پیپلز پارٹی کے 50 سال
پیپلز پارٹی کی زیادہ خراب صورتحال اس کی دوسری حکومت میں ہوئی۔
ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، پیپلز پارٹی کی 50 سال کی تاریخ پانچ شخصیات ہی کی نہیں بلکہ اس ملک کی سیاست میں عوام کی حیثیت کو تسلیم کرنے کی تاریخ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا۔ ان کا بچپن کراچی اور بمبئی میں گزرا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ ایک غریب عورت تھیں۔ ذوالفقار کے والد کے خاندان نے ان کی ماں کی حیثیت کو بہت مشکل سے تسلیم کیا تھا، یوں بھٹو نے اپنی ماں کی آنکھوں کے ذریعے غریبوں کا دکھ محسوس کیا تھا۔ وہ سابق صدر اسکندر مرزا کی حکومت میں شامل ہوئے۔ پھر جنرل ایوب خان کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ بھٹو نے برطانیہ اور امریکا میں تعلیم حاصل کی تھی اور دنیا میں متوقع تبدیلیوں کا ادراک کیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بحیثیت وزیر خارجہ انھوں نے خارجہ پالیسی کو ایک نئی شکل دی۔ بھٹو نے چین اور تیسری دنیا کے ممالک سے خاص طور پر مسلمان ممالک کو خارجہ پالیسی کی بنیاد بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو عالمی تاریخ کے مطالعہ میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ سے متاثر ہوئے تھے۔ انھوں نے بڑی فوج اور ایٹم بم کا تصور اپنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو چین سے دوستی اور بھارت دشمنی کے چیمپئن بنے۔
کشمیر کی آزادی کے لیے آپریشن جیرالٹر کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب 1965 کی جنگ میں پاکستان اپنے اہداف حاصل نہ کرسکا اور جنرل ایوب خان بھارت سے معاہدہ تاشقند پر مجبور ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت کے مخالف ہوگئے۔ انھوں نے ایک طرف سوویت یونین کی مخالف چین اور امریکا کی حکومتوں میں اپنے لیے مثبت رجحانات پیدا کیے، دوسری طرف پاکستانی فوج سندھ اور پنجاب میں مضبوط پرو چائنا طلبا، مزدور، کسان اور دانشور تنظیموں کے ہیرو بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس حکمت عملی کی بنا پر پنجاب کے عام آدمی کے ذہنوں میں جگہ بنائی۔ انھوں نے اپنے سفارتکار ساتھی جے اے رحیم کی پالیسی کے مطابق پیپلز پارٹی بنائی۔
پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں بائیں بازو کے سیاسی کارکن، مزدور، طالب علم، شاعر اور ادیب شامل تھے۔ معراج محمد خان کی قیادت میں بائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، رسول بخش تالپور کی قیادت میں بائیں بازو کے سندھ کے کارکن، شیخ رشید کی قیادت میں کسان کمیٹی اور مزدور تنظیمیں بھٹو کی معاون بن گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کے نفاذ اور استحصال کے خاتمے کی اصطلاحات عام کیں۔کمیونسٹ پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور ان کی ذیلی تنظیموں کی جدوجہد سے فائدہ اٹھایا۔ پھر اپنی کرشماتی شخصیت کے ذریعے جاگیرداری کے خاتمہ، صنعتوں کو قومیانے اور تعلیم کی تجارت ختم کرنے کے نعرے بلند کیے۔ بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور مزدوروں، کسانوں اور دانشوروں کی مدد سے انھوں نے پنجاب کی سیاست کا رخ بدل دیا۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی دفعہ شہروں اور گاؤں میں قدیم جاگیردار دائیں بازو کے سکہ بند سیاستدان شکست کھا گئے۔
خورشید حسن میر، شیخ رشید، مختار رانا، ملک معراج محمد خالد، ڈاکٹر مبشر حسن اور اسلم گورداسپوری جیسے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے رہنما کامیاب ہوئے۔ سندھ میں وڈیرے اور متوسط طبقے کے کارکن کامیاب ہوئے۔ پرو چائنا کمیونسٹ پارٹی کی انتخاب میں حصہ نہ لینے کی پالیسی کی بناء پر معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا، اس طرح کراچی دائیں بازو کی جماعتوں کے نرغے میں چلا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نئے پاکستان کو بچانے کے لیے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر متفقہ آئین بنایا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کیں مگر اپنی شخصیت کے آمرانہ رجحانات کی بناء پر اپنے قریبی ساتھیوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ فوج کی ایماء پر بلوچستان میں آپریشن کیا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی، بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے شملہ معاہدہ کرکے 80 ہزار فوجیوں کو بھارت کی قید سے رہائی دلائی،80 ہزار مربع میل کا علاقہ بھارت سے بازیاب کرایا، اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس منعقد کی اور فوج کو ایٹم بم کا ہتھیار دیا۔
اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے انتخابات کے بعد بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے پاکستان میں سوشلزم کو روک دیا ہے مگر اپنی ایٹم بم کی پالیسی کی بناء پر امریکا سے ناراضگی مول لی۔ پی این اے بنوایا گیا اور پھر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قصوری قتل کیس میں ملوث کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بہادری سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھانسی پا کر امر ہوگئے۔
پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے خود کو جلایا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بیگم نصرت بھٹو نے پرانے سیاسی مخالفین ولی خان، اصغر خان، شیرباز مزاری اور نصر اللہ خان کو ملا کر تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) قائم کی۔ ایم آر ڈی نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کو غیر جماعتی انتخابات کرانے پڑے مگر اپنے وزیراعظم محمد خان جونیجو حکومت کو برطرف کیا اور پھر تاریخ کے کوڑے دان میں کھو گئے۔ بے نظیر بھٹو 1988 میں غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ سے مفاہمت کر کے برسر اقتدار آئیں مگر بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی بنیادی پالیسی سے انحراف کیا۔ پیپلز پارٹی کا انحصار مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور دانشوروں سے زیادہ بااثر افراد پر ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی میں سیاسی کلچر کی حوصلہ شکنی ہونے لگی اور کرپشن ہر معاملے میں بنیاد بن گئی۔
پیپلز پارٹی کی زیادہ خراب صورتحال اس کی دوسری حکومت میں ہوئی۔ مرتضیٰ بھٹو کی غیر سیاسی سرگرمیوں، آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کے کرپشن کے اسکینڈل، فوج اور صدر فاروق لغاری کے گٹھ جوڑ کے سائے میں بے نظیر حکومت برطرف ہوئی اور آصف زرداری جیل میں گئے۔ بے نظیر بھٹو نے طویل جلاوطنی کاٹی۔ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف سے میثاق جمہوریت کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا جس سے ان کی ایک طرف ساکھ متاثر ہوئی تو دوسری طرف ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں کو فائدہ ہوا۔
بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے دباؤ کو مسترد کیا اور 2007 میں کراچی آئیں تو خودکش حملے میں بال بال بچیں، مگر عزائم بلند رہے اور 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید ہوگئیں۔ بعد ازاں آصف زرداری پیپلز پارٹی کے قائد بنے۔ انھوں نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کی مگر جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر تیار نہ ہوئے جس پر میاں نواز شریف نے جلوس نکالا اور یوں افتخار چوہدری بحال ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں کمزور ہونے کا عمل بھی تیز ہوا۔ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی اور حکومت کو تجارتی کمپنی کے طور پر چلایا۔ اپنے قریبی ساتھیوں اور پیپلز پارٹی کے پرانے مخالفین کو عہدے دیے، کرپشن کو اپنے ایجنڈے میں اولیت دی اور اچھی طرز حکومت کو اپنی ترجیحات سے خارج کردیا۔
پیپلز پارٹی نے 2008 سے 2013 تک پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی سرگرمیاں معطل رکھیں۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف نے سڑکوں، پلوں، میٹرو اور اورنج ٹرین کی تعمیر پر سارے فنڈز خرچ کیے اور تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظرانداز کیا۔ مزدورں اور کسانوں کے حالات ابتر ہوگئے۔ غیر مسلمان پاکستانیوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئیں مگر پیپلز پارٹی نے اپنی بنیادی دستاویز کو نظرانداز کرتے ہوئے مظلوموں سے ناتا توڑ لیا۔ پھر بلاول کو سامنے لایا گیا۔
بلاول کی شخصیت میں اپنی والدہ اور نانا کی وراثت کی بنیاد پر ایک چمک موجود ہے مگر بلاول کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے ساتھ والد کی کرپشن کی داستانیں اور سندھ کو کوڑے دان میں تبدیل کرنے کی کہانیاں بھی ہیں۔ پھر بلاول اپنی ماں اور نانا کی طرح عام آدمی سے تعلق نہیں جوڑ سکے ہیں۔ وہ اپنے والد کی پالیسی کے پابند ہیں۔ آصف زرداری کرپشن کی بنیاد پر مقتدرہ کی ہدایات پر چلنے پر مجبور ہیں۔ مقتدرہ نواز شریف فیکٹر کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی شاید اس لیے نواز شریف فیکٹر کے خاتمے کے لیے مقتدرہ کی حمایت کررہی ہے کہ اگلے سال انتخابات میں اس کو کچھ حصہ مل جائے گا مگر اس سیاست کی بناء پر پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔ بلاول کو پارٹی کی ساکھ کی بحالی کے لیے مزدوروں، کسانوں، دانشوروں اور غیر مسلمان پاکستانیوں کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اب جدوجہد کے طریقے تبدیل ہوچکے ہیں مگر جوڑتوڑ کے بجائے سیاسی جدوجہد ہی پیپلز پارٹی کو دوبارہ عروج پر پہنچاسکتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا۔ ان کا بچپن کراچی اور بمبئی میں گزرا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ ایک غریب عورت تھیں۔ ذوالفقار کے والد کے خاندان نے ان کی ماں کی حیثیت کو بہت مشکل سے تسلیم کیا تھا، یوں بھٹو نے اپنی ماں کی آنکھوں کے ذریعے غریبوں کا دکھ محسوس کیا تھا۔ وہ سابق صدر اسکندر مرزا کی حکومت میں شامل ہوئے۔ پھر جنرل ایوب خان کی حکومت کا حصہ بن گئے۔ بھٹو نے برطانیہ اور امریکا میں تعلیم حاصل کی تھی اور دنیا میں متوقع تبدیلیوں کا ادراک کیا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ بحیثیت وزیر خارجہ انھوں نے خارجہ پالیسی کو ایک نئی شکل دی۔ بھٹو نے چین اور تیسری دنیا کے ممالک سے خاص طور پر مسلمان ممالک کو خارجہ پالیسی کی بنیاد بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو عالمی تاریخ کے مطالعہ میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ سے متاثر ہوئے تھے۔ انھوں نے بڑی فوج اور ایٹم بم کا تصور اپنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو چین سے دوستی اور بھارت دشمنی کے چیمپئن بنے۔
کشمیر کی آزادی کے لیے آپریشن جیرالٹر کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب 1965 کی جنگ میں پاکستان اپنے اہداف حاصل نہ کرسکا اور جنرل ایوب خان بھارت سے معاہدہ تاشقند پر مجبور ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت کے مخالف ہوگئے۔ انھوں نے ایک طرف سوویت یونین کی مخالف چین اور امریکا کی حکومتوں میں اپنے لیے مثبت رجحانات پیدا کیے، دوسری طرف پاکستانی فوج سندھ اور پنجاب میں مضبوط پرو چائنا طلبا، مزدور، کسان اور دانشور تنظیموں کے ہیرو بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس حکمت عملی کی بنا پر پنجاب کے عام آدمی کے ذہنوں میں جگہ بنائی۔ انھوں نے اپنے سفارتکار ساتھی جے اے رحیم کی پالیسی کے مطابق پیپلز پارٹی بنائی۔
پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں بائیں بازو کے سیاسی کارکن، مزدور، طالب علم، شاعر اور ادیب شامل تھے۔ معراج محمد خان کی قیادت میں بائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، رسول بخش تالپور کی قیادت میں بائیں بازو کے سندھ کے کارکن، شیخ رشید کی قیادت میں کسان کمیٹی اور مزدور تنظیمیں بھٹو کی معاون بن گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کے نفاذ اور استحصال کے خاتمے کی اصطلاحات عام کیں۔کمیونسٹ پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور ان کی ذیلی تنظیموں کی جدوجہد سے فائدہ اٹھایا۔ پھر اپنی کرشماتی شخصیت کے ذریعے جاگیرداری کے خاتمہ، صنعتوں کو قومیانے اور تعلیم کی تجارت ختم کرنے کے نعرے بلند کیے۔ بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور مزدوروں، کسانوں اور دانشوروں کی مدد سے انھوں نے پنجاب کی سیاست کا رخ بدل دیا۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی دفعہ شہروں اور گاؤں میں قدیم جاگیردار دائیں بازو کے سکہ بند سیاستدان شکست کھا گئے۔
خورشید حسن میر، شیخ رشید، مختار رانا، ملک معراج محمد خالد، ڈاکٹر مبشر حسن اور اسلم گورداسپوری جیسے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے رہنما کامیاب ہوئے۔ سندھ میں وڈیرے اور متوسط طبقے کے کارکن کامیاب ہوئے۔ پرو چائنا کمیونسٹ پارٹی کی انتخاب میں حصہ نہ لینے کی پالیسی کی بناء پر معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا، اس طرح کراچی دائیں بازو کی جماعتوں کے نرغے میں چلا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نئے پاکستان کو بچانے کے لیے حزب اختلاف کے ساتھ مل کر متفقہ آئین بنایا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کیں مگر اپنی شخصیت کے آمرانہ رجحانات کی بناء پر اپنے قریبی ساتھیوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ فوج کی ایماء پر بلوچستان میں آپریشن کیا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی، بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے شملہ معاہدہ کرکے 80 ہزار فوجیوں کو بھارت کی قید سے رہائی دلائی،80 ہزار مربع میل کا علاقہ بھارت سے بازیاب کرایا، اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس منعقد کی اور فوج کو ایٹم بم کا ہتھیار دیا۔
اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے انتخابات کے بعد بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے پاکستان میں سوشلزم کو روک دیا ہے مگر اپنی ایٹم بم کی پالیسی کی بناء پر امریکا سے ناراضگی مول لی۔ پی این اے بنوایا گیا اور پھر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قصوری قتل کیس میں ملوث کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بہادری سے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھانسی پا کر امر ہوگئے۔
پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے خود کو جلایا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ بیگم نصرت بھٹو نے پرانے سیاسی مخالفین ولی خان، اصغر خان، شیرباز مزاری اور نصر اللہ خان کو ملا کر تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) قائم کی۔ ایم آر ڈی نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کو غیر جماعتی انتخابات کرانے پڑے مگر اپنے وزیراعظم محمد خان جونیجو حکومت کو برطرف کیا اور پھر تاریخ کے کوڑے دان میں کھو گئے۔ بے نظیر بھٹو 1988 میں غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ سے مفاہمت کر کے برسر اقتدار آئیں مگر بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی بنیادی پالیسی سے انحراف کیا۔ پیپلز پارٹی کا انحصار مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور دانشوروں سے زیادہ بااثر افراد پر ہونے لگا۔ پیپلز پارٹی میں سیاسی کلچر کی حوصلہ شکنی ہونے لگی اور کرپشن ہر معاملے میں بنیاد بن گئی۔
پیپلز پارٹی کی زیادہ خراب صورتحال اس کی دوسری حکومت میں ہوئی۔ مرتضیٰ بھٹو کی غیر سیاسی سرگرمیوں، آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کے کرپشن کے اسکینڈل، فوج اور صدر فاروق لغاری کے گٹھ جوڑ کے سائے میں بے نظیر حکومت برطرف ہوئی اور آصف زرداری جیل میں گئے۔ بے نظیر بھٹو نے طویل جلاوطنی کاٹی۔ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف سے میثاق جمہوریت کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا جس سے ان کی ایک طرف ساکھ متاثر ہوئی تو دوسری طرف ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں کو فائدہ ہوا۔
بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف کے دباؤ کو مسترد کیا اور 2007 میں کراچی آئیں تو خودکش حملے میں بال بال بچیں، مگر عزائم بلند رہے اور 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید ہوگئیں۔ بعد ازاں آصف زرداری پیپلز پارٹی کے قائد بنے۔ انھوں نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کی مگر جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر تیار نہ ہوئے جس پر میاں نواز شریف نے جلوس نکالا اور یوں افتخار چوہدری بحال ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں کمزور ہونے کا عمل بھی تیز ہوا۔ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی اور حکومت کو تجارتی کمپنی کے طور پر چلایا۔ اپنے قریبی ساتھیوں اور پیپلز پارٹی کے پرانے مخالفین کو عہدے دیے، کرپشن کو اپنے ایجنڈے میں اولیت دی اور اچھی طرز حکومت کو اپنی ترجیحات سے خارج کردیا۔
پیپلز پارٹی نے 2008 سے 2013 تک پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی سرگرمیاں معطل رکھیں۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف نے سڑکوں، پلوں، میٹرو اور اورنج ٹرین کی تعمیر پر سارے فنڈز خرچ کیے اور تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظرانداز کیا۔ مزدورں اور کسانوں کے حالات ابتر ہوگئے۔ غیر مسلمان پاکستانیوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئیں مگر پیپلز پارٹی نے اپنی بنیادی دستاویز کو نظرانداز کرتے ہوئے مظلوموں سے ناتا توڑ لیا۔ پھر بلاول کو سامنے لایا گیا۔
بلاول کی شخصیت میں اپنی والدہ اور نانا کی وراثت کی بنیاد پر ایک چمک موجود ہے مگر بلاول کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے ساتھ والد کی کرپشن کی داستانیں اور سندھ کو کوڑے دان میں تبدیل کرنے کی کہانیاں بھی ہیں۔ پھر بلاول اپنی ماں اور نانا کی طرح عام آدمی سے تعلق نہیں جوڑ سکے ہیں۔ وہ اپنے والد کی پالیسی کے پابند ہیں۔ آصف زرداری کرپشن کی بنیاد پر مقتدرہ کی ہدایات پر چلنے پر مجبور ہیں۔ مقتدرہ نواز شریف فیکٹر کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
پیپلز پارٹی شاید اس لیے نواز شریف فیکٹر کے خاتمے کے لیے مقتدرہ کی حمایت کررہی ہے کہ اگلے سال انتخابات میں اس کو کچھ حصہ مل جائے گا مگر اس سیاست کی بناء پر پیپلز پارٹی اندرونِ سندھ تک محدود ہوگئی ہے۔ بلاول کو پارٹی کی ساکھ کی بحالی کے لیے مزدوروں، کسانوں، دانشوروں اور غیر مسلمان پاکستانیوں کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اب جدوجہد کے طریقے تبدیل ہوچکے ہیں مگر جوڑتوڑ کے بجائے سیاسی جدوجہد ہی پیپلز پارٹی کو دوبارہ عروج پر پہنچاسکتی ہے۔