اُلجھے دامن کو ہٹاتے نہیں جھٹکا دے کر
پاکستان کی تاریخ اور سیاست کے طالبعلم ہونے کے ناتے ہمیں علم ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں بھی ہماری تاریخ میں پیوست ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار عنایتوں کے بعد پاکستان جیسا خوشحال ملک دنیا میں کوئی نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس کہ یہ ملک جہنم بنتا جا رہا ہے۔ پہلے لوگ صرف تلاش رزق میں یہاں سے بھاگتے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ سیاستدان ہوں یا جرنیل پہلی فرصت میں اپنے بچوں اور سرمائے کو باہر منتقل کرنے میں لگے ہیں۔ کسی کے نزدیک اصل مسئلہ کرپشن ہے، کسی کے نزدیک مذہب کا غلط استعمال،کسی کے نزدیک انتہاپسندی ہے، کسی کے نزدیک توانائی کا بحران ہے، کسی کے نزدیک تعلیم کی کمی ہے۔
یقیناً یہ سب اپنی اپنی جگہ اہم ترین مسائل ہیں لیکن گہرائی میں دیکھا جائے تو ان سب مسائل کی ماں یا ام المسائل سول ملٹری تعلقات کی خرابی یا پھر اس کا عدم توازن ہے۔ جب تک اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاتا تب تک مذکورہ بالا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا بلکہ کچھ بھی کیا جائے اور کتنی بھی قربانیاں دی جائیں درج بالا سب مسائل حل ہونے کی بجائے سنگین ہوتے جائیں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان روز اول سے نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ ہے اور دن بہ دن اس کی حیثیت مزید مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔
ہماری تاریخ کا ایک اہم ترین اور نمایاں سبق یہ سچ کہ جب ایک بار فوج سیاست میں ملوث یا شامل ہوجائے تو پھر دہائیوں تک اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، اگر سیاست دان اور حکمران یہ سوچیں یا خواب دیکھیں کہ وہ تنہا اختیارات یا فیصلوں کا سرچشمہ یا منبع ہیں، تو یہ حکمرانوں کی خام خیالی ہوگی۔
جتنے مرضی وہ ووٹ لے لیں، جتنے چاہیں انتخابات جیت لیں، جتنے نعرے چاہیں لگوا لیں لیکن اب اہم قومی فیصلوں میں اور ملک چلانے میں فوج شریک اقتدار رہے گی۔ اس لیے میموگیٹ اسکینڈل اور ڈان لیکس جیسی حرکات یا سازشیں حکومت کو کمزور اور حکمرانوں کی جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں اور بیک فائر کرتی ہیں۔ صرف اتنا سا سبق یاد رکھا جائے تو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں نہ رخنے پڑیں گے اور نہ دراڑیں نمودار ہوں گی ویسے بھی بقول شاعر:
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو ہٹاتے نہیں جھٹکا دے کر
لیکن اگر بار بار وہی غلطیاں دہرائی جائیں تو پھر نتائج بھی وہی نکلیں گے جو ہم بار بار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس سول ملٹری تناؤ کی وجہ سے پاکستان کو خارجی اور داخلی محاذوں پر کتنے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کہاں کہاں پاکستان کو کس کس طرح کی سبکی اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ تعلقات دھرنوں کی وجہ سے خراب ہوں، پانامہ لیکس اس کی وجہ بنے یا پھر ڈان لیکس اس کا سبب ہو یا پھر سیاست دانوں کی بونگیاں اور لاف زنی اس کی ذمے دار ہو قیمت بہرحال پاکستان کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
آج فوج پاکستان میں واحد مضبوط اور طاقتور ترین ادارہ ہے جب کہ دوسری طرف پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا جیسے ادارے حد سے زیادہ کمزور یا پھر بگاڑ کے شکار ہیں۔ یوں سول اداروں اور ملٹری کے مابین کردار اور اختیار کی ایک کشمکش جاری رہتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ جس ملک میں آئین موجود ہو وہاں کسی طبقے یا ادارے کی بالادستی کا نہیں صرف اور صرف آئین کی بالادستی کا تصور پایا جاتا ہے جس پر کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے قوانین اور تمام قومی اداروں کے ضابطوں کا سرچشمہ آئین ہوتا ہے جس کی حدود و قیود اور تقاضوں کی پاسداری سب پر لازم ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایک سے زائد افراد ہوں یا ادارے، ان کی فکر حرف بہ حرف من و عن ہونا انسانی فطرت کے منافی ہے۔
ہر ذی ہوش اس بات سے واقف ہے کہ فوج سے تعلق رکھنے والے معاملات میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹیوں، کونسلوں، مجالس قائمہ یا دوسرے ناموں سے موجود ان اداروں میں قومی سلامتی کی ذمے دار مشینری کی حیثیت سے عسکری قیادت اور عوام کی منتخب سول حکومت کی ایک میز پر مشاورت یقینی بنائی جاتی ہے۔ اس دوران سامنے آنیوالے اختلاف رائے کو نہ تو اچھالا جاتا ہے، نہ کسی کی تضحیک کی جاتی ہے، نہ کوئی خود کو برتر سمجھتا ہے۔ مگر حتمی فیصلہ عوامی نمائندگی کی حامل سویلین حکومت کو کرنا ہوتا ہے لیکن عالمی اصول یہی ہے کہ جن ملکوں میں فوج اپنی بالادستی قائم کر لیتی ہے انھیں مہذب دنیا میں قدر کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملکوں اور قوموں کو بنانے، بگاڑنے، جوڑنے اور توڑنے میں قیادت کا کردار مرکزی اور بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر ڈپٹی کمشنر نالائق یا بدنیت ہو تو ضلع کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن اگر استاد بدنیت اور جاہل ہو تو وہ نسلیں تباہ کر جاتا ہے، اسی طرح اگر لیڈر نالائق ہو تو وہ ملک و قوم کا ستیا ناس کر جاتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے قیادت کے فقدان پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور غیر ملکی و ملکی مصنفین کی اکثر کتابوں میں اس نوحے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی ہماری قیادت کی نالائقیوں اور غلط فیصلوں کا نتیجہ تھی۔
کیا ہے کہ راستے پر کنکر ہوں تو بھی ایک اچھا جوتا پہن کر اس پر چلا جاسکتا ہے لیکن جب ایک اچھے جوتے کے اندر ہی ایک کنکر ہو تو اچھی سڑک پر بھی نہیں چلا جاسکتا، یعنی یہ کہ انسان یا قومیں باہر کے چیلنجز اور بیرونی مخالفین کی وجہ سے نہیں ہارتیں بلکہ اپنے اندر کی کمزوریاں قوموں کی شکست کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہر ملک اور ہر قوم کی اپنی تاریخ ہوتی ہے اور تاریخ سبق سکھاتی رہتی ہے لیکن ہم ان سے صرف نظر کرتے رہتے ہیں۔ ہر بار نئے تجربے اور نت نئے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
توقع ہوتی ہے کہ اس بار اس کا نتیجہ کچھ اور نکلے گا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ہر بار نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ اس کے باوجود ہم تاریخ سے نہیں سیکھتے۔ افسوس ہماری سیاسی قیادت کے ایک غلط فیصلے نے پاکستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اس میں تباہی کے بیج بو دیے۔ ہماری نسل نو کیا جانے کہ وہ کون سی غلط اینٹ تھی جس کے رکھنے کے بعد عمارت کی شکل ہی بدلتی چلی گئی۔
ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی وفات پاگئے۔ تمام تر الزامات اور تنقید کے باوجود لیاقت علی خان نے جمہوری تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا اور سول ملٹری تعلقات اپنی حدود و قیود میں رہے۔ فوج خالصتاً پروفیشنل آرمی رہی اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان سروس میں توسیع کے لیے ڈیفنس سیکریٹری کے دفتر کے چکر لگایا کرتے تھے۔
لیاقت علی خان کی شہادت ایک ایسا سانحہ تھا جس نے مسلم لیگی قیادت کی اندرونی دھڑے بندی، نااہلی اور سازشوں کے سبب بیورو کریسی کے لیے اقتدار کا دروازہ کھول دیا۔ جب سے تادم تحریر سول ملٹری تناؤ کمی بیشی کے ساتھ موجود ہے، کسی نہ کسی واقعے پر یہ کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور یہ ملک کے لیے اچھا نہیں۔ کسی بھی مسئلے کو طول دینے اور بحران کی شکل دینے میں حکومتی پالیسیوں کا عمل دخل سب سے زیادہ ہوتا ہے وگرنہ اسے گفتگو کے ذریعے مصالحانہ انداز اختیار کرکے شروع ہی میں حل کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان کی تاریخ اور سیاست کے طالبعلم ہونے کے ناتے ہمیں علم ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں بھی ہماری تاریخ میں پیوست ہیں۔
یقیناً یہ سب اپنی اپنی جگہ اہم ترین مسائل ہیں لیکن گہرائی میں دیکھا جائے تو ان سب مسائل کی ماں یا ام المسائل سول ملٹری تعلقات کی خرابی یا پھر اس کا عدم توازن ہے۔ جب تک اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاتا تب تک مذکورہ بالا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا بلکہ کچھ بھی کیا جائے اور کتنی بھی قربانیاں دی جائیں درج بالا سب مسائل حل ہونے کی بجائے سنگین ہوتے جائیں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پاکستان روز اول سے نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ ہے اور دن بہ دن اس کی حیثیت مزید مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔
ہماری تاریخ کا ایک اہم ترین اور نمایاں سبق یہ سچ کہ جب ایک بار فوج سیاست میں ملوث یا شامل ہوجائے تو پھر دہائیوں تک اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، اگر سیاست دان اور حکمران یہ سوچیں یا خواب دیکھیں کہ وہ تنہا اختیارات یا فیصلوں کا سرچشمہ یا منبع ہیں، تو یہ حکمرانوں کی خام خیالی ہوگی۔
جتنے مرضی وہ ووٹ لے لیں، جتنے چاہیں انتخابات جیت لیں، جتنے نعرے چاہیں لگوا لیں لیکن اب اہم قومی فیصلوں میں اور ملک چلانے میں فوج شریک اقتدار رہے گی۔ اس لیے میموگیٹ اسکینڈل اور ڈان لیکس جیسی حرکات یا سازشیں حکومت کو کمزور اور حکمرانوں کی جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں اور بیک فائر کرتی ہیں۔ صرف اتنا سا سبق یاد رکھا جائے تو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں نہ رخنے پڑیں گے اور نہ دراڑیں نمودار ہوں گی ویسے بھی بقول شاعر:
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو ہٹاتے نہیں جھٹکا دے کر
لیکن اگر بار بار وہی غلطیاں دہرائی جائیں تو پھر نتائج بھی وہی نکلیں گے جو ہم بار بار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اس سول ملٹری تناؤ کی وجہ سے پاکستان کو خارجی اور داخلی محاذوں پر کتنے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کہاں کہاں پاکستان کو کس کس طرح کی سبکی اٹھانی پڑتی ہے۔ یہ تعلقات دھرنوں کی وجہ سے خراب ہوں، پانامہ لیکس اس کی وجہ بنے یا پھر ڈان لیکس اس کا سبب ہو یا پھر سیاست دانوں کی بونگیاں اور لاف زنی اس کی ذمے دار ہو قیمت بہرحال پاکستان کو ادا کرنی پڑتی ہے۔
آج فوج پاکستان میں واحد مضبوط اور طاقتور ترین ادارہ ہے جب کہ دوسری طرف پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا جیسے ادارے حد سے زیادہ کمزور یا پھر بگاڑ کے شکار ہیں۔ یوں سول اداروں اور ملٹری کے مابین کردار اور اختیار کی ایک کشمکش جاری رہتی ہے۔ لیکن اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ جس ملک میں آئین موجود ہو وہاں کسی طبقے یا ادارے کی بالادستی کا نہیں صرف اور صرف آئین کی بالادستی کا تصور پایا جاتا ہے جس پر کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے قوانین اور تمام قومی اداروں کے ضابطوں کا سرچشمہ آئین ہوتا ہے جس کی حدود و قیود اور تقاضوں کی پاسداری سب پر لازم ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایک سے زائد افراد ہوں یا ادارے، ان کی فکر حرف بہ حرف من و عن ہونا انسانی فطرت کے منافی ہے۔
ہر ذی ہوش اس بات سے واقف ہے کہ فوج سے تعلق رکھنے والے معاملات میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹیوں، کونسلوں، مجالس قائمہ یا دوسرے ناموں سے موجود ان اداروں میں قومی سلامتی کی ذمے دار مشینری کی حیثیت سے عسکری قیادت اور عوام کی منتخب سول حکومت کی ایک میز پر مشاورت یقینی بنائی جاتی ہے۔ اس دوران سامنے آنیوالے اختلاف رائے کو نہ تو اچھالا جاتا ہے، نہ کسی کی تضحیک کی جاتی ہے، نہ کوئی خود کو برتر سمجھتا ہے۔ مگر حتمی فیصلہ عوامی نمائندگی کی حامل سویلین حکومت کو کرنا ہوتا ہے لیکن عالمی اصول یہی ہے کہ جن ملکوں میں فوج اپنی بالادستی قائم کر لیتی ہے انھیں مہذب دنیا میں قدر کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملکوں اور قوموں کو بنانے، بگاڑنے، جوڑنے اور توڑنے میں قیادت کا کردار مرکزی اور بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر ڈپٹی کمشنر نالائق یا بدنیت ہو تو ضلع کا کچھ نہیں بگڑتا لیکن اگر استاد بدنیت اور جاہل ہو تو وہ نسلیں تباہ کر جاتا ہے، اسی طرح اگر لیڈر نالائق ہو تو وہ ملک و قوم کا ستیا ناس کر جاتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے قیادت کے فقدان پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور غیر ملکی و ملکی مصنفین کی اکثر کتابوں میں اس نوحے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی ہماری قیادت کی نالائقیوں اور غلط فیصلوں کا نتیجہ تھی۔
کیا ہے کہ راستے پر کنکر ہوں تو بھی ایک اچھا جوتا پہن کر اس پر چلا جاسکتا ہے لیکن جب ایک اچھے جوتے کے اندر ہی ایک کنکر ہو تو اچھی سڑک پر بھی نہیں چلا جاسکتا، یعنی یہ کہ انسان یا قومیں باہر کے چیلنجز اور بیرونی مخالفین کی وجہ سے نہیں ہارتیں بلکہ اپنے اندر کی کمزوریاں قوموں کی شکست کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہر ملک اور ہر قوم کی اپنی تاریخ ہوتی ہے اور تاریخ سبق سکھاتی رہتی ہے لیکن ہم ان سے صرف نظر کرتے رہتے ہیں۔ ہر بار نئے تجربے اور نت نئے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
توقع ہوتی ہے کہ اس بار اس کا نتیجہ کچھ اور نکلے گا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن ہر بار نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ اس کے باوجود ہم تاریخ سے نہیں سیکھتے۔ افسوس ہماری سیاسی قیادت کے ایک غلط فیصلے نے پاکستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی اور اس میں تباہی کے بیج بو دیے۔ ہماری نسل نو کیا جانے کہ وہ کون سی غلط اینٹ تھی جس کے رکھنے کے بعد عمارت کی شکل ہی بدلتی چلی گئی۔
ہماری بدقسمتی کہ قائد اعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی وفات پاگئے۔ تمام تر الزامات اور تنقید کے باوجود لیاقت علی خان نے جمہوری تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا اور سول ملٹری تعلقات اپنی حدود و قیود میں رہے۔ فوج خالصتاً پروفیشنل آرمی رہی اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان سروس میں توسیع کے لیے ڈیفنس سیکریٹری کے دفتر کے چکر لگایا کرتے تھے۔
لیاقت علی خان کی شہادت ایک ایسا سانحہ تھا جس نے مسلم لیگی قیادت کی اندرونی دھڑے بندی، نااہلی اور سازشوں کے سبب بیورو کریسی کے لیے اقتدار کا دروازہ کھول دیا۔ جب سے تادم تحریر سول ملٹری تناؤ کمی بیشی کے ساتھ موجود ہے، کسی نہ کسی واقعے پر یہ کھل کر سامنے آجاتے ہیں اور یہ ملک کے لیے اچھا نہیں۔ کسی بھی مسئلے کو طول دینے اور بحران کی شکل دینے میں حکومتی پالیسیوں کا عمل دخل سب سے زیادہ ہوتا ہے وگرنہ اسے گفتگو کے ذریعے مصالحانہ انداز اختیار کرکے شروع ہی میں حل کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان کی تاریخ اور سیاست کے طالبعلم ہونے کے ناتے ہمیں علم ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں بھی ہماری تاریخ میں پیوست ہیں۔