کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

اصل بات یہ ہے کہ مفت کی کمائی اور ٹھاٹھ باٹھ میں کوئی بھی کسی کو شریک نہیں کرتا۔

یوں تو اماں اور ابا دونوں کا تعلق انڈیا کی ریاست اتر پردیش (یوپی) کے ضلع گونڈا سے تھا، جو یہاں پاکستان میں، میری نسل کے پڑھے لکھے لوگوں میں، اصغرگونڈوی کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جن کا شمار قبل از تقسیم کے معتبر و مشہور شعراء میں ہوتا تھا۔

شہید حکیم محمد سعید کے دیرینہ ساتھی اور ''ہمدرد'' کے زیر اہتمام شایع ہونے والے بچوں کے رسالے ''نونہال'' کے مدیر مسعود احمد برکاتی کی تحقیق کے مطابق تحریک خلافت کے قائدین مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر (علی برادران) کا تعلق بھی گونڈا ہی سے تھا۔ دادا اور نانا دونوں وہاں ایک چھوٹے سے گاؤں طرب گنج میں رہتے اور کاشتکاری کرتے تھے۔

تھوڑی سی زمین کے علاوہ دادا کا ایک باغ بھی تھا، ان کے چھ بیٹے حشمت علی، اکبر علی، احمد علی، اصغر علی، معراج محمداور عابد علی (ابا) تھے۔ ہمارے خاندان میں لگتا ہے شروع ہی سے نام بدلنے کا رواج تھا یا پھر پہلے آجکل کی طرح بچوں سے پوچھ کر نام رکھنے کا رواج نہ تھا، اسی لیے دادا کے بھی دو نام عبداللہ اور مظفر خان تھے، ایک ان کے ابا نے رکھا ہوگا اور دوسرا انھوں نے خود بدل کر رکھ لیا ہوگا۔

دادا کے دو ناموں کی وجہ سے خود ان کے بچے بھی کنفیوزڈ تھے، مثلاً میرے بڑے ابا (تایا) اپنے والد کا نام عبداللہ بتاتے تھے جب کہ ابا کی تمام دستاویزات میں ان کا نام مظفر خان درج تھا۔ خود ابا نے بھی اپنا نام بدل کر تاج محمد رکھ لیا تھا، انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام اپنے بھائی کے نام پر معراج محمد رکھا تھا مگر انھوں نے اپنا نام بدل کر سعید جان رکھ لیا۔

بڑے ابا پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور انھوں نے پہلی جنگ عظیم ختم ہونے تک برٹش آرمی میں خدمات انجام دی تھیں، ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کراچی میں بس گئے اور اپنے بیج میٹ ڈاکٹر سعید کے ساتھ مل کر پریکٹس کرنے لگے، بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت کے قریب واقع سعید منزل ان کے کلینک کی یادگار ہے، وہیں جوبلی سینما کے پاس ایک پرانی عمارت میں ان کا اپارٹمنٹ ہوا کرتا تھا۔

ابا کو دادا پڑھنے کے لیے تایا کے پاس چھوڑ گئے تھے مگر ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ گھر سے تو بستہ گلے میں لٹکا کر اسکول کے لیے نکلتے تھے لیکن سیدھے موجودہ این جے وی اسکول کے عقب میں واقع کسی سکھ کی ورکشاپ پہنچتے اور کام سیکھتے، موٹر مکینک بن گئے تو ٹنڈو غلام علی کے جاگیردار میر محمد بخش تالپور نے، جن کی گاڑیاں اسی ورکشاپ میں بننے آتی تھیں، انھیں ملازمت کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول کرلی اور وہاں چلے گئے، چلے کیا گئے وہیں کے ہورہے۔ یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

ملک آزاد ہوا تو یہ دونوں بھائی پاکستانی شہری بن گئے جب کہ دادا کے باقی چاروں بیٹوں کی قسمت میں شاید بھارتی شہری بننا لکھا تھا، اس لیے وہ وہیں رہ گئے، خاندان میں سے کوئی بھی مہاجر نہیں بنا، نہ ہی پھر کبھی ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے پاس انڈیا یا پاکستان آیا گیا، ان دونوں بھائیوں کے بچے بھی یہیں کراچی اور ٹنڈو غلام علی میں پیدا ہوئے، اب وہ خود تو اس دنیا میں موجود نہیں ان کے نصف کے قریب بچے بھی اللہ کو پیارے ہوچکے۔


بڑے ابا کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اب بھی لیاری کے علاقے کھڈا مارکیٹ میں آباد ہیں، جب کہ ہمیں بھی ٹنڈو غلام علی سے نقل مکانی کرکے کراچی میں آکر رہتے ہوئے نصف صدی پوری ہونے کو ہے۔ بڑے ابا، بڑی امی اور میرا ایک کزن کراچی کے قدیم ترین قبرستان (مورڑیو جو مقام) میں مدفون ہیں، جب کہ اماں اور ابا سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، جنھیں ہمارے دودھ شریک بھائی رضا اور بھتیجی رابعہ کا ساتھ بھی حاصل ہے۔ میری چاروں بہنوں کی طرح ہم تینوں بھائیوں کی شادیاں بھی پنجابیوں میں ہوئیں۔

اماں ابا کے ہندوستانی پس منظر اور بہنوں خواہ ہماری بیویوں کے پنجابی خاندانوں سے تعلق کی وجہ سے کچھ لوگ ہمیں مہاجر تو کچھ پنجابی سمجھتے ہیں، جب کہ ہم پیدائشی (بائی برتھ) سندھی ہیں، کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر حقیقت یہی ہے، ہم سب بہن بھائی سندھ میں پیدا ہوئے، سندھ میں پلے بڑھے، پرائمری اسکول سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک ہمارا ذریعہ تعلیم سندھی رہا، ابا اور ہم سب بہن بھائی شادیاں ہونے تک گھر میں بھی سندھی بولتے تھے، بس ایک اماں تھیں جن کی زبان پر آخر تک سندھی نہیں چڑھی، ان کی اپنی زبان تو پوربی (آوت جاوت والی) تھی لیکن انھوں نے اس کے ساتھ سندھی اور پنجابی ملاکر ایک نئی زبان ایجاد کرلی تھی اور وہی بولا کرتی تھیں۔

ہمارے گھر میں یوں تو اردو اور پنجابی دونوں ہی زبانیں بولی جاتی ہیں کہ بچے اردو بولتے ہیں اور بیوی کی زبان پنجابی ہے، لیکن ہم دونوں بھائی جب بھی ملتے ہیں غیر ارادی طور پر آپس میں سندھی ہی بولتے ہیں، رسائل و جرائد کو چھوڑ کر میں جن چھ روزناموں کا مدیر رہا ہوں ان میں سے چار سندھی تھے، میری زیادہ تر کتابیں بھی سندھی زبان میں ہیں، بھائی نے جس اخبار سے صحافت شروع کی اور طویل رفاقت کے بعد مدت ملازمت پوری کرکے بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر ریٹائر ہوئے وہ بھی سندھی روزنامہ تھا۔

تو میں آپ کو اپنے خاندان کے بارے میں بتا رہا تھا، ابا نے دو شادیاں کی تھیں، ہماری چھوٹی امی شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد وفات پاگئی تھیں اور وہیں ٹنڈو غلام علی میں آسودہ خاک ہیں، بڑے ابا کی منجھلی بیٹی (میری کزن) بھی وہیں دفن ہیں۔ تائی، چھوٹی امی اور سندھ کے مشہور بزرگ مخدوم بلاول کی درگاہ کے اس زمانے کے سجادہ نشین کی بیگم آپس میں سگی بہنیں تھیں، اس حساب سے درگاہ کے موجودہ سجادہ نشین نیک محمد پیرزادہ میرے خالہ زاد بھائی ہوئے، مفت کی کھاتے اور ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ سندھو دیش کا نظریہ پیش کرنے والے قوم پرست سندھی سیاستدان جی ایم سید بھی، جن کے ہزاروں پیروکار ہیں اور جو ان کی قدم بوسی کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے تھے، جب درگاہ پر حاضری دینے آتے تو ان (میرے خالہ زاد بھائی) سے جھک کر ملتے تھے۔ ہماری ایک بھانجی بھی وہاں رہتی ہے۔

کئی سال پہلے جب میں لاڑکانہ سے واپسی پر اس سے ملنے مخدوم بلاول گیا تھا تو میں نے خود سائیں جی ایم سید کو اپنے خالہ زاد بھائی کے پاؤں چھوتے اور ہاتھ جوڑ کر ملتے ہوئے دیکھا تھا، تب وہ وہاں اپنے نوزائیدہ پوتے (سید امداد محمد شاہ کے بیٹے) کی چھٹی کی رسم ادا کرنے درجنوں گاڑیوں کے قافلے میں اپنے شہر 'سن' سے براستہ سڑک مخدوم بلاول آئے تھے۔

اپنے خالہ زاد بھائی کے یہ ٹھاٹھ دیکھ کر میں نے ان سے ازراہ مذاق کہا کہ درگاہ سے ہونے والی آمدنی میں میرا بھی حصہ مقرر کریں، میں یہیں آکر رہتا ہوں، لیکن انھوں نے صاف انکار کردیا اور بولے، تم کراچی میں ہی ٹھیک ہو، قسمت سے کبھی آتے ہو تو درگاہ پر حاضری دینے بھی نہیں جاتے، پتہ نہیں کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو وغیرہ وغیرہ۔ وہ رتبے ہی نہیں عمر میں بھی مجھ سے بڑے ہیں لیکن ان کے ساتھ اپنی بے تکلفی کا فائدہ اٹھا کر میں نے کہا، بطور ایک وطن پرست انقلابی مخدوم بلاول کے لیے میرے دل میں جو عزت و احترام اور عقیدت ہے وہ آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مفت کی کمائی اور ٹھاٹھ باٹھ میں کوئی بھی کسی کو شریک نہیں کرتا۔
Load Next Story