آپ کی چھت آپ کا باغ

ہم ذرا سی محنت اور توجہ سے اپنی چھتوں کو اپنا ایک زیادہ کار آمد، منافع بخش اور خوش نما اثاثہ بناسکتے ہیں۔

moazzamhai@hotmail.com

ہماری چھتیں ہمارے شہروں میں گرمی پھیلانے اور ہمارے گھروں میں جلتی جھلساتی تپش بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بہت سے شہروں میں گھروں کی چھتیں وہاں کے موسم کو دیکھتے ہوئے بنائی جاتی ہیں ساتھ ہی ان کا طرز تعمیر مکان کے مالکوں کے ایستھیٹک سینس یعنی حسن ذوق کو بھی نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو برفباری والے علاقوں میں بھی کئی جگہوں پر سلوپنگ یعنی ڈھلواں چھتیں نہیں بنوائی جاتیں کہ جن سے برف کی صفائی آسان ہو۔

ادھر ملک کے گرم میدانی علاقوں میں ایک زمانے میں اونچی اور بڑے روشن دانوں والی چھتیں رکھی جاتی تھیں یہ سلسلہ 1970ء کی دہائی تک آکے ختم ہوگیا اب ہمارے ہاں کم اونچائی والی اور روشن دانوں سے محروم مکمل سپاٹ یعنی فلیٹ چھتوں کا رواج ہے کنکریٹ کی یہ بد نما چھتیں نہ صرف ہمارے گھروں اور شہروں کی مجموعی بد صورتی بڑھاتی ہیں بلکہ ہمارے گھروں اور دوسری عمارتوں کو ''ہیٹ آئی لینڈ ای فیکٹ'' کا بھی شکار بناکر رکھتی ہیں۔

ہمارے ہزاروں لاکھوں گھر یوں تپش کے جزیرے بن کر ہر سال پہلے سے زیادہ بڑھتی گرمی کو مزید ناقابل برداشت بنانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ حالت ہمارا بجلی اور پانی کا استعمال بڑھاتی اور ہماری جسمانی اور ذہنی صحت بگارتی ہے۔ ہمارے شہروں میں بجلی کا استعمال بڑھنے کے ساتھ قدرتی ماحول کو اپنے آلودگی سے مزید آلودہ اور گرم کرنے والے کوئلے اور تیل سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کے کام اور تعداد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے بجلی کے بل کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کے بل میں بھی اضافہ ہوا چلا جاتا ہے۔

ادھر ہماری کرپٹ اور نا اہل حکومتیں تیل کی درآمد میں اضافے کی قیمت ادا کرنے کے لیے پٹرول کی قیمت بڑھادیتی ہیں ساتھ ہی روز مرہ کی عام استعمال کی اشیا پہ ٹیکس اور ڈیوٹیز میں اضافہ کردیتی ہیں۔ نتیجہ نکلتاہے مزید مہنگائی میں۔

ہم ذرا سی محنت اور توجہ سے اپنی چھتوں کو اپنا ایک زیادہ کار آمد، منافع بخش اور خوش نما اثاثہ بناسکتے ہیں اس وقت نیو یارک سے لے کر ٹوکیو تک ''گرین روفس'' (سبز چھتوں) کا کلچر تیزی سے پھیل رہا ہے صرف عام گھروں کی ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی اونچی بلڈنگوں کی چھتوں پہ پورے پورے باغ اور کھیت اگائے جارہے ہیں جو پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار دینے کے ساتھ ساتھ عمارتوں کا درجۂ حرارت گھٹاتے اور خوبصورتی بڑھاتے ہیں یہ گرین روفس پوری کی پوری چھتوں کو ایک باقاعدہ باغیچے یا چھوٹے سے پھلوں اور سبزیوں کے فارم میں تبدیل کردیتی ہیں۔

ظاہر ہے کہ ان کا بنانا پروفیشنل سطح کا خاصا مہنگا کام ہے عمارتوں کی چھتوں پہ تیار کی جانے وال ان سبز چھتوں کی گہرائی کا انحصار پودوں کی نوعیت اور عمارت کی مضبوطی پر ہوتا ہے عام طور پر یہ گہرائی چھ سے 24 انچ تک ہوسکتی ہے ان سبز چھتوں کی عام طور پر چار تہیں ہوتی ہیں۔


پہلے واٹر پروف میٹریل مثلاً پی وی سی، تھرمل پولیو لفن وغیرہ کی تہہ، پھر فوم یا ربر وغیرہ کی تہہ جو زیادہ پانی کو جذب کرنے کے علاوہ اس کا رخ پانی کے ایک منسلک ٹینک تک موڑ سکے جہاں جمع ہونے والا پانی ری سائیکل کرکے دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے پھر بنے ہوئے کپڑے کی تہہ جو مٹی کے باریک ذرات کو زمین تک پہنچنے سے بچائے اور سب سے اوپر قدرتی کھاد و مٹی کی تہہ جس میں پودے اگائے جاسکیں۔ ہمارے ہاں اس طرح کی سبز چھت بنانے کا خرچہ ساڑھے چھ ہزار سے لے کر آٹھ ہزار روپے فی اسکوائر فٹ تک ہوسکتا ہے جوکہ ظاہر ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے لیے ایک بہت ہی مہنگی قیمت ہے۔

مگر ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم اپنی اختراع سے نہایت سادہ، آسان اور سستے طریقوں سے اپنی سبز چھت تیار کرسکتے ہیں مگر سب سے پہلے ذرا اپنی چھت کا جائزہ لے لیجیے اگر آپ کی چھت کنکریٹ کی مضبوط چھت نہیں اگر کنکریٹ کی چھت ہے مگر اس میں دراڑیں، شگاف، کریکس وغیرہ ہیں اس کا پلاسٹر جھڑ رہا ہے اس میں سے پانی رستا ہے اس کی موٹائی کم ہے اس کو سپورٹ کرنے والے پلرز یعنی ستونوں کی تعداد عام تعمیری معیار کی نسبت کم ہے اس پہ پہلے ہی سے عام چھتوں کے مقابلے میں زیادہ بوجھ ہے اس کی سطح ہموار نہیں اس پہ دھوپ نہیں آتی اور اس پہ نیچے سے آنے والے پلرز کا کچھ حصہ اوپر نہیں نکلا ہوا تو بہتر ہے کہ آپ سبز چھت کا ارادہ ترک کردیں تاہم اگر ایسا کچھ نہیں اور آپ کی ایک نارمل مضبوط چھت ہے تو آپ اپنی چھت پہ اپنا فارم تیار کرسکتے ہیں۔

عام طور پر گھر کی چھت کو سہارا دینے والے پلرز کا دو سے ڈھائی تین فٹ تک کا حصہ چھت کے اوپر نکلا ہوتا ہے آپ درمیانے سے بڑے سائز کے کچھ گملے لے لیں ان کے پیندے میں پانی کی نکاسی کے سوراخ پہ گملوں کے چھوٹے چھوٹے ٹوٹے ٹکڑے گملے والا آپ کو رکھ کر دے دے گا گملوں کو کھاد ملی مٹی سے بھردیں مگر اوپر کناروں سے تین چار انچ تک کی جگہ خالی رکھیے تاکہ تیز بارش کی صورت میں پانی کے زیادہ بہنے کے امکانات کم ہوں چھت کے پلرز پہ پہلے مٹی کے بڑے کٹورے یا تھال رکھیں اور پھر ان پہ گملے رکھ دیں تاکہ پانی رس کر پلر تک نہ پہنچے۔

اگر آپ اپنی چھت کا بڑا حصہ سبزے سے ڈھانپنا چاہتے ہیں تو ان گملوں میں توری اور کریلے جیسے سبزیوں کی بیلیں لگادیں یہ سارے میں پھیل جائیںگی اور آپ کی چھت یا اس کے بڑے حصے کو ڈھانپ کر سورج کی تپش سے بچائیںگی نتیجتاً آپ کا گھر کم گرم ہوگا جس سے اگر آپ کے ہاں ایئر کنڈیشنر ہے تو اس کا خرچہ بھی کم ہوسکے گا۔

توری اور کریلے بڑی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں جو آپ اپنے استعمال کے علاوہ سبزی والے کو بھی بیچ سکتے ہیں ان کے علاوہ آپ پودینہ، ہری مرچیں، ٹماٹر، بینگن، کڑھی پتا، تلسی، چھوٹے قد کا پپیتا، لیموں، انار جیسے سبزیوں اور پھلوں کے پودوں کے علاوہ پھولدار بیلیں اور پودے مثلاً بوگن ولیا، چنبیلی، موتیا، گلاب وغیرہ بھی لگاسکتے ہیں کراچی، لاہور جیسے بڑے شہروں میں فروخت ہونے والی بہت سی سبزی سیوریج اور صنعتی فضلے والے پانی کی پیداوار ہوتی ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں سبزیوں اور پھلوں کے پودوں پہ کیڑے مار زہریلے کیمیکلز کا اسپرے عام ہے جب کہ آپ کے گھروں میں اُگنے والی سبزیاں اور پھل قدرتی (آرگینک) اور صحت بخش ہوںگے ہماری چھتوں کے یہ باغ نہ صرف ہمارے گھروں میں گرمی میں کمی اور گھروں کی خوبصورتی بڑھاسکتے ہیں بلکہ شہر کے مجموعی ماحول پہ بھی خوشگوار اثر ڈال سکتے ہیں کسی پودے پہ کیڑا آنے کی صورت میں زہریلے کیمیکل کے اسپرے کے بجائے پودے کو اکھاڑ کر دوسرا پودا لگانا بہتر ہوگا اور یاد رکھیے گملوں میں کبھی بھی زیادہ پانی مت ڈالیے ۔ گملے پلرز کے چھت پہ ابھرے حصوں پہ رکھے جانے کی وجہ سے چھت پہ دباؤ کم رہے گا۔

ہمارے ہاں بہت سے گھروں میں بزرگ افراد عضو معطل بن کر رہ جاتے ہیں۔ چھت پہ باغ ان کے لیے ایک مفید مصروفیت کے علاوہ صبح کی دھوپ کی صورت میں وٹامن ڈی حاصل کرنے کا بھی ایک اچھا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ گھر ہمارے ہاں عموماً چھوٹے پلاٹس پہ بنائے جاتے ہیں جن میں پودوں کے لیے مناسب جگہ نکالنا اکثرممکن نہیں ہوتا تاہم سبز چھتیں یہ کمی پوری کرسکتی ہیں آپ اپنے حساب سے پوری چھت یا چھت کے ایک حصے کو اپنے باغ کے لیے منتخب کرسکتے ہیں پودے لگانے پہ آپ کو کئی طرح سے ثواب جاریہ الگ حاصل ہوگا۔ اور آپ کی چھت کے باغ ملک کے قدرتی ماحول کے ساتھ ساتھ معیشت پہ بھی مثبت اثر ڈالیںگے۔
Load Next Story