باب الاسلام سندھ محمد بن قاسم سے قبل سندھ پر حملے کی اسلامی جنگی مہمات
خلافت راشدہ کے زمانے سے ہی مختلف ادوار میں اسلامی جہادی لشکروں کی جنگی مہمات روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
ایک مسلمان بیٹی کی دردمندانہ پکار پر بیتاب ہو کر حجاج بن یوسف نے اپنے 17سالہ بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کی سربراہی میں اسلامی لشکر جرار سندھ بھیج کر اس علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔ یہ واقعہ اور اس کی بیشتر معلومات تو سبھی کو معلوم ہیں، مگر ایسا نہیں ہے کہ یہ سندھ پر مسلمانوں کا پہلا حملہ تھا۔
اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا فرض اسلام کے اولین دور سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ مسلمان اللہ کا پیغام لے کر اٹھے اور ساری دنیا پر چھاتے چلے گئے۔ سندھ کی طرف بھی محمد بن قاسم سے بہت پہلے یعنی خلافت راشدہ کے زمانے سے ہی مختلف ادوار میں اسلامی جہادی لشکروں کی جنگی مہمات روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن اس بارے میں عام طور پر عوام الناس کو زیادہ معلومات حاصل نہیں۔ اسی بات کے پیش نظر، اس مضمون میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے قبل کی جملہ تفصیلات بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔
راجا داہر اطمینان اور سکون سے زندگی گزار رہا تھا کہ 59ھ (1678-79ء) میں ہمسایہ ریاست کے راجا رن مل نے ایک بڑی فوج لے کر اَلور پر حملہ کیا۔ راجا رن مل کے پاس اتنی بڑی فوج تھی کہ اس کو دیکھ کر راجا داہر پریشان ہوگیا۔ اس نے اپنے وزیر سے مشورہ کیا اور کہا کہ دشمن کی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اب بتاؤ ہمیں کیا تدبیر کرنی چاہیے؟ وزیر نے کہا مہاراج میری رائے میں اول تو دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو خوب روپیہ خرچ کرکے کام نکال لینا چاہیے کیونکہ خزانے میں روپیہ پیسہ اسی دن کے لیے جمع کیا جاتا ہے۔
اس زمانے میں جب کہ داہر اور رن مل میں لڑائی کی ٹھن رہی تھی۔ عرب کا ایک مشہور سردار محمد علاّفی جو بنی اُسامہ کے خاندان سے تھا، عرب میں ایک آدمی کو قتل کرکے اپنے خاندان کے پانچ سو آدمیوں کو لے کر چپکے سے سندھ بھاگ آیا اور راجہ کے علاقے میں رہنے لگا تھا۔ وزیر نے کہا مہاراج! اس کے علاوہ جو تجویز میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو عرب ہمارے ملک میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان سے بھی مشورہ لینا چاہیے۔
عرب بہت بہادر دلیر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی اچھی تدبیر بتاسکیں۔ راجا داہر کو وزیر کی یہ بات بہت پسند آئی اور وہ فوراً ہی ہاتھی پر بیٹھ کر علّافی کے پاس آیا۔ اس سے کہا میرا جو سلوک اب تک تمہارے ساتھ رہا ہے، اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ میں تمہاری کتنی عزت کرتا ہوں۔ آج رن مل کے ہاتھوں ہمارے ملک پر مصیبت آرہی ہے۔ اس کے ٹالنے میں تم ہماری مدد کرو اور ہمیں مشورہ دو کہ اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ محمد علّافی نے راجا داہر سے کہا آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ میں ایسی تدبیر کروں گا کہ آپ کا دشمن ساری عمر یاد رکھے گا۔
پھر اس نے کہا اول تو آپ مجھے کچھ فوج دیجئے تاکہ میں اس کو ساتھ لے کے دشمن کا حال معلوم کروں۔ دوسری تدبیر یہ کیجئے کہ یہاں سے ایک میل کے فاصلہ پر خندق کھود کر ٹھہریئے۔ راجا داہر نے محمد علّافی کو پانچ سو سوار دیئے۔ محمد علّافی نے ان پانچ سو سواروں اور اپنے ساتھی عربوں کو لے کر ایک رات جب کہ رن مل کی فوجیں بے خبر سورہی تھیں۔ شب خون مارا اور اچانک اتنے زور سے حملہ کیا کہ رن مل کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔
اس کے ہزاروں آدمی قتل ہوئے اور ہزاروں پکڑے گئے۔ دشمنوں کا بے شمار سازوسامان ان کو ملا۔ دشمن کے پچاس ہاتھی بھی ان کے ہاتھ لگے۔اس کامیابی پر راجا داہر، محمد علّافی سے بہت خوش ہوا اور اس کو بڑا انعام و اکرام دیا اور سرحد مکران پر ایک علاقہ ان لوگوں کے قیام کے لیے مقرر کردیا۔ جہاں پر اسلامی حکومت کے یہ باغی آباد ہوگئے۔ داہر نے سندھ پر 43 سال حکومت کی، یہاں تک کہ 92ھ (719-11ء) میں محمد بن قاسم نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 10 رمضان 93ھ (712ء) کو راجا داہر مسلمانوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اور سارا سندھ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔
خلافت راشدہ
ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپؐ کے چار خلیفہ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی المرتضیٰؓکی حکومت بالکل قرآن مجید کے حکموں کے مطابق اور رسول پاکﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے موافق تھی۔ ان چاروں نے ر سول ﷺؐ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد 11ھ (632-33ء) سے لے کر 40ھ (660-61ء) تک قرآن مجید کے احکام کے مطابق حکومت کی۔ ان چاروں کی حکومت خلافت راشدہ کہلاتی ہے۔
خلاف راشدہ کے زمانے میں سندھ پر پہلا حملہ
13ھ (634-35ء) میں مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ مسلمانوں کے خلیفہ چنے گئے۔ حضرت عمرؓ نے 15ھ (636ء) میں عثمان ابی عاص ثقفیؓ کو بحرین اور عمان کا گورنر مقرر کیا۔ عثمان ابی عاصؓ نے اپنے بھائی مغیرہ کی سرداری میں ایک لشکر تیار کرکے سندھ پر حملہ کے لیے بھیجا۔ اس وقت سندھ میں راجاداہر کے باپ راجہ چچ کی حکومت تھی اور اس کو حکومت کرتے ہوئے پینتیس سال گزرچکے تھے۔ جب یہ لشکر دیبل پہنچا تو اس وقت دیوائج کا بیٹا سامہ چچ کی طرف سے دیبل کا حاکم تھا۔ سامہ نے قلعہ دیبل سے نکل کر اس لشکر کا مقابلہ کیا، مغیرہ بھی بڑی بہادری سے لڑے اور وہیں شہید ہوئے۔ یہ سندھ پر پہلا حملہ تھا۔
پھر جب 23ھ (643-44ء) میں عرب مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا، اس وقت مکران کا راجا راسل تھا۔ راسل نے سندھ کے راجا سے مدد مانگی۔ سندھ کے راجا نے اس کو مدد دی۔ دریائے ہلمذ پر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس حملے میں حکم تغلبی مسلمانوں کے سردار تھے۔
حکم نے مکران میں فتح حاصل کرنے کے بعد فتح کی خوش خبری اور بہت سا مال جو اس لڑائی میں حاصل ہوا تھا، صَحَار عَبدی کے ہاتھ حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا۔ جب صحار عبدی حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو حضرت عمرؓ نے ان سے مکران کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا امیر المومنینؓ وہاں پانی کی بہت کمی ہے۔
وہاں کے لوگ ڈاکو ہیں۔ اگر تھوڑی فوج جائے تو لوٹ لی جائے اور زیادہ فوج جائے تو بھوکی مرجائے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ بات سن کر مسکراتے ہوئے کہا تم شاعری کرتے ہو یا وہاں کے حالات بیان کررہے ہو۔ صحار نے جواب دیا امیر المومنینؓ! جو کچھ میں نے عرض کیا اس میں ذرہ برابر جھوٹ نہیں۔ میں نے وہاں جو کچھ دیکھا ہے وہ صحیح صحیح عرض کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ خطرناک حالات سن کر حکم دیا کہ اب اسلامی فوجیں آگے نہ بڑھیں۔ یہ حضرت عمرؓ کی خلافت کا آخری سال تھا جس کے چند دن بعد حضرت عمرؓ نے 24ھ (644ء) میں شہادت پائی۔
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد محرم 24ھ (644ء) میں حضرت عثمانؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔ ان کے زمانے میں عبید اللہ بن معمر تمیمی 29ھ (649-50ء) میں مکران کے حاکم ہوئے، جو بڑی بہادری سے دوسرے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان کی سرحد تک پہنچ گئے۔
حضرت عثمانؓ ہی کے زمانے میں حضرت عبدالرحمن سمرہ نے زریخ اور کیچ کے درمیان جو علاقے تھے ان پر قبضہ کرلیا۔ یہ علاقے اس وقت بلوچستان سے ملے ہوئے تھے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد 35ھ (655-56ء) میں حضرت علیؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔ آپ نے 38ھ (658-59) میں ثاغر بن داعوار کو سرحدی حملے کے لیے روانہ کیا۔ وہ علاقوں کو فتح کرتے ہوئے کوہ قیقان تک پہنچے، قیقان کو آج قلات کہا جاتا ہے۔ قیقان کے رہنے والوں سے سخت لڑائی ہوئی۔ آخر قیقان کے رہنے والوں نے شکست کھائی اور مسلمانوں نے بڑی تعداد میں جنگی قیدی پکڑے۔
بلازری کے قول کے مطابق 39ھ (1959-60ء) میں حارث بن سمرہ عبدی کو حضرت علیؓ نے ہندوستان کے محاذ پر سپہ سالار بناکر بھیجا۔ انہوں نے اس مہم میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ یہ ابھی قیقان ہی میں تھے کہ 40ھ (660-61ء) میں حضرت علیؓ نے شہادت پائی۔ آپؓ کی شہادت کے بعد حکومت کی باگ ڈور بنی اُمیہ کے ہاتھ آئی۔ خاندان بنی اُمیہ میں سب سے پہلے خلیفہ امیر معاویہؓ ہوئے۔
امیر معاویہؓ
خلافت راشدہ کا زمانہ ختم ہونے کے بعد 41ھ (661-62) میں بنی امیہ کے پہلے خلیفہ امیر معاویہؓ مقرر ہوئے۔
44ھ (624-25ء) میں امیر معاویہؓ نے ہلب بن ابی صغرہ کو مکران کا گورنر مقرر کیا جو اس علاقے کو فتح کرتے ہوئے اہواز تک جا پہنچے، 46ھ (666-67ء) میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
43ھ (663-64ء) میں امیر معاویہؓ نے عبداللہ بن سوار عبدی کو چار ہزار فوج دے کر سندھ کا حاکم مقرر کرکے بھیجا اور ان سے کہا سندھ میں ایک پہاڑ ہے جس کو قیقان (قلات) کہتے ہیں۔ وہاں کے گھوڑے بہت شاندار اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ تم سے پہلے یہ گھوڑے مال غنیمت میں ہمارے پاس آچکے ہیں۔ وہاں کے لوگ بہت ہی سرکش ہیں۔ میں تمہیں اس لیے بھیج رہا ہوں کہ تم اس ملک کا انتظام درست کرو۔
عبداللہ بن سوار عبدی اپنے لشکر کے ساتھ مکران پہنچے۔ وہ کئی مہینے تک مکران میں رہے۔ وہاں سے قیقان (قلات) پہنچے۔ انہوں نے قلات والوں کو شکست دی، اور بہت سا مال غنیمت اور قلاتی گھوڑے لے کر وہ امیر معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر دوبارہ عبداللہ بن سوار دمشق سے قیقان آئے۔ قیقان آتے ہی ان کا ترکوں کی ایک جماعت سے مقابلہ ہوا اور وہ 49ھ (669-70ء) میں شہید ہوگئے۔
جب عبداللہ سوار کی شہادت کی خبر دمشق پہنچی وہاں سے 49ھ (669-70ء) میں سنان بن سلمہ الہذلی کو عبداللہ بن سوار کی جگہ مکران کا حاکم بناکر بھیجا گیا۔ وہ دو سال ایک ماہ مکران میں رہے۔ پھر کسی وجہ سے وہ 51ھ (671-72ء) میں اپنی خدمت سے الگ کردیئے گئے۔ سنان بن سلمہ کی علیحدگی کے بعد امیر معاویہؓ نے راشد بن عمرو جدیدی کو سرحدی حاکم بناکر بھیجا۔ جب یہ مکران پہنچے تو سنان نے ان کا استقبال کیا اور سندھ کے سارے حالات صحیح صحیح ان کو بتائے۔ راشد نے فوجی تیاری کرکے سندھ پر حملہ کرکے جہاد کیا اور بہت سے سرکشوں کو نیچا دکھایا اور قیقان والوں سے دو سال کا خراج جو انہوں نے نہیں دیا تھا وصول کیا۔
ایک سال بعد جب راشد سیستان کے راستے واپس ہورہے تھے۔ مندرا اور بھرج کے پہاڑوں کے درمیان وہاں کی پہاڑی قوم مید، جن کی تعداد پچاس ہزار تھی اچانک آپہنچی اور راشد کو گھیرلیا۔ راشد بڑی بہادری سے مقابلہ کرتے رہے آخر اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد سنان بن سلمہ نے جو ان کے ساتھ تھے فوجی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور قوم 'مید' کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مرکزی حکومت نے 53ھ (672-73) میں دوبارہ سنان بن سلمہ کو مکران کی حکومت پر بحال کردیا۔ سنان نے اپنے تجربے اور قابلیت سے بہت سے علاقے فتح کیے۔ آخر 56ھ (675-76ء) میں مقام بدھا میں دشمنوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
سنان کی شہادت کے بعد 61ھ (680-81) میں ابو لاشعت منذر بن جارود حاکم مقرر ہوئے۔ یہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ مقام پورالی (حدود تو ران) میں بیمار ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
مرکزی حکومت نے منذر کی جگہ ان کے لڑکے حکم بن منذر کو 63ھ (682-83) میں سرحد کا حاکم بنا کر بھیجا۔ یہ چھ مہینے تک مکران کے حاکم رہے۔ چھ ماہ کے بعد مرکزی حکومت نے کسی وجہ سے ان کو واپس بلالیا۔ ازاں بعد 64ھ (683-84ء) میں عبدالملک بن مردان نے حری بن حری باہلی کو مکران کا گورنر مقرر کیا۔ انہوں نے اس ملک کے بہت سے شہر فتح کیے۔ 68ھ (687-88ء) میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
حری بن حری باہلی کے بعد عہد حکومت میں ایک اور صاحب مکران کے گورنر ہوکر آئے۔ ان کا نام کسی تاریخ میں نہیں ملتا لیکن یہ 68ھ (687-88ء) سے 75ھ (694-95ء) تک مکران کے گورنر رہے پھر یا تو ان کا تبادلہ ہوگیا یا شہید کیے گئے۔
عبدالملک
65ھ (684-85ء) میں عبدالملک خاندان بنی امیہ کا پانچواں خلیفہ ہوا، 75ھ (694-95ء) میں اس نے مشرقی ملکوں کا اعلیٰ حاکم حجاج بن یوسف ثقفی کو مقرر کیا۔ حجاج بن یوسف نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی معید بن اسلم کلابی کو مکران اور سندھ کا حاکم بنا کر بھیجا۔ اسی زمانے میں ایک عرب سردار محمد علافی جس کا حال راجا رن مل کے حالات میں گزر چکا ہے۔ بھاگ کر عمان کے راستے سے سندھ پہنچا اور مکران کی سرحد پر رہنے لگا۔ سعید بن اسلم جب مکران کے حاکم ہوکر آئے تو انہوں نے صفوی بن خلاف کو جو علافیوں کا رشتہ دار تھا، کسی جرم پر قتل کرادیا۔ علافی خاندان کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ سعید کے دشمن ہوگیء اور انہوں نے ایک موقع پر 80ھ (699-700ء) میں سعید کو قتل کرکے مکران پر قبضہ کرلیا۔
اس کی خبر جب حجاج کو ہوئی تو اسے بہت غصہ آیا، اس نے علافی قوم کے سردار سلیمان کو جو اس وقت عرب میں تھا، قید کرکے قتل کردیا اور فوراً مجاعہ بن سعر تمیمی کو 58ھ (704-5ء) میں مکران اور سندھ کا حاکم بنا کر بھیجا۔ علافی خاندان کو جب یہ معلوم ہوا کہ مجاعہ حجاج کی طرف سے مکران کا حاکم ہوکر آرہا ہے، وہ فوراً ہی مکران خالی کرکے سندھ بھاگ گئے۔ راجا داہر نے ان کو پناہ دی اور یہ راجا داہر کے علاقے میں رہنے لگے۔
مجاعہ ایک سال تک مکران کے حاکم رہے۔ انہوں نے 86ھ (705-6ء) میں مکران میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
ولید بن عبدالملک
ولید بن عبدالمک خاندان بنوامیہ کا چھٹا خلیفہ تھا۔ یہ 86ھ (706-7) میں خلیفہ ہوا۔ اگرچہ یہ اپنے باپ دادا کی طرح علم میں کمال نہیں رکھتا تھا لیکن خلافت کے طور و طریقوں کو خوب جانتا تھا۔ ولید عبدالملک اموی خاندان کے خلفاء میں بہترین خلیفہ سمجھا جاتا ہے اس نے اپنے ملک کی حالت سدھارنے اور دوسرے ملکوں کو فتح کرنے میں خاص شہرت حاصل کی۔ اسے خوش قسمتی سے قتیسہ بن سلم، موسی بن نصیر محمد، ابن قاسم اور محمد بن مسلمہ جیسے بہادر جرنیل مل گئے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت کو چاروں طرف پھیلا دیا اور اسلامی حکومت کی سرحدیں چین سے لے کر یورپ تک ملادیں۔
سندھ پر فوجیں روانہ کرنے کا سلسلہ اگرچہ خلافت راشدہ کے زمانے ہی سے جاری تھا۔ ہر خلیفہ کے زمانے میں مسلمانوں نے سندھ کے کچھ نہ کچھ علاقے فتح کیے مگر یہ فتوحات سندھ کے سرحدی علاقوں سے آگے نہ بڑھی تھیں اور اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کے دل میں اسے پورا فتح کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا تھا لیکن خلیفہ ولید کے زمانے میں کچھ ایسی باتیں پیش آئیں کہ حجاج جو اس زمانے میں مشرقی ملکوں کا حاکم اعلیٰ تھا اسے سندھ کو مستقل طور پر فتح کرنے کا خیال پیدا ہوا۔
اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا فرض اسلام کے اولین دور سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ مسلمان اللہ کا پیغام لے کر اٹھے اور ساری دنیا پر چھاتے چلے گئے۔ سندھ کی طرف بھی محمد بن قاسم سے بہت پہلے یعنی خلافت راشدہ کے زمانے سے ہی مختلف ادوار میں اسلامی جہادی لشکروں کی جنگی مہمات روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن اس بارے میں عام طور پر عوام الناس کو زیادہ معلومات حاصل نہیں۔ اسی بات کے پیش نظر، اس مضمون میں محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے قبل کی جملہ تفصیلات بہم پہنچائی جا رہی ہیں۔
راجا داہر اطمینان اور سکون سے زندگی گزار رہا تھا کہ 59ھ (1678-79ء) میں ہمسایہ ریاست کے راجا رن مل نے ایک بڑی فوج لے کر اَلور پر حملہ کیا۔ راجا رن مل کے پاس اتنی بڑی فوج تھی کہ اس کو دیکھ کر راجا داہر پریشان ہوگیا۔ اس نے اپنے وزیر سے مشورہ کیا اور کہا کہ دشمن کی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہے۔ اب بتاؤ ہمیں کیا تدبیر کرنی چاہیے؟ وزیر نے کہا مہاراج میری رائے میں اول تو دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو خوب روپیہ خرچ کرکے کام نکال لینا چاہیے کیونکہ خزانے میں روپیہ پیسہ اسی دن کے لیے جمع کیا جاتا ہے۔
اس زمانے میں جب کہ داہر اور رن مل میں لڑائی کی ٹھن رہی تھی۔ عرب کا ایک مشہور سردار محمد علاّفی جو بنی اُسامہ کے خاندان سے تھا، عرب میں ایک آدمی کو قتل کرکے اپنے خاندان کے پانچ سو آدمیوں کو لے کر چپکے سے سندھ بھاگ آیا اور راجہ کے علاقے میں رہنے لگا تھا۔ وزیر نے کہا مہاراج! اس کے علاوہ جو تجویز میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو عرب ہمارے ملک میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان سے بھی مشورہ لینا چاہیے۔
عرب بہت بہادر دلیر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی اچھی تدبیر بتاسکیں۔ راجا داہر کو وزیر کی یہ بات بہت پسند آئی اور وہ فوراً ہی ہاتھی پر بیٹھ کر علّافی کے پاس آیا۔ اس سے کہا میرا جو سلوک اب تک تمہارے ساتھ رہا ہے، اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ میں تمہاری کتنی عزت کرتا ہوں۔ آج رن مل کے ہاتھوں ہمارے ملک پر مصیبت آرہی ہے۔ اس کے ٹالنے میں تم ہماری مدد کرو اور ہمیں مشورہ دو کہ اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ محمد علّافی نے راجا داہر سے کہا آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ میں ایسی تدبیر کروں گا کہ آپ کا دشمن ساری عمر یاد رکھے گا۔
پھر اس نے کہا اول تو آپ مجھے کچھ فوج دیجئے تاکہ میں اس کو ساتھ لے کے دشمن کا حال معلوم کروں۔ دوسری تدبیر یہ کیجئے کہ یہاں سے ایک میل کے فاصلہ پر خندق کھود کر ٹھہریئے۔ راجا داہر نے محمد علّافی کو پانچ سو سوار دیئے۔ محمد علّافی نے ان پانچ سو سواروں اور اپنے ساتھی عربوں کو لے کر ایک رات جب کہ رن مل کی فوجیں بے خبر سورہی تھیں۔ شب خون مارا اور اچانک اتنے زور سے حملہ کیا کہ رن مل کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔
اس کے ہزاروں آدمی قتل ہوئے اور ہزاروں پکڑے گئے۔ دشمنوں کا بے شمار سازوسامان ان کو ملا۔ دشمن کے پچاس ہاتھی بھی ان کے ہاتھ لگے۔اس کامیابی پر راجا داہر، محمد علّافی سے بہت خوش ہوا اور اس کو بڑا انعام و اکرام دیا اور سرحد مکران پر ایک علاقہ ان لوگوں کے قیام کے لیے مقرر کردیا۔ جہاں پر اسلامی حکومت کے یہ باغی آباد ہوگئے۔ داہر نے سندھ پر 43 سال حکومت کی، یہاں تک کہ 92ھ (719-11ء) میں محمد بن قاسم نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 10 رمضان 93ھ (712ء) کو راجا داہر مسلمانوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اور سارا سندھ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔
خلافت راشدہ
ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد آپؐ کے چار خلیفہ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ، حضرت علی المرتضیٰؓکی حکومت بالکل قرآن مجید کے حکموں کے مطابق اور رسول پاکﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے موافق تھی۔ ان چاروں نے ر سول ﷺؐ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد 11ھ (632-33ء) سے لے کر 40ھ (660-61ء) تک قرآن مجید کے احکام کے مطابق حکومت کی۔ ان چاروں کی حکومت خلافت راشدہ کہلاتی ہے۔
خلاف راشدہ کے زمانے میں سندھ پر پہلا حملہ
13ھ (634-35ء) میں مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ مسلمانوں کے خلیفہ چنے گئے۔ حضرت عمرؓ نے 15ھ (636ء) میں عثمان ابی عاص ثقفیؓ کو بحرین اور عمان کا گورنر مقرر کیا۔ عثمان ابی عاصؓ نے اپنے بھائی مغیرہ کی سرداری میں ایک لشکر تیار کرکے سندھ پر حملہ کے لیے بھیجا۔ اس وقت سندھ میں راجاداہر کے باپ راجہ چچ کی حکومت تھی اور اس کو حکومت کرتے ہوئے پینتیس سال گزرچکے تھے۔ جب یہ لشکر دیبل پہنچا تو اس وقت دیوائج کا بیٹا سامہ چچ کی طرف سے دیبل کا حاکم تھا۔ سامہ نے قلعہ دیبل سے نکل کر اس لشکر کا مقابلہ کیا، مغیرہ بھی بڑی بہادری سے لڑے اور وہیں شہید ہوئے۔ یہ سندھ پر پہلا حملہ تھا۔
پھر جب 23ھ (643-44ء) میں عرب مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا، اس وقت مکران کا راجا راسل تھا۔ راسل نے سندھ کے راجا سے مدد مانگی۔ سندھ کے راجا نے اس کو مدد دی۔ دریائے ہلمذ پر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس حملے میں حکم تغلبی مسلمانوں کے سردار تھے۔
حکم نے مکران میں فتح حاصل کرنے کے بعد فتح کی خوش خبری اور بہت سا مال جو اس لڑائی میں حاصل ہوا تھا، صَحَار عَبدی کے ہاتھ حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا۔ جب صحار عبدی حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو حضرت عمرؓ نے ان سے مکران کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا امیر المومنینؓ وہاں پانی کی بہت کمی ہے۔
وہاں کے لوگ ڈاکو ہیں۔ اگر تھوڑی فوج جائے تو لوٹ لی جائے اور زیادہ فوج جائے تو بھوکی مرجائے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ بات سن کر مسکراتے ہوئے کہا تم شاعری کرتے ہو یا وہاں کے حالات بیان کررہے ہو۔ صحار نے جواب دیا امیر المومنینؓ! جو کچھ میں نے عرض کیا اس میں ذرہ برابر جھوٹ نہیں۔ میں نے وہاں جو کچھ دیکھا ہے وہ صحیح صحیح عرض کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ خطرناک حالات سن کر حکم دیا کہ اب اسلامی فوجیں آگے نہ بڑھیں۔ یہ حضرت عمرؓ کی خلافت کا آخری سال تھا جس کے چند دن بعد حضرت عمرؓ نے 24ھ (644ء) میں شہادت پائی۔
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد محرم 24ھ (644ء) میں حضرت عثمانؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔ ان کے زمانے میں عبید اللہ بن معمر تمیمی 29ھ (649-50ء) میں مکران کے حاکم ہوئے، جو بڑی بہادری سے دوسرے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان کی سرحد تک پہنچ گئے۔
حضرت عثمانؓ ہی کے زمانے میں حضرت عبدالرحمن سمرہ نے زریخ اور کیچ کے درمیان جو علاقے تھے ان پر قبضہ کرلیا۔ یہ علاقے اس وقت بلوچستان سے ملے ہوئے تھے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد 35ھ (655-56ء) میں حضرت علیؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔ آپ نے 38ھ (658-59) میں ثاغر بن داعوار کو سرحدی حملے کے لیے روانہ کیا۔ وہ علاقوں کو فتح کرتے ہوئے کوہ قیقان تک پہنچے، قیقان کو آج قلات کہا جاتا ہے۔ قیقان کے رہنے والوں سے سخت لڑائی ہوئی۔ آخر قیقان کے رہنے والوں نے شکست کھائی اور مسلمانوں نے بڑی تعداد میں جنگی قیدی پکڑے۔
بلازری کے قول کے مطابق 39ھ (1959-60ء) میں حارث بن سمرہ عبدی کو حضرت علیؓ نے ہندوستان کے محاذ پر سپہ سالار بناکر بھیجا۔ انہوں نے اس مہم میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ یہ ابھی قیقان ہی میں تھے کہ 40ھ (660-61ء) میں حضرت علیؓ نے شہادت پائی۔ آپؓ کی شہادت کے بعد حکومت کی باگ ڈور بنی اُمیہ کے ہاتھ آئی۔ خاندان بنی اُمیہ میں سب سے پہلے خلیفہ امیر معاویہؓ ہوئے۔
امیر معاویہؓ
خلافت راشدہ کا زمانہ ختم ہونے کے بعد 41ھ (661-62) میں بنی امیہ کے پہلے خلیفہ امیر معاویہؓ مقرر ہوئے۔
44ھ (624-25ء) میں امیر معاویہؓ نے ہلب بن ابی صغرہ کو مکران کا گورنر مقرر کیا جو اس علاقے کو فتح کرتے ہوئے اہواز تک جا پہنچے، 46ھ (666-67ء) میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
43ھ (663-64ء) میں امیر معاویہؓ نے عبداللہ بن سوار عبدی کو چار ہزار فوج دے کر سندھ کا حاکم مقرر کرکے بھیجا اور ان سے کہا سندھ میں ایک پہاڑ ہے جس کو قیقان (قلات) کہتے ہیں۔ وہاں کے گھوڑے بہت شاندار اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ تم سے پہلے یہ گھوڑے مال غنیمت میں ہمارے پاس آچکے ہیں۔ وہاں کے لوگ بہت ہی سرکش ہیں۔ میں تمہیں اس لیے بھیج رہا ہوں کہ تم اس ملک کا انتظام درست کرو۔
عبداللہ بن سوار عبدی اپنے لشکر کے ساتھ مکران پہنچے۔ وہ کئی مہینے تک مکران میں رہے۔ وہاں سے قیقان (قلات) پہنچے۔ انہوں نے قلات والوں کو شکست دی، اور بہت سا مال غنیمت اور قلاتی گھوڑے لے کر وہ امیر معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر دوبارہ عبداللہ بن سوار دمشق سے قیقان آئے۔ قیقان آتے ہی ان کا ترکوں کی ایک جماعت سے مقابلہ ہوا اور وہ 49ھ (669-70ء) میں شہید ہوگئے۔
جب عبداللہ سوار کی شہادت کی خبر دمشق پہنچی وہاں سے 49ھ (669-70ء) میں سنان بن سلمہ الہذلی کو عبداللہ بن سوار کی جگہ مکران کا حاکم بناکر بھیجا گیا۔ وہ دو سال ایک ماہ مکران میں رہے۔ پھر کسی وجہ سے وہ 51ھ (671-72ء) میں اپنی خدمت سے الگ کردیئے گئے۔ سنان بن سلمہ کی علیحدگی کے بعد امیر معاویہؓ نے راشد بن عمرو جدیدی کو سرحدی حاکم بناکر بھیجا۔ جب یہ مکران پہنچے تو سنان نے ان کا استقبال کیا اور سندھ کے سارے حالات صحیح صحیح ان کو بتائے۔ راشد نے فوجی تیاری کرکے سندھ پر حملہ کرکے جہاد کیا اور بہت سے سرکشوں کو نیچا دکھایا اور قیقان والوں سے دو سال کا خراج جو انہوں نے نہیں دیا تھا وصول کیا۔
ایک سال بعد جب راشد سیستان کے راستے واپس ہورہے تھے۔ مندرا اور بھرج کے پہاڑوں کے درمیان وہاں کی پہاڑی قوم مید، جن کی تعداد پچاس ہزار تھی اچانک آپہنچی اور راشد کو گھیرلیا۔ راشد بڑی بہادری سے مقابلہ کرتے رہے آخر اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد سنان بن سلمہ نے جو ان کے ساتھ تھے فوجی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور قوم 'مید' کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مرکزی حکومت نے 53ھ (672-73) میں دوبارہ سنان بن سلمہ کو مکران کی حکومت پر بحال کردیا۔ سنان نے اپنے تجربے اور قابلیت سے بہت سے علاقے فتح کیے۔ آخر 56ھ (675-76ء) میں مقام بدھا میں دشمنوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
سنان کی شہادت کے بعد 61ھ (680-81) میں ابو لاشعت منذر بن جارود حاکم مقرر ہوئے۔ یہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ مقام پورالی (حدود تو ران) میں بیمار ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
مرکزی حکومت نے منذر کی جگہ ان کے لڑکے حکم بن منذر کو 63ھ (682-83) میں سرحد کا حاکم بنا کر بھیجا۔ یہ چھ مہینے تک مکران کے حاکم رہے۔ چھ ماہ کے بعد مرکزی حکومت نے کسی وجہ سے ان کو واپس بلالیا۔ ازاں بعد 64ھ (683-84ء) میں عبدالملک بن مردان نے حری بن حری باہلی کو مکران کا گورنر مقرر کیا۔ انہوں نے اس ملک کے بہت سے شہر فتح کیے۔ 68ھ (687-88ء) میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
حری بن حری باہلی کے بعد عہد حکومت میں ایک اور صاحب مکران کے گورنر ہوکر آئے۔ ان کا نام کسی تاریخ میں نہیں ملتا لیکن یہ 68ھ (687-88ء) سے 75ھ (694-95ء) تک مکران کے گورنر رہے پھر یا تو ان کا تبادلہ ہوگیا یا شہید کیے گئے۔
عبدالملک
65ھ (684-85ء) میں عبدالملک خاندان بنی امیہ کا پانچواں خلیفہ ہوا، 75ھ (694-95ء) میں اس نے مشرقی ملکوں کا اعلیٰ حاکم حجاج بن یوسف ثقفی کو مقرر کیا۔ حجاج بن یوسف نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی معید بن اسلم کلابی کو مکران اور سندھ کا حاکم بنا کر بھیجا۔ اسی زمانے میں ایک عرب سردار محمد علافی جس کا حال راجا رن مل کے حالات میں گزر چکا ہے۔ بھاگ کر عمان کے راستے سے سندھ پہنچا اور مکران کی سرحد پر رہنے لگا۔ سعید بن اسلم جب مکران کے حاکم ہوکر آئے تو انہوں نے صفوی بن خلاف کو جو علافیوں کا رشتہ دار تھا، کسی جرم پر قتل کرادیا۔ علافی خاندان کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ سعید کے دشمن ہوگیء اور انہوں نے ایک موقع پر 80ھ (699-700ء) میں سعید کو قتل کرکے مکران پر قبضہ کرلیا۔
اس کی خبر جب حجاج کو ہوئی تو اسے بہت غصہ آیا، اس نے علافی قوم کے سردار سلیمان کو جو اس وقت عرب میں تھا، قید کرکے قتل کردیا اور فوراً مجاعہ بن سعر تمیمی کو 58ھ (704-5ء) میں مکران اور سندھ کا حاکم بنا کر بھیجا۔ علافی خاندان کو جب یہ معلوم ہوا کہ مجاعہ حجاج کی طرف سے مکران کا حاکم ہوکر آرہا ہے، وہ فوراً ہی مکران خالی کرکے سندھ بھاگ گئے۔ راجا داہر نے ان کو پناہ دی اور یہ راجا داہر کے علاقے میں رہنے لگے۔
مجاعہ ایک سال تک مکران کے حاکم رہے۔ انہوں نے 86ھ (705-6ء) میں مکران میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
ولید بن عبدالملک
ولید بن عبدالمک خاندان بنوامیہ کا چھٹا خلیفہ تھا۔ یہ 86ھ (706-7) میں خلیفہ ہوا۔ اگرچہ یہ اپنے باپ دادا کی طرح علم میں کمال نہیں رکھتا تھا لیکن خلافت کے طور و طریقوں کو خوب جانتا تھا۔ ولید عبدالملک اموی خاندان کے خلفاء میں بہترین خلیفہ سمجھا جاتا ہے اس نے اپنے ملک کی حالت سدھارنے اور دوسرے ملکوں کو فتح کرنے میں خاص شہرت حاصل کی۔ اسے خوش قسمتی سے قتیسہ بن سلم، موسی بن نصیر محمد، ابن قاسم اور محمد بن مسلمہ جیسے بہادر جرنیل مل گئے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت کو چاروں طرف پھیلا دیا اور اسلامی حکومت کی سرحدیں چین سے لے کر یورپ تک ملادیں۔
سندھ پر فوجیں روانہ کرنے کا سلسلہ اگرچہ خلافت راشدہ کے زمانے ہی سے جاری تھا۔ ہر خلیفہ کے زمانے میں مسلمانوں نے سندھ کے کچھ نہ کچھ علاقے فتح کیے مگر یہ فتوحات سندھ کے سرحدی علاقوں سے آگے نہ بڑھی تھیں اور اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کے دل میں اسے پورا فتح کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا تھا لیکن خلیفہ ولید کے زمانے میں کچھ ایسی باتیں پیش آئیں کہ حجاج جو اس زمانے میں مشرقی ملکوں کا حاکم اعلیٰ تھا اسے سندھ کو مستقل طور پر فتح کرنے کا خیال پیدا ہوا۔