مقصدِ حیات اور لبرل سوچ جوابی بیانیہ
مذہب زندگی کا مقصد فراہم کرتا ہے کا دعویٰ بذات خود ایک فریب ہے،یہ زندگی کو مابعد الموت کی تیاری کے سوا کچھ نہیں سمجھتا
جناب خرم علی راؤ کا مضمون بعنوان ''مقصد حیات اور لبرل سوچ'' نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے لبرل سوچ کی طرف خود ساختہ سوالات و خیالات منسوب کرکے ایسی سوچ رکھنے والوں کو جانوروں کے ہم پلہ ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی طرف سے مذہب پر کیے جانے والے سوالات بھی گھڑ لیے اور اپنے تئیں ان کے جوابات بھی عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہونے کا موقع پایا۔
یہ بلاگ ضرور پڑھیے: مقصد حیات اور لبرل سوچ
اپنے بھاری بھرکم دلائل کے بعد بحث سمیٹتے ہوئے فرماتے ہیں ''چنانچہ ثابت ہوا کہ مذہب ہی دراصل وہ شئے ہے جو انسان کو جینے کا اعلیٰ تر مقصد فراہم کرتا ہے، اس میں حرام حلال، جائز ناجائز، اچھے برے اور مکافاتِ عمل کا احساس پیدا کرکے ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کا احساس اور جذبہ عمل پیدا کرتا ہے؛ اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مذہب، انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔''
شاید وہ مذہب کے معنوں اور تعلیمات سے درست طور پر آشنا نہیں۔
الہامی مذاہب انسان کو ہمیشہ سے موت کی تیاری اور مابعد الموت کی زندگی کو موجودہ زندگی سے برتر سمجھنے کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ موجودہ زندگی کو جس قدر غیر اہم مذہب نے قرار دیا ہے، اتنا کسی اور نظریئے نے سوچا بھی نہیں۔ چنانچہ یہ دعوٰی کہ مذہب زندگی کا مقصد فراہم کرتا ہے، بذاتِ خود ایک فریب ہے۔ مذہب درحقیقت زندگی کو مابعد الموت کی تیاری کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتا۔
مزید برأں مکافات عمل جیسے نظریات نے انسانی معاشرے کےلیے قوانین زندگی وضع کرنے میں ان گنت رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سعودی عرب کے حالات ہیں جہاں پچھلی چار دہائیوں سے سینما کو بند رکھا گیا اور بتایا گیا کہ اس سے آخرت خراب ہو جاتی ہے، مگر حال ہی میں اسے کھول دیا گیا اور آخرت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ چنانچہ مذہبی اشارات کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کےلیے قانون سازی ہمیشہ سے طاقتور کے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کےلیے کی گئی۔
آپ نے آخر میں فرمایا ہے: ''مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔'' ایک بار پھر موصوف شاید فطرت کے نفسیاتی معنوں سے آگاہ نہیں۔ انسان فطری یا جبلی طور پر صرف دو خوف لے کر پیدا ہوتا ہے؛ ایک بلندی سے گرنے کا خوف اور دوسرا اونچی آوازوں کا خوف۔ ان کی وجوہ پر پھر کبھی قلم اٹھائیں گے۔ فی الوقت یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ انسان میں اس کے سوا تمام قسم کے اندیشے، وسوسے، خوف اس کو دی جانے والی تعلیم پیدا کرتی ہے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں بنیادی تربیت مذہبی خطوط پر کی جاتی ہے، چنانچہ اسی کی معراج ہے کہ ہم آئے دن لاقانونیت، دہشت گردی اور بدامنی کے نت نئے خوفناک چہرے دیکھتے ہیں۔
آخر میں یہ عرض کرنا تھا کہ مذہبی اور لبرل سوچ صدیوں سے انسانی معاشرے کا حصہ رہی ہیں اور ان کی باہمی کشمکش کوئی نئی شئے ہر گز نہیں۔ اس سلسلے میں کسی بھی ایک جانب سے یک طرفہ طور پر اپنی پسند کے نکات اٹھا کر بحث کرنا قطعی کارآمد نہیں۔ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ ایسے کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے قبل دونوں طرف کے دلائل و براہین کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے اور اس کا نچوڑ بیانیے میں شامل کیا جائے۔ مذہب نے صدیوں سے انسانی معاشرے کے بیشتر حصے کو رہنمائی فراہم کی ہے اور اس کے دونوں قسم کے نتائج انسانی تاریخ و تمدن میں عیاں ہیں۔ پچھلی ایک صدی یا کچھ زائد سے سماجی ترقی کی تیز ترین رفتار اس امر کی شاہد ہے کہ اب انسان کی ترقی کا راز سائنس اور اس کے بتائے ہوئے سماجی اصولوں کو اپنانے میں مضمر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بلاگ ضرور پڑھیے: مقصد حیات اور لبرل سوچ
اپنے بھاری بھرکم دلائل کے بعد بحث سمیٹتے ہوئے فرماتے ہیں ''چنانچہ ثابت ہوا کہ مذہب ہی دراصل وہ شئے ہے جو انسان کو جینے کا اعلیٰ تر مقصد فراہم کرتا ہے، اس میں حرام حلال، جائز ناجائز، اچھے برے اور مکافاتِ عمل کا احساس پیدا کرکے ایک صاف ستھری زندگی گزارنے کا احساس اور جذبہ عمل پیدا کرتا ہے؛ اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مذہب، انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔''
شاید وہ مذہب کے معنوں اور تعلیمات سے درست طور پر آشنا نہیں۔
الہامی مذاہب انسان کو ہمیشہ سے موت کی تیاری اور مابعد الموت کی زندگی کو موجودہ زندگی سے برتر سمجھنے کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ موجودہ زندگی کو جس قدر غیر اہم مذہب نے قرار دیا ہے، اتنا کسی اور نظریئے نے سوچا بھی نہیں۔ چنانچہ یہ دعوٰی کہ مذہب زندگی کا مقصد فراہم کرتا ہے، بذاتِ خود ایک فریب ہے۔ مذہب درحقیقت زندگی کو مابعد الموت کی تیاری کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھتا۔
مزید برأں مکافات عمل جیسے نظریات نے انسانی معاشرے کےلیے قوانین زندگی وضع کرنے میں ان گنت رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال سعودی عرب کے حالات ہیں جہاں پچھلی چار دہائیوں سے سینما کو بند رکھا گیا اور بتایا گیا کہ اس سے آخرت خراب ہو جاتی ہے، مگر حال ہی میں اسے کھول دیا گیا اور آخرت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ چنانچہ مذہبی اشارات کا استعمال کرتے ہوئے معاشرے کےلیے قانون سازی ہمیشہ سے طاقتور کے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کےلیے کی گئی۔
آپ نے آخر میں فرمایا ہے: ''مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔'' ایک بار پھر موصوف شاید فطرت کے نفسیاتی معنوں سے آگاہ نہیں۔ انسان فطری یا جبلی طور پر صرف دو خوف لے کر پیدا ہوتا ہے؛ ایک بلندی سے گرنے کا خوف اور دوسرا اونچی آوازوں کا خوف۔ ان کی وجوہ پر پھر کبھی قلم اٹھائیں گے۔ فی الوقت یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ انسان میں اس کے سوا تمام قسم کے اندیشے، وسوسے، خوف اس کو دی جانے والی تعلیم پیدا کرتی ہے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں بنیادی تربیت مذہبی خطوط پر کی جاتی ہے، چنانچہ اسی کی معراج ہے کہ ہم آئے دن لاقانونیت، دہشت گردی اور بدامنی کے نت نئے خوفناک چہرے دیکھتے ہیں۔
آخر میں یہ عرض کرنا تھا کہ مذہبی اور لبرل سوچ صدیوں سے انسانی معاشرے کا حصہ رہی ہیں اور ان کی باہمی کشمکش کوئی نئی شئے ہر گز نہیں۔ اس سلسلے میں کسی بھی ایک جانب سے یک طرفہ طور پر اپنی پسند کے نکات اٹھا کر بحث کرنا قطعی کارآمد نہیں۔ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ ایسے کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے قبل دونوں طرف کے دلائل و براہین کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے اور اس کا نچوڑ بیانیے میں شامل کیا جائے۔ مذہب نے صدیوں سے انسانی معاشرے کے بیشتر حصے کو رہنمائی فراہم کی ہے اور اس کے دونوں قسم کے نتائج انسانی تاریخ و تمدن میں عیاں ہیں۔ پچھلی ایک صدی یا کچھ زائد سے سماجی ترقی کی تیز ترین رفتار اس امر کی شاہد ہے کہ اب انسان کی ترقی کا راز سائنس اور اس کے بتائے ہوئے سماجی اصولوں کو اپنانے میں مضمر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔