پوائنٹ اسکورنگ کا وقت نہیں

ملک دشمن عناصر مختلف ہتھکنڈوں سے ملکی نظام کو عدم استحکام کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئٹہ ، کراچی کے ٹارگٹ کلرز سمیت عباس ٹاؤن اور سانحہ بادامی باغ کے ملزمان پکڑے نہیں جاتے دہشت گردی کے سیلاب کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ فوٹو: محمد نعمان/ ایکسپریس

TUCSON, ARIZONA:
دہشت گردی کی شدت میں اضافہ تشویش ناک ہے، جب کہ دہشت گرد بڑے منظم طریقے سے ایک شہر کے بعد دوسرے پر حملہ آور ہورہے ہیں ۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ابھی تک انتہا پسندوں کی ہولناک حکمت عملی اوران کے پورے نیٹ ورک کو تہس نہس کرنے کا کوئی عندیہ نہیں ملتا ۔لہٰذا ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بننے والی ملک دشمن قوتوں کے مذموم عزائم کے حوالہ سے صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ دہشت گردوں نے پہلے کوئٹہ کو ہدف بنایا ،پھر کراچی کو ٹارگٹ کیا اور اس کے بعد لاہور میں سانحہ بادامی باغ پیش آیا جس میں مسیحی بستی کے کئی گھر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے ۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس تسلسل کے ساتھ ملک دشمن عناصر مختلف ہتھکنڈوں سے ملکی نظام کو عدم استحکام کی نذر کرنا چاہتے ہیں انھیں کب تک ڈھیل دی جائے گی۔ وہ وقت بھی تو جلد آنا چاہیے جب دہشت گردوں کو ان کے ہدف تک آنے سے پہلے خاک و خون میں لٹا دیا جائے۔ سانحہ بادامی باغ کے پس پردہ ملوث عناصر نے جو کارروائیاں کیں اس سے پاکستان کی نہ صرف بدنامی ہوئی بلکہ دہشت گردی کے عالمی عفریت کے تناظر میں اسلام پوری دنیا میں موضوع بحث بنا اور ایک پر امن مذہب، مکمل دستور حیات کو عالمی میڈیا بلا جواز زیر بحث لا رہا ہے۔

اب جب کہ طے ہوتا نظر آرہا ہے کہ دہشت گرد ملک کے ہر شہر کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانہ بنانے کے مہلک ایجنڈے پرکاربند ہیں ارباب اختیار اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس چیلنج کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔پوائنٹ اسکورنگ بند ہونی چاہیے، اصل ملزموں تک پہنچنے کی ضرورت ہے، سانحہ بادامی باغ لاہور کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں اتوار کو مسیحی برادری، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ، پولیس نے سانحہ بادامی باغ کے 150سے زائد ملزموں کو گرفتار کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔


سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کرسچن کالونی کو آگ لگانے کے واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل اور انسپکٹر جنرل پولیس کو سوموار کو رپورٹ سمیت طلب کرلیا ہے ۔ چیف جسٹس نے قرار دیا ہے کہ اس ساری صورتحال سے آئین کی شق9،14،23اور24کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ کراچی میں فائرنگ کے واقعات مسلسل ہورہے ہیں ، بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے2افراد سمیت6 ہلاک ہوگئے ، دونوں افراد بلوچستان کے علاقے پنجگور کے رہائشی تھے اوربلوچستان سے لاپتہ تھے ۔

اسٹیل ٹاؤن کے علاقے لنک روڈپرجھاڑیوں سے2 افراد کی لاشیں ملیں ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کراچی کے سابق کمانڈرشیر زمان محسود کورقم کے تنازع پر اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے ذبح کیے جانے کی وڈیوایکسپریس کو موصول ہوگئی،شیرزمان محسود کو قتل کرنے کے بعداس کا سرتن سے جدا کیا گیا ۔ ہلاکتوں کی یہ صورتحال کراچی کے بہیمانہ ،وحشیانہ اور خونریز کلچر کی عکاسی کررہی ہے۔الیکشن سر پر ہیں، مفاد پرست عناصر اس کے التوا کے لیے جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ان کا راستہ پوری قوم اور ملک کی سیاسی تعمیر نو کے دعویدار سیاست دان ہی روک سکتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے الرٹ ہوجائیں۔ ادھرقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بادامی باغ کے واقعے پر آئی جی پنجاب کو اسلام آباد طلب کرلیا ہے اور آئی جی پنجاب کو 14مارچ کو اسلام آباد طلب کرلیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پنجاب حکومت متاثرین کی امداد کے عمل کی رفتار کو مزید تیزکرے، امن وامان کے مسئلے پر سنجیدگی سے قابو پائے جب کہ قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے۔

سانحہ بادامی باغ حساس معاملہ ہے،اس پر کسی کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے بلکہ سانحے کی جامع اور غیر جانبدارانہ تفتیش کرکے عدلیہ کے سامنے شواہدجلد لائے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئٹہ ، کراچی کے ٹارگٹ کلرز سمیت عباس ٹاؤن اور سانحہ بادامی باغ کے ملزمان پکڑے نہیں جاتے دہشت گردی کے سیلاب کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ ریاستی رٹ سے ٹکرانے والوں نے وارداتوں کے لیے پورے ملک کو میدان جنگ بنالیا ہے،اس کا حکمران ادراک کریں۔
Load Next Story