شانِ رسالت مآب ﷺ
’’ اے لوگو! بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نُور اُتارا۔‘‘
'' تمہاری خُو بُو بڑی شان کی ہے۔''
خالقِ کائنات کے اس کلمے نے گویا رہتی دنیا تک سمندر کو کوزے میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ جنھیں رب کائنات ''خُلقِ عظیم'' کہہ دے ان کی ستائش کے لیے عاجز و ناتواں نطق رکھنے والے انسانوں کے پاس کون سا لفظ بچ جاتا ہے۔ سورۃ قلم کی ابتدائی آیات بھی اپنے حبیبؐ کی شان کے اظہار اور ان کے دشمن کے رد کیے جانے کی اعلیٰ مثال ہے۔
مفہوم: '' قلم اور ان کے لکھے کی قسم۔ تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں اور ضرور تمہارے لیے بے انتہا ثواب ہے اور بے شک تمہاری خُو بُو بڑی شان کی ہے۔ تو اب کوئی دم جاتا ہے کہ تم بھی دیکھ لوگے اور وہ بھی دیکھ لیںگے کہ تم میں کون مجنون تھا۔ بے شک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکے اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر ہے تو جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو۔'' (القلم )
اللہ کے حبیب اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کے القاب دینے والے لوگ مکہ کے وہی لوگ تھے جو تبلیغ دین کے زمانے سے پہلے آپؐ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے، آپؐ کے قرابت داد ہوتے، آپؐ سے تعلق و دوستی کو ایک اعزاز کی طرح اپنے ساتھ لگائے پھرتے۔ مگر جیسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں توحید کی طرف بلاتے ہیں تو ان کے کالے دلوں کا زنگ و میل کُھل کر سامنے آتا ہے اور وہ صادق و امین کے القاب چھوڑ کر (معاذ اللہ) ساحر و مجنون کی صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں۔ کبھی قرآن کے پرتاثیر بیان کو دیکھ کر انھیں شاعر کہتے تو کبھی اللہ کے دیے گئے علم کا کچھ حصہ ظاہر کرنے پر کاہن۔ ان تمام باتوں کا جواب رب تعالیٰ نے دیا کہ آپ اخلاق کے عمدہ مرتبے پر اس طرح فروزاں ہیں کہ یہ آپؐ کی شان کی گرد بھی نہ پاسکیں جو آپؐ کو یہ سب کہتے ہیں بہت جلد ان پر اپنی حقیقت آشکارہوگی۔مفہوم: '' اے لوگو! بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اتارا۔'' (النساء)
سورۂ النساء کی اس آیت میں ''برھان '' یعنی واضح دلیل سے مراد سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، جن کے معجزات منکرین کی عقول کو بھی حیران کرتے ہیں اور ''روشن نور'' قرآن ہے جو بہ ذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔
مفہوم: ''بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر جو سارے جہاں کو ڈر سنانے والا ہے۔'' (الفرقان)
یعنی دیگر انبیائے کرامؑ کی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی گروہ یا قوم کے نبی نہیں بل کہ آپؐ کی نبوت تمام عالم انسانیت کے لیے ہے۔ آپؐ تمام جہانوں کو ڈر سنانے والے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم: '' اور بولے اس رسول کو کیا ہوا ہے، کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے کیوں نہ اتارا گیا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کہ ان کے ساتھ ڈر سناتا یا غیب سے کوئی خزانہ مل جاتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا۔ جس میں سے کھاتے اور ظالم بولے تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا۔ اے محبوب دیکھو کیسی کہاوتیں تمہارے لیے بنارہے ہیں تو گم راہ ہوئے اب کوئی راہ نہیں پاتے۔'' (الفرقان)
کافروں کے لیے یہ جیسے بڑی انہونی سی بات تھی کہ انہی میں سے کوئی رسول بہ صورت بشر آئے جو انہی کی طرح سے روزمرہ کے امور انجام دیتا ہو، ان کے اس حیران کن استفسار پر رب تعالیٰ اسی سورۂ میں جواب دیتے ہیں۔
مفہوم: '' اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے، کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے اور ہم نے تم میں ایک کو دوسرے کی جانچ کیا اور اے لوگو! کیا تم صبر کروگے اور تمہارا رب دیکھتا ہے۔'' (الفرقان)
مفہوم: '' اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا کہ جو تم کو میں کتاب دوں اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے گا، تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ فرمایا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا۔ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں خود تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔''(آل عمران )
یعنی خدائے واحد و لم یزل اپنے چنیدہ، برگزیدہ پیغمبروں سے یہ عہد لے رہا ہے کہ جب احمد مرسل صلی اللہ علیہ وسلم آچکیں تو ان سب کو ان پر ایمان لاکر ان کی شریعت کے تابع ہونا ہوگا۔ انؐ کی اتباع اور مدد و نصرت کرنا ہوگی اور اس عظیم الشان عہد پر گواہ کون ؟ خود ذات باصفاتِ باری تعالیٰ۔اس شان جلالت کا مظہر بہ جز محبوبِ خدا ﷺ کے کون ہوسکتا ہے۔
اس جماعتِ مرسلاں کے لیے ارشاد ہے:
مفہوم: ''یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔ ان میں کسی سے اللہ نے کلام اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔'' (سورۂ بقرہ)
جنھیں سب درجوں پر بلند کیا اس پر امت کا اجماع ہے کہ وہ ذاتِ سید الانبیا ﷺ ہیں۔ اور بہ کثرت احادیث سے ثابت ہے آپؐ کی رسالت عامہ ہے، آپؐ خاتم النبیین ہیں۔ آپؐ انبیا پر افضل اور آپؐ کی امت تمام امتوں پر افضل، درجوں بلند کیا ہے ان درجات کی حد نہیں لگائی جاسکتی، وہ بے شمار ہیں اور رب کائنات ہی کے وسیع علم میں ہیں۔
(کنزالایمان)
مفہوم: '' اور یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا، اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلے کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو وہ بولے یہ کھلا جادو ہے۔'' (الصف )
اللہ کے برگزیدہ رسولوںؑ نے جو عہد اپنے رب سے کر رکھا تھا اسی کی پاس داری میں وہ اپنی امتوں کو خاتم النبیین ﷺ کے آنے کی خوش خبری دیتے رہے اور خود پر ان کی فضیلت بھی واضح کرتے رہے۔ وقت کے ساتھ دنیا کی گھٹیا اور چند روزہ دولت کے عوض بکنے والوں نے ان صحائف میں تحریف بڑے شد و مد سے کی مگر اس شدید تحریف شدہ حالت میں بھی کہیں کسی نسخے میں ایک رسول پاکیزہ اطوار کی آمد کی بشارت ملتی ہے۔
مفہوم: '' اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلے سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر۔'' ( البقرہ)
پیر کرم شاہ الازہریؒ اپنی کتاب ضیاء النبیؐ جلد اول میں رقم طراز ہیں:
'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پیشتر یہود کا شعار تھا کہ جب کبھی کفار و مشرکین سے ان کی جنگ ہوتی اور ان کی فتح کے ظاہری امکانات ختم ہوجاتے تو اس وقت تورات کو سامنے رکھتے اور وہ مقام کھول کر جہاں حضور نبی کریم کی صفات و کمالات کا ذکر ہوتا وہاں ہاتھ رکھتے اور ان الفاظ میں دعا کرتے۔
'' اے اللہ ہم تجھ سے تیرے اس نبی کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں جس کی بعث کا تُونے ہم سے وعدہ کیا ہے آج ہمیں اپنے دشمنوں پر فتح دے'' تو حضور پُرنور کے صدقے اللہ انھیں فتح دیتا۔'' (روح المعانی، قرطبی وغیرہ)
تمام الہامی کتب و صحائف کی روایات اور انبیائے کرامؑ کی بشارتیں اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے لم یزل کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شان تمام مخلوقات میں کسی کو میسر نہیں چاہے وہ خاکی ہوں یا نوری۔
نبی آخر الزماں ﷺ وہ ہیں جو نبوت سے سرفراز کیے جاچکے تھے، جب ابوالانساں حضرت آدمؑ ابھی آب و مٹی کے درمیان تھے۔ تمام انبیائؑ کو زمینی معجزات دیے گئے اور آپؐ کو آسمانی تصرف بھی بہ قدر شان دیا گیا (شق القمر)، معراج سے سرفراز فرمایا تو جبرائیلؑ کو قاصد و راہ نما بنایا گیا اور براق کو سواری۔ آپؐ کی نبوت و رحمت تمام جہانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ خدائے بزرگ و برتر ہمیں اپنے نبیؐ کی محبت میں سرخ رُو و سرفراز رکھے اور آپؐ کی محبت پر موت دے اور روز محشر انہی کی معیّت میں اٹھائے۔ (آمین)
خالقِ کائنات کے اس کلمے نے گویا رہتی دنیا تک سمندر کو کوزے میں سمیٹ کر رکھ دیا۔ جنھیں رب کائنات ''خُلقِ عظیم'' کہہ دے ان کی ستائش کے لیے عاجز و ناتواں نطق رکھنے والے انسانوں کے پاس کون سا لفظ بچ جاتا ہے۔ سورۃ قلم کی ابتدائی آیات بھی اپنے حبیبؐ کی شان کے اظہار اور ان کے دشمن کے رد کیے جانے کی اعلیٰ مثال ہے۔
مفہوم: '' قلم اور ان کے لکھے کی قسم۔ تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں اور ضرور تمہارے لیے بے انتہا ثواب ہے اور بے شک تمہاری خُو بُو بڑی شان کی ہے۔ تو اب کوئی دم جاتا ہے کہ تم بھی دیکھ لوگے اور وہ بھی دیکھ لیںگے کہ تم میں کون مجنون تھا۔ بے شک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکے اور وہ خوب جانتا ہے جو راہ پر ہے تو جھٹلانے والوں کی بات نہ سننا وہ تو اس آرزو میں ہیں کہ کسی طرح تم نرمی کرو۔'' (القلم )
اللہ کے حبیب اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کے القاب دینے والے لوگ مکہ کے وہی لوگ تھے جو تبلیغ دین کے زمانے سے پہلے آپؐ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے، آپؐ کے قرابت داد ہوتے، آپؐ سے تعلق و دوستی کو ایک اعزاز کی طرح اپنے ساتھ لگائے پھرتے۔ مگر جیسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں توحید کی طرف بلاتے ہیں تو ان کے کالے دلوں کا زنگ و میل کُھل کر سامنے آتا ہے اور وہ صادق و امین کے القاب چھوڑ کر (معاذ اللہ) ساحر و مجنون کی صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں۔ کبھی قرآن کے پرتاثیر بیان کو دیکھ کر انھیں شاعر کہتے تو کبھی اللہ کے دیے گئے علم کا کچھ حصہ ظاہر کرنے پر کاہن۔ ان تمام باتوں کا جواب رب تعالیٰ نے دیا کہ آپ اخلاق کے عمدہ مرتبے پر اس طرح فروزاں ہیں کہ یہ آپؐ کی شان کی گرد بھی نہ پاسکیں جو آپؐ کو یہ سب کہتے ہیں بہت جلد ان پر اپنی حقیقت آشکارہوگی۔مفہوم: '' اے لوگو! بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اتارا۔'' (النساء)
سورۂ النساء کی اس آیت میں ''برھان '' یعنی واضح دلیل سے مراد سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، جن کے معجزات منکرین کی عقول کو بھی حیران کرتے ہیں اور ''روشن نور'' قرآن ہے جو بہ ذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔
مفہوم: ''بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر جو سارے جہاں کو ڈر سنانے والا ہے۔'' (الفرقان)
یعنی دیگر انبیائے کرامؑ کی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی گروہ یا قوم کے نبی نہیں بل کہ آپؐ کی نبوت تمام عالم انسانیت کے لیے ہے۔ آپؐ تمام جہانوں کو ڈر سنانے والے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم: '' اور بولے اس رسول کو کیا ہوا ہے، کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے کیوں نہ اتارا گیا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کہ ان کے ساتھ ڈر سناتا یا غیب سے کوئی خزانہ مل جاتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا۔ جس میں سے کھاتے اور ظالم بولے تم تو پیروی نہیں کرتے مگر ایک ایسے مرد کی جس پر جادو ہوا۔ اے محبوب دیکھو کیسی کہاوتیں تمہارے لیے بنارہے ہیں تو گم راہ ہوئے اب کوئی راہ نہیں پاتے۔'' (الفرقان)
کافروں کے لیے یہ جیسے بڑی انہونی سی بات تھی کہ انہی میں سے کوئی رسول بہ صورت بشر آئے جو انہی کی طرح سے روزمرہ کے امور انجام دیتا ہو، ان کے اس حیران کن استفسار پر رب تعالیٰ اسی سورۂ میں جواب دیتے ہیں۔
مفہوم: '' اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے، کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے اور ہم نے تم میں ایک کو دوسرے کی جانچ کیا اور اے لوگو! کیا تم صبر کروگے اور تمہارا رب دیکھتا ہے۔'' (الفرقان)
مفہوم: '' اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا کہ جو تم کو میں کتاب دوں اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے گا، تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ فرمایا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا۔ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں خود تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔''(آل عمران )
یعنی خدائے واحد و لم یزل اپنے چنیدہ، برگزیدہ پیغمبروں سے یہ عہد لے رہا ہے کہ جب احمد مرسل صلی اللہ علیہ وسلم آچکیں تو ان سب کو ان پر ایمان لاکر ان کی شریعت کے تابع ہونا ہوگا۔ انؐ کی اتباع اور مدد و نصرت کرنا ہوگی اور اس عظیم الشان عہد پر گواہ کون ؟ خود ذات باصفاتِ باری تعالیٰ۔اس شان جلالت کا مظہر بہ جز محبوبِ خدا ﷺ کے کون ہوسکتا ہے۔
اس جماعتِ مرسلاں کے لیے ارشاد ہے:
مفہوم: ''یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔ ان میں کسی سے اللہ نے کلام اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔'' (سورۂ بقرہ)
جنھیں سب درجوں پر بلند کیا اس پر امت کا اجماع ہے کہ وہ ذاتِ سید الانبیا ﷺ ہیں۔ اور بہ کثرت احادیث سے ثابت ہے آپؐ کی رسالت عامہ ہے، آپؐ خاتم النبیین ہیں۔ آپؐ انبیا پر افضل اور آپؐ کی امت تمام امتوں پر افضل، درجوں بلند کیا ہے ان درجات کی حد نہیں لگائی جاسکتی، وہ بے شمار ہیں اور رب کائنات ہی کے وسیع علم میں ہیں۔
(کنزالایمان)
مفہوم: '' اور یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا، اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلے کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو وہ بولے یہ کھلا جادو ہے۔'' (الصف )
اللہ کے برگزیدہ رسولوںؑ نے جو عہد اپنے رب سے کر رکھا تھا اسی کی پاس داری میں وہ اپنی امتوں کو خاتم النبیین ﷺ کے آنے کی خوش خبری دیتے رہے اور خود پر ان کی فضیلت بھی واضح کرتے رہے۔ وقت کے ساتھ دنیا کی گھٹیا اور چند روزہ دولت کے عوض بکنے والوں نے ان صحائف میں تحریف بڑے شد و مد سے کی مگر اس شدید تحریف شدہ حالت میں بھی کہیں کسی نسخے میں ایک رسول پاکیزہ اطوار کی آمد کی بشارت ملتی ہے۔
مفہوم: '' اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے وہ اسی نبی کے وسیلے سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر۔'' ( البقرہ)
پیر کرم شاہ الازہریؒ اپنی کتاب ضیاء النبیؐ جلد اول میں رقم طراز ہیں:
'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پیشتر یہود کا شعار تھا کہ جب کبھی کفار و مشرکین سے ان کی جنگ ہوتی اور ان کی فتح کے ظاہری امکانات ختم ہوجاتے تو اس وقت تورات کو سامنے رکھتے اور وہ مقام کھول کر جہاں حضور نبی کریم کی صفات و کمالات کا ذکر ہوتا وہاں ہاتھ رکھتے اور ان الفاظ میں دعا کرتے۔
'' اے اللہ ہم تجھ سے تیرے اس نبی کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں جس کی بعث کا تُونے ہم سے وعدہ کیا ہے آج ہمیں اپنے دشمنوں پر فتح دے'' تو حضور پُرنور کے صدقے اللہ انھیں فتح دیتا۔'' (روح المعانی، قرطبی وغیرہ)
تمام الہامی کتب و صحائف کی روایات اور انبیائے کرامؑ کی بشارتیں اس بات پر شاہد ہیں کہ خدائے لم یزل کے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شان تمام مخلوقات میں کسی کو میسر نہیں چاہے وہ خاکی ہوں یا نوری۔
نبی آخر الزماں ﷺ وہ ہیں جو نبوت سے سرفراز کیے جاچکے تھے، جب ابوالانساں حضرت آدمؑ ابھی آب و مٹی کے درمیان تھے۔ تمام انبیائؑ کو زمینی معجزات دیے گئے اور آپؐ کو آسمانی تصرف بھی بہ قدر شان دیا گیا (شق القمر)، معراج سے سرفراز فرمایا تو جبرائیلؑ کو قاصد و راہ نما بنایا گیا اور براق کو سواری۔ آپؐ کی نبوت و رحمت تمام جہانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ خدائے بزرگ و برتر ہمیں اپنے نبیؐ کی محبت میں سرخ رُو و سرفراز رکھے اور آپؐ کی محبت پر موت دے اور روز محشر انہی کی معیّت میں اٹھائے۔ (آمین)