پاکستانی فلموں کا مستقبل
بیرون ممالک مس اورمسٹرپاکستان کے اعزازات جیتنے والے نوجوانوں کوکام دینا چاہئے؟
پاکستان فلم انڈسٹری کا نیا دورشروع ہوچکا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں نے فلم انڈسٹری کی باگ ڈور سنبھال لی ہے۔ غیرملکی فنانسرز یہاں سرمایہ کاری کرنے کیلئے جہاں آگے آرہے ہیں، وہیں کارپوریٹ سیکٹرکی دلچسپی بھی اس شعبے مین بڑھنے لگی ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بولی وڈ کی کامیابی اورترقی میں بھی اسی طرح بیرون ممالک میں بسنے والے فنانسرز نے اہم کردارادا کیا بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی میں بھی انہی لوگوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ یہی نہیں بولی وڈ فلم انڈسٹری میں عالمی مقابلہ حسن جیتنے والی بھارتی حسیناؤں ایشوریہ رائے، سشمیتا سین، پریانکا چوپڑا اورلارادتہ کی آمد نے بھی بھارتی فلم کودنیا بھرمیں مقبول کیا۔
جہاں ان حسیناؤں نے بولی وڈ فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہردکھائے ، وہیں ان کی بدولت بھارتی فلموں کودنیا کے بیشترممالک میں ریلیز کا بہترین موقع بھی ملا۔ دوسری جانب اگرپاکستانی فلموں کی طرف دیکھا جائے تو یہاں پرجہاں معمول کی کہانی کوپیش کیا جا رہا ہے، وہیں کچھ نئے چہروں کے علاوہ انہی پُرانے چہروں کوہرنئی فلم میں دکھایا جارہا ہے، جن سے لوگ اکتانا شروع کر دیں گے۔ اس کا نتیجہ شدید بحران کی شکل میں دوبارہ ہمارے سامنے بھی آسکتا ہے۔ اس صورتحال کے باوجود تاحال کسی پاکستانی پروڈیوسر اورڈائریکٹرنے امریکہ اور کینیڈا میں ہرسال ہونے والے ''مقابلہ حسن '' کے فاتحین کواپنی فلموںکا حصہ بنانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی، جوکہ اب سوالیہ نشان بننے لگا ہے۔
حالانکہ ان مقابلوں میں ایسے لڑکے اورلڑکیاں حصہ لے رہے ہیں جن کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام ہوتا ہے ، جس میں ہرسال نوجوان لڑکے اورلڑکیوںکی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مگرافسوس کی بات تویہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران مس پاکستان ورلڈ اورمسٹرپاکستان ورلڈ کا ٹائٹل حاصل کرنیوالے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کوفلم یا ٹی وی میں کام کیلئے پاکستان سے رابطہ نہیں کیا گیا۔
یہ ہمارے ملک کے معروف فلم میکرز اور پروڈکشن ہاؤسزکی منصوبہ بندی ہے یا پھرسوچی سمجھی سازش، لیکن اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ''مس پاکستان ورلڈ اورمسٹرپاکستان ورلڈ '' کے مقابلوںکومنعقد کرنے والی سونیا احمد کا تعلق پاکستان کے شہرفیصل آباد سے ہے۔ وہ عرصہ دراز سے کینیڈا میں ان مقابلوںکا انعقاد کررہی ہیں اوراب تک بہت سے نوجوان ان اعزازات کوحاصل کرچکے ہیں لیکن ان کی پاکستانی فلموںاور ڈراموںمیں شمولیت اب سوالیہ نشان بنتی چلی جارہی ہے۔
اس سلسلہ میں سونیا احمد نے ''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ 2002 ء میں پہلی مرتبہ کینیڈا میں ''مس پاکستان ورلڈ'' کے مقابلے کا انعقاد کیا توسوچا نہ تھا کہ ایک دن اس کی شہرت دنیا بھرمیں ہونے لگے گی اورنوجوان لڑکے اورلڑکیاں اس کا حصہ بننے کے لئے بے تاب ہونگے۔ مگر وقت گزرتا گیا اور ملنے والے رسپانس نے مجھے اورمضبوط بنایا۔
کینیڈا سے شروع ہونے والاسفرامریکہ پہنچا اوراب میری منزل مغربی ممالک بھی ہونگے۔ لیکن اس بات کی تکلیف بھی ہے کہ جس طرح بولی وڈ میں مس ورلڈ اورمس یونیورس کے اعزازات جیتنے والی حسیناؤں کو باقاعدہ کام دیا گیا ، اس طرح پاکستانی فلم میں نہیں ہوسکا۔ حالانکہ آجکل توپاکستان میں فلمسازی کے شعبے میں حیرت انگیز تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ مگراس کے باوجود ان لڑکے اورلڑکیوں کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا جارہا جوہرلحاظ سے فلم اورڈرامے میں لیڈ رول کرنے کے اہل ہیں۔
ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے بعد ہی انہیں اتنے بڑے ٹائٹلز دیئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں سوچتی کہ ان نوجوانوں کوپاکستانی فلموں اورڈراموں میں ضرورکام دیا جائے۔ مگر حیرت اس بات پرضرور ہوتی ہے کہ دنیا بھرمیں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لوگ نئے اور خوبصورت شکل وصورت والے لڑکے اورلڑکیوں کو اپنے پراجیکٹس میں متعارف کروانے کوترجیح دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ہوسکتا ہے ایسا عمل نہ ہوتا ہو۔ لیکن بولی وڈ میں یہ ٹرینڈ بہت پرانا ہے اورشاید کسی حد تک انہیں اس وجہ سے بہت سے سپرسٹارز بھی ملے ہیں۔ اگریہ لوگ بھی ماضی کے ہیرو ، ہیروئنوں پراکتفاکرتے تویہ انڈسٹری کبھی بھی اتنی زیادہ پھولتی اورپھلتی نہیں ۔ مگراب صورتحال انتہائی مختلف ہے۔
بولی وڈ میں جہاں مقابلہ حسن میں حصہ لینے والے نوجوانوں کو کاسٹ کیا جارہا ہے، وہیں بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ ایسے میں مجھے لگتا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو بھی نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ یہی نہیں غیرملکی فنکاروں کے ذریعے بھی پاکستانی فلم میں خوبصورت اضافہ ہونا چاہئے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک پاکستانی فلم انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی نہیں پاسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ میں دیار غیرمیں رہتی ہوں لیکن میرا دل ہمیشہ پاکستان کیلئے دھڑکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں امریکہ اورکینیڈا میں جب بھی مس ورلڈ پاکستان اورمسٹرپاکستان ورلڈ کے مقابلے منعقد کرتی ہوں تواس کے معزز مہمانوں اورجیوری میں پاکستانی فیشن اورفلم انڈسٹری کے معروف فنکارشامل ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کے بغیربھی یہ مقابلے منعقد کئے جاسکتے ہیں لیکن میں سمجھتی ہوںکہ پاکستان کی نمائندگی بہت ضروری ہے۔ اس کا مقصد صرف اورصرف پاکستان کا سافٹ امیج دنیا بھرمیں متعارف کروانا ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بولی وڈ کی کامیابی اورترقی میں بھی اسی طرح بیرون ممالک میں بسنے والے فنانسرز نے اہم کردارادا کیا بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی میں بھی انہی لوگوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ یہی نہیں بولی وڈ فلم انڈسٹری میں عالمی مقابلہ حسن جیتنے والی بھارتی حسیناؤں ایشوریہ رائے، سشمیتا سین، پریانکا چوپڑا اورلارادتہ کی آمد نے بھی بھارتی فلم کودنیا بھرمیں مقبول کیا۔
جہاں ان حسیناؤں نے بولی وڈ فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہردکھائے ، وہیں ان کی بدولت بھارتی فلموں کودنیا کے بیشترممالک میں ریلیز کا بہترین موقع بھی ملا۔ دوسری جانب اگرپاکستانی فلموں کی طرف دیکھا جائے تو یہاں پرجہاں معمول کی کہانی کوپیش کیا جا رہا ہے، وہیں کچھ نئے چہروں کے علاوہ انہی پُرانے چہروں کوہرنئی فلم میں دکھایا جارہا ہے، جن سے لوگ اکتانا شروع کر دیں گے۔ اس کا نتیجہ شدید بحران کی شکل میں دوبارہ ہمارے سامنے بھی آسکتا ہے۔ اس صورتحال کے باوجود تاحال کسی پاکستانی پروڈیوسر اورڈائریکٹرنے امریکہ اور کینیڈا میں ہرسال ہونے والے ''مقابلہ حسن '' کے فاتحین کواپنی فلموںکا حصہ بنانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی، جوکہ اب سوالیہ نشان بننے لگا ہے۔
حالانکہ ان مقابلوں میں ایسے لڑکے اورلڑکیاں حصہ لے رہے ہیں جن کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروگرام ہوتا ہے ، جس میں ہرسال نوجوان لڑکے اورلڑکیوںکی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مگرافسوس کی بات تویہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران مس پاکستان ورلڈ اورمسٹرپاکستان ورلڈ کا ٹائٹل حاصل کرنیوالے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کوفلم یا ٹی وی میں کام کیلئے پاکستان سے رابطہ نہیں کیا گیا۔
یہ ہمارے ملک کے معروف فلم میکرز اور پروڈکشن ہاؤسزکی منصوبہ بندی ہے یا پھرسوچی سمجھی سازش، لیکن اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ''مس پاکستان ورلڈ اورمسٹرپاکستان ورلڈ '' کے مقابلوںکومنعقد کرنے والی سونیا احمد کا تعلق پاکستان کے شہرفیصل آباد سے ہے۔ وہ عرصہ دراز سے کینیڈا میں ان مقابلوںکا انعقاد کررہی ہیں اوراب تک بہت سے نوجوان ان اعزازات کوحاصل کرچکے ہیں لیکن ان کی پاکستانی فلموںاور ڈراموںمیں شمولیت اب سوالیہ نشان بنتی چلی جارہی ہے۔
اس سلسلہ میں سونیا احمد نے ''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ 2002 ء میں پہلی مرتبہ کینیڈا میں ''مس پاکستان ورلڈ'' کے مقابلے کا انعقاد کیا توسوچا نہ تھا کہ ایک دن اس کی شہرت دنیا بھرمیں ہونے لگے گی اورنوجوان لڑکے اورلڑکیاں اس کا حصہ بننے کے لئے بے تاب ہونگے۔ مگر وقت گزرتا گیا اور ملنے والے رسپانس نے مجھے اورمضبوط بنایا۔
کینیڈا سے شروع ہونے والاسفرامریکہ پہنچا اوراب میری منزل مغربی ممالک بھی ہونگے۔ لیکن اس بات کی تکلیف بھی ہے کہ جس طرح بولی وڈ میں مس ورلڈ اورمس یونیورس کے اعزازات جیتنے والی حسیناؤں کو باقاعدہ کام دیا گیا ، اس طرح پاکستانی فلم میں نہیں ہوسکا۔ حالانکہ آجکل توپاکستان میں فلمسازی کے شعبے میں حیرت انگیز تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ مگراس کے باوجود ان لڑکے اورلڑکیوں کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا جارہا جوہرلحاظ سے فلم اورڈرامے میں لیڈ رول کرنے کے اہل ہیں۔
ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے بعد ہی انہیں اتنے بڑے ٹائٹلز دیئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں سوچتی کہ ان نوجوانوں کوپاکستانی فلموں اورڈراموں میں ضرورکام دیا جائے۔ مگر حیرت اس بات پرضرور ہوتی ہے کہ دنیا بھرمیں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لوگ نئے اور خوبصورت شکل وصورت والے لڑکے اورلڑکیوں کو اپنے پراجیکٹس میں متعارف کروانے کوترجیح دیتے ہیں لیکن پاکستان میں ہوسکتا ہے ایسا عمل نہ ہوتا ہو۔ لیکن بولی وڈ میں یہ ٹرینڈ بہت پرانا ہے اورشاید کسی حد تک انہیں اس وجہ سے بہت سے سپرسٹارز بھی ملے ہیں۔ اگریہ لوگ بھی ماضی کے ہیرو ، ہیروئنوں پراکتفاکرتے تویہ انڈسٹری کبھی بھی اتنی زیادہ پھولتی اورپھلتی نہیں ۔ مگراب صورتحال انتہائی مختلف ہے۔
بولی وڈ میں جہاں مقابلہ حسن میں حصہ لینے والے نوجوانوں کو کاسٹ کیا جارہا ہے، وہیں بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ ایسے میں مجھے لگتا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو بھی نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ یہی نہیں غیرملکی فنکاروں کے ذریعے بھی پاکستانی فلم میں خوبصورت اضافہ ہونا چاہئے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک پاکستانی فلم انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی نہیں پاسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ میں دیار غیرمیں رہتی ہوں لیکن میرا دل ہمیشہ پاکستان کیلئے دھڑکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں امریکہ اورکینیڈا میں جب بھی مس ورلڈ پاکستان اورمسٹرپاکستان ورلڈ کے مقابلے منعقد کرتی ہوں تواس کے معزز مہمانوں اورجیوری میں پاکستانی فیشن اورفلم انڈسٹری کے معروف فنکارشامل ہوتے ہیں۔ حالانکہ ان کے بغیربھی یہ مقابلے منعقد کئے جاسکتے ہیں لیکن میں سمجھتی ہوںکہ پاکستان کی نمائندگی بہت ضروری ہے۔ اس کا مقصد صرف اورصرف پاکستان کا سافٹ امیج دنیا بھرمیں متعارف کروانا ہے۔