’’قومی احتساب اسپتال‘‘ وقت کی اہم ضرورت
ملک میں ہنگامی بنیادوں پر جدید ترین ’’قومی احتساب اسپتال‘‘ بنایا جائے جس میں ’’غیر ملکی مرض‘‘ کا علاج بھی ہوتا ہو۔
KASHMORE:
یوں تو بہت سے اسپتالوں کے نام آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ مثلاً آنکھ کا اسپتال، دل کا اسپتال، گردوں کا اسپتال، غریبوں کا اسپتال، شرفاء کا اسپتال، امراء کا اسپتال وغیرہ۔ مگر اس انوکھے اسپتال کا نام آپ یقیناً پہلی مرتبہ سن رہے ہوں گے- ویسے تو اسپتالوں کی اہمیت اور وطن عزیز میں ان کی قلّت سے انکار قطعی ممکن نہیں، لیکن اس اسپتال کی اہمیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اگر اس منصوبے پر آج سے دو ڈھائی عشرے پہلے عمل کر لیا جاتا تو قومی خزانے کو لگنے والا اربوں روپے کا ٹیکا بچایا جا سکتا تھا۔
ہم اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں بے پناہ طبقات ہیں- سیاست کے میدان میں سینکڑوں جماعتیں اور ہزاروں عہدیدار ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی بات کریں تو اس میں بے شمار طاقت ور لوگ ہیں- اس ملک کو ''ترقی'' کی راہ پر چلانے کےلیے ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر اور دوسرے سے مختلف نظریہ ہے- شب و روز ان کے اختلافات خبریں بن کر اخباروں کے صفحے بھرتے ہیں مگر جونہی لفظ ''احتساب'' آتا ہے تو گجرات کا چوہدری ہو، جاتی امرا کا شریف ہو، لاڑکانہ کا زرداری ہو یا راولپنڈی کا پرویز مشرف، یہ سب لوگ اپنی فطرت، مزاج، طاقت، عہدے اور اختلافات بھلا کر ایک چھتری تلے پناہ لے لیتے ہیں۔ اس چھتری کو ''بیرون ملک علاج'' کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس چھتری تلے آتے ہی سمجھو کہانی تقریباً ختم- یہ چند نام تو استعارے کے طور پر ہیں ورنہ یہ فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے- احتساب سے علاج تک کا سفر ہر چڑھتے سورج کے ساتھ پھیلتا چلا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستانی ڈاکٹروں کا شمار دنیا کے بہترین معالجوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے تعلیم یافتہ ماہر ڈاکٹروں نے امریکا سے لے کر یورپ تک اپنی پیشہ ور مہارت کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ مگر معاملہ جب احتساب کا آتا ہے تو یہ ہی ڈاکٹر بالکل عطائی معلوم ہوتے ہیں، احتساب کی چکّی سے گزرنے والے صاحب کو ''غیر ملکی بیماری'' گھیر لیتی ہے- یہ ایسی بیماری ہوتی ہے جس کا پاکستان میں علاج سرے سے ممکن ہی نہیں- یہ لوگ کبھی کمر درد کا، کبھی دل کے درد کا اور کبھی خفیہ امراض کا سرٹیفکیٹ لے کر ایسا رفوچکر ہوتے ہیں کہ بیماری اگلے ملک کے ایئرپورٹ پر اترتے ہی ختم ہو جاتی ہے، ساتھ ہی ان کا کیس بھی داخلِ دفتر ہوجاتا ہے۔
بیرونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمارے احتساب کا نظام محض ایک مذاق لگتا ہے؛ اور اس نظام کو چلانے والے اس مذاق کا حصّہ- یعنی اس ملک کا ایک متفقہ اصول ہے کہ اگر آپ صاحبِ زر ہیں تو جب چاہیں، جتنا چاہیں، جیسے چاہیں غریب عوام کے ٹیکس کا پیسا لوٹیںِ پھر اگر بادل نخواستہ احتساب کی زد میں آجائیں تو کوئی ایسی بیماری ڈھونڈ لیں جس کا علاج یہاں سرے سے ممکن ہی نہ ہو۔
جس طرح دوسرے اسپتالوں میں مختلف شعبے ہوتے ہیں اسی طرح احتساب اسپتال کے بھی مختلف شعبے بنائے جا سکتے ہیں- مثلاً وی آئی پی شعبہ، جس میں صرف ان افراد کا علاج ہو گا جو حکومت یا بیوروکریسی کا حصّہ ہیں اور اپنے علاج کےلیے سرکاری خزانے سے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں- ان کا علاج بیرونی سہولیات سے آراستہ اسپتال میں کروا کے قوم کے ٹیکس کا پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سرکاری خرچے پر علاج کروانے والوں کی فہرست پہلی فہرست سے بھی زیادہ طویل ہے۔
اس لیے حکام سے گزارش ہے کہ دورانِ تفتیش ملزموں کےلیے بیرون ملک علاج پر پابندی لگا کر ملک میں ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسا جدید ترین اسپتال بنایا جائے جس میں ہر ''غیر ملکی مرض'' کا علاج ہو۔
پاکستانی عوام نیلی پیلی اسکیموں پر ضائع ہونے والا اربوں روپیہ پہلے ہی برداشت کر چکے ہیں، اس لیے جدید سہولیات سے آراستہ احتساب اسپتال پر چند ارب لگانے سے اگر آنے والی نسلوں کا بھلا ہو سکتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہ ہوگا۔
یوں تو بہت سے اسپتالوں کے نام آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔ مثلاً آنکھ کا اسپتال، دل کا اسپتال، گردوں کا اسپتال، غریبوں کا اسپتال، شرفاء کا اسپتال، امراء کا اسپتال وغیرہ۔ مگر اس انوکھے اسپتال کا نام آپ یقیناً پہلی مرتبہ سن رہے ہوں گے- ویسے تو اسپتالوں کی اہمیت اور وطن عزیز میں ان کی قلّت سے انکار قطعی ممکن نہیں، لیکن اس اسپتال کی اہمیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اگر اس منصوبے پر آج سے دو ڈھائی عشرے پہلے عمل کر لیا جاتا تو قومی خزانے کو لگنے والا اربوں روپے کا ٹیکا بچایا جا سکتا تھا۔
ہم اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں بے پناہ طبقات ہیں- سیاست کے میدان میں سینکڑوں جماعتیں اور ہزاروں عہدیدار ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی بات کریں تو اس میں بے شمار طاقت ور لوگ ہیں- اس ملک کو ''ترقی'' کی راہ پر چلانے کےلیے ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر اور دوسرے سے مختلف نظریہ ہے- شب و روز ان کے اختلافات خبریں بن کر اخباروں کے صفحے بھرتے ہیں مگر جونہی لفظ ''احتساب'' آتا ہے تو گجرات کا چوہدری ہو، جاتی امرا کا شریف ہو، لاڑکانہ کا زرداری ہو یا راولپنڈی کا پرویز مشرف، یہ سب لوگ اپنی فطرت، مزاج، طاقت، عہدے اور اختلافات بھلا کر ایک چھتری تلے پناہ لے لیتے ہیں۔ اس چھتری کو ''بیرون ملک علاج'' کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس چھتری تلے آتے ہی سمجھو کہانی تقریباً ختم- یہ چند نام تو استعارے کے طور پر ہیں ورنہ یہ فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے- احتساب سے علاج تک کا سفر ہر چڑھتے سورج کے ساتھ پھیلتا چلا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستانی ڈاکٹروں کا شمار دنیا کے بہترین معالجوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے تعلیم یافتہ ماہر ڈاکٹروں نے امریکا سے لے کر یورپ تک اپنی پیشہ ور مہارت کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔ مگر معاملہ جب احتساب کا آتا ہے تو یہ ہی ڈاکٹر بالکل عطائی معلوم ہوتے ہیں، احتساب کی چکّی سے گزرنے والے صاحب کو ''غیر ملکی بیماری'' گھیر لیتی ہے- یہ ایسی بیماری ہوتی ہے جس کا پاکستان میں علاج سرے سے ممکن ہی نہیں- یہ لوگ کبھی کمر درد کا، کبھی دل کے درد کا اور کبھی خفیہ امراض کا سرٹیفکیٹ لے کر ایسا رفوچکر ہوتے ہیں کہ بیماری اگلے ملک کے ایئرپورٹ پر اترتے ہی ختم ہو جاتی ہے، ساتھ ہی ان کا کیس بھی داخلِ دفتر ہوجاتا ہے۔
بیرونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمارے احتساب کا نظام محض ایک مذاق لگتا ہے؛ اور اس نظام کو چلانے والے اس مذاق کا حصّہ- یعنی اس ملک کا ایک متفقہ اصول ہے کہ اگر آپ صاحبِ زر ہیں تو جب چاہیں، جتنا چاہیں، جیسے چاہیں غریب عوام کے ٹیکس کا پیسا لوٹیںِ پھر اگر بادل نخواستہ احتساب کی زد میں آجائیں تو کوئی ایسی بیماری ڈھونڈ لیں جس کا علاج یہاں سرے سے ممکن ہی نہ ہو۔
جس طرح دوسرے اسپتالوں میں مختلف شعبے ہوتے ہیں اسی طرح احتساب اسپتال کے بھی مختلف شعبے بنائے جا سکتے ہیں- مثلاً وی آئی پی شعبہ، جس میں صرف ان افراد کا علاج ہو گا جو حکومت یا بیوروکریسی کا حصّہ ہیں اور اپنے علاج کےلیے سرکاری خزانے سے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں- ان کا علاج بیرونی سہولیات سے آراستہ اسپتال میں کروا کے قوم کے ٹیکس کا پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سرکاری خرچے پر علاج کروانے والوں کی فہرست پہلی فہرست سے بھی زیادہ طویل ہے۔
اس لیے حکام سے گزارش ہے کہ دورانِ تفتیش ملزموں کےلیے بیرون ملک علاج پر پابندی لگا کر ملک میں ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسا جدید ترین اسپتال بنایا جائے جس میں ہر ''غیر ملکی مرض'' کا علاج ہو۔
پاکستانی عوام نیلی پیلی اسکیموں پر ضائع ہونے والا اربوں روپیہ پہلے ہی برداشت کر چکے ہیں، اس لیے جدید سہولیات سے آراستہ احتساب اسپتال پر چند ارب لگانے سے اگر آنے والی نسلوں کا بھلا ہو سکتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہ ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔