواتین کے حقوق کے لیے قانونی شکل میں ان کو تحفظ دے کر زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے وہ سارے ممالک ترقی یافتہ ممالک کہلاتے ہیں، ان کی ترقی میں اہم کردار خواتین کا ہے، ترقی یافتہ ممالک اس راز کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں، تبھی یورپ کی خواتین اپنے ملک کی ترقی کے لیے بہت محنت کرتی ہیں اور ان کو مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور آج وہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں، کیونکہ ان کے معاشرے نے خواتین کو تمام حقوق اور مواقع فراہم کیے ہیں۔ ان سے خواتین اور ان کا ملک ترقی کی طرف گامزن ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر عورتوں کی کم عمری میں شادیوں کا رجحان برقرار رہا تو اگلی دہائی کے دوران142ملین لڑکیاں18سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی بیاہ دی جائیںگی تو روزانہ37000بچیوں کی شادیاں ہورہی ہیں، کم عمری میں شادیوں کا رجحان کا بڑا حصہ جنوبی ایشیا میں آتاہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے، ہمارے ہاں پاکستان میں عورت کیسے آگے بڑھے گی، کیسے ترقی کرسکتی ہے چھوٹی عمر میں شادی کردی جاتی ہے پھر عورت کا گھر سے نکلنا بہت زیادہ برا سمجھاجاتاہے اگر عورت گھر سے مجبوری میں نکل رہی ہے توبھی اس کو شک کی اور بری نظر سے دیکھاجاتاہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں نصف خواتین ناخواندہ اور60فیصد کی دسترس سے اسکول ہی باہر ہے۔2012 میں نیو یارک میں دی کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کے56ویں اجلاس میں دنیا بھر میں دیہات میں رہنے والی خواتین کی ایک چوتھائی آبادی کی بہتری کے لیے خصوصی اقدامات کی سفارش کی گئی۔اگر پاکستان کو ترقی کی طرف گامزن کرنا ہے تو عورتوں کو ان کے حقوق دینے ہوںگے اور جو ملک میں عورتوں کے حقوق کے لیے جو قانون بنایاگیاہے اس پر فوری عمل بھی بے حد ضروری ہے۔

جب تک عورتوں کو مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقعے فراہم نہیں کیے جائیںگے اور جہاں وہ ملازمت کرتی ہے ان کو اچھا ماحول فراہم نہیں کیاجائے گا، عورتوں کو حقیر سمجھا جائے گا وہ ملک ترقی نہیں کرسکتا نہ خوشحال بن سکتا ہے۔

اتنے ترقی یافتہ دور میں مگر ہمارے یہاں لوگوں کی سوچوں نے ابھی ترقی نہیں کی ہے ہمیں اپنی سوچوں کو مثبت کرنے کی ضرورت ہے ہماری سوچ بدلے گی تو ملک کی تقدیر بدلے گی،عورت کو وہ تمام حقوق دینے چاہیے جو اسلام نے عورت کو دیے ہیں تو پھر ہمارا ملک پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے تو پھر خواتین کے حقوق دینے میں اتنا پیچھے کیوں رہ گیاہے؟ خواتین کے حقوق کے لیے قانون تو بنالیے گئے مگر پھر کیوں ان پر عمل نہیں ہوا؟

''جب تک ہر پاکستانی مرد اپنی سوچ کو مثبت نہیں کرے گا دور حاضرکی بنت حوا ایسی ہی مشکلات کا شکار رہے گی،،
Load Next Story