پرندے پالنے کا شوق کا روبار بن گیا ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ

پرندہ بازارمیں نایاب نسل کے قیمتی پرندے بھی فروخت کیے لیے لائے جارہے ہیں

پرندہ بازارمیں نایاب نسل کے قیمتی پرندے بھی فروخت کیے لیے لائے جارہے ہیں؛فوٹوفائل

پرندے پالنے کا شوق اب صرف شوق نہیں رہا بلکہ کاروبار بن چکا ہے کراچی میں ہزاروں افراد اس کاروبار سے وابستہ ہیں جو دن میں چند گھنٹے پرندوں کی دیکھ بھال سے معقول اضافی آمدن کمارہے ہیں۔

لیاقت آباد 10 نمبر پر لگنے والا پرندوں کا ہفتہ وار بازار پرندوں کے کاروبار کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہا ہے کراچی کے علاوہ مضافاتی علاقوں سمیت حیدرآباد ،ٹھٹھہ اور حب سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بھی پرندوں کے تاجر اور شوقین اس بازار میں آتے ہیں پرندوں کے بازار میں کبوتر، مرغی، آسٹریلین طوطوں جیسے عام پرندوں کے علاوہ اعلیٰ اور نایاب نسل کے قیمتی پرندے بھی فروخت کیے لیے لائے جاتے ہیں لیاقت آباد میں پرندوں کا بازار گزشتہ کئی دہائیوں سے لگایا جارہا ہے 15سال قبل یہ بازار لیاقت آباد ڈاکخانہ سے شروع ہوکر سپر مارکیٹ اور فردوس شاپنگ سینٹر تک سڑک کے درمیانی گرین بیلٹ پر لگایا جاتا تھا تاہم ٹریفک کے اژدھام اور گرین بیلٹ کی چوڑائی کم ہونے کے بعد یہ بازار بتدریج لیاقت آباد سے باہر کی جانب منتقل ہورہا ہے فی الوقت یہ بازار سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد سے شروع ہوکر شریف آباد اور کریم آباد سے آنے والی سڑکوں تک پھیلا ہوا ہے۔

جس میں ہفتہ وار عارضی دکانوں کے علاوہ مچھلی اور ایکوریم کی دکانیں، پرندوں کی خوراک، پنجروں اور سامان کی دکانیں مستقل بنیاد پر قائم ہوچکی ہیں اب یہ علاقہ پرندوں اور پالتو جانوروں کے تجارتی مرکز میں تبدیل ہورہا ہے بازار کی اہمیت کے پیش نظر حسین آباد سے غریب آباد جانے والی دونوں جانب کی سڑکوں پر بھی پنجرے بنانے کے کارخانے اور دکانیں بن چکی ہیں اس شوق اور کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ گھروں میں پرندوں کی چہچہاہٹ سے رونق لگی رہتی ہے اور ایک مستقل مصروفیت بھی بن جاتی ہے پرندے پالنے والے زیادہ تر افراد نے پہلے پہل شوق کی تسکین کے لیے پرندے پالنے شروع کیے جو بعد میں کاروبار یا پیشے کی شکل اختیار کرگئے۔

اس کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ 10 سے 20 ہزار روپے کی چھوٹی سی سرمایہ کاری کے ذریعے پرندوں کا کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے جو سال بھر میں ایک لاکھ روپے تک کے اثاثوں میں تبدیل ہوسکتا ہے تاہم اس کے لیے محنت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے زیادہ تر افراد نے گھروں کی چھتوں پر بڑے بڑے پنجرے بنارکھے ہیں جہاں مختلف اقسام اور نسلوں کے پرندوں کی بریڈنگ کرائی جاتی ہے اور بڑھنے والے پرندے بازار میں فروخت کیے جاتے ہیں۔

مکاؤ،گرے،کنٹھے دارسبز،کاکاٹواورکئی طوطے بازار میں موجود ہیں
لیاقت آباد کے ہفتہ وار پرندہ بازار میں بیش قیمت مکاؤ، افریقہ کے گرے طوطے، بڑے سر والے کنٹھے دار سبز طوطے (الگزینڈر)، چوٹی دار سفید طوطے (کاکاٹو) اور دیگر مہنگے طوطے بھی فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں بازار میں چکور، تیتر، بٹیر کے علاوہ ہد ہد اور فاختاؤں کی مختلف اقسام کو دیکھا جاسکتا ہے مکاؤ کی قیمت 2 لاکھ روپے، افریقن گرے طوطے کی قیمت50 سے60 ہزار روپے ہے جبکہ پیلی چوٹی والے سفید طوطے کی قیمت80 ہزار روپے تک طلب کی جارہی ہے عام کاک ٹیل طوطے رنگ اور نسل کے لحاظ سے 2 سے 12ہزار روپے فی جوڑا تک فروخت کیے جاتے ہیں مختلف رنگوں کے فشر اور لو برڈ کی قیمت بھی ان کے رنگوں کی بنیاد پر طے ہوتی ہے عمومی طور پر سبز اور سرخ فشر کا جوڑا 800 سے ایک ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے یلو اور سرخ لوٹینو طوطے 2 ہزار روپے فی جوڑا قیمت پر فروخت ہورہے ہیں۔

سبز سیاہ، سرمئی اور فیروزی رنگوں والے طوطے 3 ہزار سے5 ہزار روپے تک فروخت کیے جارہے ہیںگرے کاک ٹیل 1500سے 1800 روپے، سفید اور پیلے کاک ٹیل 3 ہزار روپے فی جوڑا جبکہ سفید اور سرمئی کاک ٹیل5 سے 10ہزار روپے فی جوڑا تک فروخت کیے جارہے ہیں سرخ چمکدار چونچ والی دودھ جیسی سفید جاوا چڑیا کا جوڑا 1200سے1500روپے میں فروخت ہورہا ہے، رنگ برنگی ننھی فنچ چڑیاں 300 روپے جوڑا تک فروخت کی جارہی ہیں عام بجری طوطوںکا جوڑا 400 سے 500روپے سرخ آنکھوں والے بجری طوطے (ریڈ آئز)800 سے1000روپے جبکہ کنگ سائز کے بجری طوطوں کا جوڑا 5 سے 6 ہزار روپے تک فروخت کیا جا رہا ہے۔

بازار میں چکور کی قیمت 8سے 10ہزار روپے طلب کی جارہی ہے جبکہ چھوٹی عمر کے چکور 5 سے6ہزار روپے میں فروخت کیے جارہے ہیں چکور فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پرندہ جس گھر یا کاروبار کی جگہ پر ہوتا ہے وہاں بد اثرات اور جادو ٹونہ اثر نہیں کرتا اسی طرح جنگلی پرندہ ہونے کے باوجود ہد ہد فروخت کرنے والے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہد ہد کا ذکر قرآن پاک میں کیا گیا اس لیے اس پرندے کی گھر میں موجودگی باعث برکت ہوتی ہے۔

خلیجی ممالک کو پرندوں کی برآمدپر پابندی سے کاروبار میں منافع کم ہوگیا
پاکستان سے خلیجی ریاستوں کو زندہ پرندوں کی برآمدات (ایکسپورٹ) پر پابندی کے بعد سے پرندوں کے کاروبار میں منافع کا تناسب کم ہوگیا ہے ایکسپورٹ کی وجہ سے اس کاروبار کو تیزی سے فروغ مل رہا تھا اور بڑے سرمایہ کار بھی اس شعبے کا رخ کررہے تھے جن کو دیکھ کر چھوٹے چھوٹے کاروباری اور شوقیہ افراد نے بھی اپنا سرمایہ پرندوں میں لگایا تھا تاہم ایکسپورٹ پر پابندی اور قیمتیں گرنے کی وجہ سے انھیں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا پرندوں کے تاجروں کے مطابق کراچی کے علاوہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں منظم انداز میں پرندوں کے فارم بن چکے ہیں۔


جہاں یورپ، افریقہ، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں سے قسم قسم کے پرندے لاکر ان کی افزائش کی جاتی ہے اور بڑھنے والے پرندے مقامی مارکیٹ میں سپلائی کیے جاتے ہیں کراچی کی آب و ہوا پرندوں کی افزائش کے لیے موزوں ہے کیونکہ یہاں زیادہ سردی نہیں پڑتی پنجاب میں سخت سردی اور گرمی میں شدید گرم مرطوب موسم میں پرندے مرجاتے ہیں۔

لیاقت آبادکے پرندہ بازارسے اتوارکوٹریفک کی روانی میں خلل پڑتاہے
لیاقت آباد میں پرندوں کا ہفتہ وار بازار ٹریفک کی روانی میں شدید خلل کا سبب بنتا ہے عوام کی بڑی تعداد کو روزگار فراہم کرنے کا ذریعہ بننے والے اس بازار کو منظم انداز میں لگائے جانے کی صورت میں ٹریفک جام کے مسائل سے نجات مل سکتی ہے تاہم ضلع وسطی کی انتظامیہ اس بازار کی وجہ سے علاقے میں پیدا ہونے والے مسائل سے جان بوجھ کر غافل بنی ہوئی ہے بازار کے اردگرد واقع فلیٹوں اور شریف آباد کے رہائشی علاقے کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ہفتہ وار بازار صبح 10 بجے سے شروع ہوکر شام 6 بجے تک لگا رہتا ہے اس دوران گلیوں سے روڈ کی جانب نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور علاقہ مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح کی پریشانی سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد آنے والے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو بھی اٹھانی پڑتی ہے غیر منظم انداز میں اسپتال کے عین داخلی راستے کے سامنے لگنے والے بازار سے آمدورفت میں شدید دشواری پیش آتی ہے جبکہ بازار ختم ہونے کے بعد گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جو کئی روز تک اسپتال کے سامنے موجود رہتے ہیں ۔

ہفتہ وار تعطیل کے باعث بند ہونے والے میڈیکل اسٹوروں اور دکانوں کے باہر پرندوں کا فضلہ اور کچرا جمع ہوجاتا ہے جس سے اٹھنے والی بدبو اور تعفن سے دکانداروں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے بازار میں پرندوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ اس بازار کو منظم کرکے روزگار کے مواقع بڑھانے کے ساتھ حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ کرسکتی ہے کچھ عرصہ بیشتر اس بازار سے منظم انداز میں بھتہ وصول کیا جاتا تھا اور غیرقانونی پارکنگ بھی قائم کی جاتی تھی تاہم رینجرز کی کارروائی کے بعد سے اس طرح کی سرگرمیاں ختم ہوچکی ہیں۔

سردی میں بڑے پیمانے پر دیسی مرغیاں اورچوزے فروخت ہوتے ہیں
موسم سرما کے دوران پرندوں کی مارکیٹ میں اندرون سندھ اور دیگر شہروں سے بڑے پیمانے پر دیسی مرغیاں اور چوزے لاکر فروخت کیے جاتے ہیں جبکہ دیسی انڈے بھی کم قیمت پر فروخت ہوتے ہیں شہریوں کی بڑی تعداد اس بازار سے ہفتہ وار بنیاد پر دیسی مرغیاں خرید کر قریب واقع مرغی کی دکانوں سے ذبح کرواکے گوشت گھر لے جاتے ہیں دیسی مرغی کا گوشت فارم کی مرغی کے مقابلے میں زیادہ غذائیت بخش ہوتا ہے۔

تاہم اس کی قیمت بھی فارم کی مرغی کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہے زیادہ تر شہری دیسی چوزے خریدتے دکھائی دیتے ہیں جو یخنی اور سوپ کی تیاری کے لیے خریدے جاتے ہیں بازار میں بطخیں اور خرگوش بھی فروخت کیے جاتے ہیں موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی بازار میں فروخت ہونے والی دیسی مرغی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اوسط وزن کی دیسی مرغی جو ایک ماہ پیشتر 500 روپے میں فروخت ہورہی تھی اب 700 روپے تک فروخت کی جارہی ہے جس میں سے بمشکل آدھا کلو گوشت حاصل ہوگا اسی طرح چوزے 100سے 150روپے میں فروخت ہورہے ہیں۔

بازار میں لکڑی اورجالیوں کے پنجرے ،مٹی کے گھروندے اورسجاوٹ کاسامان بکتا ہے
پرندوں کے بازار میں لکڑی اور جالیوں سے بنے پنجرے اور مٹی سے بنے پرندوں کے گھر بھی فروخت کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ پلاسٹک اور مٹی سے بنے ہوئے دانے اور پانی کے برتن بھی بڑے پیمانے پر فروخت کیے جاتے ہیں۔

مٹی کے گھروں کی فروخت سے کمہاروں کے معدوم ہوچکے پیشہ کو سپورٹ ملتی ہے پرندوں کے بازار میں کھانے پینے کی مختلف اشیا کے 100سے زائد پتھارے اور اسٹال لگائے جاتے ہیں اس کے علاوہ نیٹ (جالی) سے بنے ہوئے چھوٹے جال، پرندوں کے پیروں میں پہنائی جانے والی سجاوٹ اور شناخت کے رنگ چھلوں کے علاوہ سجاوٹ کا سامان بھی فروخت کیا جاتا ہے۔
Load Next Story