سب چلتا ہے
لوگ انصاف اور داد رسی کے حوالے سے تقریباً مایوس ہوچکے ہیں۔
ISLAMABAD:
ہر طرف لوٹ مار مچی ہے، لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے ، بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی دستیاب نہیں، جنگل کا قانون رائج ہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق زندہ رہنے کا حق صرف انھیں حاصل ہے جن کے پاس طاقت اور وسائل ہیں، جن کے پاس یہ نہیں ہیں وہ سسک سسک کر مررہے ہیں، ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔
پولیس والے تھانوں میں ہی نہیں سڑکوں پربھی دن دہاڑے لوگوں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں، تلاشی کے بہانے جیبیں کاٹی جاتی ہیں اور چالان کرنے کی دھمکی دیکر موٹر سائیکل سواروں اور رکشہ ٹیکسی ڈرائیوروں سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے، رات گئے گھر لوٹنے والوں کو تاریک گلیوں اور محلوں میں روک کر یوں شناخت کرانے کے لیے کہا جاتا ہے جیسے وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہوئے ہوں، کوئی شناختی کارڈ دکھاتا ہے تو اس پر جعلی ہونے کا شبہ ظاہر کرکے تھانے چلنے کے لیے کہا جاتا ہے اور جان تب چھوڑی جاتی ہے جب اگلا اپنی جیب خالی کرکے ان کی جیب بھر دیتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر رات دس گیارہ بجے کے بعد لوٹ مار کرنے والے پولیس اہلکاروں کا راج ہوتا ہے ، وہ اتنی بے خوفی اور دیدہ دلیری سے کارروائیاں کرتے ہیں کہ بعض اوقات خود اعلیٰ پولیس افسران ان کی زد میں آجاتے ہیں، پتہ چلنے پر وہ سلیوٹ مارکر اور دو چار گالیاں کھا کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور صاحب کی گاڑی کے آگے بڑھتے ہی پھر اپنے دھندے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
لوگ انصاف اور داد رسی کے حوالے سے تقریباً مایوس ہوچکے ہیں، عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی بھرمار دیکھ کر عام آدمی وہاں کا رخ ہی نہیں کرتا، ''کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک'' اور '' خاک ہوجائیں گے ہم تجھ کو خبر ہونے تک'' اس کا تکیہ کلام بن چکا ہے ، جرگے اور پنچایتیں عدالتوں کا متبادل بنی ہوئی ہیں، ریاست کے اندر ریاست اور متوازی حکومتوں کا نظام فروغ پاتا دکھائی دیتا ہے ، بیک وقت ملک میں کئی قوانین نافذ ہیں، لوگ اپنی پسند کے قانون اور انصاف کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہیں جس سے دوسروں کا حق مارنا، مال ہڑپ کرنا اور جائز ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگانا آسان ہو گیا ہے۔
زیادہ دن نہیں ہوئے میں ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا جو اپنے رہائشی پروجیکٹ کی فلیٹس اونرز ایسو سی ایشن کے صدر بھی ہیں، گارڈ نے انھیں کسی آدمی کے آنے کی اطلاع دی، یہ ایک دم اچھل کرکھڑے ہوگئے ، دفتر سے باہر جاکر اس کا خیر مقدم کیا، گارڈ کو چائے منگوانے کا کہتے ہوئے لاکر اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا اور بڑی لجاجت سے پوچھا بھائی کیسے زحمت کی۔
جواب دینے سے پہلے اس نے اشارے سے میرے بارے میں پوچھا اور پھر مطمئن ہوکر بولا میں یہ بتانے حاضر ہوا ہوں کہ اب آپکو دو وقت کے بجائے ایک وقت اور وہ بھی کم مقدار میں پانی ملا کرے گا کیونکہ ہمارے نئے صاحب کو پہلے والے صاحب سے طے ہونے والا حصہ لینا منظور نہیں، اگر آپ حصے کی رقم بڑھا کر دگنی کرسکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ضرورت کا باقی پانی ٹینکر ڈلواکر حاصل کریں۔ وہ جانے کے لیے اٹھا تو صدر صاحب نے اس کے ذریعے نئے صاحب کو پیغام بھجوایا کہ انھیں اس کی شرط منظور ہے ،وہ پانی کی موجودہ مقدار میں فراہمی جاری رکھیں۔
پتہ چلا یاسین صاحب واٹر بورڈ کے لائن مین تھے اور اب ان کا ماہانہ بھتہ 8 ہزار کی جگہ 16 ہزار جایا کرے گا جو 2 ہزار سے شروع ہوا تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا اس طرح تو ان کی بلیک میلنگ کبھی ختم ہی نہیں ہوگی، چند سال بعد یہ بھتہ 16 ہزار سے بڑھ کر 32 ہزار اور پھر 32 سے بڑھ کر 64 ہزار ہو جائے گا، تم کہاں تک دیتے رہوگے ۔
اس نے جواب دیا بھتہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہوجائے ، ٹینکر ڈلوانے سے پھر بھی سستا پڑے گا، یہ صرف ہمارے پروجیکٹ کا مسئلہ تو ہے نہیں، قرب و جوار کے تمام رہائشی پروجیکٹس ان کو بھتہ دیتے ہیں، صرف ہمارے دینے نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہی دیکھ لو ان پروجیکٹس میں واٹر بورڈ سمیت مختلف سرکاری و نیم سرکاری محکموں کے درجنوں اعلیٰ افسران رہائش پذیر ہیں مگر وہ سب پمپنگ اسٹیشن میں لیور نیچے اوپرکرنے والے نچلے درجے کے ایک معمولی لائن مین کے آگے بے بس ہیں اور اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ وہ تو محض اپنے اعلیٰ افسران کا آلہ کار ہے اور ان کے لیے کام کرتا ہے، ظاہر ہے اس کو ان کی مکمل تائید و حمایت اور سرپرستی بھی حاصل ہے ورنہ اس کی کیا مجال کہ وہ اس دھڑلے اور بے خوفی سے بات کرے اور دھمکیاں دے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پروجیکٹس کو پانی پہنچانے والی لائنیں جن علاقوں سے گذرتی ہیں ان میں قائم ہوٹل والوں، کچی آبادی کے مکینوں اور جھگی نشینوں نے ان میں کنڈے لگا رکھے ہیں اور وہ بھی رہائشی پروجیکٹس کی طرح لائن مین صاحب کو نذرانہ دیتے ہیں اور بھتہ دینے کے باوجود پروجیکٹس کو کم پریشر کے ساتھ کم مقدار میں پانی ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔
شہروں میں پانی ہی کی طرح دوسری بنیادی ضرورت کی چیز بجلی ہے ، کچی آبادیوں، قبضہ مافیا کی بسائی ہوئی بستیوں اور دور دراز علاقوں میں واقع رہائشی پروجیکٹس کے آس پاس غیر قانونی طور پر بنائے ہوئے مکانوں اور دکانوں میں سو فیصد کنڈے کی بجلی استعمال ہوتی ہے ، یہ لوگ میٹر لینے اور بل بھرنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے ، کے الیکٹرک کے لائن مینوں سے ان کے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے معاملات طے کرکے دو چار سو روپے ماہانہ بھتہ دیتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ فری ، بلا تعطل اور لامحدود بجلی حاصل کرتے ہیں، ٹھیلوں اور پتھارے والے بھی ہزار وولٹ سے کم پاور کے بلب نہیں لگاتے ، ہر دودھ دہی بیچنے والے کے پاس کم از کم دو فریج اور دو ڈیپ فریزر دھرے ہوتے ہیں، پنکھے اور بلب اس کے علاوہ ہوتے ہیں، دو سو روپے ماہانہ بھتے کے عوض اس کو اورکیا چاہیے۔
قصور تو سارا میٹر ریڈنگ کی بنیاد پر بل بھر کے بجلی استعمال کرنے اور با قاعدہ کنکشن لے کر پانی حاصل کرنے والوں کا ہے جنھیں ایک طرف سخت گرمیوں میں کئی کئی گھنٹوں کی بجلی کی بندش کی سزا دی جاتی ہے تو دوسری جانب کئی کئی روز پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترسایا جاتا ہے۔یہ کوئی رازکی یا ڈھکی چھپی بات نہیں ، سب جانتے ہیں اور سب کو پتہ ہے ، ان سب میں نہ صرف متعلقہ محکموں کے بلکہ ان سے باز پرس کرنے کا اختیار رکھنے والے اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں، مگر ان میں سے کسی کے بھی کان پر جوں نہیں رینگتی، سارے غیرقانونی اور غلط کام بلا روک ٹوک جاری ہیں۔
سرکاری زمینوں پر تو قبضے ہو ہی رہے ہیں ، لوگوں کے خریدے ہوئے پلاٹ اور مکان بھی محفوظ نہیں، ایک آدمی کی خریدی ہوئی جائیداد کی فائلیں دس آدمیوں کے پاس ہیں اور ان میں سے ہرکوئی اس کا مالک ہونے کا دعویدار ہے ، جن علاقوں میں دو منزلوں سے زیادہ تعمیر کرنے پر پابندی ہے وہاں پرانی تاریخوں میں کاغذات بنوا کر چار اور چھ منزلہ عمارتیں کھڑی کی جا رہی ہیں، ان سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ جوعمارت کاغذات میں دس سال پہلے بنی ہوئی دکھائی گئی ہے وہ اب کیوں اور کیسے تعمیر ہو رہی ہے ۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کہا کرتا تھا کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ، مطلب یہ کہ کوئی ایک کام غلط ہو تو اس کو روکا یا ٹھیک کیا جائے ، سب کچھ غلط ہو رہا ہو تو اس کو ٹھیک کرنے یا روکنے کا سوچنا بھی غلط ہے ، آنکھیں بند کرلو اور زبانیں سی لو کہ یہاں سب چلتا ہے ۔
ہر طرف لوٹ مار مچی ہے، لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے ، بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی دستیاب نہیں، جنگل کا قانون رائج ہے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق زندہ رہنے کا حق صرف انھیں حاصل ہے جن کے پاس طاقت اور وسائل ہیں، جن کے پاس یہ نہیں ہیں وہ سسک سسک کر مررہے ہیں، ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔
پولیس والے تھانوں میں ہی نہیں سڑکوں پربھی دن دہاڑے لوگوں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں، تلاشی کے بہانے جیبیں کاٹی جاتی ہیں اور چالان کرنے کی دھمکی دیکر موٹر سائیکل سواروں اور رکشہ ٹیکسی ڈرائیوروں سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے، رات گئے گھر لوٹنے والوں کو تاریک گلیوں اور محلوں میں روک کر یوں شناخت کرانے کے لیے کہا جاتا ہے جیسے وہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے ملک میں داخل ہوئے ہوں، کوئی شناختی کارڈ دکھاتا ہے تو اس پر جعلی ہونے کا شبہ ظاہر کرکے تھانے چلنے کے لیے کہا جاتا ہے اور جان تب چھوڑی جاتی ہے جب اگلا اپنی جیب خالی کرکے ان کی جیب بھر دیتا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر رات دس گیارہ بجے کے بعد لوٹ مار کرنے والے پولیس اہلکاروں کا راج ہوتا ہے ، وہ اتنی بے خوفی اور دیدہ دلیری سے کارروائیاں کرتے ہیں کہ بعض اوقات خود اعلیٰ پولیس افسران ان کی زد میں آجاتے ہیں، پتہ چلنے پر وہ سلیوٹ مارکر اور دو چار گالیاں کھا کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور صاحب کی گاڑی کے آگے بڑھتے ہی پھر اپنے دھندے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
لوگ انصاف اور داد رسی کے حوالے سے تقریباً مایوس ہوچکے ہیں، عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی بھرمار دیکھ کر عام آدمی وہاں کا رخ ہی نہیں کرتا، ''کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک'' اور '' خاک ہوجائیں گے ہم تجھ کو خبر ہونے تک'' اس کا تکیہ کلام بن چکا ہے ، جرگے اور پنچایتیں عدالتوں کا متبادل بنی ہوئی ہیں، ریاست کے اندر ریاست اور متوازی حکومتوں کا نظام فروغ پاتا دکھائی دیتا ہے ، بیک وقت ملک میں کئی قوانین نافذ ہیں، لوگ اپنی پسند کے قانون اور انصاف کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہیں جس سے دوسروں کا حق مارنا، مال ہڑپ کرنا اور جائز ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگانا آسان ہو گیا ہے۔
زیادہ دن نہیں ہوئے میں ایک دوست کے پاس بیٹھا تھا جو اپنے رہائشی پروجیکٹ کی فلیٹس اونرز ایسو سی ایشن کے صدر بھی ہیں، گارڈ نے انھیں کسی آدمی کے آنے کی اطلاع دی، یہ ایک دم اچھل کرکھڑے ہوگئے ، دفتر سے باہر جاکر اس کا خیر مقدم کیا، گارڈ کو چائے منگوانے کا کہتے ہوئے لاکر اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا اور بڑی لجاجت سے پوچھا بھائی کیسے زحمت کی۔
جواب دینے سے پہلے اس نے اشارے سے میرے بارے میں پوچھا اور پھر مطمئن ہوکر بولا میں یہ بتانے حاضر ہوا ہوں کہ اب آپکو دو وقت کے بجائے ایک وقت اور وہ بھی کم مقدار میں پانی ملا کرے گا کیونکہ ہمارے نئے صاحب کو پہلے والے صاحب سے طے ہونے والا حصہ لینا منظور نہیں، اگر آپ حصے کی رقم بڑھا کر دگنی کرسکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ضرورت کا باقی پانی ٹینکر ڈلواکر حاصل کریں۔ وہ جانے کے لیے اٹھا تو صدر صاحب نے اس کے ذریعے نئے صاحب کو پیغام بھجوایا کہ انھیں اس کی شرط منظور ہے ،وہ پانی کی موجودہ مقدار میں فراہمی جاری رکھیں۔
پتہ چلا یاسین صاحب واٹر بورڈ کے لائن مین تھے اور اب ان کا ماہانہ بھتہ 8 ہزار کی جگہ 16 ہزار جایا کرے گا جو 2 ہزار سے شروع ہوا تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا اس طرح تو ان کی بلیک میلنگ کبھی ختم ہی نہیں ہوگی، چند سال بعد یہ بھتہ 16 ہزار سے بڑھ کر 32 ہزار اور پھر 32 سے بڑھ کر 64 ہزار ہو جائے گا، تم کہاں تک دیتے رہوگے ۔
اس نے جواب دیا بھتہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہوجائے ، ٹینکر ڈلوانے سے پھر بھی سستا پڑے گا، یہ صرف ہمارے پروجیکٹ کا مسئلہ تو ہے نہیں، قرب و جوار کے تمام رہائشی پروجیکٹس ان کو بھتہ دیتے ہیں، صرف ہمارے دینے نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہی دیکھ لو ان پروجیکٹس میں واٹر بورڈ سمیت مختلف سرکاری و نیم سرکاری محکموں کے درجنوں اعلیٰ افسران رہائش پذیر ہیں مگر وہ سب پمپنگ اسٹیشن میں لیور نیچے اوپرکرنے والے نچلے درجے کے ایک معمولی لائن مین کے آگے بے بس ہیں اور اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ وہ تو محض اپنے اعلیٰ افسران کا آلہ کار ہے اور ان کے لیے کام کرتا ہے، ظاہر ہے اس کو ان کی مکمل تائید و حمایت اور سرپرستی بھی حاصل ہے ورنہ اس کی کیا مجال کہ وہ اس دھڑلے اور بے خوفی سے بات کرے اور دھمکیاں دے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پروجیکٹس کو پانی پہنچانے والی لائنیں جن علاقوں سے گذرتی ہیں ان میں قائم ہوٹل والوں، کچی آبادی کے مکینوں اور جھگی نشینوں نے ان میں کنڈے لگا رکھے ہیں اور وہ بھی رہائشی پروجیکٹس کی طرح لائن مین صاحب کو نذرانہ دیتے ہیں اور بھتہ دینے کے باوجود پروجیکٹس کو کم پریشر کے ساتھ کم مقدار میں پانی ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔
شہروں میں پانی ہی کی طرح دوسری بنیادی ضرورت کی چیز بجلی ہے ، کچی آبادیوں، قبضہ مافیا کی بسائی ہوئی بستیوں اور دور دراز علاقوں میں واقع رہائشی پروجیکٹس کے آس پاس غیر قانونی طور پر بنائے ہوئے مکانوں اور دکانوں میں سو فیصد کنڈے کی بجلی استعمال ہوتی ہے ، یہ لوگ میٹر لینے اور بل بھرنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے ، کے الیکٹرک کے لائن مینوں سے ان کے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے معاملات طے کرکے دو چار سو روپے ماہانہ بھتہ دیتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ فری ، بلا تعطل اور لامحدود بجلی حاصل کرتے ہیں، ٹھیلوں اور پتھارے والے بھی ہزار وولٹ سے کم پاور کے بلب نہیں لگاتے ، ہر دودھ دہی بیچنے والے کے پاس کم از کم دو فریج اور دو ڈیپ فریزر دھرے ہوتے ہیں، پنکھے اور بلب اس کے علاوہ ہوتے ہیں، دو سو روپے ماہانہ بھتے کے عوض اس کو اورکیا چاہیے۔
قصور تو سارا میٹر ریڈنگ کی بنیاد پر بل بھر کے بجلی استعمال کرنے اور با قاعدہ کنکشن لے کر پانی حاصل کرنے والوں کا ہے جنھیں ایک طرف سخت گرمیوں میں کئی کئی گھنٹوں کی بجلی کی بندش کی سزا دی جاتی ہے تو دوسری جانب کئی کئی روز پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترسایا جاتا ہے۔یہ کوئی رازکی یا ڈھکی چھپی بات نہیں ، سب جانتے ہیں اور سب کو پتہ ہے ، ان سب میں نہ صرف متعلقہ محکموں کے بلکہ ان سے باز پرس کرنے کا اختیار رکھنے والے اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں، مگر ان میں سے کسی کے بھی کان پر جوں نہیں رینگتی، سارے غیرقانونی اور غلط کام بلا روک ٹوک جاری ہیں۔
سرکاری زمینوں پر تو قبضے ہو ہی رہے ہیں ، لوگوں کے خریدے ہوئے پلاٹ اور مکان بھی محفوظ نہیں، ایک آدمی کی خریدی ہوئی جائیداد کی فائلیں دس آدمیوں کے پاس ہیں اور ان میں سے ہرکوئی اس کا مالک ہونے کا دعویدار ہے ، جن علاقوں میں دو منزلوں سے زیادہ تعمیر کرنے پر پابندی ہے وہاں پرانی تاریخوں میں کاغذات بنوا کر چار اور چھ منزلہ عمارتیں کھڑی کی جا رہی ہیں، ان سے یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ جوعمارت کاغذات میں دس سال پہلے بنی ہوئی دکھائی گئی ہے وہ اب کیوں اور کیسے تعمیر ہو رہی ہے ۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کہا کرتا تھا کہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ، مطلب یہ کہ کوئی ایک کام غلط ہو تو اس کو روکا یا ٹھیک کیا جائے ، سب کچھ غلط ہو رہا ہو تو اس کو ٹھیک کرنے یا روکنے کا سوچنا بھی غلط ہے ، آنکھیں بند کرلو اور زبانیں سی لو کہ یہاں سب چلتا ہے ۔