آج کے حالات اور قومی دنوں کی اہمیت
اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی اور کمزوریوں کا احساس شدت سے تھا یہی دور ان کی شاعری میں در آیا ہے۔
9 نومبر علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے لیکن اس سال بھی بنا چھٹی کے ہی گزر گیا، جب کہ دوسرے ممالک میں اقبال ڈے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ (ن) لیگ نے کئی قومی چھٹیوں پر شب خون مارا ہے۔ 11 ستمبر جو قائداعظم کی وفات کا دن ہے، بے حد اہم اور غم کا دن ہے، اس عظیم لیڈر کی یاد میں ایک دن کی چھٹی کرنا گوارا نہیں، بانی پاکستان اور پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی ارواح کو ایصال ثواب اور ان کی اسلام دوستی کو تحریر و تقریر کے ذریعے ثابت کرنے کا بہترین موقع آتا ہے، لیکن حکومت کو ان کی خدمات کا احساس نہیں۔
جب انسان میں مفاد پرستی اور احسان فراموشی کے جذبات پیدا ہوجائیں، تب اس کی نگاہ میں اپنے اکابرین کی عظمت و حشمت قائم نہیں رہتی ہے۔9 نومبر کی ہی طرح 6 ستمبر اور 11 ستمبر کی چھٹیاں بھی حکومت نے ختم کردیں، 6 ستمبر یوم دفاع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس دن کی چھٹی بھی بے حد اہم ہے، چھٹیاں کرنے کا مقصد نئی نسل کو تاریخی معلومات سے آگاہ کرنا اور ان کی سوچ میں وسعت اور اپنے ملک اور ملک کے معماروں اور محافظوں سے محبت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کے حوالے سے کئی ماہ قبل ممتاز افسانہ نگار شہناز پروین کا ایم فل کا مقابلہ بعنوان ''اقبال شناسی اور ماہنامہ نگار/ نگار پاکستان'' کتابی شکل میں شایع ہوا تھا، اس کی تقریب اجرا بھی ہوئی اور مقرر کی حیثیت سے میرا نام بھی شامل تھا، مجھے یہ کتاب اور اس کے چند اقتباسات یاد آگئے ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی اقبال سے گہری عقیدت و محبت کی عکاس ان کی تحریر ہے۔ وہ اپنے خطبہ صدارت میں فرماتے ہیں کہ ''اقبال اب اس درجے پر فائز ہیں، جہاں یہ حکم لگانا بے محل نہ ہوگا کہ جو اقبال کا معتقد نہیں وہ خود بے بہرہ ہے، کوئی شاعر یا آرٹسٹ وسیع اور حقیقی معنوں میں شاعر یا آرٹسٹ نہیں ہے، اگر وہ سارے جہاں کا شاعر یا آرٹسٹ نہ ہو۔ آپ اور میں اقبال کو مسلمان شاعر مانتے ہیں اور غلط نہیں مانتے اور نہ ایسا سمجھنا اقبال ہی نہیں کسی بڑے شاعر کی شان کے منافی ہے، اقبال کو میں انھی معنوں میں شاعر مانتا ہوں، جن معنوں میں اسلام کو سارے جہاں کا مذہب سمجھتا ہوں، میں تو اس کا قائل ہوں کہ ہم میں آپ میں جو لوگ اقبال سے ناواقف ہیں، یا اقبال کے قائل نہیں ہیں وہ نہ صرف غیر تعلیم یافتہ ہیں بلکہ غیر متمدن بھی ہیں۔''
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے خطبے میں علامہ اقبال کو بحیثیت مجموعی اردو شعرا کا امام قرار دیا اور یہ بھی فرمایا کہ ''ایک نامعلوم مدت تک اردو شاعری میں اقبال کی حیثیت خاتم الشعرا کی رہے تو تعجب نہیں''۔ انھیں اردو شاعری میں صرف علامہ اقبال کی شاعری'' علوم و مسائل تجربات و تحریکات'' کی طرف متوجہ کرتی نظر آتی ہے، جو اس وقت عالمگیر ہیں اور جن کی گرفت عام اور تعلیم یافتہ ذہنوں پر ہے۔علامہ اقبال نے کہا تھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
لیکن اس مرض کا علاج کسی بھی حکومت کے پاس نہیں تھا کہ وہ امریکا اور اس کی تہذیب و ثقافت کو عروج کی منزل تک نہ پہنچاتا، پاکستانی حکمران اور بے شمار پاکستانی حضرات امریکا کے سحر میں گرفتار ہیں اور ان کے احکام ماننے پر مجبور تو ہرگز نہ تھے، لیکن ان کے لیے ہر حکم پر ماتھا ٹیکنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
جنرل جاوید باجوہ نے صاف لفظوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتادیا ہے کہ اب پاکستان ''ڈو مور'' کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہے، بلکہ وہ بہت سی قربانیاں دے چکا ہے، فوجیوں نے شہادت کے تاج پہن لیے ہیں اور وہ جنت کے حسین باغوں کے مناظر میں محو ہیں اور اب امریکا کی باری ہے کہ وہ ڈو مور کا جذبہ لے کر آگے بڑھے اور خلوص دل کے ساتھ پاکستان کو بحران سے نکالے، ہندوستانی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دے اور موت کا امرت پلانے کے بجائے جینے کی راہوں کو ہموار کرے۔ لیکن مسلمانوں کی بھلائی کے لیے سوچنا امریکی حکمرانوں خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر کے لیے سو فیصد ناممکن ہے، سابقہ امریکی صدور نے بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا، اب تو سونے پر سہاگہ کہ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو دارالحکومت بناکر اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ بخشا اور اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسلامی دنیا میں نفرت و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
مسلم ممالک کا ردعمل سامنے آیا ہے، احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہوگئے ہیں، امریکا اور اسرائیل کے خلاف نفرت کا اظہار نعرے بازی اور احتجاج کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ سامنے آتا ہے کہ عرصہ دراز سے کیوں غفلت کی نیند میں مدہوش تھے، جب کہ امریکا مسلسل مسلم ممالک کو تہہ و بالا کر رہا ہے، مسلمانوں کا خون آواز دے رہا ہے کہ کہاں ہیں ہمارے بھائی؟ دادرسی کے لیے کیوں نہیں آتے؟
شام، عراق اور روہنگیا و کشمیر کے مسلمانوں کے بے گور و کفن لاشے سر راہ پڑے ہیں، بھوک، پیاس سے بچے بلبلا رہے ہیں، خواتین کی عزت و ناموس کو تار تار کردیا گیا، ان حالات میں اسلامی غیرت کو تھپک تھپک کر کیوں سلا دیا گیا ہے۔ اس وقت اٹھ کھڑے ہونے کا وقت تھا جب بیت المقدس پر قبضہ کیا گیا اور مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکا کی ایما پر فلسطین میں اسرائیلیوں کو بسایا گیا اور فلسطینیوں کے لیے جگہ تنگ ہوتی چلی گئی۔
اس طرح کے حالات آج سے شروع نہیں ہوئے ہیں بلکہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اور ماہ و سال کے گزرتے گزرتے صلیبی اور عالمی جنگیں اپنا کام دکھا چکی تھیں، مغلیہ سلطنت کا زوال انگریزوں کا ہندوستان کو تباہ و برباد کرنا، یہ سب ایسے واقعات تھے جنھیں مدنظر رکھتے ہوئے سبق سیکھنے اور اتحاد و اتفاق کی شدید ضرورت تھی۔ اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی اور کمزوریوں کا احساس شدت سے تھا یہی دور ان کی شاعری میں در آیا ہے۔ وہ یورپ کی چال سے اچھی طرح واقف ہیں، ان اشعار پر توجہ فرمائیے:
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تقدیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ ٔ دشوار
ایک عظیم قلم کار وہی ہوتا ہے جس کی نگاہ دور تک دیکھتی اور اپنے فہم و ادراک کی بدولت دانشوری کے موتی رولتی ہے، علامہ اقبال نے گزشتہ حکومتوں سے یہ سوال کیا ہے:
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
حکومت اچھی طرح سمجھ گئی ہوگی کہ ''یہودی کی شرارت'' کا کیا مطلب ہے؟ اور کس یہودی کی بات ہو رہی ہے۔ امت مسلمہ کو دشمن کے ارادے، حکمت عملی اور اسلام دشمنی سے سبق سیکھنا چاہیے اور محض کانفرنس کرنے اور چالیس بیالیس ملکوں کے سربراہوں کا اکٹھا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اہمیت عمل کی ہوتی ہے وہ بھی ببانگ دہل ایسا اعلان اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جسے سن کر اور دیکھ کر دشمن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں کہ مسلمان بھی اپنے مقدس و متبرک مراکز کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
جب انسان میں مفاد پرستی اور احسان فراموشی کے جذبات پیدا ہوجائیں، تب اس کی نگاہ میں اپنے اکابرین کی عظمت و حشمت قائم نہیں رہتی ہے۔9 نومبر کی ہی طرح 6 ستمبر اور 11 ستمبر کی چھٹیاں بھی حکومت نے ختم کردیں، 6 ستمبر یوم دفاع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس دن کی چھٹی بھی بے حد اہم ہے، چھٹیاں کرنے کا مقصد نئی نسل کو تاریخی معلومات سے آگاہ کرنا اور ان کی سوچ میں وسعت اور اپنے ملک اور ملک کے معماروں اور محافظوں سے محبت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کے حوالے سے کئی ماہ قبل ممتاز افسانہ نگار شہناز پروین کا ایم فل کا مقابلہ بعنوان ''اقبال شناسی اور ماہنامہ نگار/ نگار پاکستان'' کتابی شکل میں شایع ہوا تھا، اس کی تقریب اجرا بھی ہوئی اور مقرر کی حیثیت سے میرا نام بھی شامل تھا، مجھے یہ کتاب اور اس کے چند اقتباسات یاد آگئے ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی اقبال سے گہری عقیدت و محبت کی عکاس ان کی تحریر ہے۔ وہ اپنے خطبہ صدارت میں فرماتے ہیں کہ ''اقبال اب اس درجے پر فائز ہیں، جہاں یہ حکم لگانا بے محل نہ ہوگا کہ جو اقبال کا معتقد نہیں وہ خود بے بہرہ ہے، کوئی شاعر یا آرٹسٹ وسیع اور حقیقی معنوں میں شاعر یا آرٹسٹ نہیں ہے، اگر وہ سارے جہاں کا شاعر یا آرٹسٹ نہ ہو۔ آپ اور میں اقبال کو مسلمان شاعر مانتے ہیں اور غلط نہیں مانتے اور نہ ایسا سمجھنا اقبال ہی نہیں کسی بڑے شاعر کی شان کے منافی ہے، اقبال کو میں انھی معنوں میں شاعر مانتا ہوں، جن معنوں میں اسلام کو سارے جہاں کا مذہب سمجھتا ہوں، میں تو اس کا قائل ہوں کہ ہم میں آپ میں جو لوگ اقبال سے ناواقف ہیں، یا اقبال کے قائل نہیں ہیں وہ نہ صرف غیر تعلیم یافتہ ہیں بلکہ غیر متمدن بھی ہیں۔''
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے خطبے میں علامہ اقبال کو بحیثیت مجموعی اردو شعرا کا امام قرار دیا اور یہ بھی فرمایا کہ ''ایک نامعلوم مدت تک اردو شاعری میں اقبال کی حیثیت خاتم الشعرا کی رہے تو تعجب نہیں''۔ انھیں اردو شاعری میں صرف علامہ اقبال کی شاعری'' علوم و مسائل تجربات و تحریکات'' کی طرف متوجہ کرتی نظر آتی ہے، جو اس وقت عالمگیر ہیں اور جن کی گرفت عام اور تعلیم یافتہ ذہنوں پر ہے۔علامہ اقبال نے کہا تھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
لیکن اس مرض کا علاج کسی بھی حکومت کے پاس نہیں تھا کہ وہ امریکا اور اس کی تہذیب و ثقافت کو عروج کی منزل تک نہ پہنچاتا، پاکستانی حکمران اور بے شمار پاکستانی حضرات امریکا کے سحر میں گرفتار ہیں اور ان کے احکام ماننے پر مجبور تو ہرگز نہ تھے، لیکن ان کے لیے ہر حکم پر ماتھا ٹیکنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
جنرل جاوید باجوہ نے صاف لفظوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتادیا ہے کہ اب پاکستان ''ڈو مور'' کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہے، بلکہ وہ بہت سی قربانیاں دے چکا ہے، فوجیوں نے شہادت کے تاج پہن لیے ہیں اور وہ جنت کے حسین باغوں کے مناظر میں محو ہیں اور اب امریکا کی باری ہے کہ وہ ڈو مور کا جذبہ لے کر آگے بڑھے اور خلوص دل کے ساتھ پاکستان کو بحران سے نکالے، ہندوستانی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا جائز حق دے اور موت کا امرت پلانے کے بجائے جینے کی راہوں کو ہموار کرے۔ لیکن مسلمانوں کی بھلائی کے لیے سوچنا امریکی حکمرانوں خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر کے لیے سو فیصد ناممکن ہے، سابقہ امریکی صدور نے بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا، اب تو سونے پر سہاگہ کہ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو دارالحکومت بناکر اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ بخشا اور اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسلامی دنیا میں نفرت و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
مسلم ممالک کا ردعمل سامنے آیا ہے، احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہوگئے ہیں، امریکا اور اسرائیل کے خلاف نفرت کا اظہار نعرے بازی اور احتجاج کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ سامنے آتا ہے کہ عرصہ دراز سے کیوں غفلت کی نیند میں مدہوش تھے، جب کہ امریکا مسلسل مسلم ممالک کو تہہ و بالا کر رہا ہے، مسلمانوں کا خون آواز دے رہا ہے کہ کہاں ہیں ہمارے بھائی؟ دادرسی کے لیے کیوں نہیں آتے؟
شام، عراق اور روہنگیا و کشمیر کے مسلمانوں کے بے گور و کفن لاشے سر راہ پڑے ہیں، بھوک، پیاس سے بچے بلبلا رہے ہیں، خواتین کی عزت و ناموس کو تار تار کردیا گیا، ان حالات میں اسلامی غیرت کو تھپک تھپک کر کیوں سلا دیا گیا ہے۔ اس وقت اٹھ کھڑے ہونے کا وقت تھا جب بیت المقدس پر قبضہ کیا گیا اور مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکا کی ایما پر فلسطین میں اسرائیلیوں کو بسایا گیا اور فلسطینیوں کے لیے جگہ تنگ ہوتی چلی گئی۔
اس طرح کے حالات آج سے شروع نہیں ہوئے ہیں بلکہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اور ماہ و سال کے گزرتے گزرتے صلیبی اور عالمی جنگیں اپنا کام دکھا چکی تھیں، مغلیہ سلطنت کا زوال انگریزوں کا ہندوستان کو تباہ و برباد کرنا، یہ سب ایسے واقعات تھے جنھیں مدنظر رکھتے ہوئے سبق سیکھنے اور اتحاد و اتفاق کی شدید ضرورت تھی۔ اقبال کو مسلمانوں کی زبوں حالی اور کمزوریوں کا احساس شدت سے تھا یہی دور ان کی شاعری میں در آیا ہے۔ وہ یورپ کی چال سے اچھی طرح واقف ہیں، ان اشعار پر توجہ فرمائیے:
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تقدیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ ٔ دشوار
ایک عظیم قلم کار وہی ہوتا ہے جس کی نگاہ دور تک دیکھتی اور اپنے فہم و ادراک کی بدولت دانشوری کے موتی رولتی ہے، علامہ اقبال نے گزشتہ حکومتوں سے یہ سوال کیا ہے:
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
حکومت اچھی طرح سمجھ گئی ہوگی کہ ''یہودی کی شرارت'' کا کیا مطلب ہے؟ اور کس یہودی کی بات ہو رہی ہے۔ امت مسلمہ کو دشمن کے ارادے، حکمت عملی اور اسلام دشمنی سے سبق سیکھنا چاہیے اور محض کانفرنس کرنے اور چالیس بیالیس ملکوں کے سربراہوں کا اکٹھا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اہمیت عمل کی ہوتی ہے وہ بھی ببانگ دہل ایسا اعلان اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جسے سن کر اور دیکھ کر دشمن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں کہ مسلمان بھی اپنے مقدس و متبرک مراکز کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔