مکتوب مسقط
مسقط کا باغبانی کا شعبہ بھی انتہائی قابل تعریف ہے جس نے ریگستان کو ہرے بھرے نخلستان میں تبدیل کردیا ہے۔
گزشتہ 18 نومبر کو سلطنت عمان میں عید کا سا سماں تھا، کیونکہ اس روز جلالت مآب سلطان قابوس بن سعید کے برسر اقتدار آنے کی 47 ویں سالگرہ تھی۔ اسی سال اس جشن کا عنوان تھا ''عمان کے عوام کی خوشحالی کے 47 سال''۔ بلاشبہ یہ عنوان حقیقت حال کے عین مطابق اور حرف بہ حرف درست تھا، کیونکہ شاہ عمان نے ان 47 برسوں میں اپنے ملک اور اس کے عوام کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ ملک کے وہ بزرگ شہری جو سلطان کے برسر اقتدار آنے کے وقت موجود تھے اور آج بھی بقید حیات ہیں اس انقلابی تبدیلی کے عینی شاہد ہیں۔
حسن اتفاق سے اس مرتبہ ہم نے اس قومی دن کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، کیونکہ ان دنوں ہم عمان کے دارالخلافہ مسقط میں اپنی بیٹی اور داماد کے یہاں قیام پذیر ہیں، جن کی رہائش گاہ شارع 18 نومبر سے متصل چند سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ اگرچہ اس بار کفایت شعاری کے نکتہ نظر سے اس مرتبہ یہ قومی دن قدرے سادگی سے منایا گیا، تاہم اس کی شان دیدنی تھی۔
مسقط کی اہم شاہراہوں اور عمارتوں کو رنگارنگ برقی قمقموں سے نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور ہر طرف جھنڈے ہی جھنڈے لہرا رہے تھے۔ سارے شہر میں عید کا سا سماں تھا اور جا بہ جا ''عیدالوطنی'' کے بینرز آویزاں تھے۔ تمام بڑے بڑے مالز میں ''تنزیلات'' کے عنوان سے خصوصی رعایتی سیلز کا اہتمام کیا گیا تھا، جو رواں ماہ کے اختتام تک جاری رہے گا۔ ہم نے اس سے قبل اس جشن کے قصے لوگوں کی زبانی سنے تھے لیکن سنی سنائی اور آنکھوں دیکھی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
وہ عمان جہاں کبھی خاک دھول اڑا کرتی تھی آج مشرق وسطیٰ کا سلامتی و ترقی اور خوشحالی کا گہوارا ہے۔ ملک کے عوام ہر غم اور فکر سے آزاد سلطان قابوس کے راج میں چین کی بنسی بجاتے ہیں اور راتوں کو لمبی تان کر سوتے ہیں۔ سب کی جان بھی محفوظ ہے اور مال و عزت و آبرو بھی۔ کسی کو کوئی خوف ہے نہ خطرہ۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن ہے اور ہر ایک کو اپنے کام سے کام ہے۔
پورے ملک میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک قانون کی حکمرانی بالکل واضح طور پر نظر آتی ہے۔ انصاف کے لیے عدالتیں موجود ہیں جہاں انصاف ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور رشوت ستانی اور سفارش یا دباؤ کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انصاف ستا بھی ہے اور بلاتاخیر بھی۔ عوام کو انصاف کے لیے برسوں تک دھکے نہیں کھانے پڑتے۔
خاص بات یہ کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک بھی نہیں کیا جاتا اور ملکی و غیر ملکی میں بھی کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ تھانہ کلچر کا وجود تو درکنار یہاں اس کا تصور تک نہیں ہے۔ یہاں کی پولیس فعال اور فرض شناس ہونے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ پولیس کے عمدہ نظام ہی کی بدولت یہاں کے شہری کھلے کواڑوں سوتے ہیں۔ چوری چکاری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر غیر ملکی ہی ملوث پائے جاتے ہیں جس کی وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ راوی پوری سلطنت میں چین ہی چین لکھتا ہے اور ملک کے عوام میں شاہ کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
سلطان المعظم ایک خدا ترس اور عوام دوست حکمراں ہیں جنھیں عوام کے سکھ چین اور فلاح و بہبود سے گہری دلچسپی ہے۔ عوام ہی ان کی توجہ کا اصل مرکز ہیں۔ انھیں ہر آن اپنے عوام کی بھلائی اور خوشحالی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے عوام پر ٹیکسوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ عوام کے لیے صحت اور تعلیم بالکل مفت ہے جس پر سب سے زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ ااسکول کی سطح سے لے کر کالج اور یونیورسٹی لیول تک پڑھائی بالکل مفت ہے۔
دوسری جانب ہر قسم کی طبی سہولتیں بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں جس میں بڑے سے بڑا سرجیکل آپریشن بھی شامل ہے۔ عوام دوستی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔ سلطان قابوس کی عوام دوستی کا عالم یہ ہے کہ دو چار گھروں پر مشتمل آبادی کے لیے بھی نہ صرف پختہ سڑک کا بندوبست ہے بلکہ بجلی اور پانی جیسی دیگر تمام مطلوبہ شہری سہولتیں بدرجہ اتم دستیاب ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سہولتیں انتہائی کم نرخوں(Subsidised Rates) پر حکومت کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جس کا امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سلطان یہ نظام اپنے وزیروں اور مخلص مشیروں کی مدد اور تعاون سے بخوبی چلا رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان وزیروں اور مشیروں کی آمدورفت سے ٹریفک کا نظام ذرا بھی متاثر نہیں ہوتا اور ''ہٹو بچو!'' والی صورتحال بھی پیدا نہیں ہوتی۔ عین ممکن ہے کہ کسی شام آپ مسقط کے جس ریسٹورنٹ میں آپ لطف اندوز ہورہے ہوں، اس کے آس پاس والی کسی میز پر کوئی وزیر باتدبیر بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ براجمان ہوں۔ یہ روایت ہمارے وی آئی پی جمہوری کلچر کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔
داخلہ پالیسی کے علاوہ سلطان المعظم کی خارجہ پالیسی بھی انتہائی کامیاب اور لائق تحسین ہے۔ دنیا کے حالات اور تبدیلیوں پر بھی ان کی نظر بہت گہری ہے۔ ان کی دوررس نگاہیں عالمی منظر نامے پر ہمہ وقت مرکوز ہیں۔ وقت کے طوفانوں سے اپنے ملک کو کامیابی سے بچا کر رکھنے کا ہنر بھی انھیں خوب آتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ بیرون ممالک کے پے درپے دورے کیے بغیر بھی وہ اپنے ملک میں بیٹھے بیٹھے عالمی شطرنج کی بساط پر اپنی تمام چالیں انتہائی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔
یہ اسی کا ثمر ہے کہ دنیا بھر میں مچی ہوئی ہلچل کے باوجود عمان مشرق وسطیٰ میں امن و سکون کا ایک گوشہ عافیت ہے۔ اور اس کا کسی بھی ملک کے ساتھ کوئی پنگا نہیں ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کی یہ ایک قابل رشک مثال ہے۔ دریں اثنا سلطنت عمان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ دوستی کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے اور قوموں کی برادری میں اسے بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ بات بھی لائق تحسین اور قابل ذکر ہے کہ تیل کی قیمتوں میں گزشتہ بحرانی زوال پذیری کے باوجود عمان ترقی کی راہ پر بدستور تیزی سے گامزن ہے اور اس کے تمام ترقیاتی منصوبے مسلسل جاری و ساری ہیں۔
وطن عزیز پاکستان کے ساتھ سلطنت عمان کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور عمان کی مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات بہت پسند کی جاتی ہیں۔ دفاعی شعبے میں بھی عمان پاکستان کے تعاون سے بڑا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ عمان کی ترقی و تعمیر میں پاکستان کے ہنرمندوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں کا تو تعمیر کے شعبے میں کوئی مدمقابل ہی نہیں ہے کیونکہ سخت ترین موسمی حالات میں ان جیسی مشقت کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔
مسقط عمان کا محض دارالخلافہ ہی نہیں بلکہ صنعتی و تجارتی مرکز بھی ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ نظر آتے ہیں جن میں ہندوستانی، بنگلہ دیشی اور پاکستانی شہری نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ عمان کی تقریباً دو تہائی آبادی اسی بندرگاہی دارالخلافہ میں مقیم ہے جس میں غالب اکثریت غیر ملکی شہریوں بشمول پاکستانی شہریوں کی ہے۔ اس شہر کا ٹریفک کا نظام قابل رشک ہے۔ ٹریفک کے قوانین نہ صرف سخت ہیں بلکہ ان پر عمل بھی سختی سے کیا جاتا ہے۔
ٹریفک سگنل توڑنے کی انتہائی سزا حوالات ہے جس میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوتی، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ مسقط کا میونسپل نظام بھی قابل تعریف ہے۔ مخصوص فاصلوں پر کچرے کی ٹرالیوں کا بندوبست ہے جہاں سے صفائی کا عملہ نہایت پابندی کے ساتھ وقت مقررہ پر کچرا اٹھاتا ہے۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل سوار اور پیدل کچرا اٹھانے والے اپنے اپنے کام میں جا بہ جا مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
مسقط کا باغبانی کا شعبہ بھی انتہائی قابل تعریف ہے جس نے ریگستان کو ہرے بھرے نخلستان میں تبدیل کردیا ہے۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔ مسقط روشنیوں کا شہر ہے جو رات کے وقت برقی قمقموں سے خوب چمکتا اور جگمگاتا ہے جیسا کبھی اپنا شہر کراچی ہوا کرتا تھا۔ ہائے ہائے!
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی بھی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
حسن اتفاق سے اس مرتبہ ہم نے اس قومی دن کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، کیونکہ ان دنوں ہم عمان کے دارالخلافہ مسقط میں اپنی بیٹی اور داماد کے یہاں قیام پذیر ہیں، جن کی رہائش گاہ شارع 18 نومبر سے متصل چند سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ اگرچہ اس بار کفایت شعاری کے نکتہ نظر سے اس مرتبہ یہ قومی دن قدرے سادگی سے منایا گیا، تاہم اس کی شان دیدنی تھی۔
مسقط کی اہم شاہراہوں اور عمارتوں کو رنگارنگ برقی قمقموں سے نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور ہر طرف جھنڈے ہی جھنڈے لہرا رہے تھے۔ سارے شہر میں عید کا سا سماں تھا اور جا بہ جا ''عیدالوطنی'' کے بینرز آویزاں تھے۔ تمام بڑے بڑے مالز میں ''تنزیلات'' کے عنوان سے خصوصی رعایتی سیلز کا اہتمام کیا گیا تھا، جو رواں ماہ کے اختتام تک جاری رہے گا۔ ہم نے اس سے قبل اس جشن کے قصے لوگوں کی زبانی سنے تھے لیکن سنی سنائی اور آنکھوں دیکھی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
وہ عمان جہاں کبھی خاک دھول اڑا کرتی تھی آج مشرق وسطیٰ کا سلامتی و ترقی اور خوشحالی کا گہوارا ہے۔ ملک کے عوام ہر غم اور فکر سے آزاد سلطان قابوس کے راج میں چین کی بنسی بجاتے ہیں اور راتوں کو لمبی تان کر سوتے ہیں۔ سب کی جان بھی محفوظ ہے اور مال و عزت و آبرو بھی۔ کسی کو کوئی خوف ہے نہ خطرہ۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن ہے اور ہر ایک کو اپنے کام سے کام ہے۔
پورے ملک میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک قانون کی حکمرانی بالکل واضح طور پر نظر آتی ہے۔ انصاف کے لیے عدالتیں موجود ہیں جہاں انصاف ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور رشوت ستانی اور سفارش یا دباؤ کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انصاف ستا بھی ہے اور بلاتاخیر بھی۔ عوام کو انصاف کے لیے برسوں تک دھکے نہیں کھانے پڑتے۔
خاص بات یہ کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک بھی نہیں کیا جاتا اور ملکی و غیر ملکی میں بھی کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ تھانہ کلچر کا وجود تو درکنار یہاں اس کا تصور تک نہیں ہے۔ یہاں کی پولیس فعال اور فرض شناس ہونے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ پولیس کے عمدہ نظام ہی کی بدولت یہاں کے شہری کھلے کواڑوں سوتے ہیں۔ چوری چکاری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر غیر ملکی ہی ملوث پائے جاتے ہیں جس کی وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔ راوی پوری سلطنت میں چین ہی چین لکھتا ہے اور ملک کے عوام میں شاہ کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
سلطان المعظم ایک خدا ترس اور عوام دوست حکمراں ہیں جنھیں عوام کے سکھ چین اور فلاح و بہبود سے گہری دلچسپی ہے۔ عوام ہی ان کی توجہ کا اصل مرکز ہیں۔ انھیں ہر آن اپنے عوام کی بھلائی اور خوشحالی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے عوام پر ٹیکسوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ عوام کے لیے صحت اور تعلیم بالکل مفت ہے جس پر سب سے زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ ااسکول کی سطح سے لے کر کالج اور یونیورسٹی لیول تک پڑھائی بالکل مفت ہے۔
دوسری جانب ہر قسم کی طبی سہولتیں بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں جس میں بڑے سے بڑا سرجیکل آپریشن بھی شامل ہے۔ عوام دوستی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوسکتا ہے۔ سلطان قابوس کی عوام دوستی کا عالم یہ ہے کہ دو چار گھروں پر مشتمل آبادی کے لیے بھی نہ صرف پختہ سڑک کا بندوبست ہے بلکہ بجلی اور پانی جیسی دیگر تمام مطلوبہ شہری سہولتیں بدرجہ اتم دستیاب ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ سہولتیں انتہائی کم نرخوں(Subsidised Rates) پر حکومت کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جس کا امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سلطان یہ نظام اپنے وزیروں اور مخلص مشیروں کی مدد اور تعاون سے بخوبی چلا رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان وزیروں اور مشیروں کی آمدورفت سے ٹریفک کا نظام ذرا بھی متاثر نہیں ہوتا اور ''ہٹو بچو!'' والی صورتحال بھی پیدا نہیں ہوتی۔ عین ممکن ہے کہ کسی شام آپ مسقط کے جس ریسٹورنٹ میں آپ لطف اندوز ہورہے ہوں، اس کے آس پاس والی کسی میز پر کوئی وزیر باتدبیر بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ براجمان ہوں۔ یہ روایت ہمارے وی آئی پی جمہوری کلچر کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے۔
داخلہ پالیسی کے علاوہ سلطان المعظم کی خارجہ پالیسی بھی انتہائی کامیاب اور لائق تحسین ہے۔ دنیا کے حالات اور تبدیلیوں پر بھی ان کی نظر بہت گہری ہے۔ ان کی دوررس نگاہیں عالمی منظر نامے پر ہمہ وقت مرکوز ہیں۔ وقت کے طوفانوں سے اپنے ملک کو کامیابی سے بچا کر رکھنے کا ہنر بھی انھیں خوب آتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ بیرون ممالک کے پے درپے دورے کیے بغیر بھی وہ اپنے ملک میں بیٹھے بیٹھے عالمی شطرنج کی بساط پر اپنی تمام چالیں انتہائی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔
یہ اسی کا ثمر ہے کہ دنیا بھر میں مچی ہوئی ہلچل کے باوجود عمان مشرق وسطیٰ میں امن و سکون کا ایک گوشہ عافیت ہے۔ اور اس کا کسی بھی ملک کے ساتھ کوئی پنگا نہیں ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کی یہ ایک قابل رشک مثال ہے۔ دریں اثنا سلطنت عمان دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ دوستی کے فروغ کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے اور قوموں کی برادری میں اسے بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ بات بھی لائق تحسین اور قابل ذکر ہے کہ تیل کی قیمتوں میں گزشتہ بحرانی زوال پذیری کے باوجود عمان ترقی کی راہ پر بدستور تیزی سے گامزن ہے اور اس کے تمام ترقیاتی منصوبے مسلسل جاری و ساری ہیں۔
وطن عزیز پاکستان کے ساتھ سلطنت عمان کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور عمان کی مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات بہت پسند کی جاتی ہیں۔ دفاعی شعبے میں بھی عمان پاکستان کے تعاون سے بڑا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ عمان کی ترقی و تعمیر میں پاکستان کے ہنرمندوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں کا تو تعمیر کے شعبے میں کوئی مدمقابل ہی نہیں ہے کیونکہ سخت ترین موسمی حالات میں ان جیسی مشقت کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔
مسقط عمان کا محض دارالخلافہ ہی نہیں بلکہ صنعتی و تجارتی مرکز بھی ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ نظر آتے ہیں جن میں ہندوستانی، بنگلہ دیشی اور پاکستانی شہری نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ عمان کی تقریباً دو تہائی آبادی اسی بندرگاہی دارالخلافہ میں مقیم ہے جس میں غالب اکثریت غیر ملکی شہریوں بشمول پاکستانی شہریوں کی ہے۔ اس شہر کا ٹریفک کا نظام قابل رشک ہے۔ ٹریفک کے قوانین نہ صرف سخت ہیں بلکہ ان پر عمل بھی سختی سے کیا جاتا ہے۔
ٹریفک سگنل توڑنے کی انتہائی سزا حوالات ہے جس میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوتی، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ مسقط کا میونسپل نظام بھی قابل تعریف ہے۔ مخصوص فاصلوں پر کچرے کی ٹرالیوں کا بندوبست ہے جہاں سے صفائی کا عملہ نہایت پابندی کے ساتھ وقت مقررہ پر کچرا اٹھاتا ہے۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل سوار اور پیدل کچرا اٹھانے والے اپنے اپنے کام میں جا بہ جا مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
مسقط کا باغبانی کا شعبہ بھی انتہائی قابل تعریف ہے جس نے ریگستان کو ہرے بھرے نخلستان میں تبدیل کردیا ہے۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔ مسقط روشنیوں کا شہر ہے جو رات کے وقت برقی قمقموں سے خوب چمکتا اور جگمگاتا ہے جیسا کبھی اپنا شہر کراچی ہوا کرتا تھا۔ ہائے ہائے!
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی بھی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے