اسلام آباد دھرنا… چند سوال

سوال یہ کہ تین ہفتے تک اس دھرنے کو ہر قسم کی سہولیات کی ’’سپلائی‘‘ کیوں دی جاتی رہی؟

ali.dhillon@ymail.com

چند دن کی کھینچا تانی کے بعد ''امن و امان '' ہوگیا، معاہدہ ہوا، استعفیٰ بھی ملا۔ دھرنے بھی ختم ہو گئے۔ لیکن ان دو ڈھائی دن میں پورا ملک عذاب میں مبتلا رہا، ایک شاہراہ کو ''آزاد'' کراتے کراتے پورا ملک جام کرا دیا، جو جہاں گیا وہیں کا ہو کر رہ گیا، دنیا بھرمیں ایک بار پھر پاکستان کی رسوائی ہوئی، اداروں کی آپسی لڑائی کھل کر سامنے آئی، میڈیا بند رہا، افواہوں نے جنم لیا، ملک کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیا گیا، اربوں روپے کا نقصان ہوا، متعدد لاشیں گرائی گئیں، سیکڑوں ہڈی پسلیاں تڑوا بیٹھے۔

مسلم لیگ کے تین ایم این ایز کے گھروں پر مظاہرین نے حملے کیے ، چوہدری نثار کے گھر پر یلغار کی گئی ، جاوید لطیف کی سخت درگت بنائی گئی، زدوکوب کیا گیا، زاہد حامد کے گھر پر حملہ کیا گیا، رانا ثناء اللہ کے ڈیرے پر حملہ کیا گیا، ایک جمہوری ملک میں ، انارکی کا یہ ماحول وقتی سیاست کو شاید فائدہ دے سکے ، لیکن ریاست کو خسارہ ہی ملے گا، جا بجا و جگہ جگہ ، دھونس و جبر کا یہ ماحول ، ایک ایٹمی ریاست کے شایان شان نہیں ، گلی گلی میں ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم پاکستان میں نہیں بلکہ شام ، عراق یا افغانستان میں رہ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حساب کون دے گا؟

کیا یہ مغل دور کی حکومت کا آغاز تو نہیں کہ جب خاندانی لڑائیاں سڑکوں چوراہوں پر لڑی جاتی تھیں،کیا آج ایک خاندان کی آپسی لڑائی کی لپیٹ میں پورا پاکستان تو نہیں آگیا؟ 22روز تک جاری رہنے والے دھرنے نے اس ملک کے عوام، سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے کئی سوالات چھوڑ دیے ہیںکہ انھیں یہاں کون لے کر آیا؟

اگر آج پنجاب حکومت کے ملوث ہونے کے الزام لگ رہے ہیں تو شکوک و شبہات تو پیدا ہوں گے ہی جب دھرنے والوں کو گوجرانوالہ پولیس ''لنچ '' دے گی، اور پھر جب یہ دھرنا جہلم پہنچے گا تو وہاں ''سیف پیسیج '' دے کر پروٹوکول اور تمام سیکیورٹی کے ساتھ اس دھرنے کو روالپنڈی پولیس کے حوالے کیا جائے گا اور پھردھرنے کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جہاں سے راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والی شاہراہیں ہیں جہاں سے روزانہ 10لاکھ سے زیادہ چھوٹی بڑی گاڑیاں دن رات گزرتی ہیں۔

سوال یہ کہ تین ہفتے تک اس دھرنے کو ہر قسم کی سہولیات کی ''سپلائی'' کیوں دی جاتی رہی؟ اور پھر پنجاب حکومت کے کئی سرکردہ رہنماء کی دھرنے والوں سے ملاقاتوں کی ویڈیوز اور تصاویر بھی منظر عام پر آچکی ہیں اور سب سے اہم سوال یہ کہ ان لوگوں کو آنسو گیس شیل اور جدید ترین اسلحہ ، ماسک یا اس جیسی بیشتر چیزیں کس نے مہیا کی تھیں؟اور پھر 1000افراد کو پولیس و انتظامیہ سے نمٹنے کی ٹریننگ کس نے دی تھی؟ کیا بظاہر یہ خاندانی کشمکش کا نتیجہ تو نہیں؟ اور سوا لاکھ کا ایک سوال یہ بھی کہ جس ملک میں چند ہزار لوگ پورے ملک کو بند کردیں وہ ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟ کیا اُس ملک میں سرمایہ دار اپنا سرمایہ لگائے گا۔ لاریب کسی ٹولے کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ فیصلہ کرے کہ اس کے مخالفین نے کس طرح زندگی بسر کرنی ہے۔

ریاست پر واجب ہے کہ وہ آبادی کے تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ کر ے۔لیکن سوال پر سوال یہ کہ یہاں حکمرانی کس کی ہے؟ یہاں کس کا حکم چلتا ہے؟ کیا یہاں بے قابو ہجوم جب چاہے اور جو چاہے وہ کرا سکتا ہے؟ یہ ہجوم پورے ملک کو یرغمال بنا سکتا ہے؟ حکومت کی حکمرانی کا تیاپانچا کر سکتا ہے؟سسٹم کہاں ہے؟


میں خود ایک دن کے لیے اسلام آباد گیا اور3دن کے لیے وہیں کا ہو کر رہ گیا، ڈرائیورسے کہا چلے چلو کہیں نہ کہیں تو پہنچ جائیں گے ، وہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی چل دیا۔ جس طرف گئے وہی ڈنڈے سوٹے والے افراد راستہ بند کیے کھڑے تھے۔ مجھ جیسے کئی ہزار مسافروں نے ملک کی وہ گلیاں اور کچے راستے بھی دیکھ لیے جو شاید خادم اعلیٰ کی ریاست میں نہیں آتے، یا وہاں شاید انسان نہیں جانور رہتے ہیں۔ خیر جہاں جائیں وہیں سے واپسی کی منزل بھی شروع ہو جاتی،کئی گھنٹوں کی ذلالت کے بعد وہیں آکر رک گئے جہاں سے ہمارا ''سفر'' شروع ہوا تھا، پھر مجھے یگانہ چنگیزی کا شعر یاد آگیا،

امید و بیم نے مارا مجھے دو راہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا

یعنی کسی بھی بند راستے پر پولیس کا نام و نشان تک نہ تھا۔مسافرخوار ہو رہے تھے، سب کچھ دھرنے والوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ہماری حکومت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ کہیں موجود نہیں ہے۔ سب کچھ اللہ توکل چل رہا ہے۔ آپریشن کے دوران بھی یہی کچھ ہوا،3گھنٹے میں دھرنا ختم کرانے کی بڑھکیں مارنے والے ''تربیت یافتہ '' دھرنا اسپیشلسٹوں کے سامنے بے بس نظر آئے ۔ حکومت کو مجبوراََ فوج بلانا پڑی اور فوج نے دھرنا ختم کرایا۔ پھر جسٹس جناب شوکت صدیقی نے 4صفحات پر مشتمل حکم نامے میں بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیا جس پر اگلے کئی روز تک بحث جاری رہے گی۔

تمام مراحل میں حکمران جماعت کی جس طرح سے نااہلی کھل کر سامنے آئی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہر محاذ پر شکست کھاتی ن لیگ اس بار بھی بری طرح ایکسپوز ہوئی اور میرے خیال میں اب اگر حکومت پر ذرا سا بھی مزید دباؤ آیا تو یہ گر جائے گی۔ اس دھرنے سے نون لیگ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور آنے والے ہفتوں میں نون لیگ کے ارکان مختلف بہانوں کا سہارا لے کر پارٹی چھوڑیں گے یا پھر پارٹی میں فاروڈ بلاکس بنیں گے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ نون لیگ سینیٹ کے انتخابات نہ کرا سکے اور اس سے پہلے ہی ملک میں عام انتخابات ہوجائیں۔اور قوی امکان ہے کہ اگلے الیکشن میں ان مذہبی جماعتوں کو ن لیگ کا ہی ایک دھڑا سپورٹ کرے اور ایک الگ جماعت بنا لے کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ نواز شریف فیملی نے اپنے مقاصد کے لیے فرقہ وارانہ عناصر کی پشت پناہی کی۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے حاکم طبقات نے نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے ساتھ معاہدے کیے ، جواب میں انھوں نے پورے ملک کو خاک و خون میں نہلایا۔

آج ایک بات تو عیاں ہے کہ اس دھرنے کی کامیابی اور ناکامی ایک طرف مگر دونوں ہی صورتوں میں سب سے زیادہ نقصان ملک کا ہواہے۔ پہلے ہی تقسیم کا شکار ملک اور ملت مزید تقسیم ہو گئے۔بہرکیف ہمیں اپنے اندر موجود ملک دشمن کی نشاندہی کرنا ہوگی۔ جو ایسے موقعوں پر سہولت کار بن جاتے ہیں اور موقع پرستی کے ذریعے ملک کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ملک دشمن انڈیا، اسرائیل یا امریکا سے آئیں ، عین ممکن ہے کہ یہ نام نہاد پاکستانی ہی ملک کے دشمن ہوں۔

اس ملک کے سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے عناصر کی نشاندہی کریں ، اور کھل کر عوام کو بتائیں کہ کون اس ملک کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔ ہمیں ان عناصر کے کردار، افعال اور ان کے اقدامات کو پہچاننا ہے ورنہ اگلے کئی برسوں تک بھی ہمیں ایسے دھرنوں سے واسطہ پڑتا رہے گا۔یہ حقیقت سب پر واضح ہونی چاہیے کہ اگر حکومت ہوگی تو اُس کی رٹ بھی قائم ہوگی ، حکومت نہیں ہوگی تو خاکم بدہن ملک کو ''شام'' بنتے دیر نہیں لگے گی!
Load Next Story