ٹرمپ کے فیصلے نے دنیا کے مسائل میں اضافہ کر دیا میئر لندن

امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنیکا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ کومشرق وسطیٰ کی سمجھ نہیں،صادق خان

امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنیکا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹرمپ کومشرق وسطیٰ کی سمجھ نہیں،صادق خان۔ فوٹو : اے ایف پی

لندن کے میئر صادق خان بھی امریکی انتظامیہ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرنے والے عالمی رہنماؤں میں شامل ہو گئے۔

ایکسپریس ٹریبیون کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں لندن کے پہلے پاکستانی نژاد میئر صادق خان کا کہنا تھا کہ انھیں امریکی صدر کے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے اعلان پر بہت تشویش ہے۔ ٹرمپ کے فیصلے کامطلب یہ ہے کہ یروشلم اسرائیل کا غیر متنازع دارالحکومت ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی صدر کو مشرق وسطیٰ کی سیاست اور تاریخ کی کوئی سمجھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکیوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ انھیں مشرق وسطی کے امن کیلیے معاملات کو آسان بنانا چاہیے۔ امریکا کو چاہیے کہ دنیا کو درپیش مسائل میں کمی لانے کی کوشش کرے۔

داعش، شام، عراق، شمالی کوریا جیسے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے صادق خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اس فیصلے کے ذریعے ایک اور مسئلے کا اضافہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اچھی بات یہ ہے کہ پوری دنیا امریکا کے فیصلے کیخلاف متحد ہے۔ فرانس کے صدر، برطانوی وزیر اعظم، یورپی یونین، پوپ، آرچ بشپ آف کینٹربری سمیت متعدد مسلمان اور غیر مسلم عالمی رہنماؤں نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ 47 سالہ صادق خان لندن کے میئر منتخب ہونے سے قبل 2005سے 2016کے درمیان برطانوی پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔ جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ میں ایک پاکستانی گھرانے میں پیدا ہونے والے صادق خان نے یونیورسٹی آف نارتھ لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر کام کیا۔ انھیں برطانوی کابینہ کا پہلا مسلمان رکن اور پہلا ایشیائی نژاد میئر لندن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ گزشتہ سال مئی میں میئر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ لندن شہر اور یہاں ملنے والے مواقع تھے جنھوں نے انھیں اس مقام تک پہنچایا جہاں وہ آج کھڑے ہیں۔


صادق خان کا کہنا تھا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ انھیں ایسے اساتذہ ملے جنھوں نے انھیں زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد دی اور ایسے والدین ملے جنھوں نے محنت کرنے میں میری حوصلہ افزائی کی۔ جب مجھے ملازمت ملی تو لوگوں نے میری رہنمائی اور مدد کی۔ جب وکیل بنا، رکن پارلیمنٹ اور وزیر بنا اور اب میئر ہوں تو یہ سب لوگوں کی مدد سے ممکن ہوا۔ اور ایسا ''لندن پرامس'' کی وجہ سے ہوا۔ لندن پرامس سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ محنت کریں تو لوگ آپ کی مدد کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وہ لوگوں کا یہی قرض چکانا چاہتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنی صلاحیتیں منوانے میں مدد دینا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ نوجوان تھے تو انھیں نسلی منافرت کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ لندن اب پہلے سے بہت بہتر جگہ بن چکی ہے۔ ان کے شہر میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی اور ایسے لوگ رہتے ہیں جو کسی مذہب کو نہیں مانتے لیکن یہ سب باہمی احترام اور رواداری سے زندگی گزار رہے ہیں۔

مغرب میں اسلام کے خلاف نفرت بڑھنے کے حوالے سے صادق خان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ تو وہ لوگ ہیں جو اسلام کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں لیکن تعصب کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف وہ مٹھی بھر لوگ بھی ہیں جو اسلام کا سہارا لے کر دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں جن کی وجہ سے پوری مسلمان برادری بدنام ہوتی ہے۔

صادق خان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے تو ہم اس بات کی رہنمائی کویقینی بنائیں کہ مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ دوسرے یہ کہ جو لوگ اسلام مخالف یا نسل پرستانہ رویئے کا اظہار کریں ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ ہم جنس پرستوں کی حمایت کے حوالے سے اپنی شخصیت کے متضاد پہلوؤں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ پورے لندن کے میئر ہیں اور اس میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ اس لیے انھیں سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ آج کی سکڑتی دنیا میں اجتماعیت کسی بھی ملک کی کامیابی کی کلید ہے۔ اجتماعیت سے مراد مختلف نسلیں، زبانیں، مذاہب، عقائد، نظریات اور پس منظر رکھنے والے لوگ ایک ہی معاشرے میں جمع ہوتے ہیں اور مل کر کامیابی کے لیے کام کرتے ہیں۔

میئر لندن نے بتایا کہ انہوں نے تمام لندن والوں کا میئر بننے کا انتخاب لڑا تھا جس سے مراد ہم جنس پرستوں کا میئر، عیسائیوں کا میئر، مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں کا میئر، امیروںغریبوں، جوانوں بوڑھوں، صحت مندوں اور معذورں سب کا میئر ہے جو ان سب کے ساتھ وقت گزارے، ان کے جذبات اور مسائل کو سمجھے۔ ہم لندن کے ٹریفلگر سکوائر پر تمام مذاہب کے تہوار بھی مناتے ہیں تاکہ انھیں باور کرایا جا سکے کہ وہ لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔
Load Next Story