کچھوے کے انڈے کتے چیل اور کوے کھانے لگے
سینڈز پٹ کے ساحل پرہزاروں کچھوے کتوں ،چیل اورکوؤں کی خوراک بن گئے
ہاکس بے پر سینڈز پٹ کا ساحل کچھوؤں کے لیے موت کی وادی بن گیا۔
کتے، چیل اور کوے کچھووں کے انڈے کھاجاتے ہیں جب کہ مچھیروں کے کٹے ہوئے جال، پلاسٹک کی تھیلیاں اور کچرے کے ڈھیروں نے کچھووں کے قدرتی مسکن کو تباہی سے دوچار کردیا۔ سنگین خطرات کی وجہ سے نایاب نسل کے اولیو ریڈلی(زیتونی) کچھووں نے سینڈز پٹ پر انڈے دینا چھوڑ دیے ،زیتونی کچھوے اب مکمل طور پر ناپید ہوچکے ہیں، سبزکچھووں (گرین ٹرٹل) کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
سینڈز پٹ کا ساحل برسہا برس سے پاکستان میں پائے جانے والے اولیو ریڈلی اور گرین کچھووں کی افزائش نسل کا اہم مقام رہا ہے ،بدقسمتی سے انسانی ہاتھوں سے ہونے والے عوامل کے نتیجے میں دنیا بھر میں نادر ونایاب سمجھے جانے والے اولیو ریڈلی کچھوے گزشتہ چند برس سے افزائش نسل کے لیے سینڈز پٹ پر رپورٹ نہیں ہورہے البتہ سبز کچھوے سینڈز پٹ پر ماحولیاتی تباہی کے باوجود اب بھی انڈے دینے آتے ہیں۔
آبی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) نے گزشتہ روز سینڈز پٹ کے ساحل پر گرین ٹرٹل کی واچ ایکٹی ویٹی کے دوران سمندری کچھووں کا مشاہد ہ کیاجس کے دوران رات کے اندھیرے میں جب ہر جانب سناٹا چھا گیا تو مادہ گرین ٹرٹل کی حرکات و سکنات اور افزائش نسل کے لیے انڈے دینے کا عمل دیکھا گیا۔
آئی یو سی این کے ماہرین ماحولیات نوید سومرو کے مطابق کچھووں کی افزائش نسل کے حوالے سے بلوچستان کے ساحلی مقام مبارک ویلیج سمیت پاکستان میں کچھ دیگر مقامات بھی ہیں مگر سینڈ ز پٹ کے ساحل کی اپنے مخصوص اور منفرد محل وقوع کی بنا پر پوری دنیا میں اہمیت ہے جہاں گرین اور اولیوریڈلی کچھوے افزائش نسل کا عمل انجام دیتے ہیں۔
ماہرین حیوانات اور ماحولیات اس بات پر متفکر ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پر اولیو ریڈلی نے سینڈز پٹ سے منہ موڑ لیاتاہم کچھ عوامل پر ماہرین متفق ہیں جن میں ساحل کی گندگی ،مچھلی کا بے دریغ شکار ،نقصان دہ جال کا دھڑلے سے استعمال ، آوارہ کتوں اور چیل ،کوؤں کی بہتات ہے جس نے اولیو ریڈلی کا سرے سے ہی صفایا کردیا کیونکہ اولیوریڈلی انتہائی حساس مزاج کاکچھوا ہے اور اپنے لیے ہر خطرے کو بہت جلد بھانپ لیتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اولیوریڈلی جیسے خطرات گرین ٹرٹل کو بھی ہیں اور ان کی بقا کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات ناگزیر ہیں ورنہ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو وہ دن دور نہیں جب گرین ٹرٹل بھی اس مسکن کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے سینڈز پٹ پر جابجا موجود کچرے کے ڈھیروں میں پلاسٹک کی تھیلیاں بڑی مقدار بھی موجود ہیں جو ساحل کے کنارے مادہ کچھوے کے افزائش نسل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ،مادہ کچھوے عموما ساحل کے کنارے انڈے دینے کے لیے ایک بڑا گڑھا کھودتی ہے جس کو ماہرین حیوانیات چیمبر کا نام دیتے ہیں ، اس چیمبر یا بڑے گڑھے میں مادہ کچھوا ایک اور چھوٹا گڑھا بناتی ہے جس میں بیک وقت 80 سے 120انڈے دیتی ہے جس دوران مادہ کچھوا گڑھا بنارہی ہوتی ہے تو اکثر پلاسٹک بیگ وغیرہ اس قدرتی عمل کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور کوشش کے باوجوداکثر وبیشتر وہ اپنے چیمبر نہیں بناپاتی اور واپس پانی میں چلی جاتی ہے۔
یہ بہت بڑا خطرہ ہے جن کی وجہ سے کچھووں کا قدرتی مسکن شدید متاثر ہورہاہے ،اگر یہ مادہ کچھوا انڈے دینے میں کامیاب بھی ہوجائے توبھی ایک اور بھیانک خطرہ آوارہ کتوں کی شکل میں موجود ہے جو کچھووں کے افزائش نسل کے اس مقام پر انڈوں اور بچوں کو کھانے کے لیے دن رات گھوم رہے ہوتے ہیں لیونکہ آوارہ کتوں کو دن بھر تفریح کے لیے آنے والے بچھا کچا کھانا ڈال دیتے ہیں اوردن بھر وافر مقدار میں ملنے والے کھانے کے بعد یہ آوارہ کتے اس بات سے بھی آگاہ ہوچکے ہیں کہ کچھووں کے چیمبر میں بھی ان کے کھانے کیلیے کچھ موجود ہے اور پھر وہ کچھووں کے انڈوں کو کھاجاتے ہیں۔
آئی یو سی این کے مطابق ایک سال کے اندر کچھووں کے 6ہزار سے زائد بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا مگر لاتعداد کچھوے ان کتوں کی خوراک بن چکے ہیں رہی سہی کسر ساحل پر بکھرے جال کے ٹکڑے اور پلاسٹک کی تھیلیاں اور کچرے کے ڈھیر جسے ساحل پر بنے درجنوں ہٹس پر تفریح کے لیے آنے والے عارضی قیام کے بعد انتہائی لاپروائی سے ساحل پر پھینک دیتے ہیں ان بچوں کے موت کے شکنجے بن جاتے ہیں اور انڈوں سے نکل کر پانی میں جانے کے چکر میں ان شکنجہ نما جالوں اور کچرے کے ڈھیر میں پھنس کر آوارہ جانوروں کا لقمہ بن جاتے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تمام مسائل انتہائی غور طلب ہیں اس حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی بہت ضرورت ہے کہ ان کے ایک چھوٹے سے عمل کی وجہ سے آبی مخلوق کو لاحق خطرات کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تفریح کے لیے ساحل پر آنے والوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اگر یہاں آنے والے افراد اس بات کو اپنی عادت بنالیں کہ وہ اپنے کھانے پینے کی اشیا سے بننے والا کچرا جاتے وقت ذمے داری سے اپنے ساتھ لے جاکر کسی صحیح جگہ پر ٹھکانے لگا دیں گے تو یقیناً اس عمل کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے اس عمل سے بیک وقت آبی حیات اور ساحلی مقام کی خوبصورتی کو مزید تباہی وبربادی سے بچایا جاسکتا ہے۔
کتے، چیل اور کوے کچھووں کے انڈے کھاجاتے ہیں جب کہ مچھیروں کے کٹے ہوئے جال، پلاسٹک کی تھیلیاں اور کچرے کے ڈھیروں نے کچھووں کے قدرتی مسکن کو تباہی سے دوچار کردیا۔ سنگین خطرات کی وجہ سے نایاب نسل کے اولیو ریڈلی(زیتونی) کچھووں نے سینڈز پٹ پر انڈے دینا چھوڑ دیے ،زیتونی کچھوے اب مکمل طور پر ناپید ہوچکے ہیں، سبزکچھووں (گرین ٹرٹل) کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
سینڈز پٹ کا ساحل برسہا برس سے پاکستان میں پائے جانے والے اولیو ریڈلی اور گرین کچھووں کی افزائش نسل کا اہم مقام رہا ہے ،بدقسمتی سے انسانی ہاتھوں سے ہونے والے عوامل کے نتیجے میں دنیا بھر میں نادر ونایاب سمجھے جانے والے اولیو ریڈلی کچھوے گزشتہ چند برس سے افزائش نسل کے لیے سینڈز پٹ پر رپورٹ نہیں ہورہے البتہ سبز کچھوے سینڈز پٹ پر ماحولیاتی تباہی کے باوجود اب بھی انڈے دینے آتے ہیں۔
آبی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) نے گزشتہ روز سینڈز پٹ کے ساحل پر گرین ٹرٹل کی واچ ایکٹی ویٹی کے دوران سمندری کچھووں کا مشاہد ہ کیاجس کے دوران رات کے اندھیرے میں جب ہر جانب سناٹا چھا گیا تو مادہ گرین ٹرٹل کی حرکات و سکنات اور افزائش نسل کے لیے انڈے دینے کا عمل دیکھا گیا۔
آئی یو سی این کے ماہرین ماحولیات نوید سومرو کے مطابق کچھووں کی افزائش نسل کے حوالے سے بلوچستان کے ساحلی مقام مبارک ویلیج سمیت پاکستان میں کچھ دیگر مقامات بھی ہیں مگر سینڈ ز پٹ کے ساحل کی اپنے مخصوص اور منفرد محل وقوع کی بنا پر پوری دنیا میں اہمیت ہے جہاں گرین اور اولیوریڈلی کچھوے افزائش نسل کا عمل انجام دیتے ہیں۔
ماہرین حیوانات اور ماحولیات اس بات پر متفکر ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بناء پر اولیو ریڈلی نے سینڈز پٹ سے منہ موڑ لیاتاہم کچھ عوامل پر ماہرین متفق ہیں جن میں ساحل کی گندگی ،مچھلی کا بے دریغ شکار ،نقصان دہ جال کا دھڑلے سے استعمال ، آوارہ کتوں اور چیل ،کوؤں کی بہتات ہے جس نے اولیو ریڈلی کا سرے سے ہی صفایا کردیا کیونکہ اولیوریڈلی انتہائی حساس مزاج کاکچھوا ہے اور اپنے لیے ہر خطرے کو بہت جلد بھانپ لیتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اولیوریڈلی جیسے خطرات گرین ٹرٹل کو بھی ہیں اور ان کی بقا کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات ناگزیر ہیں ورنہ اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو وہ دن دور نہیں جب گرین ٹرٹل بھی اس مسکن کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے سینڈز پٹ پر جابجا موجود کچرے کے ڈھیروں میں پلاسٹک کی تھیلیاں بڑی مقدار بھی موجود ہیں جو ساحل کے کنارے مادہ کچھوے کے افزائش نسل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ،مادہ کچھوے عموما ساحل کے کنارے انڈے دینے کے لیے ایک بڑا گڑھا کھودتی ہے جس کو ماہرین حیوانیات چیمبر کا نام دیتے ہیں ، اس چیمبر یا بڑے گڑھے میں مادہ کچھوا ایک اور چھوٹا گڑھا بناتی ہے جس میں بیک وقت 80 سے 120انڈے دیتی ہے جس دوران مادہ کچھوا گڑھا بنارہی ہوتی ہے تو اکثر پلاسٹک بیگ وغیرہ اس قدرتی عمل کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور کوشش کے باوجوداکثر وبیشتر وہ اپنے چیمبر نہیں بناپاتی اور واپس پانی میں چلی جاتی ہے۔
یہ بہت بڑا خطرہ ہے جن کی وجہ سے کچھووں کا قدرتی مسکن شدید متاثر ہورہاہے ،اگر یہ مادہ کچھوا انڈے دینے میں کامیاب بھی ہوجائے توبھی ایک اور بھیانک خطرہ آوارہ کتوں کی شکل میں موجود ہے جو کچھووں کے افزائش نسل کے اس مقام پر انڈوں اور بچوں کو کھانے کے لیے دن رات گھوم رہے ہوتے ہیں لیونکہ آوارہ کتوں کو دن بھر تفریح کے لیے آنے والے بچھا کچا کھانا ڈال دیتے ہیں اوردن بھر وافر مقدار میں ملنے والے کھانے کے بعد یہ آوارہ کتے اس بات سے بھی آگاہ ہوچکے ہیں کہ کچھووں کے چیمبر میں بھی ان کے کھانے کیلیے کچھ موجود ہے اور پھر وہ کچھووں کے انڈوں کو کھاجاتے ہیں۔
آئی یو سی این کے مطابق ایک سال کے اندر کچھووں کے 6ہزار سے زائد بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا مگر لاتعداد کچھوے ان کتوں کی خوراک بن چکے ہیں رہی سہی کسر ساحل پر بکھرے جال کے ٹکڑے اور پلاسٹک کی تھیلیاں اور کچرے کے ڈھیر جسے ساحل پر بنے درجنوں ہٹس پر تفریح کے لیے آنے والے عارضی قیام کے بعد انتہائی لاپروائی سے ساحل پر پھینک دیتے ہیں ان بچوں کے موت کے شکنجے بن جاتے ہیں اور انڈوں سے نکل کر پانی میں جانے کے چکر میں ان شکنجہ نما جالوں اور کچرے کے ڈھیر میں پھنس کر آوارہ جانوروں کا لقمہ بن جاتے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تمام مسائل انتہائی غور طلب ہیں اس حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی بہت ضرورت ہے کہ ان کے ایک چھوٹے سے عمل کی وجہ سے آبی مخلوق کو لاحق خطرات کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تفریح کے لیے ساحل پر آنے والوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اگر یہاں آنے والے افراد اس بات کو اپنی عادت بنالیں کہ وہ اپنے کھانے پینے کی اشیا سے بننے والا کچرا جاتے وقت ذمے داری سے اپنے ساتھ لے جاکر کسی صحیح جگہ پر ٹھکانے لگا دیں گے تو یقیناً اس عمل کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے اس عمل سے بیک وقت آبی حیات اور ساحلی مقام کی خوبصورتی کو مزید تباہی وبربادی سے بچایا جاسکتا ہے۔