اُمّت ِ سیّد ِ لولاک ؐ سے خوف آتا ہے 

دنیاوی اقتدار پر ھَوس پرستوں کی نظر ہوتی ہے، گالیاں کم علم اور جاہل بکتے ہیں۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

یہ کیسے ممکن ہے کہ سچ اور انصاف کا خالق اور کائناتوں کا قاد رِ مطلق کوئی وعدہ کرے اوروہ سچا ثابت نہ ہو۔ ارض و سماء کے حاکمِ اعلیٰ نے انسانوں کے لیے اپنی ہدایات اور احکامات کا سلسلہ حضرت محمد ﷺ پرمکمّل کر دیا اور انھیں خاتم النبیّن ﷺ کا اعزاز بخش دیا۔

آخری نبی ﷺ سے وعدہ ہوا "وَرَفَعنا لکَ ذِکرک "(ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا) یعنی تمہیں وہ عظمتیں عطا کیں جو پہلے کسی انسان کے حصّے میں نہ آئیں اور پھرہر زبان، ہر رنگ اور ہر نسل کے انسانوں نے حیرت سے دیکھا کہ بحر و بر میں خشک و تر میں کُرّہ ارض کے کونے کونے میں محمد ﷺ کا نام گونجنے لگا۔ خالق نے اپنے آخری نبی ؐ کانام اذان اور نماز کا حصّہ بنا دیا۔ جہاں اللہ کا نام گونجتا ہے وہیں حضرت محمد ﷺ کا نام بھی پکارا جاتا ہے۔

چشم اقَوام یہ نظاّرہ ابدتک دیکھے
رفعت ِ شان ِ رَفَعنا لکَ ذکرک دیکھے

چَشم اقوام حیرت زدہ ہو کر دیکھتی ہے کہ مالک ِ ارض سماء نے اپنے نام لیواؤں کے دل اپنے نبیﷺ کی محبت سے اس طرح سرشار کر دیے ہیں کہ کروڑوں انسان حضرت محمد ﷺکے نام اور ناموس کی خاطر جانیں قربان کر نے کے لیے تیار ہیں، عشقِ مصطفٰے ﷺ کا جذبہ اللہ کی رحمتوں میں سے ایک ہے۔ مگر اس کی علامتیں بڑی واضح ہیں،سچّا عاشق ِ رسول وہ کام کرنے کا تصورّ بھی نہیں کر سکتا جو حضورﷺ کو نا پسند ہوں۔

دنیاوی اقتدار پر ھَوس پرستوں کی نظر ہوتی ہے، گالیاں کم علم اور جاہل بکتے ہیں، راستے وہ بند کرتے ہیں جو فتنہ گر ہوں اور فساد کی آگ پھیلانا چاہتے ہوں، رحمت اللعالمینﷺ سے سچی عقیدت رکھنے والے کی زبان اور ہاتھ مخلو قِ خدا کو تکلیف میں مبتلا کرنے والے ہر فعل سے پاک ہوتا ہے ، وہ راستے بند نہیں کرتا راستے کھولتا ہے، وہ غلطی پر در گزر کرتاہے انتقام نہیں لیتا۔ حقیقی عاشقِ رسول ؐ کی زندگی درویشی، فقیری، بے نیازی، سرشاری اور سوز و گداز کی تپش سے فروزاں ہوتی ہے۔ عشقِ مصطفٰے ﷺ کی سلطنت میں بد زبانی، انتقام ، تکبّر، ضد اور اقتدار کی خواہش کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے ۔

مگر یہ کون ہیں جنہوں نے چہروں پر ناموسِ رسالت کے نقاب چڑھا رکھے ہیں مگر مخلوقِ خدا کو تکلیف اور رَنج پہنچا کر راحت محسوس کرتے ہیں جو عشقِ رسول ؐ کے لبادے اوڑھ کر ضد، تکبّر، بد کلامی اور فساد کے راستے پر گامزن ہیں، یہ کون ہیں جو ہاتھوں میں ناموسِ مصطفٰے کے عَلم اٹھائے ہوئے ہیں مگر عملََا بولہبی کے پاسبان بنے ہوئے ہیں۔ شاعر نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا:

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی ؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی

فتنہء قادیانیت کو بّرِ صغیر میں علامہ اقبال ؒ ، سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ، مولانا موددوی ؒ اور بعد میں آغا شورش کاشمیری سمیت کئی دیگر علماء نے بڑے مؤثر انداز میں بے نقاب کیا تھا۔ پاکستان میں اس پر دوبار فسادات بھی ہوئے۔ 1953ء میں فسادات برپا ہوئے تو مولانا موددوی ؒ اور مولانا عبدالستار نیازی ؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔

مولانا موددوی ؒ کو ایک ملٹری کورٹ نے سزائے موت سنادی۔ 1974 ؁ء کے فسادات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جیسے لبرل اور سیکولر لیڈرنے اس گروہ کو اقلیّت قرار دے دیا۔کئی دہائیوں سے یہ ایک طے شدہ (Settled) ایشو تھا۔ عالمی دباؤ کے باوجود کبھی کسی حکومت نے اس حَسّاس ایشو کو چھیڑنے کی کوشش نہیں کی، اب اسے کیوں چھیڑا گیا؟انکوائری میں اگر کسی کی بد نیتّی ثابت ہو تو اسے سزا ملنی چاہیے۔

پنجاب کی ایک تاریخی اور معروف درسگاہ زمیندارہ کالج گجرات کے پرنسپل صاحب نے راقم کو مفکّر پاکستان حضرت علاّمہ اقبال ؒ کے پیغام پر لیکچر کے لیے مدعو کیا تھا۔ گوجرانولہ اور وزیر آباد میں کچھ شادیوں میں بھی شرکت کرنا تھی، لہذاء25 نومبر کو علی الصّبح اسلام آباد سے روانہ ہوا مگر گوجر خان کے قریب رکنا پڑا کہ کچھ مظاہرین نے سڑک بلاک کر رکھی تھی۔ میں نے اُن سے پُوچھا آپ کس بات پر احتجاج کر رہے ہیں؟

ان کے پاس واضح جواب نہیں تھا۔ میں نے کہا"جس نبی ﷺ کی محبت میں آپ اکھٹے ہوئے ہیں وہ تو تمام جہانوں کے لیے رحمت تھے، وہ تو جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیتے تھے، وہ راستے بند نہیں کرتے تھے راستوں کی رکاوٹیں دور کرتے تھے۔ لوگوں کی تکالیف میں اضافہ نہیں اس کا مداوا کرتے تھے، کیا آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے آقائے دو جہاںﷺ خوش ہوںگے یا ناراض؟ " طلباء خاموش تھے مگر ایک پکروڑ قسم کے آدمی نے بلند آواز میں کہا " آپ لیکچر نہ دیں بس حکومت استعفٰی دے"۔

کچھ خواتین وحضرات تھک کر باہر نکل آئے، دو معّمر خواتین کو اسپتال لے جایا جا رہا تھا، کئی باراتیں رک گئیں۔ میں نے پھر نوجوانوں سے بات کرنے کی کوشش کی کہ" دیکھو یہ سب بے گناہ اور شریف لوگ ہیں انھیں تکلیف اور کرب میں مبتلا کر کے آپکو کونسا اجر ملے گا۔"

کچھ خواتین نے کہا '' آپ اللہ اور رسول ﷺ کی خوشنودی نہیں بلکہ ناراضگی مول لے رہے ہیں'' ۔ خواتین سے بد تمیزی کی کوشش کی گئی تو میں نے پھر روکا۔ بہر حال ہم کچّے راستوں سے ہوتے ہوئے سات آٹھ گھنٹے خوار ہونے کے بعد واپس اسلام آباد پہنچ گئے مگر ہزاروںخواتین، بچے اور بوڑھے چوبیس گھنٹوں سے زائد سردی میں بھوکے پیاسے سڑکوں پر سخت تکلیف اور پریشانی میں مبتلا خدائے رحیم و کریم سے دعائیں مانگتے رہے کہ'' یا الٰہی تیرے سچّے نبی کریم ﷺ کے جھوٹے اور جعلی عاشقوں نے ہمیں عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، ان سے نجات دلا دے''۔ افتخار عارف نے کیا بات کہہ دی ہے :

رحمتِ سیّد لولاک پہ کامل ایمان
اُمتِّ سیّدلولاک سے خوف آتا ہے


اُس ہستی ؐ سے سے بے نم و بے سوز و ساز عشق کیسے ممکن ہے؟ اس مقدّس عشق کو بیچنے والوں اور اِسے اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے والوںکو دیکھتا ہوں تو نظر پھر ہزار سالہ اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے مفکرّ اور شاعر کی سچّی عقیدت کی جانب اُٹھ جاتی ہے کہ مشرق و مغرب کے شناور ڈاکٹر علامّہ اقبال ؒ بار ایٹ لاء آقائے دوجہاں ﷺ کا نام سنتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے اور پھر اسی کیفیّت میں وہ لافانی شعر تخلیق ہوئے کہ کسی زبان میں جنکی مثال نہیں مِلتی؛

لَوح بھی تُو ؐ قلم بھی تُو ؐ تیرؐا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے ؐ وجود میں حباب

پھر کہا

وہ دانائے سُبل، ختم الرسّلؐ مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فردغِ وادیء سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہیؐ اوّل وہیؐ آخر
وہی ؐ قرآں ، وہیؐ فرقاں وہیؐ یسٰیں وہیؐ طحٰہ

حکیم الا ُ مّت نے مسلمانوں کے تین بڑے امراض کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ

باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کُشتہء سلطانی و مُلّائی و پیری

آمرّیت، جاہل ملّا اور بے عمل پیر۔ مسلمانوں کو لاحق وہ مہلک بیماریاں ہیں کہ اُمّت ِمسلمہ کو اپنی بقاء اور روشن مستقبل کے لیے جن سے ہر صورت چھٹکارا حاصل کر نا ہو گا۔

دھرنے سے نپٹنے والی انتظامیہ اور پولیس کی کمزوری اور نا اہلی پھر بے نقاب ہوئی ہے، ڈی سی صرف اختیارات لینے کے شوقین ہیں مگر ایسے موقعوں پر غائب ہو جاتے ہیں۔ پولیس میں تربیّت اور تیارّی کا سخت فقدان ہے۔ دنیا بھر سے پاکستانیوں کے درد بھرے فون آتے رہے۔اکثر نے دو چیزوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے، ریاست کی پسپائی اور حکومت کی کمزوری۔ وزیر صاحب بار بار کہہ رہے ہیں کہ '' ہم نے تو عدالت کے حکم پر آپریشن کیا ہے'' حضور کیا آپکی اپنی ذمّے داری نہیں تھی کہ جڑواں شہروں میں نظام ِ زندگی بحال کرتے؟

سپاہ صرف اس جرنیل کے حکم پر جان لڑاتی ہے جو ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے جو ہر آپریشن کو own کرتا ہے اور ببانگِ دہل کہتا ہے کہ ہاں اس کا حکم میں نے دیا تھا، احسن اقبال صاحب محنتی اور قابل آدمی ہیں مگر اُنکا فیلڈ مختلف ہے۔

سابق وزیر داخلہ پنڈی اور اسلام آباد میں وہ افسر تعینات کرتے تھے جو ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہوں اور جنکی ٹانگوں میں جان نہ ہو، پولیس افسروں کے اِن اوصاف سے دونوں شہروں کے باسی واقف ہیں۔ ہر مشکل کا حل ہوتا ہے اور ہر بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے دو چیزیں لازم ہیں۔ افراد کا صحیح انتخاب اور پختہ عزم۔ فوری طور پر جڑواں شہروں کی پولیس کمان تبدیل کر کے ایسے افسر لگائیں جائیں جن کے دل میں حَوصلہ اور جرأت ہو اور دامن پر داغ نہ ہوں۔

بہت سے محب وطن پاکستانیوں نے کہا کہ جس طرح آرمی چیف کے وزیراعظم کو فون کرنے کی خبر میڈیا پر چلائی گئی یہ نا مناسب ہے۔ ایسے فون تو یو این او سے آتے ہیں یا امریکا سے۔ ملک کے کئی حصوں میں فوج کو بارہا طلب کیا گیا ہے، محرمّ میں پرُ تشدد ہنگاموں کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی بار فوج نے فورس استعمال کی ہے اب بھی کراچی اور کئی جگہوں پر فورس استعمال ہو رہی ہے، یہ سب کچھ قانون کے مطابق ہو تا ہے، ہر ملک میں فوج طلب کی جاتی ہے کبھی انکار نہیں کیا جاتا۔

وطنِ عزیز، حکومت کی کمزوریوں، کچھ ہوس پرستوں کے مفادات اور عالمی سازشوں میں گھر گیا ہے، الٰہی اس کی خود حفاظت کرنا۔کل ایماندار اور باکردار سیکریٹری داخلہ ارشد مرزا نے یاد کیا تو وہ پوری دردمندی سے سب کو بتا رہے تھے کہ دھرنے سے ملک کی ناقابلِ بیان بدنامی ہوئی ہے، ہر سفیر ہر روز اپنی حکومت کویہ میسج بھیجتا تھا "Islamabad is under seige by Mullahs" ۔ وہیں جسٹس شوکت صدیقی صاحب کے ریمارکس اسکرینوں سے نشر ہو رہے تھے۔

جو سوال ملک کا کوئی سیاستدان، جج یا صحافی پوچھنے کی جرات نہ کر سکا وہ ایک نیک نام جج نے پوچھ لیے ہیں اور یہ اتنے اہم سوال ہیں کہ ان سے ملک کی بقاء اور مستقبل جڑا ہوا ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس فائز عیسٰی جیسے منصفین عدلیہ کا سرمایہ ہیں، ایک اللہ اور رسولﷺ سے محبتّ کرتا ہے اور دوسرے کی تربیّت پاکستان بنانے والوں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اور اِس ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
Load Next Story