منصفانہ انتخابات کا خواب
فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کو آزاد تو کہا جا رہا ہے مگر با اختیار واقعی نہیں ہے۔
ایک غیر متنازعہ ماہر قانون فخرالدین جی ابراہیم کو چند ماہ قبل جب حکومت، مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر کے طور پر نامزد کیا تھا تو سب نے کہا تھا کہ پہلی بار ایک آزاد الیکشن کمیشن منصفانہ انتخابات کرائے گا اور سب ہی کو چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد تھا۔
الیکشن کمیشن کے چار ارکان کے تقرر پر اعتراضات شروع ہوئے جن کا مسئلہ علامہ طاہر القادری سپریم کورٹ لے گئے جہاں وہ خود اس اعتراض کے اہل قرار نہیں پائے اور بعد میں الیکشن کمیشن پر ہر طرف سے اعتراضات شروع ہو گئے، حکومت نے وزیر قانون کے ذریعے الیکشن کمیشن کو مضبوط اور بااختیار نہیں بننے دیا اور اب یہ مطالبہ بھی سامنے آ گیا ہے کہ اگر حکومت الیکشن کمیشن کو اختیارات نہیں دیتی تو چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں۔
فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کو آزاد تو کہا جا رہا ہے مگر با اختیار واقعی نہیں ہے اور صدر مملکت کا محتاج ہے، الیکشن کمیشن میں پانچ میں صرف چیف الیکشن کمشنر ہی غیر متنازعہ ہیں جن پر قوم کو تو مکمل اعتماد ہے مگر وہ تنہا کہاں تک کامیاب رہیں گے یہ سوال اب ہر ایک کی زبان پر ہے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے احکامات پر بھی عمل کرنے میں ناکام رہا اور اسے اپنے ہی بعض فیصلے واپس لینے پڑے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور اب حالات کس رخ جائیں گے، وہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ نگراں حکومت آنے میں چند روز رہ گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف 22 مارچ تک وزیر اعظم رہیں گے۔
وفاقی وزیر حج خورشید شاہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جیسے وہ ہی اصل وزیر اعظم ہیں اور انھیں سب کچھ پتہ ہے، جو بیانات صدر مملکت اور وزیر اعظم کی طرف سے آنے چاہئیں وہ خورشید شاہ کی طرف سے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے مزید شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں، خورشید شاہ کا نام گیلانی کے بعد وزیر اعظم کے لیے بھی آتا رہا ہے اور وہ صدر آصف زرداری کے با اعتماد ساتھی بھی ہیں۔
نگراں حکومت کے بعد ملک میں صدر آصف زرداری ہی با اختیار ہوں گے جب کہ پنجاب، بلوچستان اور کے ۔پی۔ کے میں صدر کے مقرر کردہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی گورنر با اختیار ہوں گے جب کہ سندھ میں دس سال سے برقرار گورنر کا تعلق اگرچہ متحدہ سے ہے مگر وہ بھی صدر کے با اعتماد ساتھی ہیں، صدر زرداری کے لیے بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ان کی موجودگی میں منصفانہ اور شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ چاروں صوبوں کے سیاسی گورنروں کو بھی ہٹانے کے مطالبے ہو رہے ہیں تا کہ وہ عام انتخابات پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔
سندھ، بلوچستان اور کے۔پی۔کے میں نگراں حکومتیں پیپلز پارٹی، متحدہ اور اے این پی کی باہمی ملی بھگت سے بنیں گی جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شاید ہی کسی ایسی شخصیت پر متفق ہو سکیں جو غیر متنازعہ وزیر اعلیٰ اور نگراں حکومت دونوں کے لیے قابل قبول بنا سکے۔
حکومتی حلیف چوہدری شجاعت حسین نے بھی کہہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آزاد تو ہے مگر با اختیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن اختیارات مانگتا ہے جو اسے واقعی با اختیار بنا سکے مگر حکومت اور اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ (ن) نہیں چاہیں گی کہ الیکشن کمیشن مکمل با اختیار ہو جائے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور (ق)، متحدہ، جے یو آئی، فاٹا، اے این پی اور دیگر حکومتی حلیفوں پر بھی الزامات ہیں اور الیکشن کمیشن کا مکمل با اختیار ہونا مذکورہ جماعتوں کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
عام انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے صادق اور امین ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں، آئین کی دفعات 63-62 کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ملک میں چند ہی ایسے سیاستدان، سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ارکان اسمبلی ہوں گے جنھیں صادق و امین قرار دیا جا سکے۔ پارٹی قائدین میں صدر زرداری اور نواز شریف کے جھوٹ دعوے، جھوٹے وعدے کسے یاد نہیں؟ سیاست تو ہے ہی جھوٹ کا دوسرا نام، جہاں جھوٹ زیادہ ہی بولا جاتا ہے اور قوم سے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں۔
صادق اور امین کے معیار پر عمران خان، اسفند یار ولی، متحدہ اور قوم پرستوں کے رہنما تو کیا مولانا فضل الرحمٰن اور سید منور حسن بھی پورے نہیں اتر سکتے۔ الطاف حسین اور پیر پگاڑا تو خود الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے مگر ان کے امیدوار انتخاب لڑیں گے۔ پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے، نگراں حکومت آتے ہی پارٹیوں میں آنے جانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور پرانے چہرے نئی پارٹیوں یا ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑیں گے۔
آزاد مگر بے اختیار الیکشن کمیشن نے جو ضمنی انتخابات کرائے وہ صرف کامیاب ہو جانے والوں کو قابل قبول تھے، ماضی کی طرح ہی ضمنی انتخابات آزاد کہلانے والے بے اختیار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ہوئے، مگر الیکشن کمیشن نے شاید اس لیے ہارنے والوں کے الزامات پر توجہ نہیں دی کہ چند ہفتوں کے لیے منتخب ہونے والوں کو اہمیت نہ دی جائے اور ویسے بھی ہمیشہ ہارنے والے شور مچاتے ہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی۔ چند ماہ میں جو ضمنی انتخابات ہوئے وہ آزاد الیکشن کمیشن کے لیے امتحان ضرور تھا مگر مجبور اور بے اختیار الیکشن کمیشن کچھ نہ کر کے دکھا سکا۔
قوم منصفانہ اور شفاف انتخابات چاہتی ہے مگر قوم کی یہ خواہش خواب ہی نظر آ رہی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے پاس منصفانہ انتخابات کرانے کے اختیارات ہیں اور نہ ہی سیاسی پارٹیاں دلی طور پر ایسا چاہتی ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن با اختیار ہو جائے تو عام انتخابات لڑتے آنے والوں اور نئے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نا اہل قرار پائے گی کیونکہ صادق و امین کے معیار پر پورا اترنے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔
ووٹ لینے والوں کے ساتھ ووٹ دینے والوں کا بھی کچھ معیار ہوتا ہے، مگر جہاں ووٹ لے کر لوگ وعدے پورے نہ کریں، جھوٹے وعدے نصب العین بنا لیں، الیکشن پر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہو، دھاندلی ہر امیدوار اپنا حق سمجھ لے، ووٹروں کے ووٹ فروخت اور خریدے جاتے ہوں اور جھوٹی تشہیر سے عوام کو سنہرے خواب دکھائے جائیں اور یہ انتخاب کرانے والا الیکشن کمیشن آزاد مگر بے اختیار ہو، وہاں عام انتخابات کا منصفانہ انعقاد خواب ہی ہو سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے چار ارکان کے تقرر پر اعتراضات شروع ہوئے جن کا مسئلہ علامہ طاہر القادری سپریم کورٹ لے گئے جہاں وہ خود اس اعتراض کے اہل قرار نہیں پائے اور بعد میں الیکشن کمیشن پر ہر طرف سے اعتراضات شروع ہو گئے، حکومت نے وزیر قانون کے ذریعے الیکشن کمیشن کو مضبوط اور بااختیار نہیں بننے دیا اور اب یہ مطالبہ بھی سامنے آ گیا ہے کہ اگر حکومت الیکشن کمیشن کو اختیارات نہیں دیتی تو چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں۔
فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کو آزاد تو کہا جا رہا ہے مگر با اختیار واقعی نہیں ہے اور صدر مملکت کا محتاج ہے، الیکشن کمیشن میں پانچ میں صرف چیف الیکشن کمشنر ہی غیر متنازعہ ہیں جن پر قوم کو تو مکمل اعتماد ہے مگر وہ تنہا کہاں تک کامیاب رہیں گے یہ سوال اب ہر ایک کی زبان پر ہے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے احکامات پر بھی عمل کرنے میں ناکام رہا اور اسے اپنے ہی بعض فیصلے واپس لینے پڑے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور اب حالات کس رخ جائیں گے، وہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ نگراں حکومت آنے میں چند روز رہ گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف 22 مارچ تک وزیر اعظم رہیں گے۔
وفاقی وزیر حج خورشید شاہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جیسے وہ ہی اصل وزیر اعظم ہیں اور انھیں سب کچھ پتہ ہے، جو بیانات صدر مملکت اور وزیر اعظم کی طرف سے آنے چاہئیں وہ خورشید شاہ کی طرف سے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے مزید شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں، خورشید شاہ کا نام گیلانی کے بعد وزیر اعظم کے لیے بھی آتا رہا ہے اور وہ صدر آصف زرداری کے با اعتماد ساتھی بھی ہیں۔
نگراں حکومت کے بعد ملک میں صدر آصف زرداری ہی با اختیار ہوں گے جب کہ پنجاب، بلوچستان اور کے ۔پی۔ کے میں صدر کے مقرر کردہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی گورنر با اختیار ہوں گے جب کہ سندھ میں دس سال سے برقرار گورنر کا تعلق اگرچہ متحدہ سے ہے مگر وہ بھی صدر کے با اعتماد ساتھی ہیں، صدر زرداری کے لیے بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ان کی موجودگی میں منصفانہ اور شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے۔ چاروں صوبوں کے سیاسی گورنروں کو بھی ہٹانے کے مطالبے ہو رہے ہیں تا کہ وہ عام انتخابات پر اثرانداز نہ ہو سکیں۔
سندھ، بلوچستان اور کے۔پی۔کے میں نگراں حکومتیں پیپلز پارٹی، متحدہ اور اے این پی کی باہمی ملی بھگت سے بنیں گی جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شاید ہی کسی ایسی شخصیت پر متفق ہو سکیں جو غیر متنازعہ وزیر اعلیٰ اور نگراں حکومت دونوں کے لیے قابل قبول بنا سکے۔
حکومتی حلیف چوہدری شجاعت حسین نے بھی کہہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن آزاد تو ہے مگر با اختیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن اختیارات مانگتا ہے جو اسے واقعی با اختیار بنا سکے مگر حکومت اور اپوزیشن خصوصاً مسلم لیگ (ن) نہیں چاہیں گی کہ الیکشن کمیشن مکمل با اختیار ہو جائے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور (ق)، متحدہ، جے یو آئی، فاٹا، اے این پی اور دیگر حکومتی حلیفوں پر بھی الزامات ہیں اور الیکشن کمیشن کا مکمل با اختیار ہونا مذکورہ جماعتوں کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
عام انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے صادق اور امین ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں، آئین کی دفعات 63-62 کی بھی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ملک میں چند ہی ایسے سیاستدان، سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور ارکان اسمبلی ہوں گے جنھیں صادق و امین قرار دیا جا سکے۔ پارٹی قائدین میں صدر زرداری اور نواز شریف کے جھوٹ دعوے، جھوٹے وعدے کسے یاد نہیں؟ سیاست تو ہے ہی جھوٹ کا دوسرا نام، جہاں جھوٹ زیادہ ہی بولا جاتا ہے اور قوم سے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں۔
صادق اور امین کے معیار پر عمران خان، اسفند یار ولی، متحدہ اور قوم پرستوں کے رہنما تو کیا مولانا فضل الرحمٰن اور سید منور حسن بھی پورے نہیں اتر سکتے۔ الطاف حسین اور پیر پگاڑا تو خود الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے مگر ان کے امیدوار انتخاب لڑیں گے۔ پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے، نگراں حکومت آتے ہی پارٹیوں میں آنے جانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور پرانے چہرے نئی پارٹیوں یا ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑیں گے۔
آزاد مگر بے اختیار الیکشن کمیشن نے جو ضمنی انتخابات کرائے وہ صرف کامیاب ہو جانے والوں کو قابل قبول تھے، ماضی کی طرح ہی ضمنی انتخابات آزاد کہلانے والے بے اختیار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ہوئے، مگر الیکشن کمیشن نے شاید اس لیے ہارنے والوں کے الزامات پر توجہ نہیں دی کہ چند ہفتوں کے لیے منتخب ہونے والوں کو اہمیت نہ دی جائے اور ویسے بھی ہمیشہ ہارنے والے شور مچاتے ہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی۔ چند ماہ میں جو ضمنی انتخابات ہوئے وہ آزاد الیکشن کمیشن کے لیے امتحان ضرور تھا مگر مجبور اور بے اختیار الیکشن کمیشن کچھ نہ کر کے دکھا سکا۔
قوم منصفانہ اور شفاف انتخابات چاہتی ہے مگر قوم کی یہ خواہش خواب ہی نظر آ رہی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے پاس منصفانہ انتخابات کرانے کے اختیارات ہیں اور نہ ہی سیاسی پارٹیاں دلی طور پر ایسا چاہتی ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن با اختیار ہو جائے تو عام انتخابات لڑتے آنے والوں اور نئے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نا اہل قرار پائے گی کیونکہ صادق و امین کے معیار پر پورا اترنے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔
ووٹ لینے والوں کے ساتھ ووٹ دینے والوں کا بھی کچھ معیار ہوتا ہے، مگر جہاں ووٹ لے کر لوگ وعدے پورے نہ کریں، جھوٹے وعدے نصب العین بنا لیں، الیکشن پر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہو، دھاندلی ہر امیدوار اپنا حق سمجھ لے، ووٹروں کے ووٹ فروخت اور خریدے جاتے ہوں اور جھوٹی تشہیر سے عوام کو سنہرے خواب دکھائے جائیں اور یہ انتخاب کرانے والا الیکشن کمیشن آزاد مگر بے اختیار ہو، وہاں عام انتخابات کا منصفانہ انعقاد خواب ہی ہو سکتا ہے۔