بعد از خدا بزرگ تُوئی
تعالیٰ نے عالمین کو درحقیقت اپنے حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے خَلق فرمایا ہے۔
آج جشنِ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ ہمیں آج اللہ کے سب سے محبوب نبی، رسول اور حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت ِ طیّبہ پہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنی سیرت کو بھی بہتری، خیر، نیکیوں، بھلائیوں اور انسانیت پہ مبنی دیگر اعلیٰ صفات سے منوّر کرسکیں۔
نبی ِمکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جامع ترین زندگی، جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بل کہ اقوامِ عالم کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ اور اُسوۂ حسنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالمین کو درحقیقت اپنے حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے خَلق فرمایا ہے۔ یہ عالَمِ رنگ و بو، یہ کائنات اُنھی کے طفیل ہے۔
ارشادِ الہٰی ہے، مفہوم : '' اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اُس کے رسول ؐ پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور تمہیں وہ نور عنایت فرمائے گا جس سے تم راہ طے کر سکو گے اور تمہاری مغفرت بھی کردے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔''
گویا نبوتِ امام الانبیاء ؐ پر ایمان اتنا اہم ہے کہ انسان رحمتِ الہٰی کے دہرے حصے کا حق دار بن جاتا ہے اور اُس کو ایسی طاقت عطا ہوجاتی ہے جس سے مشکل راستوں کو بھی طے کیا جاسکتا ہے۔ ایک دانش ور کے بہ قول مقامِ فکر ہے کہ اگر صرف ایمان لاکر اتنی قوت حاصل ہوجاتی ہے تو اُسوۂ حسنہ کو اپنا کر اور سیرتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے لیے راہ نما بنا کر ہم کس قدر قوی ہوسکتے ہیں۔
کفّارِ مکّہ نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خوب پہچاننے اور پرکھنے کے بعد اُنھیں صادق اور امین کے خطاب دِیے۔ یہ آپؐ کی ابدی عظمتِ سیرت و کردار کا بیّن ثبوت ہے۔ تعریف تو وہی ہے جو دشمن اور غیر بھی کرے، دوست اور اپنے تو کرتے ہی ہیں۔ اللہ نے جنھیں اپنے نام دِیے۔ قرآنِ کریم میں رؤف اور رحیم کہا۔ ننانوے نام عطا کیے۔ اللہ محمود ہے، تو اپنے حبیب کو محمدؐ کہا، اپنے نام سے اپنے حبیب ؐ کا نام مشتق کیا۔ قرآنِ حکیم میں آپؐ کی شان میں متعدد سورے اور آیات نازل فرمائیں۔ ایک مکمل سورہ، سورۂ محمد ؐ کے نام سے نازل فرمایا۔ آپؐ کو اپنے اہلِ بیت ؓسے اتنی محبت تھی کہ آپ ؐ کے اہلِ بیتؓ سے مودّت اللہ نے اُمّتِ مسلمہ پر ابد الآباد تک واجب کردی۔ اپنے محبوب ؐ کے اہلِ بیتؓ اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی اتنے محبوب اور پیارے ہیں۔
وہ ذات جو کمالات کا مجموعہ ، وہ ہستی جو تمام تر عظمتوں کا مرکز، جو حیات ِطیّبہ اور سیرت ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عنوان سے ہمیں نصیب ہوئی، جو درحقیقت ہمارے سارے مسائل اور مشکلات کا حل ہے۔ اِس پوری کائنات کو ذاتِ کردگار نے آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل بنایا ہے، جو اللہ کی خالقیت اور ربوبیت کی شاہ کار ہے۔ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیغمبر ِ امن ہیں۔ وہ سب کے لیے مسیحا اور مدد گار ہیں۔ جو سب کے لیے ایک ایسا آفاقی پیغام لے کر آئے، جو قیامت تک کے لوگوں کے درد کی دوا رہے گا۔
ہمارا ہر دن یومِ مصطفیؐ ہے۔ ہمارا ہر لمحہ، لمحہ ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا، اِس لیے کہ اُن کے نام کے بغیر تو صبح بھی سانس نہیں لیتی۔ ہمارا کوئی دن بغیر نبی ِمکرّمؐ کے نہیں گزرتا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ٗ فرماتے ہیں : ''اللہ تعالیٰ نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نبی ِبرحق بنا کر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت کرائیں، بندوں کے عہد و پیمان سے نکال کر اللہ کے عہد و پیمان کے بندھن میں باندھ دیں، بندوں کی اطاعت چھوڑ کر اللہ کی اطاعت میں لگ جائیں، بندوں کی ولایت سے نکل کر اللہ کی ولایت میں داخل ہوجائیں۔''
ایک موقع پر نبی ِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چند لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: ''یہ کون لوگ ہیں؟ کیوں اِن کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں؟'' کسی صحابی نے بتایا: ''یہ وہی ہیں، جنہوں نے آپؐ کو مکّہ چھوڑنے پر مجبور کیا، یہ وہی ہیں، جنہوں نے آپؐ کو اذیتیں پہنچائیں۔''
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کمالِ رحمت سے فرمایا:
''جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا، میں نے تمہیں معاف کر دیا۔''
نبی ِمکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جامع ترین زندگی، جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بل کہ اقوامِ عالم کے لیے بھی ایک بہترین نمونہ اور اُسوۂ حسنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالمین کو درحقیقت اپنے حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے خَلق فرمایا ہے۔ یہ عالَمِ رنگ و بو، یہ کائنات اُنھی کے طفیل ہے۔
ارشادِ الہٰی ہے، مفہوم : '' اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اُس کے رسول ؐ پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور تمہیں وہ نور عنایت فرمائے گا جس سے تم راہ طے کر سکو گے اور تمہاری مغفرت بھی کردے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔''
گویا نبوتِ امام الانبیاء ؐ پر ایمان اتنا اہم ہے کہ انسان رحمتِ الہٰی کے دہرے حصے کا حق دار بن جاتا ہے اور اُس کو ایسی طاقت عطا ہوجاتی ہے جس سے مشکل راستوں کو بھی طے کیا جاسکتا ہے۔ ایک دانش ور کے بہ قول مقامِ فکر ہے کہ اگر صرف ایمان لاکر اتنی قوت حاصل ہوجاتی ہے تو اُسوۂ حسنہ کو اپنا کر اور سیرتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے لیے راہ نما بنا کر ہم کس قدر قوی ہوسکتے ہیں۔
کفّارِ مکّہ نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خوب پہچاننے اور پرکھنے کے بعد اُنھیں صادق اور امین کے خطاب دِیے۔ یہ آپؐ کی ابدی عظمتِ سیرت و کردار کا بیّن ثبوت ہے۔ تعریف تو وہی ہے جو دشمن اور غیر بھی کرے، دوست اور اپنے تو کرتے ہی ہیں۔ اللہ نے جنھیں اپنے نام دِیے۔ قرآنِ کریم میں رؤف اور رحیم کہا۔ ننانوے نام عطا کیے۔ اللہ محمود ہے، تو اپنے حبیب کو محمدؐ کہا، اپنے نام سے اپنے حبیب ؐ کا نام مشتق کیا۔ قرآنِ حکیم میں آپؐ کی شان میں متعدد سورے اور آیات نازل فرمائیں۔ ایک مکمل سورہ، سورۂ محمد ؐ کے نام سے نازل فرمایا۔ آپؐ کو اپنے اہلِ بیت ؓسے اتنی محبت تھی کہ آپ ؐ کے اہلِ بیتؓ سے مودّت اللہ نے اُمّتِ مسلمہ پر ابد الآباد تک واجب کردی۔ اپنے محبوب ؐ کے اہلِ بیتؓ اللہ تبارک و تعالیٰ کو بھی اتنے محبوب اور پیارے ہیں۔
وہ ذات جو کمالات کا مجموعہ ، وہ ہستی جو تمام تر عظمتوں کا مرکز، جو حیات ِطیّبہ اور سیرت ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عنوان سے ہمیں نصیب ہوئی، جو درحقیقت ہمارے سارے مسائل اور مشکلات کا حل ہے۔ اِس پوری کائنات کو ذاتِ کردگار نے آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل بنایا ہے، جو اللہ کی خالقیت اور ربوبیت کی شاہ کار ہے۔ نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیغمبر ِ امن ہیں۔ وہ سب کے لیے مسیحا اور مدد گار ہیں۔ جو سب کے لیے ایک ایسا آفاقی پیغام لے کر آئے، جو قیامت تک کے لوگوں کے درد کی دوا رہے گا۔
ہمارا ہر دن یومِ مصطفیؐ ہے۔ ہمارا ہر لمحہ، لمحہ ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا، اِس لیے کہ اُن کے نام کے بغیر تو صبح بھی سانس نہیں لیتی۔ ہمارا کوئی دن بغیر نبی ِمکرّمؐ کے نہیں گزرتا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ٗ فرماتے ہیں : ''اللہ تعالیٰ نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نبی ِبرحق بنا کر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت کرائیں، بندوں کے عہد و پیمان سے نکال کر اللہ کے عہد و پیمان کے بندھن میں باندھ دیں، بندوں کی اطاعت چھوڑ کر اللہ کی اطاعت میں لگ جائیں، بندوں کی ولایت سے نکل کر اللہ کی ولایت میں داخل ہوجائیں۔''
ایک موقع پر نبی ِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چند لوگوں کو دیکھا کہ اُن کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: ''یہ کون لوگ ہیں؟ کیوں اِن کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں؟'' کسی صحابی نے بتایا: ''یہ وہی ہیں، جنہوں نے آپؐ کو مکّہ چھوڑنے پر مجبور کیا، یہ وہی ہیں، جنہوں نے آپؐ کو اذیتیں پہنچائیں۔''
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کمالِ رحمت سے فرمایا:
''جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا، میں نے تمہیں معاف کر دیا۔''