گاندھی جی کا قتل عالمی طاقتوں کی سازش کا نتیجہ تھا
امریکا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیاں دونوں ملکوں کے تنازعات کو بڑھاوا دینا چاہتی تھیں۔
یہ 30 جنوری 1948ء کی بات ہے۔ہندوؤں کے مشہور لیڈر،گاندھی جی دہلی کے صنعت کار، جی ڈی برلا کی ملکیت برلا ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہ روزانہ شام کو کوٹھی کے پچھواڑے واقع میدان میں جمع ہوئے لوگوں کے سامنے خطاب کرتے اور عموماً بھائی چارے و محبت کی باتیں بتاتے تھے تاکہ ہندوپاک میں جاری ہندو مسلم فساد ختم ہو سکے۔
30 جنوری کو شام پانچ بجے جب گاندھی اس میدان میں داخل ہوئے 'تو نتھو رام گوڈسے نے گولیاں چلا کر انہیں مار ڈالا۔یوں وہ شاطرانہ سازش اختتام کو پہنچی جس کے تانے بانے برطانیہ اور امریکا کے حکمران طبقوں نے انتہا پسند ہندولیڈر اور بھارتی حکومت کے اصل کرتا دھرتا،سردار ولبھ بھائی پٹیل(وزیر داخلہ) نے تیار کیے تھے۔اس عالمی سازش کے بہت سے پہلو پردہ اخفا میں ہیں مگر اب وہ رفتہ رفتہ افشا ہو رہے ہیں۔
موہن داس کرم چند گاندھی متنازع شخصیت ہیں۔ مخالفین انہیں عیار سیاست دان اور ڈرامے باز قرار دیتے ہیں۔ چاہنے والوں کی نظر میں وہ امن و محبت کی تبلیغ کرنے والے مہاتما ہیں جو عمر بھر مصیبت زدہ اور دکھی انسانوں کی مدد اور خدمت کرتے رہے ۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کی ہندوستانی سیاست میں وہ صف اول کے رہنماؤں میں شامل ہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کی خاطر ہی انھوں نے اپنی جان بھی قربان کردی۔
بھارتی سرکار کا مؤقف یہ ہے کہ نتھو رام گوڈسے اور اس کے ساتھی کٹر ہندو اور شدت پسند تنظیموں مثلاً ہندومہا سبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں اس امر پر شدید غصہ تھا کہ گاندھی جی پاکستان اور مسلمانوں کی طرف داری کر رہے ہیں۔ جبکہ (بقول ان کے) پاکستانی مسلمان پاکستان میں آباد ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کر رہے تھے۔ اسی بات پر براوختہ ہو کر ان کٹر ہندوؤں نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔
اب بھارت کے ایک دانشورو مورخ، ڈاکٹر پنکج فڈنیس (Pankaj Phadnis) یہ پوشیدہ نکتہ سامنے لائے ہیں کہ گاندھی جی کا قتل دراصل مغربی طاقتوں یا سپر پاورز کی سازش تھی۔ یہ اس لیے تیار کی گئی تاکہ دونوں نوزائیدہ اور طاقتور ممالک ...بھارت اور پاکستان کے مابین کبھی امن قائم نہ ہو سکے اور وہ باہم ایک دوسرے سے برسرپیکار رہیں۔ اس طرح برطانیہ اور امریکا دونوں ملکوں کو اربوں ڈالرکا اسلحہ فروخت کر کے خوب کمائی کرنا چاہتے تھے۔ گویا 1947ء میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دشمنی و نفرت پیداکرنا برطانیہ اور امریکا کے مفاد میں تھا۔اور پچھلے اکہتر برس کی تاریخ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دونوں ملک کھربوں روپے مالیت کا برطانوی ،امریکی اور مغربی اسلحہ خرید چکے۔
ڈاکٹر پنکج فڈنیس پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے۔ 1996ء میں جب وہ ممبئی میں ملازمت کر رہے تھے' تو ایک ایسے کرائے کے فلیٹ میں رہے جہاں مشہور ہندوستاانی لیڈر' دامودر ساورکر (1883ء۔1966ء) نے بھی کئی سال گذارے تھے۔ فلیٹ کے ساتھ ہی ایک لائبریری تھی جہاں ہندوستان کی تاریخ پر کتابیں بکثرت موجود تھیں۔ انہی کتب کے باعث ا نجینئر پنکج فڈنیس تاریخ میں دلچسپی لینے لگے۔
بھارت اور پاکستان میں دامودر ساورکر انتہا پسند ہندولیڈر اور مسلم دشمن کہلاتا ہے مگر وہ شروع میں ایسا نہیں تھا۔ ''جنگ آزادی 1857ء'' ساورکر کی مشہور ترین کتاب ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن 1907ء میں طبع ہوا تھا۔ اس ایڈیشن میں ساورکر نے جنگ آزادی 1857ء میں مسلمان لیڈروں اور مجاہدین کا تذکرہ عزت و احترام اور محبت سے کیا ہے۔ تب وہ ''ہندومسلم اتحاد'' تحریک کا سرگرم رہنما تھا۔ اسی غرض سے ساورکر نے ابھینو بھارت سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی جس میں ہندو اورمسلمان طلبہ اور نوجوان شامل تھے۔ بعد میں کٹر ہندو لیڈر بال گنگا دھر تلک کے زیر اثر آ جانے کے وجہ سے ساورکر بھی ہندو قوم پرستی کی جانب مائل ہو گیا۔
ڈاکٹر پنکج فڈنیس اسی ساورکر کے گرویدہ ہوئے جو ہندو مسلم اتحاد کاداعی اور انسانیت پسند لیڈر تھا۔ وہ پھر ہندوستانی تاریخ سے متعلق کتابوں کا مطالعہ دلچسپی و سرگرمی سے کرنے لگے۔ انہیں معلوم ہواکہ 1939ء میں انڈیا مسلم لیگ اور ساورکر کی ہندو مہا سبھا جماعت نے مل کر سندھ ' صوبہ سرحد اور بنگال میں وزارتیں بنائیں تھیں۔ کتابوں کا مطالعہ انہیں تقسیم ہند اور گاندھی کے قتل جیسے موضوعات کی گہرائی میں بھی لے گیا۔
سینکڑوں تاریخی کتب کے مطالعے سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ برطانیہ اور امریکا' دونوں عالمی طاقتیں بھارت اور پاکستان میں دوستی اور اتحاد ہونا دیکھنا نہیں چاہتی تھیں۔ اس طرح اسلحے کی فروخت کے علاوہ برطانوی و امریکی ایکسپورٹ پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے تھے کیونکہ دونوں نئے ممالک قدرتاً باہمی تجارت پہ زور دیتے۔ اسی لیے دونوں طاقتوں نے نہ صرف برصغیر میں ہندومسلم فسادات کرانے میں سرگرم کردار ادا کیا بلکہ بھارتی و پاکستانی حکومتوں میں شامل اپنے ایجنٹوں کی مدد سے گاندھی جی اور قائداعظم کو جلد اگلے جہان پہنچا دیا۔ (یاد رہے' قائداعظم کی وفات جن پُراسرار حالات میں ہوئی' بعض پاکستانی مورخین اسے قتل سے تعبیر کرتے ہیں۔)
2012میں ڈاکٹر پنکج فرڈنیس نے امریکی سدرن یونیورسٹی' لوزیانا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری پائی۔ ان کے ڈاکٹریٹ کا موضوع تھا:'' بھارت اور پاکستان کے پرامن تعلقات کی تشکیل میںا نفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار تاکہ عالمی خوشحالی جنم لے سکے۔'' درحقیقت ڈاکٹر پنکج پچھلے بیس سال سے کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان تمام اخلاقات ختم کر لیں تو انہیں یقین ہے کہ اس کے بعد نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور جنم لے سکتا ہے۔آج کل ڈاکٹر پنکج ایک انگریزی کتاب ''The Shroud of Gandhi and the Satanic Force'' لکھ رہے ہیں۔ اس کتاب میں ان عوامل و واقعات کا ذکر ہے جن کے باعث ایک بین الاقوامی سازش سے نہ صرف گاندھی جی کو قتل کیا گیا بلکہ اصل مجرم بھی پردہ اخفا رکھے گئے۔ ڈاکٹر پنکج اپنی مختلف تحریروں میں درج بالا واقعات کا جستہ جستہ تذکرہ کرچکے۔ ان کا مربوط بیان قارئین ایکسپریس کے لیے پیش ہے۔یہ داستان بڑی حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔
لاہور جانے کا فیصلہ
3 نومبر 1947ء کو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے تقسیم ہند کا منصوبہ منظور کرلیا۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان مل جل کر رہیں مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت چاہتی تھی اور کانگریسی لیڈروں پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے یہ مطالبہ منظور کرلیا۔گاندھی جی ناراض ہوکر کانگریس کے معاملات سے تقریباً الگ تھلگ ہوگئے۔ تب ہندوستان بھر میں تمام اہم انتظامی عہدوں پر برطانوی افسر فائز تھے۔
تقسیم ہند کا مقصد یہ تھا کہ بھارت اور پاکستان کے عوام امن وآشتی سے اپنے اپنے مذہبی و معاشرتی اصولوں و روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ لیکن بنیادی طور پہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بھی کچھ شدت پسند لیڈروں نے اس موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کرا دیئے۔ برطانوی انتظامیہ نے فسادات کی روک تھام کے لیے مؤثر انتظام نہیں کیا کیونکہ یہ فساد برطانیہ کے مفاد میں تھا۔ اس طرح ہندوستان چھوڑنے کے بعد بھی دونوں ممالک تجارتی و عسکری لحاظ سے برطانوی اسلحے اور امداد کے محتاج رہتے۔
گاندھی جی مگر فساد زدہ بھارتی علاقوں کا دورہ کرنے لگے۔ وہ ہر علاقے میں ہندو اور مسلمان لیڈروں کو اکٹھا کرتے اور ان پر زور دیتے کہ وہ امن و محبت کی اپیل کریں۔اوائل ستمبر 1947ء میں انہوں نے لاہور،پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ وہاں بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں امن کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے گورنر جنرل پاکستان، محمد علی جناح کو خط لکھا ۔ گاندھی جی پاکستان کو بھی اپنا وطن سمجھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جانے کے لیے مجھے پاسپورٹ کی قطعاً ضرورت نہیں۔جناح نے خوش دلی سے گاندھی کو پاکستان آنے کی دعوت دے دی۔ انہوں نے اپنے گجراتی ہم وطن کو یہ بھی لکھا کہ وہ دونوں اکٹھے پاکستان و بھارت کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے تاکہ نفرت اور دشمنی کی بھڑکتی آگ پر پانی ڈالا جاسکے۔
اوائل ستمبر میں گاندھی کلکتہ میں تھے۔ وہ پاکستان جانے کے لیے 9 ستمبر کو دہلی پہنچ گئے۔ تب تک بھارتی دارالحکومت میں ہندو بلوائی مسلم علاقوں پر حملے شروع کرچکے تھے۔ کئی مسلمان شہید ہوگئے، زندہ بچ جانے والوں نے لال قلعے میں پناہ لی۔ گاندھی نے پاکستان جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور فیصلہ کیا کہ وہ پہلے دہلی میں امن و محبت کا پرچار کریں گے۔
گاندھی جب بھی دہلی آتے، تو بھنگی کالونی میں بھنگیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ مگر وزیر داخلہ، سردار پٹیل نے اسے ''سکیورٹی رسک'' قرار دے دیا۔ پٹیل کے اصرار پر گاندھی جی برلا ہاؤس مقیم ہوگئے۔ وہ اس کے پچھواڑے موجود میدان میں روزانہ لوگوں سے ملنے ملانے اور تقریر کرنے لگے۔ ان کی تقریر سے قبل قرآن پاک، بائیبل اوربھگوت گیتا کا متن پڑھ کر سنایا جاتا۔کئی ہندو قرآن پاک پڑھنے پر احتجاج کرتے مگر گاندھی جی یہی جواب دیتے کہ آیات قرآنی میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں، ان میں امن، بھائی چارے، محبت اور رحم کی باتیں درج ہیں۔ مگر اس زمانے میں شدت پسندوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے عام لوگوں کے دل نفرت اور دشمنی سے بھرگئے تھے۔ غصہ ان کی عقل کو کھاگیا تھا۔ اسی لیے وہ کوئی عاقلانہ بات سننے کو تیار نہ تھے۔
پاکستان کے لیے بھوک ہڑتال
22 دسمبر کو گاندھی جی نے اپنی محفل میں یہ اعلان کیا ''ہندو بلوائیوں نے حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی درگارہ تباہ و برباد کر ڈالی ہے۔ یہ مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں کے بھی بزرگ ہیں۔ میری تمام ہندوؤں، سکھوں اور حکومت سے اپیل ہے کہ درگاہ کی تزئین و آرائش کی جائے۔ نیز دہلی میں مسلمانوں کے جتنے بھی مذہبی مقامات ہیں، یہ بات ان پر بھی مطبق ہوتی ہے۔''
گاندھی جی نے دہلی میں کئی مہاجر کیمپوں کا بھی دورہ کیا اور ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مہاجرین سے ملے۔ انہی دنوں سردار پٹیل نے تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والا مالی حصہ (55 کروڑ روپے) روک لیا۔ سردار پٹیل کا موقف یہ تھا کہ پاکستان نے کشمیر میں حملہ کردیا ہے لہٰذا اب اسے یہ حصہ نہیں ملنا چاہیے۔ پاکستان اس رقم سے اسلحہ خرید کر بھارت کے خلاف استعمال کرے گا۔
گاندھی کا موقف تھا کہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے اور بددیانتی کے مترادف! جب سردار پٹیل نے پچپن کروڑ روپے حکومت پاکستان کو دینے سے انکار کردیا، تو 12 جنوری کی شام گاندھی جی نے اعلان کیا کہ وہ اگلے دن سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کردیں گے۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ اس طریقے سے بھارت اور پاکستان میں امن قائم کرنا اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کو قریب لانا چاہتے ہیں۔چنانچہ گاندھی 13 جنوری کی سہ پہر سے بھوک ہڑتال پر چلے گئے۔ اس واقعے نے لوگوں میں متضاد خیالات پیدا کردیئے۔ پاکستان سے آئے ہندو اور سکھ مہاجر طیش میں بھرے بیٹھے تھے۔ اب وہ مسلمانوں سے انتقام چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے نعرہ لگادیا:
مرے ہے، تو مرنے دو
خون کا بدلہ خون سے لیں گے
مگر دہلی کے رہائشی ہندو اور سکھوں پر گاندھی کے مرن برت (بھوک ہڑتال) کا مثبت اثر ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف منفی کارروائیاں روک دیں۔ کئی علاقوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر امن و آشتی کے جلوس نکالے اور ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلائیں۔ حتیٰ کہ ہندو مہاسبھا اور جماعت اسلامی کے لیڈر مل کر گاندھی کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کردیں۔
جوں جوں گاندھی کی طبیعت ناساز ہوئی، پاکستان سے بھی ان کی خیریت و عافیت کے پیغام آنے لگے۔ بھارت میں پاکستانی سفیر، زاہد حسین گاندھی جی سے ملنے آئے اور انہیں مرن برت ختم کرنے کا کہا۔آخر 18 جنوری کو بھارت کے سبھی ممتاز ہندو اور مسلمان لیڈر برلا ہاوس میں جمع ہوئے ۔ انہوں نے گاندھی کے سامنے یہ معاہدہ تحریر کیا کہ وہ جاری فرقہ وارانہ فسادات روکنے کی خاطر ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ یہ کوئی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی معاہدہ تھا۔ اس کے بعد گاندھی جی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ اب وہ جلد پاکستان روانہ ہونا چاہتے تھے۔
خفیہ ایجنسیاں حرکت میں
برطانوی اور امریکی حکومتیں حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ اگر گاندھی اور جناح نے اکٹھے متحدہ پنچاب کا دورہ کیا' تو نہ صرف فرقہ وارانہ فساد انجام کو پہنچے گا بلکہ پاکستان اور بھارت اتنے قریب آ جائیں گے کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل گفت وشنید سے پُرامن انداز میں حل کر سکیں۔یہ صورت حال ان کے مفادات کو شدید ضرب پہنچاتی تھی۔بلکہ اس طرح ''سونے کی چڑیا' ...برصغیر پاک وہند کا علاقہ ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ۔ اسی لیے دونوں طاقتوں نے گاندھی جی کو راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اپنے مفادات محفوظ و مامون رکھ سکیں۔
اب برطانوی خفیہ ایجنسی' سپیشل آپریشنز ایگزیٹو (Special Operations Executive) کے ایجنٹ متحرک کر دیئے گئے۔ یہ ایجنسی عرف عام میں ''فورس 136'' (Force 136) کہلاتی ہے۔ یہ خفیہ ایجنسی جنگ عظیم دوم کے دوران ایشیائی ممالک میں پوشیدہ مہمات انجام دینے کی خاطر بنائی گئی تھی۔ اس کے افسر برطانوی تھے' مگر بیشتر ایجنٹ ہندوستان، ملائیشیا، تھائی لینڈ یا برما سے لیے جاتے۔اب ہندوستان میں فورس 136 کے ایجنٹ ایسی شخصیات کو تلاش کرنے لگے جوبلا دھڑک گاندھی کو قتل کر سکیں۔ آخر ان کی نظریں نارائن آپٹے اور نتھورام گوڈسے پر جا ٹھہریں۔ یہ دونوں پونہ شہر سے تعلق رکھنے والے کٹر ہندو برہمن' مسلمانوں کے شدید مخالف اور ہندومہاسبھا جماعت کے مقامی رہنما تھے۔
نارائن آپٹے برطانوی راج سے نبرد آزما ہندوستانی نوجوانوں کو گرفتار کرانے میں فورس 136کی خفیہ مہمات میں حصہ لے چکا تھا۔ لہٰذا فورس 136کے برطانوی افسر اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ 1944ء سے وہ نتھورام کے ساتھ مل کر اپنا اخبار نکال رہا تھا۔ اسی میں گاندھی جی کے نظریات اور مسلمانوں پر شدید تنقید کی جاتی تھی۔ یہ دونوں اپنے آپ کو ہندو دھرم کا چمئپین سمجھتے اور اس کی خاطر مرمٹنے کو بھی تیار تھے۔
اب فورس 136کے چرب زبان اور پروپینگڈے کے ماہر برطانوی و ہندوستانی ایجنٹ نتھورام اور نارائن آپٹے کو گاندھی کے قتل پر ابھارنے لگے۔ انہوں نے اپنی لچھے دار باتوں سے دونوں جذباتی نوجوانوں کو اتنا زیادہ مشتعل کر دیا کہ وہ سمجھنے لگے، گاندھی کو مار کر اپنے دھرم اور ملک وقوم کے لیے بہت بڑی خدمت انجام دیں گے۔ اس جذباتی فیصلے نے ان میں سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں سلب کر لیں۔
گاندھی کے قتل کی سازش میں امریکی خفیہ ایجنسی' سی آئی اے بھی برطانوی فورس 136 کی ہر ممکن مدد کر رہی تھی۔خیال ہے کہ جس پستول' بریٹا ایم 1934سے گاندھی جی کو قتل کیا گیا وہ سی آئی اے کے ایجنٹوںنے ہی نتھو رام کو فراہم کیا تھا۔ ان دنوں اخبار کی حالت بہت پتلی تھی۔ وہ ہندمہاسبھا کے دیئے گئے چندے سے چل رہا تھا۔ لہٰذا نتھو رام اور نارائن آپٹے کی مالی صورت حال بہت مخدوش تھی۔ ایسے عالم میں وہ بریٹا جیسا نہایت مہنگا غیر ملکی پستول قطعاً نہیں خرید سکتے تھے۔ ان کے پاس بریٹا کی موجودگی برطانیہ و امریکا کی مبینہ سازش کا واضح ثبوت ہے۔
اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ دہلی کے امریکی سفارت خانے میں تعینات نائب قونصل جنرل' ہربرٹ رئینر جونیر( Herbert Reiner Jr) بھارت میں مقامی سی آئی اے کا سربراہ تھا۔ وہ 1947ء کے ا وائل میں ہندوستان پہنچا تھا۔ اسی کے توسط سے نتھو رام اور نارائن آپٹے کو بھاری رقم دی گئی تاکہ وہ دیگر واقف کاروں کو بھی ساتھ ملا کر گاندھی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا سکیں۔نظریاتی ہم آہگنی اور روپے پیسے کے بل پر آخر ایسا گروہ وجود میں آ گیا جس کا واحد مقصد ہندوؤں کے سب سے بڑے دشمن گاندھی کو قتل کرنا تھا۔ اس گروہ میں شامل سبھی ارکان کٹر ہندو اور مہاسبھائی تھے۔ یہ گروہ وسط جنوری میں دہلی پہنچ گیا اور دو ہوٹلو ں میں قیام پذیر ہوا۔
حملے کا آغاز
20جنوری1948ء کی شام یہ لوگ برلا ہاوس پہنچے تاکہ گاندھی کو قتل کرسکیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ دو ارکان دستی بم چلائیں گے تاکہ محفل میںافراتفری مچ جائے۔ پھر ڈگمبر باچ یا شنکر کشتیہ نے گاندھی جی پر گولیاں چلانی تھیں۔ اس منصوبے سے عیاں ہے کہ حملہ آوروں کے پاس دو پستولیں تھیں۔ تاہم وہاں تعینات ایک چوکیدار ایک حملہ آور' مدن لال کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگا۔مدن لال کو گاندھی جی کی محفل میںدستی بم چلانا تھا۔ چوکیدار اب مدن لال سے سوالات کرنے لگا۔ چوکیدار نے آخراسے اندر جانے دیا مگر مدن کچھ گھبرا گیا تھا۔ اسی لیے اس سے دستی بم صحیح طرح نہیں چلایا جا سکا اور وہ پُھس ہو گیا۔ یہ دیکھ کر بقیہ ساتھ ارکان وہاں سے فرار ہو گئے۔ مدن لال کو گرفتار کر لیا گیا۔
مدن لال پھر پولیس کو ان ہوٹلوں میں لے گیا جہاں اس کے بقیہ ساتھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے' وہ وہاںموجود نہ تھے' مگر دہلی پولیس نے نتھو رام گوڈسے سمیت چھ لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ ان سے چاقو اور بم برآمد ہوئے۔ انتہای حیرت انگیز بات یہ کہ اگلے دن یعنی 21 جنوری کو پولیس نے مدن لال اور نتھورام گوڈ سے سمیت تمام گرفتار شدگان یہ کہہ کر رہا کردیا کہ یہ ثابت نہیں ہوسکا، کہ ہتھیار انہی کے ہیں۔گویا دہلی پولیس نے کھلم کھلا قانون کو مذاق کا نشانہ بنا ڈالا۔ ظاہر ہے، انگریز افسروں کے حکم پر حملہ آوروں کو رہا کیا گیا تاکہ گاندھی جی کے قتل کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔
یہی وجہ ہے ' 20جنوری کے ناکام حملے کے بعد بھی برلا ہاؤس کی سکیورٹی سخت نہیں کی گئی۔ گاندھی جی کواردگرد گارڈ کھڑے رکھنا پسند نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر موت نے آنا ہے' تو وہ پاتال میںبھی انہیں ڈھونڈ لے گی۔ لیکن بھارتی حکومت کو تو احساس ہونا چاہیے تھا کہ گاندھی کی جان شدید خطرے میں ہے مگر ان کی سکیورٹی کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔ گویا انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ قوم کے باپ کی آسانی سے جان لے سکیں۔
آخر 30 جنوری کی شام نتھورام نے بڑے آرام و اطمینان سے اپنے پستول کی تین گولیاں گاندھی جی کے سینے میں اتار دیں۔ تاہم وہاں موجود لوگوں کو چار گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ گویا کسی اور پستول سے بھی گاندھی جی پر ایک گولی چلائی گئی تاکہ ان کی موت کو یقینی بنایا جاسکے۔
سازش کے عیاں ثبوت
بھارتی حکومت نے 1966ء میں گاندھی جی کے قتل کی چھان بین کرنے کی خاطر جسٹس جیون لال کپور کی سربراہی میں یک رکنی کمیشن بنایا تھا۔ اس کپورکمیشن نے فیصلہ دیا کہ گاندھی جی پر تین گولیاں چلائی گئی تھیں۔ حالانکہ 31 جنوری کو گاندھی جی کی دیکھ بھال پر مامور منوبہن پولیس کو بیان دے چکی تھی کہ مقتول کے جسم سے چار گولیاں برآمد ہوئی تھیں۔ پھر کپور کمیشن نے یہ کیوں قرار دیا کہ گاندھی جی کو تین گولیاں ماری گئیں؟ کیا اس لیے کہ عوام کا دھیان اصل قاتلوں سے ہٹایا جاسکے اور ان کی توجہ انتہا پسند ہندو حملہ آوروں پر ہی مرکوز ہے جو درحقیقت صرف چارا تھے۔
یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ 30 جنوری کی شام ہندوستان میں سی آئی اے کا چیف، رابرٹ ریئنر بھی گاندھی جی کی تقریب میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ فورس 136 کے ایجنٹ بھی صحافیوں کا روپ دھارے وہاں موجود تھے۔ یہ رابرٹ ریئنر ہی ہے جس نے نتھورام گوڈسے کو پکڑا اور اسے فرار نہیں ہونے دیا۔ اس طرح مغربی طاقتیں ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ گاندھی جی کی مسلم دوستی پالیسی سے مشتعل ہوکر شدت پسند ہندوؤں نے انہیں قتل کردیا۔ انہوں نے سازش کے تانے بانے اتنی مہارت اور چابک دستی سے بنے کہ وہ اپنا استدلال ثابت کرنے میں کامیاب رہیں۔ نتھورام گوڈسے اور اس کے ساتھی یقیناً مرتے دم تک نہیں جان سکے ہوں گے کہ مغربی طاقتوں نے شطرنج کی جو بازی کھیلی، اس میں وہ ایسے پیادے تھے جن کے ذریعے گاندھی جی کو راہ سے ہٹا کر خفیہ کھیل جیت لیا گیا۔
فورس 36 1اور سی آئی اے نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ ان کی سازش طشت ازبام نہ ہونے پائے مگر ایک ثبوت ضرور منظر عام پر آگیا۔ حیران کن بات یہ کہ کپور کمیشن نے اس ثبوت کو کوئی اہمیت نہ دی اور اسے غیر متعلق قرار دے کر نظرانداز کردیا۔کپور کمیشن کو چھان بین کے دوران یوسی ملہوترا (U.C.Malhotra) کی ڈائری ملی جو ریاست الور کا پولیس کمشنر تھا۔ ڈائری میں 8 فروری 1948ء کی تاریخ میں یہ بیان درج تھا: ''30 جنوری کی صبح ایک غیر ملکی سادھو کے روپ میں الور آیا۔ اس کا قیام شہر کی ہندو مہاسبھا تنظیم کے ناظم، گریدھار سدھا کے ہاں تھا۔ میرے جاسوسوں نے خبر دی کہ وہ غیر ملکی طبع شدہ پمفلٹ لایا تھا۔ پمفلٹ میں گاندھی جی کے قتل کا اعلان درج تھا۔ مجھے یہ خبر سہ پہر تین بجے ملی جبکہ حقیقی قتل دہلی میں پانچ بجے کے بعد ہوا۔''
ڈائری کا بیان اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ غیر ملکی سادھو فورس 136 یا سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ وہ گاندھی جی کے قتل کی تشہیر کرنے الور پہنچا تھا۔ تاہم گریدھار کے ساتھیوں میں کوئی آدمی مقامی پولیس کا جاسوس تھا۔ اس نے اپنے سربراہ تک یہ سچائی پہنچا دی کہ گاندھی جی کے قتل کی سازش تیار ہوچکی۔
مغربی حکمران ہر حال میں دنیا والوں پر یہی تاثر چھوڑنا چاہتے تھے کہ گاندھی جی کی موت انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں ہوئی اور اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اسی لیے اپنی سازش کو انتہائی کامیاب بنانے کے لیے فورس 136 نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عام ہندوؤں اور برہمنوں کے مابین فساد کرانے کا بھی بندوبست کرلیا۔ یاد رہے، گاندھی جی کے قتل میں ملوث بیشتر مجرم برہمن تھے۔
کپور کمیشن کو اس امر کا بھی ثبوت مل گیا کہ خاص طور پر ریاست مہاراشٹر میں برہمنوں پر حملے کا منصوبہ گاندھی جی کے قتل سے پہلے ہی بن چکا تھا ۔(پونہ اسی ریاست میں واقع ہے)۔ بیگم سرلا باروے(Sarla Barve) کا شوہر جنوری 1948ء میں پونہ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ بیگم سرلا نے کپور کمیشن کو دیئے گئے تحریری بیان میں انکشاف کیا:
''میرے شوہر نے ہندو مہاسبھا کے لیڈروں پر نظر رکھی ہوئی تھی کیونکہ وہ مشکوک سرگرمیوں میں محو تھے۔ گاندھی جی کے قتل سے دو دن قبل مجھے ایک واقف کار نے بتایا کہ پونہ کے مشہور غنڈوں، بابو راؤ سنس اور وسانتا راؤ نے برہمنوں کے گھر اور دکانیں جلانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔''
کپور کمیشن نے بیگم سرلا کے بیان کو بھی اہمیت نہ دی کیونکہ یہ عیاں کرتا ہے کہ گاندھی جی کا قتل ایک منظم اور گہری سازش کے ذریعے انجام پایا۔ ڈاکٹر پنکج فرڈنیس اسی سازش کو افشا کرنا چاہتے ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ گاندھی جی کے قتل کی چھان بین ازسرنو کرنے کا حکم دیا جائے۔ مگر سپریم کورٹ نے معاملہ لٹکا رکھا ہے۔ ظاہر ہے، بھارتی حکمران طبقہ یہ سچائی کبھی آشکارا نہیں کرے گا کہ قوم کے ''باپو'' اور ''مہاتما'' کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔
گاندھی جی اور قائداعظم، دونوں انسان تھے اور ان میں خامیاں بھی تھیں۔ مگر برصغیر پاک و ہند کے دونوں عظیم ترین لیڈروں کی عمر بھر یہی سعی رہی کہ ہندو اور مسلمان امن و محبت سے مل جل کر رہیں۔ دونوں لیڈروں کی منزل یقینا یہ نہیں تھی کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ازلی دشمن بن جائیں۔ یہ صورت حال ہندوستان کو لوٹنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے وارثوں کی پیدا کردہ ہے جو اب تک دونوں پڑوسیوں کو لڑوا کر خوب فوائد حاصل کررہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے حکمران طبقے مغربی طاقتوں کے پھندے سے نکلنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کیوں نہیں کررہے؟ کیا دشمنی کے درخت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اب انہیں کاٹنا بہت دشوار ہو چکا؟قائداعظم اورگاندھی نے امن پسندی کو جو خواب دیکھا تھا، کیا وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا؟
30 جنوری کو شام پانچ بجے جب گاندھی اس میدان میں داخل ہوئے 'تو نتھو رام گوڈسے نے گولیاں چلا کر انہیں مار ڈالا۔یوں وہ شاطرانہ سازش اختتام کو پہنچی جس کے تانے بانے برطانیہ اور امریکا کے حکمران طبقوں نے انتہا پسند ہندولیڈر اور بھارتی حکومت کے اصل کرتا دھرتا،سردار ولبھ بھائی پٹیل(وزیر داخلہ) نے تیار کیے تھے۔اس عالمی سازش کے بہت سے پہلو پردہ اخفا میں ہیں مگر اب وہ رفتہ رفتہ افشا ہو رہے ہیں۔
موہن داس کرم چند گاندھی متنازع شخصیت ہیں۔ مخالفین انہیں عیار سیاست دان اور ڈرامے باز قرار دیتے ہیں۔ چاہنے والوں کی نظر میں وہ امن و محبت کی تبلیغ کرنے والے مہاتما ہیں جو عمر بھر مصیبت زدہ اور دکھی انسانوں کی مدد اور خدمت کرتے رہے ۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کی ہندوستانی سیاست میں وہ صف اول کے رہنماؤں میں شامل ہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کی خاطر ہی انھوں نے اپنی جان بھی قربان کردی۔
بھارتی سرکار کا مؤقف یہ ہے کہ نتھو رام گوڈسے اور اس کے ساتھی کٹر ہندو اور شدت پسند تنظیموں مثلاً ہندومہا سبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں اس امر پر شدید غصہ تھا کہ گاندھی جی پاکستان اور مسلمانوں کی طرف داری کر رہے ہیں۔ جبکہ (بقول ان کے) پاکستانی مسلمان پاکستان میں آباد ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کر رہے تھے۔ اسی بات پر براوختہ ہو کر ان کٹر ہندوؤں نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔
اب بھارت کے ایک دانشورو مورخ، ڈاکٹر پنکج فڈنیس (Pankaj Phadnis) یہ پوشیدہ نکتہ سامنے لائے ہیں کہ گاندھی جی کا قتل دراصل مغربی طاقتوں یا سپر پاورز کی سازش تھی۔ یہ اس لیے تیار کی گئی تاکہ دونوں نوزائیدہ اور طاقتور ممالک ...بھارت اور پاکستان کے مابین کبھی امن قائم نہ ہو سکے اور وہ باہم ایک دوسرے سے برسرپیکار رہیں۔ اس طرح برطانیہ اور امریکا دونوں ملکوں کو اربوں ڈالرکا اسلحہ فروخت کر کے خوب کمائی کرنا چاہتے تھے۔ گویا 1947ء میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان دشمنی و نفرت پیداکرنا برطانیہ اور امریکا کے مفاد میں تھا۔اور پچھلے اکہتر برس کی تاریخ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔دونوں ملک کھربوں روپے مالیت کا برطانوی ،امریکی اور مغربی اسلحہ خرید چکے۔
ڈاکٹر پنکج فڈنیس پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے۔ 1996ء میں جب وہ ممبئی میں ملازمت کر رہے تھے' تو ایک ایسے کرائے کے فلیٹ میں رہے جہاں مشہور ہندوستاانی لیڈر' دامودر ساورکر (1883ء۔1966ء) نے بھی کئی سال گذارے تھے۔ فلیٹ کے ساتھ ہی ایک لائبریری تھی جہاں ہندوستان کی تاریخ پر کتابیں بکثرت موجود تھیں۔ انہی کتب کے باعث ا نجینئر پنکج فڈنیس تاریخ میں دلچسپی لینے لگے۔
بھارت اور پاکستان میں دامودر ساورکر انتہا پسند ہندولیڈر اور مسلم دشمن کہلاتا ہے مگر وہ شروع میں ایسا نہیں تھا۔ ''جنگ آزادی 1857ء'' ساورکر کی مشہور ترین کتاب ہے۔ کتاب کا پہلا ایڈیشن 1907ء میں طبع ہوا تھا۔ اس ایڈیشن میں ساورکر نے جنگ آزادی 1857ء میں مسلمان لیڈروں اور مجاہدین کا تذکرہ عزت و احترام اور محبت سے کیا ہے۔ تب وہ ''ہندومسلم اتحاد'' تحریک کا سرگرم رہنما تھا۔ اسی غرض سے ساورکر نے ابھینو بھارت سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی جس میں ہندو اورمسلمان طلبہ اور نوجوان شامل تھے۔ بعد میں کٹر ہندو لیڈر بال گنگا دھر تلک کے زیر اثر آ جانے کے وجہ سے ساورکر بھی ہندو قوم پرستی کی جانب مائل ہو گیا۔
ڈاکٹر پنکج فڈنیس اسی ساورکر کے گرویدہ ہوئے جو ہندو مسلم اتحاد کاداعی اور انسانیت پسند لیڈر تھا۔ وہ پھر ہندوستانی تاریخ سے متعلق کتابوں کا مطالعہ دلچسپی و سرگرمی سے کرنے لگے۔ انہیں معلوم ہواکہ 1939ء میں انڈیا مسلم لیگ اور ساورکر کی ہندو مہا سبھا جماعت نے مل کر سندھ ' صوبہ سرحد اور بنگال میں وزارتیں بنائیں تھیں۔ کتابوں کا مطالعہ انہیں تقسیم ہند اور گاندھی کے قتل جیسے موضوعات کی گہرائی میں بھی لے گیا۔
سینکڑوں تاریخی کتب کے مطالعے سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ برطانیہ اور امریکا' دونوں عالمی طاقتیں بھارت اور پاکستان میں دوستی اور اتحاد ہونا دیکھنا نہیں چاہتی تھیں۔ اس طرح اسلحے کی فروخت کے علاوہ برطانوی و امریکی ایکسپورٹ پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے تھے کیونکہ دونوں نئے ممالک قدرتاً باہمی تجارت پہ زور دیتے۔ اسی لیے دونوں طاقتوں نے نہ صرف برصغیر میں ہندومسلم فسادات کرانے میں سرگرم کردار ادا کیا بلکہ بھارتی و پاکستانی حکومتوں میں شامل اپنے ایجنٹوں کی مدد سے گاندھی جی اور قائداعظم کو جلد اگلے جہان پہنچا دیا۔ (یاد رہے' قائداعظم کی وفات جن پُراسرار حالات میں ہوئی' بعض پاکستانی مورخین اسے قتل سے تعبیر کرتے ہیں۔)
2012میں ڈاکٹر پنکج فرڈنیس نے امریکی سدرن یونیورسٹی' لوزیانا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری پائی۔ ان کے ڈاکٹریٹ کا موضوع تھا:'' بھارت اور پاکستان کے پرامن تعلقات کی تشکیل میںا نفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار تاکہ عالمی خوشحالی جنم لے سکے۔'' درحقیقت ڈاکٹر پنکج پچھلے بیس سال سے کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت اور پاکستان تمام اخلاقات ختم کر لیں تو انہیں یقین ہے کہ اس کے بعد نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور جنم لے سکتا ہے۔آج کل ڈاکٹر پنکج ایک انگریزی کتاب ''The Shroud of Gandhi and the Satanic Force'' لکھ رہے ہیں۔ اس کتاب میں ان عوامل و واقعات کا ذکر ہے جن کے باعث ایک بین الاقوامی سازش سے نہ صرف گاندھی جی کو قتل کیا گیا بلکہ اصل مجرم بھی پردہ اخفا رکھے گئے۔ ڈاکٹر پنکج اپنی مختلف تحریروں میں درج بالا واقعات کا جستہ جستہ تذکرہ کرچکے۔ ان کا مربوط بیان قارئین ایکسپریس کے لیے پیش ہے۔یہ داستان بڑی حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔
لاہور جانے کا فیصلہ
3 نومبر 1947ء کو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے تقسیم ہند کا منصوبہ منظور کرلیا۔ گاندھی جی چاہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان مل جل کر رہیں مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت چاہتی تھی اور کانگریسی لیڈروں پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے یہ مطالبہ منظور کرلیا۔گاندھی جی ناراض ہوکر کانگریس کے معاملات سے تقریباً الگ تھلگ ہوگئے۔ تب ہندوستان بھر میں تمام اہم انتظامی عہدوں پر برطانوی افسر فائز تھے۔
تقسیم ہند کا مقصد یہ تھا کہ بھارت اور پاکستان کے عوام امن وآشتی سے اپنے اپنے مذہبی و معاشرتی اصولوں و روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ لیکن بنیادی طور پہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بھی کچھ شدت پسند لیڈروں نے اس موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کرا دیئے۔ برطانوی انتظامیہ نے فسادات کی روک تھام کے لیے مؤثر انتظام نہیں کیا کیونکہ یہ فساد برطانیہ کے مفاد میں تھا۔ اس طرح ہندوستان چھوڑنے کے بعد بھی دونوں ممالک تجارتی و عسکری لحاظ سے برطانوی اسلحے اور امداد کے محتاج رہتے۔
گاندھی جی مگر فساد زدہ بھارتی علاقوں کا دورہ کرنے لگے۔ وہ ہر علاقے میں ہندو اور مسلمان لیڈروں کو اکٹھا کرتے اور ان پر زور دیتے کہ وہ امن و محبت کی اپیل کریں۔اوائل ستمبر 1947ء میں انہوں نے لاہور،پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ وہاں بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں امن کی تبلیغ کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے گورنر جنرل پاکستان، محمد علی جناح کو خط لکھا ۔ گاندھی جی پاکستان کو بھی اپنا وطن سمجھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جانے کے لیے مجھے پاسپورٹ کی قطعاً ضرورت نہیں۔جناح نے خوش دلی سے گاندھی کو پاکستان آنے کی دعوت دے دی۔ انہوں نے اپنے گجراتی ہم وطن کو یہ بھی لکھا کہ وہ دونوں اکٹھے پاکستان و بھارت کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے تاکہ نفرت اور دشمنی کی بھڑکتی آگ پر پانی ڈالا جاسکے۔
اوائل ستمبر میں گاندھی کلکتہ میں تھے۔ وہ پاکستان جانے کے لیے 9 ستمبر کو دہلی پہنچ گئے۔ تب تک بھارتی دارالحکومت میں ہندو بلوائی مسلم علاقوں پر حملے شروع کرچکے تھے۔ کئی مسلمان شہید ہوگئے، زندہ بچ جانے والوں نے لال قلعے میں پناہ لی۔ گاندھی نے پاکستان جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور فیصلہ کیا کہ وہ پہلے دہلی میں امن و محبت کا پرچار کریں گے۔
گاندھی جب بھی دہلی آتے، تو بھنگی کالونی میں بھنگیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ مگر وزیر داخلہ، سردار پٹیل نے اسے ''سکیورٹی رسک'' قرار دے دیا۔ پٹیل کے اصرار پر گاندھی جی برلا ہاؤس مقیم ہوگئے۔ وہ اس کے پچھواڑے موجود میدان میں روزانہ لوگوں سے ملنے ملانے اور تقریر کرنے لگے۔ ان کی تقریر سے قبل قرآن پاک، بائیبل اوربھگوت گیتا کا متن پڑھ کر سنایا جاتا۔کئی ہندو قرآن پاک پڑھنے پر احتجاج کرتے مگر گاندھی جی یہی جواب دیتے کہ آیات قرآنی میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں، ان میں امن، بھائی چارے، محبت اور رحم کی باتیں درج ہیں۔ مگر اس زمانے میں شدت پسندوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے عام لوگوں کے دل نفرت اور دشمنی سے بھرگئے تھے۔ غصہ ان کی عقل کو کھاگیا تھا۔ اسی لیے وہ کوئی عاقلانہ بات سننے کو تیار نہ تھے۔
پاکستان کے لیے بھوک ہڑتال
22 دسمبر کو گاندھی جی نے اپنی محفل میں یہ اعلان کیا ''ہندو بلوائیوں نے حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی درگارہ تباہ و برباد کر ڈالی ہے۔ یہ مسلمانوں ہی نہیں ہندوؤں کے بھی بزرگ ہیں۔ میری تمام ہندوؤں، سکھوں اور حکومت سے اپیل ہے کہ درگاہ کی تزئین و آرائش کی جائے۔ نیز دہلی میں مسلمانوں کے جتنے بھی مذہبی مقامات ہیں، یہ بات ان پر بھی مطبق ہوتی ہے۔''
گاندھی جی نے دہلی میں کئی مہاجر کیمپوں کا بھی دورہ کیا اور ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مہاجرین سے ملے۔ انہی دنوں سردار پٹیل نے تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والا مالی حصہ (55 کروڑ روپے) روک لیا۔ سردار پٹیل کا موقف یہ تھا کہ پاکستان نے کشمیر میں حملہ کردیا ہے لہٰذا اب اسے یہ حصہ نہیں ملنا چاہیے۔ پاکستان اس رقم سے اسلحہ خرید کر بھارت کے خلاف استعمال کرے گا۔
گاندھی کا موقف تھا کہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے اور بددیانتی کے مترادف! جب سردار پٹیل نے پچپن کروڑ روپے حکومت پاکستان کو دینے سے انکار کردیا، تو 12 جنوری کی شام گاندھی جی نے اعلان کیا کہ وہ اگلے دن سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کردیں گے۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ اس طریقے سے بھارت اور پاکستان میں امن قائم کرنا اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کو قریب لانا چاہتے ہیں۔چنانچہ گاندھی 13 جنوری کی سہ پہر سے بھوک ہڑتال پر چلے گئے۔ اس واقعے نے لوگوں میں متضاد خیالات پیدا کردیئے۔ پاکستان سے آئے ہندو اور سکھ مہاجر طیش میں بھرے بیٹھے تھے۔ اب وہ مسلمانوں سے انتقام چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے نعرہ لگادیا:
مرے ہے، تو مرنے دو
خون کا بدلہ خون سے لیں گے
مگر دہلی کے رہائشی ہندو اور سکھوں پر گاندھی کے مرن برت (بھوک ہڑتال) کا مثبت اثر ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف منفی کارروائیاں روک دیں۔ کئی علاقوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر امن و آشتی کے جلوس نکالے اور ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلائیں۔ حتیٰ کہ ہندو مہاسبھا اور جماعت اسلامی کے لیڈر مل کر گاندھی کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ بھوک ہڑتال ختم کردیں۔
جوں جوں گاندھی کی طبیعت ناساز ہوئی، پاکستان سے بھی ان کی خیریت و عافیت کے پیغام آنے لگے۔ بھارت میں پاکستانی سفیر، زاہد حسین گاندھی جی سے ملنے آئے اور انہیں مرن برت ختم کرنے کا کہا۔آخر 18 جنوری کو بھارت کے سبھی ممتاز ہندو اور مسلمان لیڈر برلا ہاوس میں جمع ہوئے ۔ انہوں نے گاندھی کے سامنے یہ معاہدہ تحریر کیا کہ وہ جاری فرقہ وارانہ فسادات روکنے کی خاطر ہر ممکن اقدامات کریں گے۔ یہ کوئی قانونی نہیں بلکہ اخلاقی معاہدہ تھا۔ اس کے بعد گاندھی جی بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ اب وہ جلد پاکستان روانہ ہونا چاہتے تھے۔
خفیہ ایجنسیاں حرکت میں
برطانوی اور امریکی حکومتیں حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ اگر گاندھی اور جناح نے اکٹھے متحدہ پنچاب کا دورہ کیا' تو نہ صرف فرقہ وارانہ فساد انجام کو پہنچے گا بلکہ پاکستان اور بھارت اتنے قریب آ جائیں گے کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل گفت وشنید سے پُرامن انداز میں حل کر سکیں۔یہ صورت حال ان کے مفادات کو شدید ضرب پہنچاتی تھی۔بلکہ اس طرح ''سونے کی چڑیا' ...برصغیر پاک وہند کا علاقہ ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ۔ اسی لیے دونوں طاقتوں نے گاندھی جی کو راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ اپنے مفادات محفوظ و مامون رکھ سکیں۔
اب برطانوی خفیہ ایجنسی' سپیشل آپریشنز ایگزیٹو (Special Operations Executive) کے ایجنٹ متحرک کر دیئے گئے۔ یہ ایجنسی عرف عام میں ''فورس 136'' (Force 136) کہلاتی ہے۔ یہ خفیہ ایجنسی جنگ عظیم دوم کے دوران ایشیائی ممالک میں پوشیدہ مہمات انجام دینے کی خاطر بنائی گئی تھی۔ اس کے افسر برطانوی تھے' مگر بیشتر ایجنٹ ہندوستان، ملائیشیا، تھائی لینڈ یا برما سے لیے جاتے۔اب ہندوستان میں فورس 136 کے ایجنٹ ایسی شخصیات کو تلاش کرنے لگے جوبلا دھڑک گاندھی کو قتل کر سکیں۔ آخر ان کی نظریں نارائن آپٹے اور نتھورام گوڈسے پر جا ٹھہریں۔ یہ دونوں پونہ شہر سے تعلق رکھنے والے کٹر ہندو برہمن' مسلمانوں کے شدید مخالف اور ہندومہاسبھا جماعت کے مقامی رہنما تھے۔
نارائن آپٹے برطانوی راج سے نبرد آزما ہندوستانی نوجوانوں کو گرفتار کرانے میں فورس 136کی خفیہ مہمات میں حصہ لے چکا تھا۔ لہٰذا فورس 136کے برطانوی افسر اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ 1944ء سے وہ نتھورام کے ساتھ مل کر اپنا اخبار نکال رہا تھا۔ اسی میں گاندھی جی کے نظریات اور مسلمانوں پر شدید تنقید کی جاتی تھی۔ یہ دونوں اپنے آپ کو ہندو دھرم کا چمئپین سمجھتے اور اس کی خاطر مرمٹنے کو بھی تیار تھے۔
اب فورس 136کے چرب زبان اور پروپینگڈے کے ماہر برطانوی و ہندوستانی ایجنٹ نتھورام اور نارائن آپٹے کو گاندھی کے قتل پر ابھارنے لگے۔ انہوں نے اپنی لچھے دار باتوں سے دونوں جذباتی نوجوانوں کو اتنا زیادہ مشتعل کر دیا کہ وہ سمجھنے لگے، گاندھی کو مار کر اپنے دھرم اور ملک وقوم کے لیے بہت بڑی خدمت انجام دیں گے۔ اس جذباتی فیصلے نے ان میں سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں سلب کر لیں۔
گاندھی کے قتل کی سازش میں امریکی خفیہ ایجنسی' سی آئی اے بھی برطانوی فورس 136 کی ہر ممکن مدد کر رہی تھی۔خیال ہے کہ جس پستول' بریٹا ایم 1934سے گاندھی جی کو قتل کیا گیا وہ سی آئی اے کے ایجنٹوںنے ہی نتھو رام کو فراہم کیا تھا۔ ان دنوں اخبار کی حالت بہت پتلی تھی۔ وہ ہندمہاسبھا کے دیئے گئے چندے سے چل رہا تھا۔ لہٰذا نتھو رام اور نارائن آپٹے کی مالی صورت حال بہت مخدوش تھی۔ ایسے عالم میں وہ بریٹا جیسا نہایت مہنگا غیر ملکی پستول قطعاً نہیں خرید سکتے تھے۔ ان کے پاس بریٹا کی موجودگی برطانیہ و امریکا کی مبینہ سازش کا واضح ثبوت ہے۔
اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ دہلی کے امریکی سفارت خانے میں تعینات نائب قونصل جنرل' ہربرٹ رئینر جونیر( Herbert Reiner Jr) بھارت میں مقامی سی آئی اے کا سربراہ تھا۔ وہ 1947ء کے ا وائل میں ہندوستان پہنچا تھا۔ اسی کے توسط سے نتھو رام اور نارائن آپٹے کو بھاری رقم دی گئی تاکہ وہ دیگر واقف کاروں کو بھی ساتھ ملا کر گاندھی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا سکیں۔نظریاتی ہم آہگنی اور روپے پیسے کے بل پر آخر ایسا گروہ وجود میں آ گیا جس کا واحد مقصد ہندوؤں کے سب سے بڑے دشمن گاندھی کو قتل کرنا تھا۔ اس گروہ میں شامل سبھی ارکان کٹر ہندو اور مہاسبھائی تھے۔ یہ گروہ وسط جنوری میں دہلی پہنچ گیا اور دو ہوٹلو ں میں قیام پذیر ہوا۔
حملے کا آغاز
20جنوری1948ء کی شام یہ لوگ برلا ہاوس پہنچے تاکہ گاندھی کو قتل کرسکیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ دو ارکان دستی بم چلائیں گے تاکہ محفل میںافراتفری مچ جائے۔ پھر ڈگمبر باچ یا شنکر کشتیہ نے گاندھی جی پر گولیاں چلانی تھیں۔ اس منصوبے سے عیاں ہے کہ حملہ آوروں کے پاس دو پستولیں تھیں۔ تاہم وہاں تعینات ایک چوکیدار ایک حملہ آور' مدن لال کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگا۔مدن لال کو گاندھی جی کی محفل میںدستی بم چلانا تھا۔ چوکیدار اب مدن لال سے سوالات کرنے لگا۔ چوکیدار نے آخراسے اندر جانے دیا مگر مدن کچھ گھبرا گیا تھا۔ اسی لیے اس سے دستی بم صحیح طرح نہیں چلایا جا سکا اور وہ پُھس ہو گیا۔ یہ دیکھ کر بقیہ ساتھ ارکان وہاں سے فرار ہو گئے۔ مدن لال کو گرفتار کر لیا گیا۔
مدن لال پھر پولیس کو ان ہوٹلوں میں لے گیا جہاں اس کے بقیہ ساتھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے' وہ وہاںموجود نہ تھے' مگر دہلی پولیس نے نتھو رام گوڈسے سمیت چھ لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ ان سے چاقو اور بم برآمد ہوئے۔ انتہای حیرت انگیز بات یہ کہ اگلے دن یعنی 21 جنوری کو پولیس نے مدن لال اور نتھورام گوڈ سے سمیت تمام گرفتار شدگان یہ کہہ کر رہا کردیا کہ یہ ثابت نہیں ہوسکا، کہ ہتھیار انہی کے ہیں۔گویا دہلی پولیس نے کھلم کھلا قانون کو مذاق کا نشانہ بنا ڈالا۔ ظاہر ہے، انگریز افسروں کے حکم پر حملہ آوروں کو رہا کیا گیا تاکہ گاندھی جی کے قتل کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔
یہی وجہ ہے ' 20جنوری کے ناکام حملے کے بعد بھی برلا ہاؤس کی سکیورٹی سخت نہیں کی گئی۔ گاندھی جی کواردگرد گارڈ کھڑے رکھنا پسند نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر موت نے آنا ہے' تو وہ پاتال میںبھی انہیں ڈھونڈ لے گی۔ لیکن بھارتی حکومت کو تو احساس ہونا چاہیے تھا کہ گاندھی کی جان شدید خطرے میں ہے مگر ان کی سکیورٹی کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔ گویا انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ وہ قوم کے باپ کی آسانی سے جان لے سکیں۔
آخر 30 جنوری کی شام نتھورام نے بڑے آرام و اطمینان سے اپنے پستول کی تین گولیاں گاندھی جی کے سینے میں اتار دیں۔ تاہم وہاں موجود لوگوں کو چار گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ گویا کسی اور پستول سے بھی گاندھی جی پر ایک گولی چلائی گئی تاکہ ان کی موت کو یقینی بنایا جاسکے۔
سازش کے عیاں ثبوت
بھارتی حکومت نے 1966ء میں گاندھی جی کے قتل کی چھان بین کرنے کی خاطر جسٹس جیون لال کپور کی سربراہی میں یک رکنی کمیشن بنایا تھا۔ اس کپورکمیشن نے فیصلہ دیا کہ گاندھی جی پر تین گولیاں چلائی گئی تھیں۔ حالانکہ 31 جنوری کو گاندھی جی کی دیکھ بھال پر مامور منوبہن پولیس کو بیان دے چکی تھی کہ مقتول کے جسم سے چار گولیاں برآمد ہوئی تھیں۔ پھر کپور کمیشن نے یہ کیوں قرار دیا کہ گاندھی جی کو تین گولیاں ماری گئیں؟ کیا اس لیے کہ عوام کا دھیان اصل قاتلوں سے ہٹایا جاسکے اور ان کی توجہ انتہا پسند ہندو حملہ آوروں پر ہی مرکوز ہے جو درحقیقت صرف چارا تھے۔
یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ 30 جنوری کی شام ہندوستان میں سی آئی اے کا چیف، رابرٹ ریئنر بھی گاندھی جی کی تقریب میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ فورس 136 کے ایجنٹ بھی صحافیوں کا روپ دھارے وہاں موجود تھے۔ یہ رابرٹ ریئنر ہی ہے جس نے نتھورام گوڈسے کو پکڑا اور اسے فرار نہیں ہونے دیا۔ اس طرح مغربی طاقتیں ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ گاندھی جی کی مسلم دوستی پالیسی سے مشتعل ہوکر شدت پسند ہندوؤں نے انہیں قتل کردیا۔ انہوں نے سازش کے تانے بانے اتنی مہارت اور چابک دستی سے بنے کہ وہ اپنا استدلال ثابت کرنے میں کامیاب رہیں۔ نتھورام گوڈسے اور اس کے ساتھی یقیناً مرتے دم تک نہیں جان سکے ہوں گے کہ مغربی طاقتوں نے شطرنج کی جو بازی کھیلی، اس میں وہ ایسے پیادے تھے جن کے ذریعے گاندھی جی کو راہ سے ہٹا کر خفیہ کھیل جیت لیا گیا۔
فورس 36 1اور سی آئی اے نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ ان کی سازش طشت ازبام نہ ہونے پائے مگر ایک ثبوت ضرور منظر عام پر آگیا۔ حیران کن بات یہ کہ کپور کمیشن نے اس ثبوت کو کوئی اہمیت نہ دی اور اسے غیر متعلق قرار دے کر نظرانداز کردیا۔کپور کمیشن کو چھان بین کے دوران یوسی ملہوترا (U.C.Malhotra) کی ڈائری ملی جو ریاست الور کا پولیس کمشنر تھا۔ ڈائری میں 8 فروری 1948ء کی تاریخ میں یہ بیان درج تھا: ''30 جنوری کی صبح ایک غیر ملکی سادھو کے روپ میں الور آیا۔ اس کا قیام شہر کی ہندو مہاسبھا تنظیم کے ناظم، گریدھار سدھا کے ہاں تھا۔ میرے جاسوسوں نے خبر دی کہ وہ غیر ملکی طبع شدہ پمفلٹ لایا تھا۔ پمفلٹ میں گاندھی جی کے قتل کا اعلان درج تھا۔ مجھے یہ خبر سہ پہر تین بجے ملی جبکہ حقیقی قتل دہلی میں پانچ بجے کے بعد ہوا۔''
ڈائری کا بیان اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ غیر ملکی سادھو فورس 136 یا سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ وہ گاندھی جی کے قتل کی تشہیر کرنے الور پہنچا تھا۔ تاہم گریدھار کے ساتھیوں میں کوئی آدمی مقامی پولیس کا جاسوس تھا۔ اس نے اپنے سربراہ تک یہ سچائی پہنچا دی کہ گاندھی جی کے قتل کی سازش تیار ہوچکی۔
مغربی حکمران ہر حال میں دنیا والوں پر یہی تاثر چھوڑنا چاہتے تھے کہ گاندھی جی کی موت انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں ہوئی اور اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اسی لیے اپنی سازش کو انتہائی کامیاب بنانے کے لیے فورس 136 نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عام ہندوؤں اور برہمنوں کے مابین فساد کرانے کا بھی بندوبست کرلیا۔ یاد رہے، گاندھی جی کے قتل میں ملوث بیشتر مجرم برہمن تھے۔
کپور کمیشن کو اس امر کا بھی ثبوت مل گیا کہ خاص طور پر ریاست مہاراشٹر میں برہمنوں پر حملے کا منصوبہ گاندھی جی کے قتل سے پہلے ہی بن چکا تھا ۔(پونہ اسی ریاست میں واقع ہے)۔ بیگم سرلا باروے(Sarla Barve) کا شوہر جنوری 1948ء میں پونہ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ بیگم سرلا نے کپور کمیشن کو دیئے گئے تحریری بیان میں انکشاف کیا:
''میرے شوہر نے ہندو مہاسبھا کے لیڈروں پر نظر رکھی ہوئی تھی کیونکہ وہ مشکوک سرگرمیوں میں محو تھے۔ گاندھی جی کے قتل سے دو دن قبل مجھے ایک واقف کار نے بتایا کہ پونہ کے مشہور غنڈوں، بابو راؤ سنس اور وسانتا راؤ نے برہمنوں کے گھر اور دکانیں جلانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔''
کپور کمیشن نے بیگم سرلا کے بیان کو بھی اہمیت نہ دی کیونکہ یہ عیاں کرتا ہے کہ گاندھی جی کا قتل ایک منظم اور گہری سازش کے ذریعے انجام پایا۔ ڈاکٹر پنکج فرڈنیس اسی سازش کو افشا کرنا چاہتے ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ گاندھی جی کے قتل کی چھان بین ازسرنو کرنے کا حکم دیا جائے۔ مگر سپریم کورٹ نے معاملہ لٹکا رکھا ہے۔ ظاہر ہے، بھارتی حکمران طبقہ یہ سچائی کبھی آشکارا نہیں کرے گا کہ قوم کے ''باپو'' اور ''مہاتما'' کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔
گاندھی جی اور قائداعظم، دونوں انسان تھے اور ان میں خامیاں بھی تھیں۔ مگر برصغیر پاک و ہند کے دونوں عظیم ترین لیڈروں کی عمر بھر یہی سعی رہی کہ ہندو اور مسلمان امن و محبت سے مل جل کر رہیں۔ دونوں لیڈروں کی منزل یقینا یہ نہیں تھی کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ازلی دشمن بن جائیں۔ یہ صورت حال ہندوستان کو لوٹنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے وارثوں کی پیدا کردہ ہے جو اب تک دونوں پڑوسیوں کو لڑوا کر خوب فوائد حاصل کررہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے حکمران طبقے مغربی طاقتوں کے پھندے سے نکلنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کیوں نہیں کررہے؟ کیا دشمنی کے درخت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اب انہیں کاٹنا بہت دشوار ہو چکا؟قائداعظم اورگاندھی نے امن پسندی کو جو خواب دیکھا تھا، کیا وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا؟