ڈرون حملے امریکی ابلاغ کا نیا پروپیگنڈا
یقینی طور پر ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک جارحیت ہے۔
امریکی میڈیا میں دعوی کیا گیا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فروری میں ہونے والے ڈرون حملوں میں، امریکی خفیہ سی آئی اے کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ یہ ڈرون حملے پاکستان نے کیے ہیں۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں جنوبی و شمالی وزیرستان میں القاعدہ کے دو رہنما ء ابو ماجد العرقی اور شیخ ابو وقاص ہلاک ہوئے ۔
دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ترجمان نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پاک فضائیہ کے فضائی اور فوجی آپریشن سے متعلق امریکی اخبار کی خبر کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی رپورٹوں کا مقصدڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی دوٹوک موقف کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے رپورٹ پرسخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے الزامات حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، امریکی اخبار کی رپورٹ میں جن تاریخوں کا ذکر ہے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس عرصے کے دوران سیکیورٹی فورسز یا پاک فضائیہ نے کسی قسم کا کوئی آپریشن ان علاقوں میں نہیں کیا ہے۔
امریکی اخبارکی جانب سے من گھڑت پروپیگنڈے کا مقصد پاکستانی عوام کی رائے عامہ کو پاک فوج کے خلاف کرنا ہے کیونکہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پاکستانی عوام اور دنیا کے باشعور ممالک کی جانب سے احتجاج کی بنا ء پر امریکا شدید دباؤ کا شکار ہے۔پاکستان کی عوام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکی حکومت ایک عرصے سے وطن عزیز کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور عوامی سطح کے تمام تر احتجاج و پارلیمنٹ کی قراردادوں کو ڈسٹ بنِ میں ڈالنے کی روش اختیار کیے ہوئے ہے ،پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود امریکا ، اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے حصول کے لیے کسی نہ کسی بہانے سے ڈرون میزائل ، پاکستانی حدود میں گراتا رہتا ہے۔
جب کہ امریکی انتظامیہ متواتر کوشش کرتی رہی ہے کہ طالبان کوئٹہ شوری کے نام پر بلوچستان اور پاکستان کے بعض پُرامن قبائلی علاقوں میں بھی ڈرون حملوں کے لیے حکومت سے توسیع کی اجازت حاصل کرلے کچھ عرصہ قبل جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اخبار میں یہ خبر شایع کی تو ترجمان وزرات خارجہ نے سختی سے واضح الفاظ میں کہا کہ'' پاکستان اپنے علاقے میں امریکا کوڈرون حملے بڑھانے کی کبھی اجازت نہیں دے گا۔کیونکہ یہ ایک سخت گیر نسل کو جنم دینے کا موجب بن رہے ہیں ، اس لیے امریکی حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور یہ حملے بند کردینے چاہیں۔''
گو کہ امریکا ڈرون حملوں کے لیے ، اب بھی کسی رسمی اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بلکہ امریکی انتظامیہ نے تو سی آئی اے کو وسیع اختیارات دے دیے ہیںکہ وہ جہاں چاہے ، جس طرح چاہے ، امریکی مفادات کے لیے کام کرسکتا ہے ۔ امریکی انتظامیہ نے سی آئی اے کو ''لائسنس ٹو کل'' دیا ہوا ہے ،لہٰذا اس صورتحال میں کہ پاکستانی افواج پر ڈرون حملوں کے حوالے سے متنازع بیان مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔گو کہ 2004ء میں مشرف حکومت کی جانب سے امریکی کو باقاعدہ ڈرون حملوں کی اجازت فراہم کردی گئی تھی اور امریکی ذرایع ابلاغ ، یہ شوشے بھی چھوڑتا رہا کہ کوئٹہ میں طالبان نے کوئٹہ شوری کے نام سے مجلس انتظامیہ قائم کی ہوئی ہے اور یہی مجلس شوری امریکی واتحادی افواج کے خلاف مزاحمت کو تیز تر کرنے کے احکامات دیتی ہے ۔
لیکن پاکستان کی جانب سے اُس وقت سے لے کر اب تک ، امریکا کو شمالی علاقوں سے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں آزادانہ ڈرون حملے کرنے کا فری ہینڈ نہیں دیا گیا ، اور امریکا کے اس مطالبے و ہرزہ سرائی کو پزیرائی نہیں ملی۔تعجب خیز بات یہ ہے کہ امریکا جب اپنے تمام لاؤ لشکر کے باوجود سرحد پار طالبان تحریک کو ختم کرنے میں ناکام رہا اور نہ ہی حسب منشا افغانستان میں حالات کنٹرول کرنے میںکامیاب ہو سکا ہے تو اب جب کہ2014ء میں اپنا بوریا بستر سمیٹ کرتاریخ کی سب سے بُری شکست کے بعد واپس جانے کی تیاری میں ہے اور پاکستان کے تعاون کے بغیر،سازو سامان کی باحفاظت منتقلی ممکن نہیں ہے تو اس اہم موڑ پر پاکستان کے خلاف امریکی ذرایع ابلاغ کی مہم کے مقاصد یقینی طور پر پاک ، امریکا کشیدگی میں اضافے کا سبب ہی بنیں گے ، جو خطے میں خود امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہے۔
یقینی طور پر ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک جارحیت ہے ، جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ امریکا اپنے مخالفین کے خلاف براہ راست کارروائیوں میں جتنے جتن کر رہا ہے ، یقینی طور پر وہ بے مقصد نہیں ہے بلکہ امریکا پاکستانی علاقوں میں اپنی جاسوسی نظام کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کی حساس تنصیبات کی جاسوسی کے علاوہ اپنے مفادات کو پورا کرتا رہے۔2004ء سے پاکستان قبائلی علاقوں میں شروع کیے جانے والے ڈرون حملوں کی تعداد سیکڑوں اور ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے ، تمام آزاد ذرایع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان حملوں میں معصوم بچوں ، عورتوں،اوربیگناہ لوگوں کی شہادتیں ہوئی ہیں ۔
جب کہ جن اہداف کی ہلاکت کے دعوی کیے گئے ، ان میں زیادہ تر تعداد کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے، تاہم ان حملوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی واقعات اور امریکی مخالفت اور نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی آزادی ، خود مختاری اور سلامتی کے خلاف بڑھتے ہوئے یہ ڈرون حملے ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔انھیں تمام ظاہری و پوشیدہ پہلوؤں پر پوری سنجیدگی کی ضرورت ہے کہ امریکا ایک ایک انچ کی ڈکٹیشن دیکر اور اب اس قسم کے لغو الزمات لگاکر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیوں کر رہا ہے۔
پاکستانی عوام کے تمام تراحتجاج اورواضح موقف کے باوجود ، جسدِ قومی پر بار بار زخم لگانے کے ناقابل برداشت عمل سے باز کیوں نہیں آرہا ؟یقینی طور ایساکچھ نہ کچھ ہے کہ امریکا کی جانب سے ، دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جانی و مالی نقصانات برداشت کرنے والی پاکستانی قوم کے خلاف ، بے حسی پر قانع کرنے کے لیے ،مذموم حربے کیوں استعمال کر رہا ہے؟یقینی طور پر امریکا کی جانب سے اس قسم کے روئیے کو دانشمندانہ قرار نہیں دیا جاسکتا ، کہ ایک جانب تو امریکا کے خفیہ ادارے کسی آزاد ملک اور خودمختار ملک میں پَر پھیلاتے اور من مانی کارروائیاں کرتے رہیں تو دوسری جانب ، پاکستانی عوام کی رائے عامہ کو پاک فوج کے خلاف کرنے کے لیے بے بنیاد پروپیگنڈا ،بھی کیا جائے۔بلیک واٹر اور اسی نوع کی دوسری نجی فوجی تنظیموں اور امریکا کے خفیہ ادارے ، وطن فروشوں کے ساتھ ملکر ، مملکت کی بقا کے خلاف سر گرم ہیں ۔ ملک کے طول وعرض میں ، دہشت گردی ، لاقانونیت ، بدامنی میں ان بد زمانہ ایجنسی اور تنظیموں کے کردار کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان کے ذمے داران اور عوام کو ان سازشوں سے ہوشیار اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے ۔
دوسری جانب آئی ایس پی آر کے ترجمان نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پاک فضائیہ کے فضائی اور فوجی آپریشن سے متعلق امریکی اخبار کی خبر کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی رپورٹوں کا مقصدڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی دوٹوک موقف کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے رپورٹ پرسخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے الزامات حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے، امریکی اخبار کی رپورٹ میں جن تاریخوں کا ذکر ہے آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس عرصے کے دوران سیکیورٹی فورسز یا پاک فضائیہ نے کسی قسم کا کوئی آپریشن ان علاقوں میں نہیں کیا ہے۔
امریکی اخبارکی جانب سے من گھڑت پروپیگنڈے کا مقصد پاکستانی عوام کی رائے عامہ کو پاک فوج کے خلاف کرنا ہے کیونکہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پاکستانی عوام اور دنیا کے باشعور ممالک کی جانب سے احتجاج کی بنا ء پر امریکا شدید دباؤ کا شکار ہے۔پاکستان کی عوام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکی حکومت ایک عرصے سے وطن عزیز کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور عوامی سطح کے تمام تر احتجاج و پارلیمنٹ کی قراردادوں کو ڈسٹ بنِ میں ڈالنے کی روش اختیار کیے ہوئے ہے ،پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود امریکا ، اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے حصول کے لیے کسی نہ کسی بہانے سے ڈرون میزائل ، پاکستانی حدود میں گراتا رہتا ہے۔
جب کہ امریکی انتظامیہ متواتر کوشش کرتی رہی ہے کہ طالبان کوئٹہ شوری کے نام پر بلوچستان اور پاکستان کے بعض پُرامن قبائلی علاقوں میں بھی ڈرون حملوں کے لیے حکومت سے توسیع کی اجازت حاصل کرلے کچھ عرصہ قبل جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اخبار میں یہ خبر شایع کی تو ترجمان وزرات خارجہ نے سختی سے واضح الفاظ میں کہا کہ'' پاکستان اپنے علاقے میں امریکا کوڈرون حملے بڑھانے کی کبھی اجازت نہیں دے گا۔کیونکہ یہ ایک سخت گیر نسل کو جنم دینے کا موجب بن رہے ہیں ، اس لیے امریکی حکومت کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور یہ حملے بند کردینے چاہیں۔''
گو کہ امریکا ڈرون حملوں کے لیے ، اب بھی کسی رسمی اجازت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بلکہ امریکی انتظامیہ نے تو سی آئی اے کو وسیع اختیارات دے دیے ہیںکہ وہ جہاں چاہے ، جس طرح چاہے ، امریکی مفادات کے لیے کام کرسکتا ہے ۔ امریکی انتظامیہ نے سی آئی اے کو ''لائسنس ٹو کل'' دیا ہوا ہے ،لہٰذا اس صورتحال میں کہ پاکستانی افواج پر ڈرون حملوں کے حوالے سے متنازع بیان مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔گو کہ 2004ء میں مشرف حکومت کی جانب سے امریکی کو باقاعدہ ڈرون حملوں کی اجازت فراہم کردی گئی تھی اور امریکی ذرایع ابلاغ ، یہ شوشے بھی چھوڑتا رہا کہ کوئٹہ میں طالبان نے کوئٹہ شوری کے نام سے مجلس انتظامیہ قائم کی ہوئی ہے اور یہی مجلس شوری امریکی واتحادی افواج کے خلاف مزاحمت کو تیز تر کرنے کے احکامات دیتی ہے ۔
لیکن پاکستان کی جانب سے اُس وقت سے لے کر اب تک ، امریکا کو شمالی علاقوں سے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں آزادانہ ڈرون حملے کرنے کا فری ہینڈ نہیں دیا گیا ، اور امریکا کے اس مطالبے و ہرزہ سرائی کو پزیرائی نہیں ملی۔تعجب خیز بات یہ ہے کہ امریکا جب اپنے تمام لاؤ لشکر کے باوجود سرحد پار طالبان تحریک کو ختم کرنے میں ناکام رہا اور نہ ہی حسب منشا افغانستان میں حالات کنٹرول کرنے میںکامیاب ہو سکا ہے تو اب جب کہ2014ء میں اپنا بوریا بستر سمیٹ کرتاریخ کی سب سے بُری شکست کے بعد واپس جانے کی تیاری میں ہے اور پاکستان کے تعاون کے بغیر،سازو سامان کی باحفاظت منتقلی ممکن نہیں ہے تو اس اہم موڑ پر پاکستان کے خلاف امریکی ذرایع ابلاغ کی مہم کے مقاصد یقینی طور پر پاک ، امریکا کشیدگی میں اضافے کا سبب ہی بنیں گے ، جو خطے میں خود امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ ہے۔
یقینی طور پر ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک جارحیت ہے ، جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ امریکا اپنے مخالفین کے خلاف براہ راست کارروائیوں میں جتنے جتن کر رہا ہے ، یقینی طور پر وہ بے مقصد نہیں ہے بلکہ امریکا پاکستانی علاقوں میں اپنی جاسوسی نظام کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کی حساس تنصیبات کی جاسوسی کے علاوہ اپنے مفادات کو پورا کرتا رہے۔2004ء سے پاکستان قبائلی علاقوں میں شروع کیے جانے والے ڈرون حملوں کی تعداد سیکڑوں اور ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے ، تمام آزاد ذرایع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان حملوں میں معصوم بچوں ، عورتوں،اوربیگناہ لوگوں کی شہادتیں ہوئی ہیں ۔
جب کہ جن اہداف کی ہلاکت کے دعوی کیے گئے ، ان میں زیادہ تر تعداد کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے، تاہم ان حملوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی واقعات اور امریکی مخالفت اور نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی آزادی ، خود مختاری اور سلامتی کے خلاف بڑھتے ہوئے یہ ڈرون حملے ہمارے ارباب اختیار اور پالیسی سازوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔انھیں تمام ظاہری و پوشیدہ پہلوؤں پر پوری سنجیدگی کی ضرورت ہے کہ امریکا ایک ایک انچ کی ڈکٹیشن دیکر اور اب اس قسم کے لغو الزمات لگاکر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیوں کر رہا ہے۔
پاکستانی عوام کے تمام تراحتجاج اورواضح موقف کے باوجود ، جسدِ قومی پر بار بار زخم لگانے کے ناقابل برداشت عمل سے باز کیوں نہیں آرہا ؟یقینی طور ایساکچھ نہ کچھ ہے کہ امریکا کی جانب سے ، دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ جانی و مالی نقصانات برداشت کرنے والی پاکستانی قوم کے خلاف ، بے حسی پر قانع کرنے کے لیے ،مذموم حربے کیوں استعمال کر رہا ہے؟یقینی طور پر امریکا کی جانب سے اس قسم کے روئیے کو دانشمندانہ قرار نہیں دیا جاسکتا ، کہ ایک جانب تو امریکا کے خفیہ ادارے کسی آزاد ملک اور خودمختار ملک میں پَر پھیلاتے اور من مانی کارروائیاں کرتے رہیں تو دوسری جانب ، پاکستانی عوام کی رائے عامہ کو پاک فوج کے خلاف کرنے کے لیے بے بنیاد پروپیگنڈا ،بھی کیا جائے۔بلیک واٹر اور اسی نوع کی دوسری نجی فوجی تنظیموں اور امریکا کے خفیہ ادارے ، وطن فروشوں کے ساتھ ملکر ، مملکت کی بقا کے خلاف سر گرم ہیں ۔ ملک کے طول وعرض میں ، دہشت گردی ، لاقانونیت ، بدامنی میں ان بد زمانہ ایجنسی اور تنظیموں کے کردار کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان کے ذمے داران اور عوام کو ان سازشوں سے ہوشیار اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے ۔