نوازشریف نے الیکشن میں کامیابی پرفوج سے بہترتعلقات کا اشارہ دیدیا
وہ جانتے ہیں’’اصولی سیاست ‘‘پرسمجھوتہ کیے بغیر مدت پوری کرنامشکل ہوگا
مسلم لیگ ن جوآئندہ انتخابات میں برسراقتدارآنے کیلیے بہت زیادہ پرامیدہے نے فوج کوبہترتعلقات کے معاملے میں مثبت اشارہ دیدیا ہے اوراس نے گارگل کمیشن کے قیام،جنرل(ر)پرویزمشرف کیخلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی اورنئے آرمی چیف کے انتخاب کے سلسلے میں اپناموقف نرم کرلیاہے۔
ن لیگ ایبٹ آبادکمیشن پربھی زیادہ سخت مؤقف اختیارنہیں کرے گی۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف جب کہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے توان کا اشارہ فوج کی طرف ہی ہوتاہے جس کوان کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں اوران کی مقبولیت سے خوفزدہ بھی ہے۔ ن لیگ کے سربراہ نوازشریف کواس بات کا ادراک ہے کہ وہ اگرالیکشن جیت بھی جاتے ہیں توان کیلیے ''اصولی سیاست ''پرسمجھوتہ کیے بغیرپیپلزپارٹی کی طرح اپنی مدت پوری کرنابہت مشکل ہوگا۔
مسلم لیگ نے اسی موقف کی وجہ سے قومی اسمبلی میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی بل کی مخالفت نہیں کی ورنہ ایک سال قبل تک وہ اس کے سخت خلاف تھے۔ مسلم لیگ ن کے صرف ایک ایم این اے ایازامیرنے سخت مخالفت کی لیکن انہیں بھی آئندہ انتخابات میں ن لیگ سے ٹکٹ لینے کیلیے خاصی جدوجہد کرنا پڑیگی۔ اب تک جوسروے سامنے آئے ہیں ان میں ایک جرمن سروے کے سوا تمام میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کی ہی پیشگوئیاں کی گئی ہیں۔اب تمام نظریں عمران خان پرہیں جو23 مارچ کو مینار پاکستان پر 5 لاکھ افرادکا جلسہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
یہ جلسہ تحریک انصاف میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ پشاور میں اتوار کو بڑا جسلہ کر کے وہ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی اورن لیگ کیلیے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ تاہم شریف برادران کامیابی کیلیے اتنے پرامیدہیں کہ انھوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں صلاح مشورے شروع کردیے ہیں۔ انھیں صرف پنجاب میں قومی اسمبلی کی 148 نشستوں میں سے 90 سے 100 تک ملنے کی امیدہے۔اب تمام پیشگوئیاں یہ کی جارہی ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی تیسرے نمبرپررہے گی۔
تمام جماعتوں سے پہلے انتخابی منشورکا اعلان کرنے سے بھی پتہ چلتاہے کہ نوازشریف کامیابی کے معاملے میں کتنے پراعتماد ہیں۔ انھوں نے گزشتہ روزصحافیوں سے گفتگوکے دوران اشارہ دیاہے کہ وہ آئندہ آرمی چیف کے انتخاب کے معاملے میں مرضی کا انتخاب نہیں کرینگے بلکہ سنیارٹی کواولیت دینگے۔
جنرل کیانی کی مدت اس سال نومبرمیں ختم ہورہی ہے۔ ماضی میں نوازشریف کے جنرل اسلم بیگ، آصف نوازسمیت کسی بھی آرمی چیف سے تعلقات خوشگوار نہیں رہے،جنرل جہانگیر کرامت کوتوانھوں نے جبری ریٹائرہی کردیا،جنرل مشرف کوآرمی چیف بنانے سے قبل نوازشریف انھیں جانتے تک نہیں تھے اور انھوں نے اپنے بھائی شہبازشریف اورچوہدری نثارکی سفارش پرجنرل علی قلی کونظراندازکرکے پرویزمشریف کو آرمی چیف بنایاتھا۔
ن لیگ ایبٹ آبادکمیشن پربھی زیادہ سخت مؤقف اختیارنہیں کرے گی۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف جب کہتے ہیں کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے توان کا اشارہ فوج کی طرف ہی ہوتاہے جس کوان کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں اوران کی مقبولیت سے خوفزدہ بھی ہے۔ ن لیگ کے سربراہ نوازشریف کواس بات کا ادراک ہے کہ وہ اگرالیکشن جیت بھی جاتے ہیں توان کیلیے ''اصولی سیاست ''پرسمجھوتہ کیے بغیرپیپلزپارٹی کی طرح اپنی مدت پوری کرنابہت مشکل ہوگا۔
مسلم لیگ نے اسی موقف کی وجہ سے قومی اسمبلی میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی بل کی مخالفت نہیں کی ورنہ ایک سال قبل تک وہ اس کے سخت خلاف تھے۔ مسلم لیگ ن کے صرف ایک ایم این اے ایازامیرنے سخت مخالفت کی لیکن انہیں بھی آئندہ انتخابات میں ن لیگ سے ٹکٹ لینے کیلیے خاصی جدوجہد کرنا پڑیگی۔ اب تک جوسروے سامنے آئے ہیں ان میں ایک جرمن سروے کے سوا تمام میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کی ہی پیشگوئیاں کی گئی ہیں۔اب تمام نظریں عمران خان پرہیں جو23 مارچ کو مینار پاکستان پر 5 لاکھ افرادکا جلسہ کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
یہ جلسہ تحریک انصاف میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ پشاور میں اتوار کو بڑا جسلہ کر کے وہ خیبرپختونخوا میں جے یو آئی اورن لیگ کیلیے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ تاہم شریف برادران کامیابی کیلیے اتنے پرامیدہیں کہ انھوں نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں صلاح مشورے شروع کردیے ہیں۔ انھیں صرف پنجاب میں قومی اسمبلی کی 148 نشستوں میں سے 90 سے 100 تک ملنے کی امیدہے۔اب تمام پیشگوئیاں یہ کی جارہی ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی تیسرے نمبرپررہے گی۔
تمام جماعتوں سے پہلے انتخابی منشورکا اعلان کرنے سے بھی پتہ چلتاہے کہ نوازشریف کامیابی کے معاملے میں کتنے پراعتماد ہیں۔ انھوں نے گزشتہ روزصحافیوں سے گفتگوکے دوران اشارہ دیاہے کہ وہ آئندہ آرمی چیف کے انتخاب کے معاملے میں مرضی کا انتخاب نہیں کرینگے بلکہ سنیارٹی کواولیت دینگے۔
جنرل کیانی کی مدت اس سال نومبرمیں ختم ہورہی ہے۔ ماضی میں نوازشریف کے جنرل اسلم بیگ، آصف نوازسمیت کسی بھی آرمی چیف سے تعلقات خوشگوار نہیں رہے،جنرل جہانگیر کرامت کوتوانھوں نے جبری ریٹائرہی کردیا،جنرل مشرف کوآرمی چیف بنانے سے قبل نوازشریف انھیں جانتے تک نہیں تھے اور انھوں نے اپنے بھائی شہبازشریف اورچوہدری نثارکی سفارش پرجنرل علی قلی کونظراندازکرکے پرویزمشریف کو آرمی چیف بنایاتھا۔