مجرموں کو روکنے والا کوئی نہیں
کوئی بہادر بنتا ہے تو دو کام ہوتے ہیں اس کو قتل کردیا جاتا ہے یا ساری عمر کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
لاہور:
چور ہو یا ڈاکو، لوٹنے والا ہو یا قتل و غارت میں بے خوف، یہ سب کچھ سنتے رہے لیکن گزشتہ دنوں سے تو زیادہ مسائل سامنے آرہے ہیں۔ جو طاقتیں ان چیزوں کو دور کرنے والی تھیں نہ جانے کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اگر ان چوروں، ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ، قتل و غارت والوں کو روک لیا جاتا تو شاید یہ ملک سے چشم پوش ہیں یا کسی خوف کا شکار ہیں۔ ایک معمولی آدمی بھی کسی چور، ڈاکو کو نہیں چھوڑتا، خواہ اس کی جان ضایع ہوجائے، لیکن وہ ایسے بداعمال لوگوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ ڈیڑھ سال تو ابھی کی بات ہے، نہ جانے کتنے سال سے ملک میں لوٹ مار جاری تھی۔
ان طاقتور لوگوں کے علم میں تھا، لیکن کچھ نہ کرسکے اور امید بھی یہی ہے وہ کچھ نہیں کریں گے۔ اللہ کی طرف نگاہیں ہیں، جو بھی اگر ہوگیا تو صرف اللہ کے حکم سے ہوگا۔ ایسے طاقتور، برسر اقتدار جن سے لوگ کانپتے ہیں، انھوں نے ایسے چور ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ والوں کا کچھ نہ کیا تو کون شخص ان سے آگے سکون کی امید رکھ سکتا ہے۔ کسی نے بڑی خوب بات کہی ہے اگر کسی کا کوئی نہ ہو تو اللہ ضرور ہوتا ہے۔ وقت پر اگر کام کرلیا جائے تو ملک کی بے شمار رقم بچ سکتی ہے۔
ٹیکس میں جو رقومات ادا کی جاتی ہیں وہ بھی ان چوروں، اچکوں، ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ، کالا دھن جمع کرنے والوں کو پہلے سے روک لیا جاتا تو آج ملک اس قدر خسارے میں نہ ہوتا۔ کہا جاتا ہے ماہ اپریل 2018 میں کوئی رقم نہ ہوگی، سمجھ میں نہیں آتا پھر کیا بنے گا۔ان کو اسپیشل پروٹوکول بھی دیں گے اور 10 ارب ڈالر یومیہ منی لانڈرنگ جاری رہے گی۔ ملک کے جو بھی کام ہیں وہ ملک کے خزانے سے عمل میں لائے جاتے ہیں۔ چاہے ذاتی کام ہو یا کسی ملک میں ذاتی سفر، وہ سب قومی خزانے سے کیا جاتا ہے۔ جس انداز سے آنے جانے میں سیکڑوں گاڑیوں کا ان کو محفوظ رکھنے کے بہانے سے خاص پروٹوکول دیا جاتا ہے، افسوسناک بات ہے۔
مجرموں، چوروں، ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ، کالا دھن اکٹھا کرنے، خزانہ خالی کرنے کے باوجود ان کے خصوصی پروٹوکول میں کمی نہ آئی اور نہ آئے گی۔ ممکن نہیں کوئی بہادر شخص نمودار ہوجائے۔ ان کا سوائے دولت لوٹنے کے اور کوئی کام نہیں۔ کہا جاتا ہے بزنس مین ہیں، کاروباری لوگ ہیں، ذرا یہ بتا دیں کہ کس قدر فیکٹریوں سے جائز دولت کما رہے ہیں۔ حرام کی دولت وصول کرنے والے ایسی مثالیں دیتے ہیں کہ یہ ہماری پرانی دولت ہے، جو فیکٹریاں قائم کیں ان کی آمدنی ہے۔ جب اس ملک سے دولت اپنی تجارت سے محفوظ کی تو اس کو اپنے ملک میں کیوں نہ رکھا، جو آپ کے برے کام میں کام آسکے۔
ملک کے کروڑوں لوگ یہی رونا رو رہے ہیں۔ جب وہ لوگ اشک بہاتے ہیں تو یہ حرام کی دولت کے پھول برساتے ہیں۔ ان کے نصیب میں جائز کچھ نہیں، یہ جو کچھ کریں گے وہ جائز یا حلال نہ ہوگا۔ جو لوگ حلال کی دولت کے رکھوالے ہیں انھوں نے ان کو کھلی اجازت دے دی۔ جس قدر دولت حاصل کرسکتے ہیں کرلیں، کوئی نہیں پوچھے گا، نہ وہ پکڑے جائیں گے۔ پکڑے تو وہ چھوٹے غریب لوگ جاتے ہیں جو بھوک و افلاس کو جب برداشت نہیں کرسکتے تو کسی چھوٹی سی چوری پر اپنے نصیب کو دیکھتے ہیں۔
کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کوئی غریب پہلے چھوٹے جرم میں پولیس کے حوالے پھر عدالت اور عدالت کے بعد جیل۔ کیونکہ ان کے نصیب میں چوری نہیں۔ اگر کوئی موبائل چھین لیتا ہے تو وہ بھی دو سو یا تین سو میں چوری کا مال خریدنے والے خریدتے ہیں۔ اگر کسی عورت کا پرس چھین لیا ہے، اس کے ہمدرد زیادہ ہوتے ہیں، ایک جم غفیر ان غریبوں کو مارتے پیٹتے بھی ہیں اور بدحالی میں پولیس کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔
پولیس 24 گھنٹے کے اندر عدلیہ میں تفتیش قائم کرنے کے لیے ریمانڈ لیتی ہے۔ بے قصور غریب لڑکوں کو بڑی آسانی سے پکڑ لیتے ہیں، جس سے علاقہ تھانے کی نفری میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ تھانہ مشہور ہوجاتا ہے کہ ملزم اس سے بچ نہیں سکتے۔ ان سے کوئی پوچھے کیا تم نے کسی کروڑوں، اربوں، کھربوں کی مالیت کے چور اچکے، منی لانڈرنگ، کالا دھن جمع کرنے والے کو پکڑا؟ بلکہ معلوم ہوتے ہوئے جب کہ ان کے سامنے ملک لٹ رہا ہو تو وہ ہمت نہیں کرسکتے۔ اس قدر خوف میں ہوتے ہیں کہ وہ کسی بڑے آدمی کو پکڑنا تو دور، بلکہ بڑے بڑے سیلوٹ لگاتے ہیں۔
مزید ہمت افزائی دیتے ہیں کہ وہ خوب جائیدادیں ہڑپ کریں، غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کریں، اس لیے کہ وہ غریب کبھی خالی نہیں کروا سکتا، اس لیے کہ اس کے پاس رشوت دینے کے لیے زر ہے نہ کوئی بڑی سفارش۔ بے چارہ اپنی معصومیت میں خاموش ہو رہتا ہے۔ کروڑوں ایکڑ زمین قبضہ کی ہوئی ہیں، جو ہر ادارے کے علم میں ہے لیکن کوئی اس پر عمل نہیں کرتا، پہلے اس قدر خوفزدہ ہوجاتے ہیں، جو اپنی ساری عمر کی زمین بھول جاتے ہیں۔
کوئی بہادر بنتا ہے تو دو کام ہوتے ہیں اس کو قتل کردیا جاتا ہے یا ساری عمر کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔لگتا نہیں پاکستان اب ان لوگوں کی امانت ہو جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، کس قدر محنت جدوجہد سے فرنگی سے یہ ملک حاصل کیا، لیکن آج بھی وہی لوگ ان کے حاکم ہیں۔ صرف دیکھنے کے لیے آزاد ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں یہ ان بڑے یورپی ممالک سے آزاد ہو۔ پہلے فوجوں سے قبضہ کیا جاتا تھا لیکن اب یہاں کے لوگوں سے قبضہ کرنے میں زیادہ آسانی ہے۔ ان کو لیڈر اس قدر بڑا لیڈر بنادیتے ہیں جس کے حکم پر وہ سب کچھ کرسکیں اور اگر کسی کے لیے ہمدردی کرنا چاہیں تو وہ بھی ان لوگوں کے لیے گلے پڑتی ہے۔ لہٰذا بے چارہ غریب دوسروں کی ہمدردی سے بھی دور رہتا ہے۔
ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ ہمارے بڑوں نے کہا ہے اگر کسی پر کوئی مصیبت یا پریشانی آئے تو اس سے دور ہو جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو آپ بھی اس کی مصیبت و پریشانیوں میں مبتلا ہوجائیں۔ شاید یہی وجہ ہے ہمارے ملک کے مضبوط ادارے ان چوروں پر ہاتھ اس لیے نہیں ڈال رہے کہ کہیں وہ بھی ان کو پکڑنے کے چکر میں کسی گرداب میں آجائیں۔ سمندر میں جب بھنور آتا ہے تو بڑے بڑے جہاز غرق ہوجاتے ہیں، سنبھالنے والے بھی ان جہازوں میں غرق ہوجاتے ہیں، یہ ساری مثالیں موجود ہیں۔ نہ جانے ان مجرموں کو روکنے والا وطن عزیز میں کوئی جی دار کب آئے گا؟
چور ہو یا ڈاکو، لوٹنے والا ہو یا قتل و غارت میں بے خوف، یہ سب کچھ سنتے رہے لیکن گزشتہ دنوں سے تو زیادہ مسائل سامنے آرہے ہیں۔ جو طاقتیں ان چیزوں کو دور کرنے والی تھیں نہ جانے کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اگر ان چوروں، ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ، قتل و غارت والوں کو روک لیا جاتا تو شاید یہ ملک سے چشم پوش ہیں یا کسی خوف کا شکار ہیں۔ ایک معمولی آدمی بھی کسی چور، ڈاکو کو نہیں چھوڑتا، خواہ اس کی جان ضایع ہوجائے، لیکن وہ ایسے بداعمال لوگوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ ڈیڑھ سال تو ابھی کی بات ہے، نہ جانے کتنے سال سے ملک میں لوٹ مار جاری تھی۔
ان طاقتور لوگوں کے علم میں تھا، لیکن کچھ نہ کرسکے اور امید بھی یہی ہے وہ کچھ نہیں کریں گے۔ اللہ کی طرف نگاہیں ہیں، جو بھی اگر ہوگیا تو صرف اللہ کے حکم سے ہوگا۔ ایسے طاقتور، برسر اقتدار جن سے لوگ کانپتے ہیں، انھوں نے ایسے چور ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ والوں کا کچھ نہ کیا تو کون شخص ان سے آگے سکون کی امید رکھ سکتا ہے۔ کسی نے بڑی خوب بات کہی ہے اگر کسی کا کوئی نہ ہو تو اللہ ضرور ہوتا ہے۔ وقت پر اگر کام کرلیا جائے تو ملک کی بے شمار رقم بچ سکتی ہے۔
ٹیکس میں جو رقومات ادا کی جاتی ہیں وہ بھی ان چوروں، اچکوں، ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ، کالا دھن جمع کرنے والوں کو پہلے سے روک لیا جاتا تو آج ملک اس قدر خسارے میں نہ ہوتا۔ کہا جاتا ہے ماہ اپریل 2018 میں کوئی رقم نہ ہوگی، سمجھ میں نہیں آتا پھر کیا بنے گا۔ان کو اسپیشل پروٹوکول بھی دیں گے اور 10 ارب ڈالر یومیہ منی لانڈرنگ جاری رہے گی۔ ملک کے جو بھی کام ہیں وہ ملک کے خزانے سے عمل میں لائے جاتے ہیں۔ چاہے ذاتی کام ہو یا کسی ملک میں ذاتی سفر، وہ سب قومی خزانے سے کیا جاتا ہے۔ جس انداز سے آنے جانے میں سیکڑوں گاڑیوں کا ان کو محفوظ رکھنے کے بہانے سے خاص پروٹوکول دیا جاتا ہے، افسوسناک بات ہے۔
مجرموں، چوروں، ڈاکوؤں، منی لانڈرنگ، کالا دھن اکٹھا کرنے، خزانہ خالی کرنے کے باوجود ان کے خصوصی پروٹوکول میں کمی نہ آئی اور نہ آئے گی۔ ممکن نہیں کوئی بہادر شخص نمودار ہوجائے۔ ان کا سوائے دولت لوٹنے کے اور کوئی کام نہیں۔ کہا جاتا ہے بزنس مین ہیں، کاروباری لوگ ہیں، ذرا یہ بتا دیں کہ کس قدر فیکٹریوں سے جائز دولت کما رہے ہیں۔ حرام کی دولت وصول کرنے والے ایسی مثالیں دیتے ہیں کہ یہ ہماری پرانی دولت ہے، جو فیکٹریاں قائم کیں ان کی آمدنی ہے۔ جب اس ملک سے دولت اپنی تجارت سے محفوظ کی تو اس کو اپنے ملک میں کیوں نہ رکھا، جو آپ کے برے کام میں کام آسکے۔
ملک کے کروڑوں لوگ یہی رونا رو رہے ہیں۔ جب وہ لوگ اشک بہاتے ہیں تو یہ حرام کی دولت کے پھول برساتے ہیں۔ ان کے نصیب میں جائز کچھ نہیں، یہ جو کچھ کریں گے وہ جائز یا حلال نہ ہوگا۔ جو لوگ حلال کی دولت کے رکھوالے ہیں انھوں نے ان کو کھلی اجازت دے دی۔ جس قدر دولت حاصل کرسکتے ہیں کرلیں، کوئی نہیں پوچھے گا، نہ وہ پکڑے جائیں گے۔ پکڑے تو وہ چھوٹے غریب لوگ جاتے ہیں جو بھوک و افلاس کو جب برداشت نہیں کرسکتے تو کسی چھوٹی سی چوری پر اپنے نصیب کو دیکھتے ہیں۔
کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کوئی غریب پہلے چھوٹے جرم میں پولیس کے حوالے پھر عدالت اور عدالت کے بعد جیل۔ کیونکہ ان کے نصیب میں چوری نہیں۔ اگر کوئی موبائل چھین لیتا ہے تو وہ بھی دو سو یا تین سو میں چوری کا مال خریدنے والے خریدتے ہیں۔ اگر کسی عورت کا پرس چھین لیا ہے، اس کے ہمدرد زیادہ ہوتے ہیں، ایک جم غفیر ان غریبوں کو مارتے پیٹتے بھی ہیں اور بدحالی میں پولیس کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔
پولیس 24 گھنٹے کے اندر عدلیہ میں تفتیش قائم کرنے کے لیے ریمانڈ لیتی ہے۔ بے قصور غریب لڑکوں کو بڑی آسانی سے پکڑ لیتے ہیں، جس سے علاقہ تھانے کی نفری میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ تھانہ مشہور ہوجاتا ہے کہ ملزم اس سے بچ نہیں سکتے۔ ان سے کوئی پوچھے کیا تم نے کسی کروڑوں، اربوں، کھربوں کی مالیت کے چور اچکے، منی لانڈرنگ، کالا دھن جمع کرنے والے کو پکڑا؟ بلکہ معلوم ہوتے ہوئے جب کہ ان کے سامنے ملک لٹ رہا ہو تو وہ ہمت نہیں کرسکتے۔ اس قدر خوف میں ہوتے ہیں کہ وہ کسی بڑے آدمی کو پکڑنا تو دور، بلکہ بڑے بڑے سیلوٹ لگاتے ہیں۔
مزید ہمت افزائی دیتے ہیں کہ وہ خوب جائیدادیں ہڑپ کریں، غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کریں، اس لیے کہ وہ غریب کبھی خالی نہیں کروا سکتا، اس لیے کہ اس کے پاس رشوت دینے کے لیے زر ہے نہ کوئی بڑی سفارش۔ بے چارہ اپنی معصومیت میں خاموش ہو رہتا ہے۔ کروڑوں ایکڑ زمین قبضہ کی ہوئی ہیں، جو ہر ادارے کے علم میں ہے لیکن کوئی اس پر عمل نہیں کرتا، پہلے اس قدر خوفزدہ ہوجاتے ہیں، جو اپنی ساری عمر کی زمین بھول جاتے ہیں۔
کوئی بہادر بنتا ہے تو دو کام ہوتے ہیں اس کو قتل کردیا جاتا ہے یا ساری عمر کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔لگتا نہیں پاکستان اب ان لوگوں کی امانت ہو جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، کس قدر محنت جدوجہد سے فرنگی سے یہ ملک حاصل کیا، لیکن آج بھی وہی لوگ ان کے حاکم ہیں۔ صرف دیکھنے کے لیے آزاد ہے، لیکن ایسا ممکن نہیں یہ ان بڑے یورپی ممالک سے آزاد ہو۔ پہلے فوجوں سے قبضہ کیا جاتا تھا لیکن اب یہاں کے لوگوں سے قبضہ کرنے میں زیادہ آسانی ہے۔ ان کو لیڈر اس قدر بڑا لیڈر بنادیتے ہیں جس کے حکم پر وہ سب کچھ کرسکیں اور اگر کسی کے لیے ہمدردی کرنا چاہیں تو وہ بھی ان لوگوں کے لیے گلے پڑتی ہے۔ لہٰذا بے چارہ غریب دوسروں کی ہمدردی سے بھی دور رہتا ہے۔
ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ ہمارے بڑوں نے کہا ہے اگر کسی پر کوئی مصیبت یا پریشانی آئے تو اس سے دور ہو جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو آپ بھی اس کی مصیبت و پریشانیوں میں مبتلا ہوجائیں۔ شاید یہی وجہ ہے ہمارے ملک کے مضبوط ادارے ان چوروں پر ہاتھ اس لیے نہیں ڈال رہے کہ کہیں وہ بھی ان کو پکڑنے کے چکر میں کسی گرداب میں آجائیں۔ سمندر میں جب بھنور آتا ہے تو بڑے بڑے جہاز غرق ہوجاتے ہیں، سنبھالنے والے بھی ان جہازوں میں غرق ہوجاتے ہیں، یہ ساری مثالیں موجود ہیں۔ نہ جانے ان مجرموں کو روکنے والا وطن عزیز میں کوئی جی دار کب آئے گا؟