کیا ملک انارکی کی طرف جارہا ہے

سیاست دانوں پر لگائے جانے والے الزامات کا فیصلہ عدالتوں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر عوام کریںگے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

BAHAWALPUR:
پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد ساری دنیا میں ایک بھونچال آگیا، کئی ملکوں کے سربراہ بھی اس بھونچال کی زد میں آگئے ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے' پاکستان کے حکمران خاندان پر بھی الزامات لگے، دوسرے ملکوں کے سربراہوں نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوکر اس بلائے بے درماں سے نجات حاصل کی لیکن پاکستان کے حکمران خاندان نے اس حوالے سے لگائے گئے الزامات کو غلط کہہ کر ان الزامات سے انکار کیا۔ یوں یہ مسئلہ سیاسی اداروں کی تحویل سے نکل کر عدالتی تحویل میں آگیا۔

ایک طویل سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے ملک کے وزیراعظم کو عہدہ وزارت عظمیٰ سے نا اہل قرار دے دیا اس کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی نا اہل قرار دے دیا۔ وزارت عظمیٰ اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے نا اہلی برقرار ہے، البتہ پارٹی کی صدارت سے نا اہلی کو نواز شریف نے پارلیمنٹ کے ذریعے کالعدم قرار دلوادیا۔ یوں وہ اب بھی اپنی پارٹی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں لیکن پارلیمنٹ کی اس قانون سازی کے خلاف مخالفین نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا ہے اور عدالت عالیہ نے اس کیس کو سماعت کے لیے منظورکرلیا ہے اور خطرہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ پارلیمنٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہ دیدے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ اس الزام میں صرف نواز شریف ہی ملوث نہیں بلکہ ان کے دونوں صاحبزادے، صاحب زادی اور داماد کو بھی ان ہی الزامات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار جو ملک کے وزیر خزانہ بھی ہیں آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام کا سامنا کررہے ہیں۔ چونکہ موصوف اور نواز شریف کے دونوں صاحبزادے لندن میں ہیں اور عدالتوں کا سامنا نہیں کررہے ہیں اس لیے قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ان کی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے ہیں، اگر وہ پاکستان آتے ہیں تو انھیں گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دنیا میں یہ روایت رہی ہے کہ سیاست دانوں پرکسی قسم کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں تو اس کا فیصلہ عدالتیں کرتی ہیں اور ملزمان اپنا دفاع عدالتوں میں قانونی طریقوںہی سے کرتے ہیں۔ یوں عدلیہ کی برتری کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے اور یہ برتری قائم بھی رہتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس روایتی طریقے کو چھوڑکر یہ عجیب وغریب فلسفہ متعارف کرایا جا رہا ہے کہ سیاست دانوں کے مقدمات کا فیصلہ عدالتوں میں نہیں سڑکوں اور گلی کوچوں میں عوام کریںگے۔ بلاشبہ ہر جمہوری ملک میں عوام طاقت کا سر چشمہ ہوتے ہیں لیکن سیاست دان عوام کی طاقت کو عام انتخابات میں ووٹ کے ذریعے استعمال کرنے کا یہی ایک جمہوری طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

موجودہ بحران میں اس نئی روایت پر عمل کیا جارہا ہے کہ سیاست دانوں پر لگائے جانے والے الزامات کا فیصلہ عدالتوں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر عوام کریںگے۔ اس فلسفے سے ہوسکتا ہے حکمران طبقات فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں لیکن مہذب معاشروں میں عدلیہ ہی وہ آخری ادارہ ہوتا ہے جو سنگین سے سنگین الزامات کا فیصلہ کرتا ہے۔ اگر مقدمات کے فیصلے عدالتوں کے بجائے سڑکوں پر ہونے لگیں تو عدلیہ عضو معطل بن کر رہ جائے گی اور معاشرہ بد ترین انارکی کا شکار ہوکر رہ جائے گا۔


اس حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ اہل سیاست جس عوامی فیصلے کی بات کرتے ہیں اس میں عوام کی شرکت رسمی سے زیادہ نہیں ہوتی سڑکوں اور گلیوں میں جن عوام کو فیصلے کرانے کے لیے لایا جاتا ہے وہ بوجوہ حکمرانوں کے وفادار ہوتے ہیں یا شخصیت پرستی کے مارے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر دیہاڑی پر لائے ہوئے ہوتے ہیں جن کی تعداد دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔

پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ خاموش اکثریت جمہوری طاقت کے ان مظاہروں سے الگ رہتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر یہ تاثر غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ اس قسم کے فیصلے عوامی فیصلے ہوتے ہیں۔ حکمران طبقات کے ذمے دار افراد کی طرف سے یہ دھمکی بھی دی جارہی ہے کہ اگر نواز شریف کو سزا سنائی گئی تو عوام سڑکوں پر اس کی مزاحمت کریںگے۔ جو لوگ الزامات بلکہ ایسے سنگین الزامات کی زد میں ہوتے ہیں جو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں تو فطری طور پر ان الزامات سے نکلنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ نہیں دیکھاجاتا کہ اس طرز فکر سے پہلے ہی سے کمزور قانون اور انصاف کے ادارے مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں۔

جب سے پاناما لیکس کے حوالے سے عدلیہ متحرک ہوئی ہے، پاناما سے متاثر ہونے والے عدلیہ کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر بھی یہ الزام لگارہے ہیں کہ اس سارے عمل کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے بلکہ اس الزام کو اس طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے کہ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عدلیہ ان اداروں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ ایک بالادست طاقت کے طور پر بھی سرگرم رہی ہے لیکن کسی دور میں بھی عدلیہ پر اس شدت سے یہ الزام نہیں لگایا گیا جس شدت سے اب لگایا جارہا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اسٹیبلشمنٹ جمہوری حکومت کے ایک ماتحت ادارے کی حیثیت سے کام کرتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں یہ ادارہ بالادست کیوں بنا؟ پاکستان میں سیاستدان ہمیشہ ابن الوقت کا کردار ادا کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کا رونا رونے والے اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف کی فوجی حکومت تک ہر فوجی حکومت میں محترم سیاست دان نہ صرف شامل رہے بلکہ ان حکومتوں کومستحکم بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں چار فوجی حکومتیں برسر اقتدار آئیں اور دس دس سال سے زیادہ حکومت کرتی رہیں 'کیا کسی فوجی حکومت پر کرپشن اور قومی دولت کی لوٹ مار کے ایسے الزامات لگے جیسے جمہوری حکومتوں پر لگتے رہے ہیں، یہ ایسے حقائق ہیں جو ہماری جمہوری حکومتوں کی کمزوری کا باعث بنتے رہے ہیں۔ پاناما اور پیراڈائز لیکس کے حوالے سے جو عدالتی کارروائی ہورہی ہے اس میں اگر جانبداری اور امتیاز کی شکایت ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جاسکتی ہے لیکن محض اپنی سلامتی کے لیے عدلیہ کو بدنام کیا جائے تو نہ صرف یہ غیر اخلاقی عمل ہوگا بلکہ عدلیہ کی حرمت اس سے بری طرح متاثر ہوگی کہ ملک انارکی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ ملک بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے، اس وقت ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story