ہاکی اپنی موت آپ مر رہی ہے
اسٹار پلیئرز بچوں کو بھی اس کھیل میں لانے کیلئے تیارنہیں
ہاکی پاکستان کا واحد کھیل ہے جسے ملک کیلئے سب سے زیادہ میٖڈلز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے تاہم 1994ء کے بعد سے گرین شرٹس عالمی سطح پر کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
پی ایچ ایف کی بھر پور کوششوں کے باوجود قومی سکواڈز کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، فیڈریشن حکام مستقبل کے ایونٹس میں بہتر نتائج کی امید کے ساتھ مینجمنٹ اور ٹیم کے ساتھ تبدیلیاں کرتے نظر آتے ہیں لیکن رزلٹ پہلے سے بھی بدتر نظر آتے ہیں، حکام کو یہ بھی شکوہ رہا ہے کہ ملک بھر میں باصلاحیت کھلاڑی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔
یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کے وہ کھلاڑی جنہوں نے اس کھیل میں بڑا نام کمایا، وہ بھی اپنے بیٹوں، بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو اس کھیل میں لانے کیلئے تیار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ماضی کے اسٹارز ہی اپنے قریبی عزیزوں کو اس کھیل کی طرف لے کر نہیں آئیں گے تو ہاکی میں بہتری کیوں اور کیسے آسکتی ہے؟
پاکستان ہاکی ٹیم کی عالمی ایونٹس میں مسلسل کامیابیوں کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ پلیئرز قومی کھیل سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے، اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی ان کے قریبی رشتہ داروں میں بھی اس کھیل کی طرف آنے کا شوق پیدا ہوتااور قومی ٹیم کا حصہ بننے کے بعد ہاکی کے افق پر چھا جاتے۔
بہت کم شائقین ہاکی جانتے ہیں کہ لاہور کے ایس خرم اور شاہ رخ حقیقی بھائی تھے جنہوں نے 1948ء اولمپکس میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔نجم الحسن اسی خاندان سے ابھرے، اصغر علی اور قمر بھی آپس میں سگے بھائی تھے۔ ان کے بھتیجے شاہد علی نے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ عزیز ملک کے بعد ان کے بیٹے رشید ملک نے بھی نام پیدا کیا، گوجرانوالہ سے لطیف میر کے بیٹے فرخ میر بھی ہاکی کے میدان میں اترے، ایم نصیب کے بھتیجوں پرویز مٹھو اور گلریز اختر نے ہاکی سے اپنا مستقبل وابستہ کیا۔
رشیدجونیئر کے بڑے بھائی حمیدی نامور کھلاڑی تھے، رشید جونیئر نے میکسیکو اولمپکس 1968ء میں قومی ٹیم کو چیمپئن بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اولمپئن منیرڈار کے چھوٹے بھائی تنویر ڈار نے بھی میکسیکو اولمپکس میں گرانقدر خدمات انجام دیں، ان کے بیٹے توقیر ڈار بھی لاس اینجلس 1984ء کی فاتح ٹیم کا حصہ رہے۔
اولمپئن محمود الحسن کے بیٹے ایاز محمود نے بھی ہاکی میں بڑا نام کمایا، منظور جونیئر کے دو بھائی مقصود احمد اور محمود بھی جونیئر اور سینئر ٹیموں کا حصہ رہے، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری کے بیٹے اختر رسول چوہدری نے ہاکی میں جو نام اور مقام پیدا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ فاروق رسول جونیئر اور خالد اقبال قومی کیمپوں کا حصہ رہے۔ ارشد چوہدری بھی ان کے رشتہ دار تھے جو 1976ء کے اولمپکس مقابلوں میں شریک رہے۔ بعد ازاں ارشد چوہدری کے بھائی افضل چوہدری بھی جونیئر ٹیم کا حصہ رہے۔
خواجہ ذکاء الدین کے بیٹے عمران ذکاء بھی جونیئر ٹیم میں شامل رہے ۔ فل بیک منظور الحسن کے بعد ان کے بھائی رشید الحسن نے بھی دنیائے ہاکی میں خوب نام کمایا،شہناز شیخ قومی ہاکی ٹیم میں شامل ہوئے اور خوب شہرت پائی، ان کے ماموں زاہد شیخ اور کزن طارق شیخ بھی ہاکی میں آئے۔
روم اولمپکس1960 میں تاریخی گول کرکے پاکستان کو پہلی بار چیمپئن بنوانے والے نصیر بندہ کے بعد ان کے2 بیٹوں آصف نصیر اور ناصر نصیر نے بھی ہاکی کھیلی، لالہ رفیق کے بعد ان کے بیٹے عابد زمان بھی اس کھیل سے وابستہ رہے، سگے بھائیوں ایم عظیم اور ایم رشید کے بعد ان کے چچا زاد بھائی ایم اسلم بھی ہاکی کے میدان میں آئے۔ہاکی میں ایک اور معروف نام نعیم اختر کا بھی ہے جو فضل الرحمن کے بھانجے ہیں، اسی طرح قمر ضیا اور ریاض الحق بھی آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
خواجہ محمد اسلم ہلینسکی اولمپکس کا حصہ تھے، اسی گھرانے سے خواجہ بلال بھی ہاکی کے میدان میں آئے، ان کے ایک اور بھائی خواجہ اویس جونیئر ٹیم کا حصہ رہے، خواجہ محمد جنید نے تو دنیائے ہاکی میں بڑا نام کمایا، قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی رہے۔ان کی دو صاحبزادیوں خواجہ شبنم توحید اور ڈاکٹر تبسم شاہین بھی قومی خواتین ٹیم کا حصہ رہیں،اپنے زمانے کے بہترین لیفٹ آؤٹ مطیع اللہ پھر سمیع اللہ کے بعد ہدایت اللہ اور رائٹ آؤٹ کلیم اللہ کی ہاکی خدمات کیلئے تو الگ آرٹیکل کی ضرورت ہے۔
شیخورہ سے تعلق رکھنے والے معروف اولمپئن سعید انور کے عزیز اسد ملک کو کون نہیں جانتا جو میونخ اولمپکس میں پاکستان ٹیم کے کپتان رہے،سعید انور کے بیٹے انجم سعید نے بھی ہاکی میں بڑا نام کمایا، اسی فیملی سے نعیم امجد بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔قومی کھیل کو دوبارہ عروج پر لے جانے کیلئے سابق اولیمپئنز کو ایک بار پھر میدان میں آنا ہوگا اور اپنے علاقوں میں اکیڈمیز اور کلبز بنا کر نوجوان نسل کے ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اس کھیل کی طرف لانے کی ترغیب دینا ہوگی۔
پی ایچ ایف کی بھر پور کوششوں کے باوجود قومی سکواڈز کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، فیڈریشن حکام مستقبل کے ایونٹس میں بہتر نتائج کی امید کے ساتھ مینجمنٹ اور ٹیم کے ساتھ تبدیلیاں کرتے نظر آتے ہیں لیکن رزلٹ پہلے سے بھی بدتر نظر آتے ہیں، حکام کو یہ بھی شکوہ رہا ہے کہ ملک بھر میں باصلاحیت کھلاڑی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔
یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ پاکستان ہاکی ٹیم کے وہ کھلاڑی جنہوں نے اس کھیل میں بڑا نام کمایا، وہ بھی اپنے بیٹوں، بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو اس کھیل میں لانے کیلئے تیار نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ماضی کے اسٹارز ہی اپنے قریبی عزیزوں کو اس کھیل کی طرف لے کر نہیں آئیں گے تو ہاکی میں بہتری کیوں اور کیسے آسکتی ہے؟
پاکستان ہاکی ٹیم کی عالمی ایونٹس میں مسلسل کامیابیوں کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ پلیئرز قومی کھیل سے جنون کی حد تک محبت کرتے تھے، اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی ان کے قریبی رشتہ داروں میں بھی اس کھیل کی طرف آنے کا شوق پیدا ہوتااور قومی ٹیم کا حصہ بننے کے بعد ہاکی کے افق پر چھا جاتے۔
بہت کم شائقین ہاکی جانتے ہیں کہ لاہور کے ایس خرم اور شاہ رخ حقیقی بھائی تھے جنہوں نے 1948ء اولمپکس میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی۔نجم الحسن اسی خاندان سے ابھرے، اصغر علی اور قمر بھی آپس میں سگے بھائی تھے۔ ان کے بھتیجے شاہد علی نے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ عزیز ملک کے بعد ان کے بیٹے رشید ملک نے بھی نام پیدا کیا، گوجرانوالہ سے لطیف میر کے بیٹے فرخ میر بھی ہاکی کے میدان میں اترے، ایم نصیب کے بھتیجوں پرویز مٹھو اور گلریز اختر نے ہاکی سے اپنا مستقبل وابستہ کیا۔
رشیدجونیئر کے بڑے بھائی حمیدی نامور کھلاڑی تھے، رشید جونیئر نے میکسیکو اولمپکس 1968ء میں قومی ٹیم کو چیمپئن بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اولمپئن منیرڈار کے چھوٹے بھائی تنویر ڈار نے بھی میکسیکو اولمپکس میں گرانقدر خدمات انجام دیں، ان کے بیٹے توقیر ڈار بھی لاس اینجلس 1984ء کی فاتح ٹیم کا حصہ رہے۔
اولمپئن محمود الحسن کے بیٹے ایاز محمود نے بھی ہاکی میں بڑا نام کمایا، منظور جونیئر کے دو بھائی مقصود احمد اور محمود بھی جونیئر اور سینئر ٹیموں کا حصہ رہے، ڈاکٹر غلام رسول چوہدری کے بیٹے اختر رسول چوہدری نے ہاکی میں جو نام اور مقام پیدا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ فاروق رسول جونیئر اور خالد اقبال قومی کیمپوں کا حصہ رہے۔ ارشد چوہدری بھی ان کے رشتہ دار تھے جو 1976ء کے اولمپکس مقابلوں میں شریک رہے۔ بعد ازاں ارشد چوہدری کے بھائی افضل چوہدری بھی جونیئر ٹیم کا حصہ رہے۔
خواجہ ذکاء الدین کے بیٹے عمران ذکاء بھی جونیئر ٹیم میں شامل رہے ۔ فل بیک منظور الحسن کے بعد ان کے بھائی رشید الحسن نے بھی دنیائے ہاکی میں خوب نام کمایا،شہناز شیخ قومی ہاکی ٹیم میں شامل ہوئے اور خوب شہرت پائی، ان کے ماموں زاہد شیخ اور کزن طارق شیخ بھی ہاکی میں آئے۔
روم اولمپکس1960 میں تاریخی گول کرکے پاکستان کو پہلی بار چیمپئن بنوانے والے نصیر بندہ کے بعد ان کے2 بیٹوں آصف نصیر اور ناصر نصیر نے بھی ہاکی کھیلی، لالہ رفیق کے بعد ان کے بیٹے عابد زمان بھی اس کھیل سے وابستہ رہے، سگے بھائیوں ایم عظیم اور ایم رشید کے بعد ان کے چچا زاد بھائی ایم اسلم بھی ہاکی کے میدان میں آئے۔ہاکی میں ایک اور معروف نام نعیم اختر کا بھی ہے جو فضل الرحمن کے بھانجے ہیں، اسی طرح قمر ضیا اور ریاض الحق بھی آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
خواجہ محمد اسلم ہلینسکی اولمپکس کا حصہ تھے، اسی گھرانے سے خواجہ بلال بھی ہاکی کے میدان میں آئے، ان کے ایک اور بھائی خواجہ اویس جونیئر ٹیم کا حصہ رہے، خواجہ محمد جنید نے تو دنیائے ہاکی میں بڑا نام کمایا، قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی رہے۔ان کی دو صاحبزادیوں خواجہ شبنم توحید اور ڈاکٹر تبسم شاہین بھی قومی خواتین ٹیم کا حصہ رہیں،اپنے زمانے کے بہترین لیفٹ آؤٹ مطیع اللہ پھر سمیع اللہ کے بعد ہدایت اللہ اور رائٹ آؤٹ کلیم اللہ کی ہاکی خدمات کیلئے تو الگ آرٹیکل کی ضرورت ہے۔
شیخورہ سے تعلق رکھنے والے معروف اولمپئن سعید انور کے عزیز اسد ملک کو کون نہیں جانتا جو میونخ اولمپکس میں پاکستان ٹیم کے کپتان رہے،سعید انور کے بیٹے انجم سعید نے بھی ہاکی میں بڑا نام کمایا، اسی فیملی سے نعیم امجد بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔قومی کھیل کو دوبارہ عروج پر لے جانے کیلئے سابق اولیمپئنز کو ایک بار پھر میدان میں آنا ہوگا اور اپنے علاقوں میں اکیڈمیز اور کلبز بنا کر نوجوان نسل کے ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اس کھیل کی طرف لانے کی ترغیب دینا ہوگی۔