بلوچستان حکومت کی بحالی کا اصولی فیصلہ
نئے قائدحزب اختلاف کیلئے معزول صوبائی حکومت کی اتحادی جماعتوں(ق) لیگ اورجمعیت علما السلام(ف) کے مابین پنجاآزمائی ہوگی۔
بلوچستان حکومت کی بحالی کا اصولی فیصلہ کرلیاگیا ہے۔
معزول وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی بھی دبئی سے وطن واپس پہنچ گئے ہیں اورانہوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ جہاں ان کی آمد کے بعد تادم تحریر صلاح ومشورے کا سلسلہ جاری ہے جس وقت یہ سطور شائع ہوں گی اس وقت تک بلوچستان حکومت کو بحال کردیاجائے گا اورصوبے سے گورنر راج کا خاتمہ کردیاجائے گا۔ وزارت اعلیٰ کے لئے نواب محمد اسلم رئیسانی ہی کو دوبارہ فعال کیاجارہا ہے کیونکہ انہوں نے ابھی تک اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی ہی رہیں جبکہ نئے قائد حزب اختلاف کے لئے انتخاب ہوگا۔
کیونکہ بلوچستان اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی کی نامزدگی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔ نئے قائد حزب اختلاف کے لئے اب معزول صوبائی حکومت کی اتحادی جماعتوں(ق) لیگ اورجمعیت علماء السلام(ف) کے مابین پنجاآزمائی ہوگی۔ (ق) لیگ کی جانب سے سابق وزیرخزانہ وپارلیمانی لیڈر میر عاصم کردگیلو اور جے یو آئی(ف) کی جانب سے پارلیمانی لیڈر وسابق سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع امیدوار ہیں۔ بی این پی(عوامی) کی سپورٹ اس وقت جہاں قائد ایوان نواب اسلم رئیسانی کے ساتھ ہے وہاں قائد حزب اختلاف کے لئے جے یو آئی(ف) کے ساتھ ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کے مطابق(ق) لیگ کی مرکزی قیادت نے بھی صدر مملکت آصف علی زرداری تک یہ بات پہنچادی ہے کہ پی پی پی اگر دوبارہ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ لے گی تو(ق) لیگ کا قائد حزب اختلاف ہوگا تاکہ صوبے میں نگران سیٹ اپ کے لئے مشاورت سے قابل قبول لوگوں کو لایاجاسکے۔ بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب میں آزاد ارکان اسمبلی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ان کی حمایت سے(ق) لیگ با آسانی اپنا قائد حزب اختلاف لاسکتی ہے۔ اگر دو تین آزاد ارکان کا جھکائو جے یو آئی(ف) کی طرف ہوگیاتو قائد حزب اختلاف جے یو آئی(ف) کا آجائے گا۔
دوسری جانب موجودہ گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی کی بھی کوشش ہے کہ ان کے بھائی نوابزادہ طارق مگسی کو دوبارہ قائد حزب اختلاف منتخب کرلیاجائے، اس حوالے سے وہ صدر آصف زرداری سے بھی بات کرچکے ہیں۔ صدر زرداری کے لئے بلوچستان کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا انتخاب کرنا مشکل مرحلہ بن گیا ہے کیونکہ پی پی پی کے بعض اراکین صوبائی اسمبلی کی کوشش ہے کہ نواب رئیسانی کی جگہ پر تین دن یا چار دن کی وزارت اعلیٰ انہیں مل جائے اور ان کا نام بھی بورڈ پر آجائے کہ وہ وزیراعلیٰ رہے بے شک چند دن کے لئے کیوں نہ ہوں ، انہیں مشاورت کے لئے اسلام آباد بھی طلب کیا گیا۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے قائد ایوان کے لئے مشکل میں پڑنے کی بجائے نواب اسلم رئیسانی کو ہی فعال کرنے کا اندرونی طورپر فیصلہ کرلیا ہے۔ اس لئے قائد ایوان کے معاملے میں شاید وہ مشکل میں نہ پڑیں۔ تاہم قائد حزب اختلاف کے انتخابات میں وہ پی پی پی کی اتحادی جماعتوں کو کیسے مطمئن کرتے ہیں یا یہ ٹاسک وہ نواب رئیسانی کو سونپتے ہیں، یہ بھی ایک دو روز میں واضح ہوجائے گا۔
معزول وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی نوابزادہ لشکری رئیسانی کی جانب سے سینٹ کی نشست سے مستعفی ہونے کے بعد انتخابی شیڈول جاری کردیاگیا ہے جس پر پولنگ27مارچ کو ہوگی۔ پی پی پی اس نشست پر کس کو ٹکٹ جاری کرتی ہے ابھی فیصلہ نہیں کیاگیا ہے۔ تاہم بلوچستان اسمبلی میں حکومت کی اتحادی دیگر جماعتیں بھی اس نشست کیلئے اپنا امیدوار سامنے لائیں گی۔ نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کے ہمراہ ن لیگ میں تین ارکان اسمبلی شامل ہوئے ہیں جن میں(ق) لیگ کے دواراکین اسمبلی مس راحیلہ حمید درانی اور محمد خان طوراتمانخیل شامل ہیں جبکہ پی پی پی کے دو رکن اسمبلی طاہر محموداوراسماعیل گجر بھی شامل ہیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق مزید ارکان اسمبلی اور بلوچستان کی سیاست میں اثرورسوخ رکھنے والے دیگر سیاستدان بھی ن لیگ میں شمولیت اختیارکرنے کے حوالے سے صلاح ومشورہ کررہے ہیں۔ جبکہ(ق) لیگ کے مرکزی سینئر نائب صدر ورکن صوبائی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر سرداریار محمدرند نے بھی(ق) لیگ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ کس جماعت میں شامل ہوتے ہیں اس سلسلے میں وہ صلاح ومشورہ کررہے ہیں۔سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وہ جمعیت علماء السلام یا پھر ن لیگ میں شامل ہوجائیں گے تاہم ن لیگ میں نوابزادہ لشکری رئیسانی کی شمولیت کے بعد ان کی شمولیت کے امکانات کم ہیںکیونکہ دونوں کے مابین عرصہ دراز سے قبائلی رنجش چلی آرہی ہے۔
(ق) لیگ سے بعض دیگر ارکان اسمبلی بھی الگ ہونے کا اصولی فیصلہ کرچکے ہیں ایک دو روز میں ان کا دیگر جماعتوں میں شمولیت کا سلسلہ شروع ہوگا۔(ق) لیگ کے سردار عبدالرحمن کھیتران،سردار مسعود لونی اورجام یوسف کے صاحبزادے جام کمال کے بارے میں بھی کہاجارہا ہے کہ انہوں نے(ق) لیگ کو چھوڑ کر جے یوآئی(ف) میں شمولیت کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے جس کا وہ چند روز میں اعلان کریں گے۔ اسی طرح بعض اور بااثر سیاسی وقبائلی شخصیات بھی جمعیت علماء السلام نظریاتی، نیشنل پارٹی اور بی این پی(مینگل) میں شمولیت اختیار کررہی ہیں۔
اسی طرح بی این پی مینگل کے سربراہ وسابق وزیراعلیٰ سردار اخترمینگل نے بھی اگلے ہفتے وطن واپسی کا اعلان کردیا ہے اورانہوں نے واضح کردیا کہ ان کی جماعت آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ قوم کو الیکشن سے دور رکھنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اگر بلوچ قوم پرستوں نے الیکشن میں حصہ نہ لیا تو بلوچستان میں بہت بڑا سیاسی خلاء پیداہوجائے گا۔ سیاسی حلقے ان کی واپسی کے اعلان کو بہت اہمیت دے رہے ہیں، ان حلقوں کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل مشترکہ اتحاد سے الیکشن لڑیںگی۔
معزول وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی بھی دبئی سے وطن واپس پہنچ گئے ہیں اورانہوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ جہاں ان کی آمد کے بعد تادم تحریر صلاح ومشورے کا سلسلہ جاری ہے جس وقت یہ سطور شائع ہوں گی اس وقت تک بلوچستان حکومت کو بحال کردیاجائے گا اورصوبے سے گورنر راج کا خاتمہ کردیاجائے گا۔ وزارت اعلیٰ کے لئے نواب محمد اسلم رئیسانی ہی کو دوبارہ فعال کیاجارہا ہے کیونکہ انہوں نے ابھی تک اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی ہی رہیں جبکہ نئے قائد حزب اختلاف کے لئے انتخاب ہوگا۔
کیونکہ بلوچستان اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی کی نامزدگی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے چکی ہے۔ نئے قائد حزب اختلاف کے لئے اب معزول صوبائی حکومت کی اتحادی جماعتوں(ق) لیگ اورجمعیت علماء السلام(ف) کے مابین پنجاآزمائی ہوگی۔ (ق) لیگ کی جانب سے سابق وزیرخزانہ وپارلیمانی لیڈر میر عاصم کردگیلو اور جے یو آئی(ف) کی جانب سے پارلیمانی لیڈر وسابق سینئر صوبائی وزیر مولانا عبدالواسع امیدوار ہیں۔ بی این پی(عوامی) کی سپورٹ اس وقت جہاں قائد ایوان نواب اسلم رئیسانی کے ساتھ ہے وہاں قائد حزب اختلاف کے لئے جے یو آئی(ف) کے ساتھ ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کے مطابق(ق) لیگ کی مرکزی قیادت نے بھی صدر مملکت آصف علی زرداری تک یہ بات پہنچادی ہے کہ پی پی پی اگر دوبارہ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ لے گی تو(ق) لیگ کا قائد حزب اختلاف ہوگا تاکہ صوبے میں نگران سیٹ اپ کے لئے مشاورت سے قابل قبول لوگوں کو لایاجاسکے۔ بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب میں آزاد ارکان اسمبلی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ان کی حمایت سے(ق) لیگ با آسانی اپنا قائد حزب اختلاف لاسکتی ہے۔ اگر دو تین آزاد ارکان کا جھکائو جے یو آئی(ف) کی طرف ہوگیاتو قائد حزب اختلاف جے یو آئی(ف) کا آجائے گا۔
دوسری جانب موجودہ گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی کی بھی کوشش ہے کہ ان کے بھائی نوابزادہ طارق مگسی کو دوبارہ قائد حزب اختلاف منتخب کرلیاجائے، اس حوالے سے وہ صدر آصف زرداری سے بھی بات کرچکے ہیں۔ صدر زرداری کے لئے بلوچستان کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا انتخاب کرنا مشکل مرحلہ بن گیا ہے کیونکہ پی پی پی کے بعض اراکین صوبائی اسمبلی کی کوشش ہے کہ نواب رئیسانی کی جگہ پر تین دن یا چار دن کی وزارت اعلیٰ انہیں مل جائے اور ان کا نام بھی بورڈ پر آجائے کہ وہ وزیراعلیٰ رہے بے شک چند دن کے لئے کیوں نہ ہوں ، انہیں مشاورت کے لئے اسلام آباد بھی طلب کیا گیا۔
ان سیاسی حلقوں کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے قائد ایوان کے لئے مشکل میں پڑنے کی بجائے نواب اسلم رئیسانی کو ہی فعال کرنے کا اندرونی طورپر فیصلہ کرلیا ہے۔ اس لئے قائد ایوان کے معاملے میں شاید وہ مشکل میں نہ پڑیں۔ تاہم قائد حزب اختلاف کے انتخابات میں وہ پی پی پی کی اتحادی جماعتوں کو کیسے مطمئن کرتے ہیں یا یہ ٹاسک وہ نواب رئیسانی کو سونپتے ہیں، یہ بھی ایک دو روز میں واضح ہوجائے گا۔
معزول وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی نوابزادہ لشکری رئیسانی کی جانب سے سینٹ کی نشست سے مستعفی ہونے کے بعد انتخابی شیڈول جاری کردیاگیا ہے جس پر پولنگ27مارچ کو ہوگی۔ پی پی پی اس نشست پر کس کو ٹکٹ جاری کرتی ہے ابھی فیصلہ نہیں کیاگیا ہے۔ تاہم بلوچستان اسمبلی میں حکومت کی اتحادی دیگر جماعتیں بھی اس نشست کیلئے اپنا امیدوار سامنے لائیں گی۔ نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کے ہمراہ ن لیگ میں تین ارکان اسمبلی شامل ہوئے ہیں جن میں(ق) لیگ کے دواراکین اسمبلی مس راحیلہ حمید درانی اور محمد خان طوراتمانخیل شامل ہیں جبکہ پی پی پی کے دو رکن اسمبلی طاہر محموداوراسماعیل گجر بھی شامل ہیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق مزید ارکان اسمبلی اور بلوچستان کی سیاست میں اثرورسوخ رکھنے والے دیگر سیاستدان بھی ن لیگ میں شمولیت اختیارکرنے کے حوالے سے صلاح ومشورہ کررہے ہیں۔ جبکہ(ق) لیگ کے مرکزی سینئر نائب صدر ورکن صوبائی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر سرداریار محمدرند نے بھی(ق) لیگ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ کس جماعت میں شامل ہوتے ہیں اس سلسلے میں وہ صلاح ومشورہ کررہے ہیں۔سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ وہ جمعیت علماء السلام یا پھر ن لیگ میں شامل ہوجائیں گے تاہم ن لیگ میں نوابزادہ لشکری رئیسانی کی شمولیت کے بعد ان کی شمولیت کے امکانات کم ہیںکیونکہ دونوں کے مابین عرصہ دراز سے قبائلی رنجش چلی آرہی ہے۔
(ق) لیگ سے بعض دیگر ارکان اسمبلی بھی الگ ہونے کا اصولی فیصلہ کرچکے ہیں ایک دو روز میں ان کا دیگر جماعتوں میں شمولیت کا سلسلہ شروع ہوگا۔(ق) لیگ کے سردار عبدالرحمن کھیتران،سردار مسعود لونی اورجام یوسف کے صاحبزادے جام کمال کے بارے میں بھی کہاجارہا ہے کہ انہوں نے(ق) لیگ کو چھوڑ کر جے یوآئی(ف) میں شمولیت کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے جس کا وہ چند روز میں اعلان کریں گے۔ اسی طرح بعض اور بااثر سیاسی وقبائلی شخصیات بھی جمعیت علماء السلام نظریاتی، نیشنل پارٹی اور بی این پی(مینگل) میں شمولیت اختیار کررہی ہیں۔
اسی طرح بی این پی مینگل کے سربراہ وسابق وزیراعلیٰ سردار اخترمینگل نے بھی اگلے ہفتے وطن واپسی کا اعلان کردیا ہے اورانہوں نے واضح کردیا کہ ان کی جماعت آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ قوم کو الیکشن سے دور رکھنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اگر بلوچ قوم پرستوں نے الیکشن میں حصہ نہ لیا تو بلوچستان میں بہت بڑا سیاسی خلاء پیداہوجائے گا۔ سیاسی حلقے ان کی واپسی کے اعلان کو بہت اہمیت دے رہے ہیں، ان حلقوں کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل مشترکہ اتحاد سے الیکشن لڑیںگی۔