چٹاگانگ کے ہیرو نواب صاحب ٹائیگرپاس

نواب صاحب ٹائیگر پاس ماہنامہ ینگ چینل پندرہ روزہ ینگ وائس کے سن انیس سو ترانوے سے انیس سو اٹھانوے تک مدیراعلیٰ رہے۔

نواب صاحب ٹائیگر پاس ماہنامہ ینگ چینل پندرہ روزہ ینگ وائس کے سن انیس سو ترانوے سے انیس سو اٹھانوے تک مدیراعلیٰ رہے۔فوٹو: سوشل میڈیا

پاکستان کی تقسیم (سقوط ڈھاکہ۔ 1971)یقینا ہماری قومی تاریخ کا انتہائی غم ناک حصہ ہے ، مگر بدترین بات یہ ہے کہ اُس وقت کے متحدہ پاکستان کے محافظوں اور ہیروز کے نام عوام الناس کے لیے اجنبی ہیں۔خواہ ہماری مسلح افواج کے بہادر جرنیل ، افسراور سپاہی ہوں یا عام شہری ، ہم فقط چند ایک کے نام ہی بتاسکتے ہیں۔

ہم میں سے کتنے ہیں جو لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان ، آخری کمانڈر آف ایسٹرن کمانڈ کے اس بے مثل کردار سے واقف ہیں جو انہوں نے مذاکرات کے ذریعے، پاکستان کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے ادا کیا تھا؟ بہرحال اس وقت میرا موضوع ہے، نواب سید شاہ محمد یوسف رضا بخاری المعروف نواب صاحب ٹائیگر پاس یا ہیرو آف چٹاگانگ کی ذات۔

نواب سید شاہ محمد یوسف رضا بخاری ، سن انیس سو ستائیس میں بھاگل پور، بہار (ہندوستان) کے تاریخی شہر مولانا چک یا (مُلا چک) میں پیداہوئے۔ان کے والد مولانا سید محمدفائق بخاری،بِہارہائی کورٹ کے رجسٹرار تھے ، جبکہ دادا اپنے دور میں بہار کے صدرِاعلیٰ (فرسٹ کلاس مجسٹریٹ) ہواکرتے تھے۔ ان کا نسب عظیم صوفی مولانا سید شہباز بخاری بھاگل پوری سے ملتا ہے۔ شہباز بخاری کے والد نے قدیم شہر بخارا ِازبکستان سے بہار کی طرف ہجرت کی تھی، جہاں شہباز بخاری پیداہوئے۔یہ وہی بزرگ تھے جنہوں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کو ولی عہدی کے لیے دعا سے نوازا تھا۔آج بھی شہباز بخاری کا مزار بھاگل پور میں مرجع خلائق ہے جہاں دنیا بھر سے عقیدت مند جمع ہوکر اُن کا عُرس مناتے ہیں۔ خانقاہ شہبازیہ ، منسوب بہ حضرت مولانا سید شہباز بخاری کے موجودہ متولی شاہ اشتیاق عالم ہیں۔

تقسیم پاکستان کی سازش کی کامیابی کے بعد سقوط ڈھاکہ سے کچھ ماہ قبل،تین مارچ سن انیس سو اکہتر کو علی الصباح ، نواب صاحب،اپنے دفتر جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔اُن کی سرکاری قیام گاہ کے مقابل چٹاگانگ بحریہ کا صدردفتر واقع تھا۔مکتی باہنی بڑے پیمانے پر خون بہانے میں مصروف تھی، مگر، نواب صاحب اپنے کمپاؤنڈ تک محدود رہنے پر مجبورتھے، کیوں کہ کمانڈران چیف نے انہیں جوابی وار کرنے سے منع کردیا ہندوستان کی پشت پناہی سے دہشت گردی کرنے والی ملیشیا چٹاگانگ کے خوبصورت شہرکو خون میں نہلانے کے لیے کمربستہ تھی۔ ایسے میں نواب یوسف رضا بخاری اور ان کی اہلیہ نے ، بڑے اعتماد سے،مزاحمت شروع کردی، حالانکہ انہیں کہیں سے بھی کوئی مدد حاصل نہیں تھی۔

مکتی باہنی کے سیکڑوں شدت پسندوں نے ان کے اپارٹمینٹ کا محاصرہ کرکے ، محصور گھرانے کو زندہ جلانے کے لیے ، گھر پرپیٹرول چھڑک دیا۔حق کے خلاف باطل کی یہ لڑائی ، بہادر نواب صاحب کو اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی نہ ہٹاسکی، باوجودیکہ سقوط ڈھاکہ کا منظرنامہ تیار تھا۔وہ بفضل خدا،معجزانہ طور پر اپنے گھرانے سمیت محفوظ رہے ۔اورپھر امداد آپہہنچی ، جب کمانڈران چیف نے خون آشام غنڈوں سے لڑنے کا اِذن دیا اور کمانڈر حاجی محمد اسلم (لالہ موسیٰ، پنجاب) ، شعلوں میں گھِری نواب فیملی کو بارہ گھنٹے کی تنہا جنگ کے بعد، اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب رہے۔

بہرحال، یہ کوئی اختتام نہ تھا ، کیوں کہ مسلح غدار نواب صاحب اور اُن کے گھرانے کو قتل کرنے کی پوری کوشش کررہے تھے۔کمانڈر حاجی محمد اسلم اور کیپٹن حفیظ (۲۰۔بلوچ رجمنٹ، پاکستان آرمی)بہت احتیاط سے ، اُن کے بچاؤ اور مغربی پاکستان روانگی کے لیے پہنچے، جہاں کراچی کے ہوائی اڈے پر ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل فاطمی اور ہزاروں شہریوں نے اُن کا خیرمقدم کیا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے اسلام آباد تشریف لے گئے اور ان سے اپنے گھرانے کے ، جنگ سے تباہ حال ، چٹاگانگ شہر سے محفوظ انخلاء کے انتظام کا مطالبہ کیا۔چونکہ یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ پاکستان مخالف قوتیں متحد اور ہماری صفوں میں موجود غداروں سے بھرپور تائید کی حامل تھیں ، سقوط ڈھاکہ بہت قریب تھا۔نڈر نواب صاحب اپنے گھرانے کو کراچی واپس لانے کے لیے ، چٹاگانگ واپس تشریف لے گئے۔

بے باک وبہادرنواب یوسف رضا بخاری جونہی جنگ زدہ بنگال میں پہنچے ، مکتی باہنی نے انہیں دھمکانا، بلکہ ، درحقیقت ، قتل کرنے کی کوشش شروع کردی۔انہوں نے کئی بار حملہ کیا ، مگر ناکام رہے۔انہوں نے نواب یوسف رضا بخاری اور اُن کے پورے گھرانے کے سر کی قیمت مقر رکردی۔بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیش نظر، پاکستان آرمی اُن کی مدد کو آئی اور رنگون(برما) کے راستے انہیں پاکستان بھیجنے کا انتظام کیا دیوان وراـثت حسین ایڈووکیٹ بھی اس موقع پر موجود تھے۔

قراردادپاکستان کی سن انیس سو چالیس میں منظوری کے بعد،قائداعظم محمد علی جناح ، اپنے ہمراہیوں کے ساتھ، بِہار تشریف لائے تو نواب معروف گنج ، انضار الحسن المعروف نواب ڈیلھا کے محل میںقیام کیا۔یہ نواب صاحب، نواب یوسف رضا کی خالہ کے شوہرتھے۔اُن کا محل سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا اور بائیس ایکڑ پر محیط تھا۔قائداعظم اس محل کے حسن کی تعریف کیے بِنا نہ رہ سکے۔مُنھ میں سونے کا چمچ لے کر پیداہونے والے نواب صاحب ٹائیگر پاس نے اپنی تمام دولت ، خاندانی میراث میں ایک بڑا حصہ اور خطیر رقم قائداعظم محمد علی جناح کے فنڈ میں بطور چندہ دیتے ہوئے اپنا سب کچھ ، فقط تحریک پاکستان کے لیے قربان کردیا۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد بمبئی کے دورے پر تھے۔


نواب صاحب ٹائیگر پاس نے اپنی ابتدائی مکتبی و دینی تعلیم بھاگل پور میں حاصل کی، پھر، وہ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے پٹنہ اور گیا گئے اور انہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھی۔نواب صاحب گھُڑسواری، شمشیرزنی، کُشتی ، باکسنگ، کشتی رانی اور نشانہ بازی کے ماہر کھلاڑی تھے۔وہ اس قدر رئیس تھے کہ اُ ن کے عہد عروج میں، اُن کے والدین کے کمرے تک رسائی کے لیے ، محل کے باون دروازوں سے گزرنا پڑتا تھا جو ایک کے اندر ایک بنے ہوئے تھے۔وہ انیس سو باون (1952.)کی آل پاکستان رائفل شوٹنگ چیمپئن شپ کے فاتح تھے۔

انیس سو باون سے انیس سو اکہتر کے عرصے میں نواب صاحب ٹائیگر پاس نے مشرقی پاکستان میں ہزاروں ایکڑ اراضی خریدی تھی۔وہ دو کاروں ، پانچ سو سی سی (500cc,)کی ایک ٹرام ، دو موٹرسائیکلوںکے (جن میں سے ایک 350cc کی تھی) اور بینک میں جمع،کثیر رقم کے مالک تھے۔انہیں یہ سب کچھ پاکستان کی خاطر نثارکرنا تھا۔جونہی وہ مشرقی پاکستان سے گئے، مُکتی باہنی نے اُن کا سب سرمایہ لُوٹ لیا اور تباہ کردیا۔

نواب صاحب ٹائیگر پاس نے سقوط ڈھاکہ سے بھی بہت پہلے ، اپنی جرأت کا ثبوت دیا۔چونکہ وہاں مسلح افواج تعداد میں قلیل تھیں، لہٰذا نواب صاحب کو پاکستان کے مشرقی بازو کے دفاع کے لیے نیم عسکری ،انصاررجمنٹ کی تشکیل کے لیے رضاکار بھرتی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔انہوں نے چٹاگانگ کی بندرگاہ کی حفاظت کا فریضہ بہت دل جمعی سے انجام دیا۔اس سے قبل جب ، اثنائے تحریک پاکستان، بدنام زمانہ فسادات بِہارمیں اُن کے شہر پر انتہا پسند ہندوؤں نے حملہ کیا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں پسپا کردیا تھا۔انہوں نے قائداعظم کی ہدایت پر پاکستان ہجرت کرتے ہوئے ڈھاکہ میں سکونت اختیارکی اور بعدازایں، مشہور شہر چٹاگانگ تشریف لے گئے جہاں انہوں نے گلونزائزڈ ڈرم (galvanized drums)کے کامیاب ترین تاجر کی حیثیت سے نام کمایا۔

بہرحال ، ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے سن انیس سو باون(1952 )میں اپنا کاروبار اپنے اعزہ کے حوالے کرکے پاکستان ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔سقوط ڈھاکہ کے بعد، بچے کھچے پاکستان کی طرف لوٹنے والے،قوم کے بے لوث خادم ، ہیرو آف چٹاگانگ نواب یوسف رضا بخاری نے بھٹو صاحب سے ملاقات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی۔جونہی سرکاری ملازمتیں بحال ہوئیں، انہوں نے دوبارہ پاکستان ریلوے میں، اپنے فرائض منصبی انجام دینا شروع کردیے۔

انہوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر بلدیات کو اورنگی ٹاؤن کی مرکزی شاہراہ پر مدعو کرکے پوری بستی کے لیے لیز آرڈر کے اجراء پر آمادہ کیا۔انہی کی کاوش سے بستی میں پانی اور سوئی گیس کی باقاعدہ فراہمی، نیز سیکٹر پندرہ ڈی(15-D )میں بیوہ کوارٹرز کالونی کی تعمیر کا عمل ممکن ہوا۔سن انیس سو بہتر (1972 )میں انہوں نے علی گڑھ کالونی، اورنگی ٹاؤن میںبخاری کلاتھ کے نام سے ، کپڑے کا کاروبار شروع کیا۔چونکہ وہ اس شعبے میں سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اولین شخص تھے ، لہٰذاانہیں آل پاکستان یوٹیلیٹی کلاتھ ڈیلرز ایسوسی ایشن کا صدرچُنا گیا،جبکہ مشہور بستی بخاری کالونی بھی انہی کے نام سے منسوب ہے۔

انہوں نے اپنے ہم وطن لوگوں کی ترقی کے لیے کاوش جاری رکھی اور اورنگی ٹاؤن کے سیکٹر چودہ میں، شہید چوک سے جوہرچوک مرکزی شاہراہ تک، چارسو اسی(480 )رہائشی پلاٹ خریدے اور غریبوں میں مفت تقیم کردیے۔افسوس ، اس اراضی میں کچھ حصے پربعض نام نہاد سیاست دانوں نے غیرقانونی قبضہ کرلیا۔

نواب صاحب ٹائیگر پاس ماہنامہ ینگ چینل پندرہ روزہ ینگ وائس کے سن انیس سو ترانوے سے انیس سو اٹھانوے تک مدیراعلیٰ رہے۔اٹھائیس نومبر انیس سو اٹھانوے کو اُن کی وفات ہوئی اور انہیں سخی حسن قبرستان ، شمالی ناظم آباد میں دفن کیا گیا۔

ممتاز شاعر ، صحافی و قانون داں سید محمد حسن رضا بخاری ، نواب صاحب کے اکلوتے فرزند ہیں ، جبکہ اُن کے لواحقین میں ایک بیوہ اور ایک بیٹی بھی شامل ہیں۔

 
Load Next Story