تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں

تعلیمی درس گاہ چاہے اعلیٰ درجے کی ہو یا معمولی درجے کی لیکن کسی استاد کی معمولی غفلت سے کسی کا کیریئر خراب ہو سکتا ہے۔

shehla_ajaz@yahoo.com

یہ دنیا کی دوسری بڑی قدیم یونیورسٹی ہے جسے مغرب سے لے کر مشرق تک میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی ایک ایسے اعلیٰ طبقے کی نمایندگی کرتی ہے جو عام لوگوں کو احساس کمتری کے بخار میں مبتلا کر دیتی ہے۔ انگلستان میں قائم اس قدیم یونیورسٹی کے بارے میں یہ تو صحیح طرح سے بتایا نہیں جا سکتا کہ اسے کب اور کس نے قائم کیا تھا لیکن 1096ء کے دور سے اسے قائم دیکھا گیا ہے، گویا اس کی تاریخ پیدائش خاصی پرانی ہے۔

ہنری دوم کے دور میں یہ یونیورسٹی زیادہ پھولی پھلی۔ اس دور میں ہنری دوم نے انگلستان کے طالب علموں پر پابندی عائد کر دی تھی کہ وہ پیرس کی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ پابندی انگلستان اور فرانس کے مابین کسی اختلاف کے باعث لگائی گئی تھی لہٰذا 1167ء میں پیرس کی یونیورسٹی سے طالب علم جوق در جوق آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب بڑھے۔

کئی ادوار طے کرتی یہ تعلیمی درسگاہ اپنے احاطے میں وسعت پیدا کرتی گئی یوں یہ یونیورسٹی ایک تعلیمی شہرکی مانند بس گئی ہے جہاں تعلیمی ہالز، آڈیٹوریم، پریس، میوزیم، وسیع لائبریری اور بہت کچھ ہے جسے کئی حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے، شروع میں یہاں صرف مرد حضرات ہی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے لیکن انیسویں صدی کے اوائل میں خواتین کے لیے بھی سلسلہ شروع ہوا جس کے پہلے تعلیمی بیج میں چار خواتین نے گریجویشن کی سند حاصل کی تھی، شروع سے ہی یہ اعلیٰ امراء اور حکمرانوں کے خاندان کے لیے اعلیٰ درجے کی درسگاہ سمجھی جاتی تھی آج بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کے نام کو ایک سند کی حیثیت حاصل تھی۔

آج سے ہفتہ بھر پہلے اسی اعلیٰ ترین درس گاہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھ کر ناکامی اور مایوسی کا شکار ہونے والا فیض صدیقی ایک ایسے احتجاج کے علامت بن گیا جس سے آکسفورڈ اور ایسی ہی بڑی تعلیمی درس گاہوں کے لیے بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے۔

2000ء میں فیض صدیقی اپنی کامیابی کی سند لے کر جب اپنی درس گاہ سے نکلا تو وہ بہت مطمئن اور مسرور تھا۔ اس کا خیال تھا کہ کامیابی اس کے قدم چومے گی لیکن گزشتہ سترہ برسوں میں اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اسے جدید تاریخ کے کورس کے دوران ناکافی پڑھایا گیا اور اس کی تعلیم کے لیے متعین کردہ استادوں نے اپنی ذمے داریوں سے کوتاہی برتی جب کہ بیشتر اسٹاف بھی چھٹیاں کرتا رہا۔ اگر انھیں مناسب تعلیمی سہولیات اور تدریسی مدد فراہم کی جاتی تو وہ ایک کامیاب عالمی کمرشل وکیل بن جاتے۔

فیض صدیقی نے اپنے وکیل کے توسط سے رائل کورٹ آف جسٹس کو بتایا کہ ان کے ایک استاد نے ان کی طبی معلومات بھی دوسرے استاد کو فراہم نہیں کیں۔ فیض صدیقی کے دائر کردہ اس دلچسپ مقدمے کی خبریں برطانیہ کے بڑے بڑے اخبارات کی زینت بنیں، کسی بھی اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے کے خلاف یہ اپنی قسم کا پہلا مقدمہ ہے، فیض صدیقی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ملحق تعلیمی ادارے ''بریس نیوز کالج'' میں زیر تعلیم رہے تھے۔


فیض صدیقی کے وکیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے موکل کے اسکور کے حوالے سے بہت سے افراد کو محسوس ہوا ہوگا کہ یہ ان کے کیریئر کے لیے کافی ہے لیکن یہ ڈگری ان کی امیدوں پر پوری نہیں اترتی، فیض صدیقی اپنی عملی زندگی میں ناکامی اور کوفت کا شکار رہے ہیں اور انھوں نے اس مد میں یونیورسٹی پر دس لاکھ پاؤنڈز کے ہرجانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس انوکھے مقدمے کی سماعت لندن ہائی کورٹ (رائل کورٹ آف جسٹس) کی جج فوس کیٹ کر رہی ہیں۔

اگر فیض صدیقی کا موقف درست ثابت ہوا تو یونیورسٹی کو ہرجانے کی رقم ادا کرنا ہوگی۔ اس مقدمے سے دنیا بھر کی تعلیمی درس گاہوں میں ہونے والے اخلاقی جرائم اور اس کے مرتکب افراد کے لیے بھی ایک شاک ہے۔ یہ وہ احتجاج اور اخلاقی جرأت ہے جسے فیض صدیقی جیسے شخص نے ادا کرکے دوسرے لوگوں کے لیے راہ استوار کی۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے چاہے وہ انگلینڈ میں ہوں یا امریکا میں، پاکستان میں ہوں یا بھارت میں اپنے ناموں اور ساکھ سے چلتے ہیں ایسے اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم بھی ذہانت و قابلیت میں اعلیٰ ہی ہوتے ہیں لہٰذا ایسے اداروں کے نام ان ذہین و قابل طالب علموں کو اپنے اداروں کے ٹیگ سے نوازتا ہے جو ساری زندگی ان کے سرٹیفکیٹس اور ڈگریوں پر چمکتا ہے، جس میں ادارے کی محنت سے زیادہ طالب علموں کی قابلیت، ذہانت اور محنت کا ثمر شامل ہوتا ہے۔ فیض صدیقی کا یہ بیان کہ اساتذہ غفلت برتتے تھے اور بیشتر افراد چھٹیاں کرتے رہتے تھے بہت سے تعلیمی اداروں پر پورا اترتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب میڈیسن کے طالب علم کا روزانہ اپنے تعلیمی ادارے میں جانا ضروری ہوتا تھا ہر لیکچر کو اٹینڈ کرنا، پریکٹیکل کرنا اہم تھا۔ کسی ایک لیکچر یا پریکٹیکل کا چھوٹ جانا بہت بڑا نقصان سمجھا جاتا تھا، طالب علم اس سخت پڑھائی کے حصول میں مصروف رہتے تھے جب کہ آج سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں کیا ایسا ہوتا ہے؟ جب کہ دوسری جانب حاضری پر اس قدر سختی کہ ایک دو دن کی غیر حاضری پر بھی امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملتی۔ یہ دونوں رجحانات ایک ہی طرح کے انداز کو ظاہر کرتے ہیں یعنی تعلیم سے زیادہ تعلیمی اداروں کے نام کی اہمیت۔

حال ہی میں کراچی کی میڈیکل یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ہائی کورٹ میں اپنے کچھ مضامین میں فیل ہونے کو چیلنج کیا تھا، طالبہ کا خیال تھا کہ اس کے پرچے اچھے ہوئے تھے لیکن پھر بھی اسے ان مضامین میں فیل کر دیا گیا ہے۔

تعلیمی درس گاہ چاہے اعلیٰ درجے کی ہو یا معمولی درجے کی لیکن کسی استاد کی بھی معمولی غفلت سے کسی کا کیریئر خراب ہو سکتا ہے۔ فیض صدیقی کے مقدمے کا کچھ بھی بنے لیکن یہ مستقبل کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے ایک سرخ سگنل ثابت ہو سکتا ہے کہ غفلت کی سزا کسی بھی دور میں سنائی جا سکتی ہے، حال میں یا مستقبل میں۔ لہٰذا اپنی ذمے داریوں سے شانے جھٹک کر نہیں بالکل سنبھل کر چلیے کہ یہ قوموں کے مستقبل کا بوجھ ہے۔
Load Next Story