تم میرے وجود میں رہتے ہو
کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ اللہ کی باقی نعمتیں ہیں، ان کے شکرانے کے طور پر ہی اپنی زندگی کو ایک عام عورت کی طرح گزار لوں
میں نے اس تکیے پر سر رکھا ہے تو اس میں تمہاری خوشبو کو محسوس کیاہے، تمہارے بالوں کی خوشبو، تمہاری سانسوں کی خوشبو، اس آفٹر شیو کی خوشبو جو تم اپنے چہرے پر لگاتے تھے۔ کبھی جو میں صبح گھر سے روانہ ہونے میں دیر ہونے پر تمہیں ڈانٹنے کے لیے تمہارے کمرے میں آتی تو تم اس آفٹر شیو کو اپنے چہرے پر تھپتھپاتے ہوئے آ رہے ہوتے، مجھے دیکھ کر شرارت سے تم وہی ہاتھ میرے چہرے پر ملتے اور کہتے، ''اس خوشبو کی وجہ سے آپ دن بھر مجھے اپنے پاس محسوس کریں گی، آپ کو لگے گا کہ میں گھر سے گیا ہی نہیں''
پھر تم ایک دن ایسے گھر سے گئے کہ لوٹ کر اپنے قدموں پر واپس نہ آئے، اس روز میں نے تمہارا آفٹر شیو خوداپنے ہاتھوں اور چہرے پرملا تا کہ مجھے محسوس ہو کہ تم کہیں گئے ہی نہیں۔ بعد میںمیں نے جہاں جہاں سے ممکن ہوا اس کی بہت ساری بوتلیں خرید لیں کہ کہیں ایسا آفٹر شیو بننا بند نہ ہو جائے۔ کیسا مبارک مگرکیسابھیانک تھا وہ دن اور پھر اس کے بعد آنے والے سارے دن۔ جمعہ،چار دسمبر، 2009۔
شام کو ہمارے گھر میں تم نہیں تھے مگر گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ گھر سے باہر بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے، صرف ہمارے ہی گھر میں نہیں ... بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھی تھی۔ ہر گھر میں ایسا ہی منظر تھا، ہمارے گھر میںتمہاراوجود جسد خاکی کے نام سے پکارا جا رہا تھا، کوئی تمہیں نام سے نہیں بلا رہا تھا، ایک میں ہی تمہیں پکار رہی تھی، ''کوئی میرے بیٹے کو بلاؤ...میرے بیٹے، کوئی اس سے کہے کہ ایک بار اٹھو، ماں کو ایک بار لاڈ کرو، آخری بار ماں کو مسکرا کر دکھاؤ، میری جان، میرے لال کیوں ماں سے روٹھ کر یوں خاموش ہو گئے ہو ؟؟'' باقی سب تمہیں میت کہہ کر بات کر رہے تھے اور میرے دل پر چھریوں سے وار ہو رہے تھے۔
'' میت کب تک گھر میں لائی جائے گی؟
میت اس وقت کہاں ہے؟
میت کس حالت میں ہے؟
میت کا غسل اور تکفین کہاں اور کس وقت ہو گی؟
کسی کے انتظار میں میت کو رکھا تو نہیں جائے گا؟''
اردگرد بیٹھے لوگ ایسی باتیں کر رہے تھے اور ماں کا دل تڑپ رہا تھا... ''کیا چند گھنٹوں میں میں اس دیدار سے بھی ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں گی؟ یہ میرا لال جو گھر سے ہنستا ہوا، مجھ سے لپٹ کر خدا حافظ کہہ کر... دروازے تک پہنچ کر پلٹا تھا، رک کر پوچھا تھا، رات کو کھانے میں کیا پکے گا اماں ؟ ''
'' جاؤ تم اب!!'' میں نے اسے پیار سے دھکیل کر گھر سے باہر نکالا تھا، '' دیر ہو رہی ہے!!''
'' آج جانے کو دل نہیں چاہ رہا اماں !!'' تم نے پھر ہنس کر پلٹ کر کہا تھا-
'' جاؤ بیٹا... فرض کی ادائیگی میں یوں بے دلی سے جائیں تو اللہ تعالی ناراض ہوجاتا ہے!!''
'' جاتا ہوں ... '' کہہ کر تم چلے گئے، میری آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو مجھے یونہی خیال آیا کہ تم سے پوچھ ہی لیتی کہ تمہارا اس روز جانے کو دل کیوںنہیں چاہ رہا تھا- مجھے کیا علم تھا کہ جو سوال میںپوچھ نہ سکی تھی اس کی مہلت مجھے آئندہ کبھی نہ ملنے والی تھی-
میں جو تمہارے جانے کے بعد سوچ رہی تھی کہ میں ایسا کیا پکاؤں جس سے تم خوش ہو جاؤ، واپس لوٹو تو تم خوشبو سونگھ کر ہی کہہ دو، '' واہ اماں ... دل خوش کر دیا آج تو!!''
میں فرج اور فریزر میں سے چیزیں نکال رہی تھی کہ باہر سے ایسی آوازیں سنائی دیں جن سے میرے کان مانوس نہ تھے- میرے دل کی دھڑکن تھم تھم کر چلنے لگی، کہیں کچھ ہو اتھا، مگر کہاں ؟ فورا ٹی وی آن کیا، وہاں سے کچھ خبر نہ ملی، دماغ نے کہا، باہر نکلو، '' قریب ہی کچھ ہوا ہے...'' ہمت ہی نہ ہو رہی تھی کہ گھر سے باہر نکلتی، تبھی آوازیں گولیوں کی بوچھاڑوں میںبدل گئیں- ایک فوجی کی بیوی ہونے کی وجہ سے گولیوں کی آوازوں کی کچھ تو پہچان تھی، یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ آوازیں بہت قریب سے آ رہی ہیں- ''کہاں سے؟ '' دل نے سانس روک کر سوال کیا- '' شاید چیک پوسٹ سے!!'' دماغ نے ماتھے پر سوچ کے بل ڈال کر کہا- ''باہر بھاگو اور دیکھو کیا ہو رہا ہے چند گز کے فاصلے پر!!'' ٹانگوں نے وجود کو زور سے دھکا دے کر کہا- '' قیامت آ گئی ہے شاید!! '' آنکھوں نے باہر کا منظر دیکھ کر کہا تھا-
'' کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ '' بانہوںنے ایک چیخ چیخ کر اپنے گھر کی سمت بھاگتے ہوئے بچے کو پکڑ کر سوال کیا-
'' مسجد میں ... '' اس نے اتنا کہا اور بلک بلک کر چیخنے لگا، اس کی چیخوں سے آسمان بھی شق ہو گیا، میرا وجود تو ٹوٹے ٹوٹے ہو کر بکھر گیا، میں مٹی کی ڈھیری بن کر وہیں بیٹھ گئی- قیامت آئی تھی نا، سب بھاگ رہے تھے- کوئی مسجد سے اور کوئی مسجد کی طرف، مگر مسجد کی طرف بھاگنے والے وہ تھے جو اس لوگوں کی جان بچانے کے لیے جا رہے تھے ، جو نہتے تھے او ر ان پر گولیوں کی برسات ہو رہی تھی- مسجد سے آنے والے وہ تھے جن کے چہرے بھی نظر نہ آرہے تھے، ' خاک میں لتھڑے ہوئے ، خون میں نہلائے ہوئے'- میں اپنے گھر کے سامنے سڑک پر گھٹنوں کے بل جم گئی تھی، میدان حشر میں بھی میں حرکت کے قابل نہ تھی، بھاگتی کیونکر، بھاگتی تو کس سمت جاتی؟
ان گولیوں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چیک پوسٹ والوں کے پاس اسلحہ اور نفری دونوں نا کافی تھے- اس سانحے سے جرات، ہمدردی اور قربانی کے ایسے ایسے واقعات نے جنم لیا جو ان شہیدوں کے نام کو رہتی دنیا تک کے لیے امر کر گئے ہیں- میرے گھر کا اکلوتا چراغ بجھ گیا، میں وہیں سڑک پر انتظار کر رہی تھی کہ وہ لہو سے لتھڑا ہوا ہی سہی مگر ابھی آئے گا، مگر میرا انتظار انتظار ہی رہا-
'' وہ کہہ رہے تھے، چن چن کر فوجیوں کے بچوں کو مارو...'' کسی بچ کر نکل آنے والے نے بتایا- پھر میںنے کیوں سوچ لیا کہ میرا بچہ!! میں نے آسمان کی طرف بانہیں اٹھا کر اللہ تعالی سے اپنے بیٹے کی ہی نہیں، سب کے بیٹوں کی زندگی کی دعا مانگی اور دینے والے نے قبول تو کی مگر انھیں فانی نہیں بلکہ ابدی حیات دے کر- ان کا لہو، اس ناقدری قوم کی زکوۃ کے طور پر چلاگیا-
میں ایک محروم ماں بن گئی، میرا وجود قبر بن گیا اور میرا بیٹا اس قبر میں اتر گیا، مجھے یوں لگا کہ میرا بیٹا میرے وجود میں چھپ گیا ہے اسی طرح جیسے وہ اپنی پیدائش سے پہلے میرے وجود میں تھا- لیکن اب فرق یہ ہے کہ میں اسے جنم نہیں دوں گی، اسے اس دنیا میں نہیں لاؤں گی جہاں اتنی تکالیف ہیں، اتنے آلام ہیں، اتنی دہشت گردی ہے، نا قدری ہے، اذیتیں ہیں- میں اسے دوبارہ دنیامیں لا کر اس بے رحم دنیا میں پھر مرنے لے لیے نہیں چھوڑ سکتی، وہ میرے وجود میں محفوظ ہے- آپ کو لگتا ہو گا کہ وہ دنیا میں نہیں رہا مگر میں جانتی ہوں کہ وہ کہا ں ہے، اگر میں اس کی ماں اس دنیا میں ہوں، تووہ میرے وجود میں ہے، میری سوچ میں ہے، میرے خوابوں اور خیالوں میں ہے، میری باتوں اور نظریات میں ہے... میرے اعمال و افعال میں ہے- میرا ہر قدم اس کی خوشی کی خاطر اٹھتا ہے اور میں اسے سوچ سوچ کر جیتی ہوں -
کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ اللہ کی باقی نعمتیں ہیں، ان کے شکرانے کے طور پر ہی اپنی زندگی کو ایک عام عورت کی طرح گزار لوں، اس بیٹے کی ماں تو مر گئی تھی اس روز...ہر روز ایک نئے عزم سے جاگتی ہوں، خود کو کئی طرح سے بہلاتی ہوں مگر کر نہیں پاتی- زندگی سے سکون اور نیند کے الفاظ روٹھ گئے ہیں، اب بھی زندگی کا ہر دن دل پر کئی قیامتیں ڈھاتا ہے- دسمبر آتا ہے تو میرے سارے زخم کھل جاتے ہیں، میری تنہا نہیں، دسمبر ہم بہت سی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے زخم زخم اور لہو لہان دسمبر آتا ہے!!!
پھر تم ایک دن ایسے گھر سے گئے کہ لوٹ کر اپنے قدموں پر واپس نہ آئے، اس روز میں نے تمہارا آفٹر شیو خوداپنے ہاتھوں اور چہرے پرملا تا کہ مجھے محسوس ہو کہ تم کہیں گئے ہی نہیں۔ بعد میںمیں نے جہاں جہاں سے ممکن ہوا اس کی بہت ساری بوتلیں خرید لیں کہ کہیں ایسا آفٹر شیو بننا بند نہ ہو جائے۔ کیسا مبارک مگرکیسابھیانک تھا وہ دن اور پھر اس کے بعد آنے والے سارے دن۔ جمعہ،چار دسمبر، 2009۔
شام کو ہمارے گھر میں تم نہیں تھے مگر گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ گھر سے باہر بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے، صرف ہمارے ہی گھر میں نہیں ... بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھی تھی۔ ہر گھر میں ایسا ہی منظر تھا، ہمارے گھر میںتمہاراوجود جسد خاکی کے نام سے پکارا جا رہا تھا، کوئی تمہیں نام سے نہیں بلا رہا تھا، ایک میں ہی تمہیں پکار رہی تھی، ''کوئی میرے بیٹے کو بلاؤ...میرے بیٹے، کوئی اس سے کہے کہ ایک بار اٹھو، ماں کو ایک بار لاڈ کرو، آخری بار ماں کو مسکرا کر دکھاؤ، میری جان، میرے لال کیوں ماں سے روٹھ کر یوں خاموش ہو گئے ہو ؟؟'' باقی سب تمہیں میت کہہ کر بات کر رہے تھے اور میرے دل پر چھریوں سے وار ہو رہے تھے۔
'' میت کب تک گھر میں لائی جائے گی؟
میت اس وقت کہاں ہے؟
میت کس حالت میں ہے؟
میت کا غسل اور تکفین کہاں اور کس وقت ہو گی؟
کسی کے انتظار میں میت کو رکھا تو نہیں جائے گا؟''
اردگرد بیٹھے لوگ ایسی باتیں کر رہے تھے اور ماں کا دل تڑپ رہا تھا... ''کیا چند گھنٹوں میں میں اس دیدار سے بھی ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں گی؟ یہ میرا لال جو گھر سے ہنستا ہوا، مجھ سے لپٹ کر خدا حافظ کہہ کر... دروازے تک پہنچ کر پلٹا تھا، رک کر پوچھا تھا، رات کو کھانے میں کیا پکے گا اماں ؟ ''
'' جاؤ تم اب!!'' میں نے اسے پیار سے دھکیل کر گھر سے باہر نکالا تھا، '' دیر ہو رہی ہے!!''
'' آج جانے کو دل نہیں چاہ رہا اماں !!'' تم نے پھر ہنس کر پلٹ کر کہا تھا-
'' جاؤ بیٹا... فرض کی ادائیگی میں یوں بے دلی سے جائیں تو اللہ تعالی ناراض ہوجاتا ہے!!''
'' جاتا ہوں ... '' کہہ کر تم چلے گئے، میری آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو مجھے یونہی خیال آیا کہ تم سے پوچھ ہی لیتی کہ تمہارا اس روز جانے کو دل کیوںنہیں چاہ رہا تھا- مجھے کیا علم تھا کہ جو سوال میںپوچھ نہ سکی تھی اس کی مہلت مجھے آئندہ کبھی نہ ملنے والی تھی-
میں جو تمہارے جانے کے بعد سوچ رہی تھی کہ میں ایسا کیا پکاؤں جس سے تم خوش ہو جاؤ، واپس لوٹو تو تم خوشبو سونگھ کر ہی کہہ دو، '' واہ اماں ... دل خوش کر دیا آج تو!!''
میں فرج اور فریزر میں سے چیزیں نکال رہی تھی کہ باہر سے ایسی آوازیں سنائی دیں جن سے میرے کان مانوس نہ تھے- میرے دل کی دھڑکن تھم تھم کر چلنے لگی، کہیں کچھ ہو اتھا، مگر کہاں ؟ فورا ٹی وی آن کیا، وہاں سے کچھ خبر نہ ملی، دماغ نے کہا، باہر نکلو، '' قریب ہی کچھ ہوا ہے...'' ہمت ہی نہ ہو رہی تھی کہ گھر سے باہر نکلتی، تبھی آوازیں گولیوں کی بوچھاڑوں میںبدل گئیں- ایک فوجی کی بیوی ہونے کی وجہ سے گولیوں کی آوازوں کی کچھ تو پہچان تھی، یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ آوازیں بہت قریب سے آ رہی ہیں- ''کہاں سے؟ '' دل نے سانس روک کر سوال کیا- '' شاید چیک پوسٹ سے!!'' دماغ نے ماتھے پر سوچ کے بل ڈال کر کہا- ''باہر بھاگو اور دیکھو کیا ہو رہا ہے چند گز کے فاصلے پر!!'' ٹانگوں نے وجود کو زور سے دھکا دے کر کہا- '' قیامت آ گئی ہے شاید!! '' آنکھوں نے باہر کا منظر دیکھ کر کہا تھا-
'' کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ '' بانہوںنے ایک چیخ چیخ کر اپنے گھر کی سمت بھاگتے ہوئے بچے کو پکڑ کر سوال کیا-
'' مسجد میں ... '' اس نے اتنا کہا اور بلک بلک کر چیخنے لگا، اس کی چیخوں سے آسمان بھی شق ہو گیا، میرا وجود تو ٹوٹے ٹوٹے ہو کر بکھر گیا، میں مٹی کی ڈھیری بن کر وہیں بیٹھ گئی- قیامت آئی تھی نا، سب بھاگ رہے تھے- کوئی مسجد سے اور کوئی مسجد کی طرف، مگر مسجد کی طرف بھاگنے والے وہ تھے جو اس لوگوں کی جان بچانے کے لیے جا رہے تھے ، جو نہتے تھے او ر ان پر گولیوں کی برسات ہو رہی تھی- مسجد سے آنے والے وہ تھے جن کے چہرے بھی نظر نہ آرہے تھے، ' خاک میں لتھڑے ہوئے ، خون میں نہلائے ہوئے'- میں اپنے گھر کے سامنے سڑک پر گھٹنوں کے بل جم گئی تھی، میدان حشر میں بھی میں حرکت کے قابل نہ تھی، بھاگتی کیونکر، بھاگتی تو کس سمت جاتی؟
ان گولیوں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چیک پوسٹ والوں کے پاس اسلحہ اور نفری دونوں نا کافی تھے- اس سانحے سے جرات، ہمدردی اور قربانی کے ایسے ایسے واقعات نے جنم لیا جو ان شہیدوں کے نام کو رہتی دنیا تک کے لیے امر کر گئے ہیں- میرے گھر کا اکلوتا چراغ بجھ گیا، میں وہیں سڑک پر انتظار کر رہی تھی کہ وہ لہو سے لتھڑا ہوا ہی سہی مگر ابھی آئے گا، مگر میرا انتظار انتظار ہی رہا-
'' وہ کہہ رہے تھے، چن چن کر فوجیوں کے بچوں کو مارو...'' کسی بچ کر نکل آنے والے نے بتایا- پھر میںنے کیوں سوچ لیا کہ میرا بچہ!! میں نے آسمان کی طرف بانہیں اٹھا کر اللہ تعالی سے اپنے بیٹے کی ہی نہیں، سب کے بیٹوں کی زندگی کی دعا مانگی اور دینے والے نے قبول تو کی مگر انھیں فانی نہیں بلکہ ابدی حیات دے کر- ان کا لہو، اس ناقدری قوم کی زکوۃ کے طور پر چلاگیا-
میں ایک محروم ماں بن گئی، میرا وجود قبر بن گیا اور میرا بیٹا اس قبر میں اتر گیا، مجھے یوں لگا کہ میرا بیٹا میرے وجود میں چھپ گیا ہے اسی طرح جیسے وہ اپنی پیدائش سے پہلے میرے وجود میں تھا- لیکن اب فرق یہ ہے کہ میں اسے جنم نہیں دوں گی، اسے اس دنیا میں نہیں لاؤں گی جہاں اتنی تکالیف ہیں، اتنے آلام ہیں، اتنی دہشت گردی ہے، نا قدری ہے، اذیتیں ہیں- میں اسے دوبارہ دنیامیں لا کر اس بے رحم دنیا میں پھر مرنے لے لیے نہیں چھوڑ سکتی، وہ میرے وجود میں محفوظ ہے- آپ کو لگتا ہو گا کہ وہ دنیا میں نہیں رہا مگر میں جانتی ہوں کہ وہ کہا ں ہے، اگر میں اس کی ماں اس دنیا میں ہوں، تووہ میرے وجود میں ہے، میری سوچ میں ہے، میرے خوابوں اور خیالوں میں ہے، میری باتوں اور نظریات میں ہے... میرے اعمال و افعال میں ہے- میرا ہر قدم اس کی خوشی کی خاطر اٹھتا ہے اور میں اسے سوچ سوچ کر جیتی ہوں -
کبھی کبھار سوچتی ہوں کہ اللہ کی باقی نعمتیں ہیں، ان کے شکرانے کے طور پر ہی اپنی زندگی کو ایک عام عورت کی طرح گزار لوں، اس بیٹے کی ماں تو مر گئی تھی اس روز...ہر روز ایک نئے عزم سے جاگتی ہوں، خود کو کئی طرح سے بہلاتی ہوں مگر کر نہیں پاتی- زندگی سے سکون اور نیند کے الفاظ روٹھ گئے ہیں، اب بھی زندگی کا ہر دن دل پر کئی قیامتیں ڈھاتا ہے- دسمبر آتا ہے تو میرے سارے زخم کھل جاتے ہیں، میری تنہا نہیں، دسمبر ہم بہت سی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے زخم زخم اور لہو لہان دسمبر آتا ہے!!!