ججز کے دورے اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری 100 فیصد ہوگئی
گھربیٹھے تنخواہیں وصول کرنیوالے سرکاری اسکولوں کے ہزاروں اساتذہ نے عدالتوں کے خوف سے اسکول جانا شروع کردیا
KARACHI:
کراچی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی جانب سے سرکاری اسکولوں کے اچانک دوروں کے سبب سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری 100 فیصدکے قریب جاپہنچی ہے اورسندھ کی تاریخ میں پہلی بارایساموقع آیاہے کہ گھربیٹھے تنخواہیں وصول کرنے والے سرکاری اسکولوں کے ہزاروں اساتذہ نے عدالتوں کے خوف سے اسکول جانا شروع کردیا ہے۔
کلاس روم میں جانے کے بجائے اسٹاف روم میں بیٹھے رہنے والے اساتذہ نے طلبا کوپڑھانا شروع کردیا ہے جس سے طلبا بھی خوش گوارحیرت میں مبتلا ہوگئے ہیں، کراچی کے بعض سرکاری اسکولوں میں کئی کئی سال گزرنے کے بعداساتذہ نے اپنے اسکولوں کی شکل دیکھی ہے یہ وہ اساتذہ ہیں جواسکولوں سے اپنی غیرحاضری کے سبب تنخواہوں کا20فیصد متعلقہ ٹائون یاضلع کے ڈی او تعلیم کودینے کے پابند تھے اورمتعلقہ ٹائون یاضلع کے تعلیمی افسرغیرحاضراساتذہ کی تنخواہوں کی20فیصد رقم ملنے پر ان اساتذہ کی حاضری ظاہرکردیاکرتے تھے۔
محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسرنے''ایکسپریس''کوبتایاکہ وہ کام جووزارت تعلیم 5 برسوں میں نہیں کرسکی، عدالتوں نے ایک ہفتے میں کردیا جس کے سبب خود وزارت تعلیم اورمحکمہ تعلیم بھی سخت پریشان ہیں کہ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کاسہرامحکمہ تعلیم سندھ کے بجائے عدالتوں کوچلاگیا، اعلیٰ افسرکاکہناتھاکہ اگر محکمہ تعلیم فعال ہوتااوراس محکمہ کے ذمے داراسکولوں میں مانیٹرنگ کانظام فعال رکھتے توآج عدالتوں کویہ موقع نہ ملتا۔
ادھر ڈسٹرکٹ اورسیشن ججوں کی جانب سے سرکاری اسکولوں کے اچانک دوروں کے پیش نظراچانک فعال ہونے والے اساتذہ کومحکمہ تعلیم کی جانب سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ عدالتوں کی جانب سے اسکولوں کے دوروں کے دوران پیداہونے والی صورتحال سے اپنی سطح پرنمٹیں اورمحکمہ یاوزارت تعلیم تک ان دوروں کے اثرات نہ آنے پائیں۔
کراچی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی جانب سے سرکاری اسکولوں کے اچانک دوروں کے سبب سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری 100 فیصدکے قریب جاپہنچی ہے اورسندھ کی تاریخ میں پہلی بارایساموقع آیاہے کہ گھربیٹھے تنخواہیں وصول کرنے والے سرکاری اسکولوں کے ہزاروں اساتذہ نے عدالتوں کے خوف سے اسکول جانا شروع کردیا ہے۔
کلاس روم میں جانے کے بجائے اسٹاف روم میں بیٹھے رہنے والے اساتذہ نے طلبا کوپڑھانا شروع کردیا ہے جس سے طلبا بھی خوش گوارحیرت میں مبتلا ہوگئے ہیں، کراچی کے بعض سرکاری اسکولوں میں کئی کئی سال گزرنے کے بعداساتذہ نے اپنے اسکولوں کی شکل دیکھی ہے یہ وہ اساتذہ ہیں جواسکولوں سے اپنی غیرحاضری کے سبب تنخواہوں کا20فیصد متعلقہ ٹائون یاضلع کے ڈی او تعلیم کودینے کے پابند تھے اورمتعلقہ ٹائون یاضلع کے تعلیمی افسرغیرحاضراساتذہ کی تنخواہوں کی20فیصد رقم ملنے پر ان اساتذہ کی حاضری ظاہرکردیاکرتے تھے۔
محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسرنے''ایکسپریس''کوبتایاکہ وہ کام جووزارت تعلیم 5 برسوں میں نہیں کرسکی، عدالتوں نے ایک ہفتے میں کردیا جس کے سبب خود وزارت تعلیم اورمحکمہ تعلیم بھی سخت پریشان ہیں کہ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کاسہرامحکمہ تعلیم سندھ کے بجائے عدالتوں کوچلاگیا، اعلیٰ افسرکاکہناتھاکہ اگر محکمہ تعلیم فعال ہوتااوراس محکمہ کے ذمے داراسکولوں میں مانیٹرنگ کانظام فعال رکھتے توآج عدالتوں کویہ موقع نہ ملتا۔
ادھر ڈسٹرکٹ اورسیشن ججوں کی جانب سے سرکاری اسکولوں کے اچانک دوروں کے پیش نظراچانک فعال ہونے والے اساتذہ کومحکمہ تعلیم کی جانب سے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ عدالتوں کی جانب سے اسکولوں کے دوروں کے دوران پیداہونے والی صورتحال سے اپنی سطح پرنمٹیں اورمحکمہ یاوزارت تعلیم تک ان دوروں کے اثرات نہ آنے پائیں۔