پرانی کتابوں کے کاروبار میں اب پہلے جیسی بات نہیں رہی
دو تین بار چھننے کے بعد موبائل فون رکھنا ہی چھوڑ دیا، فسادات میں تقریباً سات سو کتابیں جل گئیں
دیسی، بدیسی کھانوں کے ریسٹورنٹس، مٹھائی کی دکانیں، جوس کے اسٹال، پان کے کھوکھے، نارتھ ناظم آباد کے علاقے بورڈ آفس کا شمار کراچی کی بڑی فوڈ اسٹریٹس میں ہوتا ہے۔
یہیں، دکانوں کے سامنے، پیٹرول پمپ کے نزدیک پرانی کتابوں کا ایک اسٹال ہے، جو پہلی نظر میں اجنبی معلوم ہوتا ہے، منظر سے میل نہیں کھاتا، مگر یہاں بسنے والوں کے لیے یہ کسی طور اجنبی نہیں کہ گذشتہ تیس برس سے محمد یعقوب نے اِس مقام کو اپنا ٹھکانا بنایا ہوا ہے۔ ان برسوں میں معمولات کچھ یوں رہے کہ اتوار چھوڑ کر ہر روز، صبح دس بجے اسٹال پر پہنچ جاتے، مغرب تک وہیں رہتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس علاقے سے اُن کی خوش گوار یادیں جُڑی ہیں۔
سرکاری ملازمت کے بعد اُنھوں نے اِس علاقے کے فٹ پاتھ سے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ یہی بیوپار وراثت میں اُن کے صاحب زادوں کو ملا۔ تین عشروں تک کتاب دوستوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے والے محمد یعقوب بڑھتی عمرکی وجہ سے اب اتنے فعال نہیں رہے۔ اسٹال پر کم ہی آنا ہوتا ہے۔ ذمے داری کسی اور کو سونپ دی ہے۔ زیادہ وقت گھر میں گزرتا ہے۔ اس کاروبار کے تعلق سے کہتے ہیں، ''کام تو چل رہا ہے، مگر سچ یہ ہے کہ پرانی کتابوں کے کاروبار میں اب پہلی جیسی بات نہیں رہی!''
پرانی کتابیں حاصل کرنے کے لیے اُنھوں نے مارکیٹوں سے زیادہ کباڑیوں پر بھروسا کیا۔ خصوصاً اُن بڑے کباڑیوں سے رابطے میں رہے، جن کے پاس شہر بھر سے ردی آتی تھی۔ اُن کے گودام پہنچ جاتے، اپنے مطلب کی کتابیں خرید لیتے۔ اِس کے علاوہ جب کتابوں کے کسی شایق کا انتقال ہوتا، تو اُس کے اہل خانہ اُن سے رجوع کرتے۔ یوں اُن کے اسٹال تک کئی ایسی کتابیں چلی آتیں، جن پر مصنفیں کے دست خط ثبت ہوتے۔ اُن کے مطابق کئی ایسے افراد بھی پرانی کتابیں فروخت کرنے آتے تھے، جو جگہ کی تنگی کے باعث اُنھیں اپنے گھروں میں رکھنے سے قاصر ہوتے۔ چار پانچ علم دوست گھرانے ایسے بھی تھے، جو اُنھیں مفت میں کتابیں دے جاتے، جنھیں وہ انتہائی کم نرخوں پر آگے فروخت کردیتے، تاکہ مطالعے کا سلسلہ جاری رہے۔
حالاتِ زندگی کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ محمد یعقوب نے قیام پاکستان سے چھے برس قبل ہندوستان کے علاقے بھرت پور میں آنکھ کھولی۔ خاندان کا جُھکائو مسلم لیگ کی جانب تھا۔ والد، اولاد علی باغ بانی کے پیشے سے منسلک تھے۔ تین بہنوں، تین بھائیوں میں محمد یعقوب سب سے چھوٹے ہیں۔ تقسیم کے بعد جب حالات بگڑنے لگے، اُن کا خاندان دہلی آگیا، جہاں سے بہ ذریعہ ٹرین لاہور پہنچے۔ ابتدائی چھے ماہ لاہور کے مہاجر کیمپ میں گزرے۔ پھر اُن کے والد ایک نواب کے ہاں ملازم ہوگئے۔ نواب صاحب کراچی آئے، تو اُن کا خاندان بھی ساتھ چلا آیا۔ یہاں جمشید روڈ پر رہایش اختیار کی۔ ہجرت کے سانحے سے جنم لینے والے مسائل نے محمد یعقوب کے تعلیمی سلسلے کو خاصا متاثر کیا۔ ابتداً کراچی کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم رہے، پھر پی آئی بی کالونی کے ایک اسکول میں داخلہ لے لیا، مگر نویں تک ہی تعلیم حاصل کر سکے۔
حالات کی کٹھنائیوں نے قبل ازوقت عملی زندگی میں دھکیل دیا۔ والد کا ہاتھ بٹانے لگانے۔ کچھ عرصے مزدوری کی۔ اِسی عرصے میں اُن کی شادی ہوئی۔ پھر وہ کے ایم سی میں ملازم ہوگئے۔ بیس برس وہاں چوکی دار رہے۔ اُس ادارے سے الگ ہونے کے بعد یافت کے نئے ذرایع کھوجے شروع کیے، تو پرانی کتابوں کے بیوپار کو مزاج کے قریب تر پایا۔ نظر انتخاب نارتھ ناظم آباد کے علاقے بورڈ آفس پر ٹھہری۔ بتاتے ہیں، جب میں نے کاروبار شروع کیا، اِس وقت یہ علاقہ زیادہ گنجان تو نہیں تھا، مگر چہل پہل رہتی تھی، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ یہاں آباد تھے۔ اِس مقام کے چنائو کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس وقت یہاں پرانی کتابوں کا کوئی اور اسٹال نہیں تھا۔ یعنی قسمت آزمائی کے لیے یہ جگہ مناسب تھی۔
بولٹن مارکیٹ سے دو ڈھائی سو کتابیں خریدیں، اور 82-83 میں اسٹال لگا لیا۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں، پہلے روز بارہ کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ ایک اچھا آغاز تھا، مگر کاروبار جمنے میں پورا ایک برس لگا۔ جب اڈا جم گیا، گاہکوں سے تال میل بیٹھ گیا، تو کتابوں کی تعداد بڑھانی شروع کی۔ دوران گفت گو اُن کے مستقل گاہکوں کا بھی ذکر آتا ہے، جو فقط کراچی تک محدود نہیں۔ بیرون شہر سے بھی کئی گاہک اُن کے اسٹال تک آیا کرتے تھے کہ وہ نرخ انتہائی کم رکھتے، کم یاب کتابیں ڈھونڈ نکالتے۔ کہتے ہیں،''میرے گاہکوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ اُن سے بہت اچھے روابط رہے۔'' ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کاروبار شروع کیا تھا، تو یہ طے کیا تھا کہ نرخ کم رکھیں گے، اور کبھی منافعے کے لیے جی نہیں جلائیں گے۔ گاہکوں سے بحث و مباحثے سے گریز کریں گے۔
کراچی میں حالات بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ پلوں میں کشیدگی، فساد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ محمد یعقوب بھی اس سے متاثر ہوئے۔ بتاتے ہیں، مشرف دور میں، غالباً 2005 میں جب لسانی فسادات پھوٹے پڑے، تو وہ پتھرائو کی زد میں آئے، شرپسندوں نے اُن کا اسٹال الٹ دیا، کتابیں بکھر گئیں، مگر خوش قسمتی سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے فسادات میں البتہ خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اُس وقت وہ اسٹال پر نہیں تھے، اور ہوتے بھی تو شاید نتائج زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔
بتاتے ہیں، شرپسندوں نے چھے، سات سو کتابیں جلا دیں، مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ٹھیلا بچ گیا۔ مایوس ہونے کے بجائے ہمت جُٹائی، دوبارہ کاروبار شروع کیا۔ اُن کے مطابق، کبھی کبھار کتابیں اسٹال سے چوری بھی ہوجاتی ہیں۔ اُن کے ساتھ تین چار بار یہ واقعہ ہوا۔ بتاتے ہیں، عام طور سے نشہ کرنے والے اس کام میں ملوث ہوتے ہیں۔ ہنگامی حالات کے باعث ایسے بھی دن گزرے، جب بالکل بھی کاروبار نہیں ہوا۔ فقط تیس چالیس روپے کی بِکری ہوئی۔ اچھے دنوں میں یومیہ سات سے آٹھ سو روپے کا کاروبار ہوتا، جس میں ڈھائی، تین سو روپے بچت ہوجاتی۔
خدا نے اُنھیں تین بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ سب کی شادی ہوچکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پرانی کتابوں کا بیوپار محمد یعقوب کو راس آگیا، تو غلط نہیں ہوگا کہ آج تینوں بیٹے کُتب فروش ہیں۔ بڑے صاحب نے نئی کتابیں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا، دوسرے نے نصابی کُتب کی جانب توجہ دی۔ خوش قسمتی سے دونوں ہی کام یاب رہے۔ تیسرے نے بھی بھائیوں کا ہاتھ بٹایا۔
کن مصنفیں کی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں؟ اِس سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں،''پہلے تو اردو شاعری اور افسانوں کی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی تھیں، مگر اب یہ رجحان خاصا کم ہوگیا ہے۔ اب پرانے ڈائجسٹ زیادہ بکتے ہیں۔ نصابی کتابیں بھی خریدی جاتی ہیں۔ '' اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈیل کارنیگی اور اگاتھا کرسٹی کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔ البتہ بیسٹ سیلر تصور کیے جانے والے سڈنی شیلڈن کا ذکر نہیںآتا۔ اُن کے مطابق اس زمانے میں سڈنی شیلڈن کے ناول خاصا منہگے ہوا کرتے تھے، وہ کم ہی بکتے۔
وہ پائیریٹڈ کتابوں کے کاروبار کو غیرقانونی تصور کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، اُنھوں نے، دیگر کُتب فروشوں کے مانند، مارکیٹ سے نئی پائیریٹڈ کتابیں اٹھانے کے بجائے ہمیشہ کوشش کی کہ پرانی، مگر قانونی انداز میں چھاپی ہوئی کتابیں فروخت کریں۔ ہاں، اگر کوئی شخص پرانی پائیریٹڈ کتاب اُنھیں فروخت کر گیا، تو الگ بات ہے، خود اُسے اسٹال کے لیے نہیں خریدا۔ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں مقیم ادیب اور شاعر کسی زمانے میں کثرت سے اُن کے اسٹائل پر آیا کرتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان کم ہوتا گیا۔ اس تعلق سے پروفیسر سحر انصاری کا خصوصاً طور پر ذکر کرتے ہیں، جن سے خاصی ملاقات رہی۔
اب بڑھتی عمر راہ میں رکاوٹ بنی گئی ہے۔ بتاتے ہیں، تیس برس اُن کے معمولات ایک خاص ڈگر پر چلتے رہے، جس کی اُنھیں عادت پڑ گئی ہے، اب صبح اٹھ کر کام پر نہ جانا کچھ عجیب لگتا ہے۔
جوانی میں خاصی فلمیں دیکھیں۔ ''آن'' اور ''باغی'' اچھی لگیں۔ گائیکی میں مہدی حسن کو سراہتے ہیں۔ اصلاحی اور تاریخی ناول پسندیدہ صنف ادب ہے۔ نسیم حجازی، خدیجہ مستور اور رضیہ بٹ کی کتابیں مطالعے میں رہیں۔ شعرا میں ساحر لدھیانوی کا نام لیتے ہیں۔ سیرت نبویﷺ پر لکھی جانے والی کُتب زیادہ مطالعے میں رہتی ہیں۔ گھر والوں نے کبھی شکایت نہیں کہ وہ اُنھیں وقت نہیں دے پاتے۔ موبائل فون رکھا کرتے تھے، مگر دو تین بار چھننے کے بعد رکھنا چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں، اب انھیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔
یہیں، دکانوں کے سامنے، پیٹرول پمپ کے نزدیک پرانی کتابوں کا ایک اسٹال ہے، جو پہلی نظر میں اجنبی معلوم ہوتا ہے، منظر سے میل نہیں کھاتا، مگر یہاں بسنے والوں کے لیے یہ کسی طور اجنبی نہیں کہ گذشتہ تیس برس سے محمد یعقوب نے اِس مقام کو اپنا ٹھکانا بنایا ہوا ہے۔ ان برسوں میں معمولات کچھ یوں رہے کہ اتوار چھوڑ کر ہر روز، صبح دس بجے اسٹال پر پہنچ جاتے، مغرب تک وہیں رہتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس علاقے سے اُن کی خوش گوار یادیں جُڑی ہیں۔
سرکاری ملازمت کے بعد اُنھوں نے اِس علاقے کے فٹ پاتھ سے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ یہی بیوپار وراثت میں اُن کے صاحب زادوں کو ملا۔ تین عشروں تک کتاب دوستوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے والے محمد یعقوب بڑھتی عمرکی وجہ سے اب اتنے فعال نہیں رہے۔ اسٹال پر کم ہی آنا ہوتا ہے۔ ذمے داری کسی اور کو سونپ دی ہے۔ زیادہ وقت گھر میں گزرتا ہے۔ اس کاروبار کے تعلق سے کہتے ہیں، ''کام تو چل رہا ہے، مگر سچ یہ ہے کہ پرانی کتابوں کے کاروبار میں اب پہلی جیسی بات نہیں رہی!''
پرانی کتابیں حاصل کرنے کے لیے اُنھوں نے مارکیٹوں سے زیادہ کباڑیوں پر بھروسا کیا۔ خصوصاً اُن بڑے کباڑیوں سے رابطے میں رہے، جن کے پاس شہر بھر سے ردی آتی تھی۔ اُن کے گودام پہنچ جاتے، اپنے مطلب کی کتابیں خرید لیتے۔ اِس کے علاوہ جب کتابوں کے کسی شایق کا انتقال ہوتا، تو اُس کے اہل خانہ اُن سے رجوع کرتے۔ یوں اُن کے اسٹال تک کئی ایسی کتابیں چلی آتیں، جن پر مصنفیں کے دست خط ثبت ہوتے۔ اُن کے مطابق کئی ایسے افراد بھی پرانی کتابیں فروخت کرنے آتے تھے، جو جگہ کی تنگی کے باعث اُنھیں اپنے گھروں میں رکھنے سے قاصر ہوتے۔ چار پانچ علم دوست گھرانے ایسے بھی تھے، جو اُنھیں مفت میں کتابیں دے جاتے، جنھیں وہ انتہائی کم نرخوں پر آگے فروخت کردیتے، تاکہ مطالعے کا سلسلہ جاری رہے۔
حالاتِ زندگی کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ محمد یعقوب نے قیام پاکستان سے چھے برس قبل ہندوستان کے علاقے بھرت پور میں آنکھ کھولی۔ خاندان کا جُھکائو مسلم لیگ کی جانب تھا۔ والد، اولاد علی باغ بانی کے پیشے سے منسلک تھے۔ تین بہنوں، تین بھائیوں میں محمد یعقوب سب سے چھوٹے ہیں۔ تقسیم کے بعد جب حالات بگڑنے لگے، اُن کا خاندان دہلی آگیا، جہاں سے بہ ذریعہ ٹرین لاہور پہنچے۔ ابتدائی چھے ماہ لاہور کے مہاجر کیمپ میں گزرے۔ پھر اُن کے والد ایک نواب کے ہاں ملازم ہوگئے۔ نواب صاحب کراچی آئے، تو اُن کا خاندان بھی ساتھ چلا آیا۔ یہاں جمشید روڈ پر رہایش اختیار کی۔ ہجرت کے سانحے سے جنم لینے والے مسائل نے محمد یعقوب کے تعلیمی سلسلے کو خاصا متاثر کیا۔ ابتداً کراچی کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم رہے، پھر پی آئی بی کالونی کے ایک اسکول میں داخلہ لے لیا، مگر نویں تک ہی تعلیم حاصل کر سکے۔
حالات کی کٹھنائیوں نے قبل ازوقت عملی زندگی میں دھکیل دیا۔ والد کا ہاتھ بٹانے لگانے۔ کچھ عرصے مزدوری کی۔ اِسی عرصے میں اُن کی شادی ہوئی۔ پھر وہ کے ایم سی میں ملازم ہوگئے۔ بیس برس وہاں چوکی دار رہے۔ اُس ادارے سے الگ ہونے کے بعد یافت کے نئے ذرایع کھوجے شروع کیے، تو پرانی کتابوں کے بیوپار کو مزاج کے قریب تر پایا۔ نظر انتخاب نارتھ ناظم آباد کے علاقے بورڈ آفس پر ٹھہری۔ بتاتے ہیں، جب میں نے کاروبار شروع کیا، اِس وقت یہ علاقہ زیادہ گنجان تو نہیں تھا، مگر چہل پہل رہتی تھی، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ یہاں آباد تھے۔ اِس مقام کے چنائو کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس وقت یہاں پرانی کتابوں کا کوئی اور اسٹال نہیں تھا۔ یعنی قسمت آزمائی کے لیے یہ جگہ مناسب تھی۔
بولٹن مارکیٹ سے دو ڈھائی سو کتابیں خریدیں، اور 82-83 میں اسٹال لگا لیا۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں، پہلے روز بارہ کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ ایک اچھا آغاز تھا، مگر کاروبار جمنے میں پورا ایک برس لگا۔ جب اڈا جم گیا، گاہکوں سے تال میل بیٹھ گیا، تو کتابوں کی تعداد بڑھانی شروع کی۔ دوران گفت گو اُن کے مستقل گاہکوں کا بھی ذکر آتا ہے، جو فقط کراچی تک محدود نہیں۔ بیرون شہر سے بھی کئی گاہک اُن کے اسٹال تک آیا کرتے تھے کہ وہ نرخ انتہائی کم رکھتے، کم یاب کتابیں ڈھونڈ نکالتے۔ کہتے ہیں،''میرے گاہکوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ اُن سے بہت اچھے روابط رہے۔'' ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کاروبار شروع کیا تھا، تو یہ طے کیا تھا کہ نرخ کم رکھیں گے، اور کبھی منافعے کے لیے جی نہیں جلائیں گے۔ گاہکوں سے بحث و مباحثے سے گریز کریں گے۔
کراچی میں حالات بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ پلوں میں کشیدگی، فساد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ محمد یعقوب بھی اس سے متاثر ہوئے۔ بتاتے ہیں، مشرف دور میں، غالباً 2005 میں جب لسانی فسادات پھوٹے پڑے، تو وہ پتھرائو کی زد میں آئے، شرپسندوں نے اُن کا اسٹال الٹ دیا، کتابیں بکھر گئیں، مگر خوش قسمتی سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے فسادات میں البتہ خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اُس وقت وہ اسٹال پر نہیں تھے، اور ہوتے بھی تو شاید نتائج زیادہ مختلف نہیں ہوتے۔
بتاتے ہیں، شرپسندوں نے چھے، سات سو کتابیں جلا دیں، مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ٹھیلا بچ گیا۔ مایوس ہونے کے بجائے ہمت جُٹائی، دوبارہ کاروبار شروع کیا۔ اُن کے مطابق، کبھی کبھار کتابیں اسٹال سے چوری بھی ہوجاتی ہیں۔ اُن کے ساتھ تین چار بار یہ واقعہ ہوا۔ بتاتے ہیں، عام طور سے نشہ کرنے والے اس کام میں ملوث ہوتے ہیں۔ ہنگامی حالات کے باعث ایسے بھی دن گزرے، جب بالکل بھی کاروبار نہیں ہوا۔ فقط تیس چالیس روپے کی بِکری ہوئی۔ اچھے دنوں میں یومیہ سات سے آٹھ سو روپے کا کاروبار ہوتا، جس میں ڈھائی، تین سو روپے بچت ہوجاتی۔
خدا نے اُنھیں تین بیٹوں، تین بیٹیوں سے نوازا۔ سب کی شادی ہوچکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پرانی کتابوں کا بیوپار محمد یعقوب کو راس آگیا، تو غلط نہیں ہوگا کہ آج تینوں بیٹے کُتب فروش ہیں۔ بڑے صاحب نے نئی کتابیں فروخت کرنے کا فیصلہ کیا، دوسرے نے نصابی کُتب کی جانب توجہ دی۔ خوش قسمتی سے دونوں ہی کام یاب رہے۔ تیسرے نے بھی بھائیوں کا ہاتھ بٹایا۔
کن مصنفیں کی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں؟ اِس سوال کا جواب وہ یوں دیتے ہیں،''پہلے تو اردو شاعری اور افسانوں کی کتابیں زیادہ فروخت ہوتی تھیں، مگر اب یہ رجحان خاصا کم ہوگیا ہے۔ اب پرانے ڈائجسٹ زیادہ بکتے ہیں۔ نصابی کتابیں بھی خریدی جاتی ہیں۔ '' اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈیل کارنیگی اور اگاتھا کرسٹی کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں۔ البتہ بیسٹ سیلر تصور کیے جانے والے سڈنی شیلڈن کا ذکر نہیںآتا۔ اُن کے مطابق اس زمانے میں سڈنی شیلڈن کے ناول خاصا منہگے ہوا کرتے تھے، وہ کم ہی بکتے۔
وہ پائیریٹڈ کتابوں کے کاروبار کو غیرقانونی تصور کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، اُنھوں نے، دیگر کُتب فروشوں کے مانند، مارکیٹ سے نئی پائیریٹڈ کتابیں اٹھانے کے بجائے ہمیشہ کوشش کی کہ پرانی، مگر قانونی انداز میں چھاپی ہوئی کتابیں فروخت کریں۔ ہاں، اگر کوئی شخص پرانی پائیریٹڈ کتاب اُنھیں فروخت کر گیا، تو الگ بات ہے، خود اُسے اسٹال کے لیے نہیں خریدا۔ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں مقیم ادیب اور شاعر کسی زمانے میں کثرت سے اُن کے اسٹائل پر آیا کرتے تھے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ رجحان کم ہوتا گیا۔ اس تعلق سے پروفیسر سحر انصاری کا خصوصاً طور پر ذکر کرتے ہیں، جن سے خاصی ملاقات رہی۔
اب بڑھتی عمر راہ میں رکاوٹ بنی گئی ہے۔ بتاتے ہیں، تیس برس اُن کے معمولات ایک خاص ڈگر پر چلتے رہے، جس کی اُنھیں عادت پڑ گئی ہے، اب صبح اٹھ کر کام پر نہ جانا کچھ عجیب لگتا ہے۔
جوانی میں خاصی فلمیں دیکھیں۔ ''آن'' اور ''باغی'' اچھی لگیں۔ گائیکی میں مہدی حسن کو سراہتے ہیں۔ اصلاحی اور تاریخی ناول پسندیدہ صنف ادب ہے۔ نسیم حجازی، خدیجہ مستور اور رضیہ بٹ کی کتابیں مطالعے میں رہیں۔ شعرا میں ساحر لدھیانوی کا نام لیتے ہیں۔ سیرت نبویﷺ پر لکھی جانے والی کُتب زیادہ مطالعے میں رہتی ہیں۔ گھر والوں نے کبھی شکایت نہیں کہ وہ اُنھیں وقت نہیں دے پاتے۔ موبائل فون رکھا کرتے تھے، مگر دو تین بار چھننے کے بعد رکھنا چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں، اب انھیں اس کی ضرورت بھی نہیں۔