یروشلم انسانوں کا مقدمہ
اپنے ناداروں کی ناداری مٹائیں اور بیت المقدس کی آزادی اور دشمنوں کی نابودی کا کام خدا پر چھوڑ دیں۔
درد و الم کا ایک تاریک کنواں جس میں آہستہ آہستہ اترنا ایک عذاب عظیم تھا۔ لباس پر خون کے تازہ دھبے تھے اور ہاتھوں میں ان بچوں کے بدن کے ٹکڑے جنھیں نفرت اور دہشت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، جن کے ہونٹوں سے ماں کے دودھ کی خوشبو آتی تھی۔
بندی خانوں میں بیگناہی کی سزا سہتے ہوئے نوجوان جن کی دریدہ لاشیں ان کی مائیں ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔ وہ نوجوان فلسطینی لڑکی سوزن ابوالہوا جسے فلسطینیوں پر گزرنے والے عذابوں نے ناول نگار بنادیا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ حنان اشروی تھیں جنھوں نے انٹرنیٹ پر اس کا ایک مضمون پڑھ کر ای میل کیا کہ ''بہت ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا مضمون ہے۔ ذاتی، فلسطینی اور انسان دوست۔ اس سے لگتا ہے تم بہت اچھی آپ بیتی لکھ سکتی ہو۔ ہمیں ایسے ہی بیانیہ کی ضرورت ہے، تم نے سوچا ہے اس بارے میں؟''
چنانچہ میرے اندر ابتدائی ہمت پیدا کرنے کی ذمے دار ڈاکٹر اشروی ہیں۔ ایک سال بعد میں جنین گئی جہاں کے پناہ گزین کیمپ سے قتل عام کی خبریں آرہی تھیں اور وہ کیمپ فوجی زون قرار دے کر دنیا بھر کے اخباری نمائندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بند کر دیا گیا تھا۔ وہاں میں نے جو خون خرابہ دیکھا اس نے مجھے جلد سے جلد یہ کہانی لکھنے پر مجبور کردیا۔ جنین کے رہنے والوں کی استقامت، جرأت اور ان کی انسانیت نے مجھے انسپریشن دی''۔
اس کے ناول ''زخم کا نشان'' (مترجم مسعود اشعر) کی ہیروئن نے عرصۂ دراز سے یروشلم کو نہیں دیکھا، وہاں قدم نہیں رکھا، اس لیے کہ فلسطینیوں کو یروشلم جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان میں فلسطینی مسلمان، عیسائی، آئرستانی اور آرتھوڈکس چرچ کو ماننے والے سب ہی شامل تھے۔ وہ اپنے مرحوم والد کے آئرش دوست کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے میں داخل ہونے کے لیے جارہی ہے اور یقیناً یہ ایک نہایت اہم واقعہ ہے جو کسی غریب فلسطینی لڑکی کو پیش آیا ہے۔ اس کا عیسائی چچا اسے دور سے یروشلم کا دیدار کراتا ہے۔
قبۃ الضحرا۔ الاقصیٰ۔ وہ اندرون شہر تنگ گلیوں سے گزرتی ہے جن کے دونوں طرف پتھروں سے بنی ہوئی حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے کی دیواریں ہیں۔ آخرکار منہ بولا عیسائی چچا اور مسلمان فلسطینی بھتیجی سات محرابوں کے نیچے بنے ہوئے یہودیوں کے ایک پرانے قبرستان کے پاس ٹھہر جاتے ہیں۔
تب وہ کہتی ہے: ''یروشلم کا نام آتے ہی میں بہت جذباتی ہوجاتی ہوں۔ حالانکہ میں اس سے نفرت بھی کرتی ہوں۔ اس نے کتنے ہی انسانوں کی قربانیاں لی ہیں۔ مگر اسے دیکھتے ہی، چاہے وہ دور سے ہو یا اس کی بھول بھلیوں کے اندر سے، میرے اندر کچھ پگھلنے سا لگتا ہے۔ اس کا ایک ایک چپہ اپنے اندر قدیم تہذیبوں کا اعتماد چھپائے ہوئے ہے۔ ان تہذیبوں کی موت اور ان کی پیداش کے نقوش شہر کے ایک اک پتھر پر ثبت ہیں۔ مقدس ہستیوں اور پُرتقصیر لوگوں، دونوں نے اس کی ریت پر قدم رکھے ہیں۔ اسے اتنی بار فتح کیا گیا، اس پر قبضہ اتنی بار کیا گیا اور اسے اتنی بار مسمار کیا گیا کہ اس کے ہر پتھر پر ایک تاریخ رقم ہوگئی ہے۔ اس کے ایک ایک قدم پر متبرک عبادتوں اور خونی جنگوں کے نشان موجود ہیں۔ مگر پھر بھی اللہ جانے کیوں، صدیوں کی جنگ و جدل کے باوجود یہاں سے انسانیت نوازی کی خوشبو پھوٹی پڑتی ہے۔ یہ جگہ میرے اندر اپنائیت اور انسیت کا لازوال جذبہ بیدار کرتی ہے۔ ایک نازک اور ناقابل شکست جذبہ۔ اس پر خواہ کوئی بھی قبضہ کرلے یہ میری اپنی جگہ ہے۔ کیونکہ اس کی زمین میں، اس کی مٹی میں میری جڑیں پیوست ہیں۔ میں اس سرزمین کی بیٹی ہوں۔ یروشلم میرے اس ناقابل تردید دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ میرا یہ دعویٰ ہماری جائیدادوں کی کرم خوردہ دستاویزوں، عثمانیہ دور کی زمین کی رجسٹریوں، ہمارے چوری کیے ہوئے گھروں کی فولادی کنجیوں، یا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور سپر پاورز کے احکام سے بھی زیادہ لازوال ہے''۔
سوزن ابوالہوا نے اپنے لفظوں سے انسان پر انسان کے ظلم و تعدی کا جو عمیق اور ناقابلِ یقین کنواں کھودا ہے، ہم اس کی گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں، ہمارے چہرے آنسوؤں سے بھیگ جاتے ہیں اور ہمارے ہاتھ ان لوگوں کے خون سے تر ہوجاتے ہیں، جنھیں ہم نے قتل نہیں کیا اور ہمارے اندر ٹکڑے ہوجانے والے ان بچوں کے لبوں کی خوشبو بس جاتی ہے جن پر ان کی ماؤں کی دودھ کی بوندیں ہیں۔
ہم انسانی خون کی بساند اور بچوں کے ہونٹوں سے آنے والی دودھ کی خوشبو سے بھاگ کر کہاں جائیں؟ ہم ڈپریشن کے اس کنویں سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں کہ دنیا بھر کے ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن چیخنے لگتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ بیت المقدس جو دنیا کے تین عظیم مذاہب کا مقدس مقام ہے، وہ اب صرف یہودیوں کا ہوا۔ یروشلم کے نام سے کان نوعمری سے آشنا ہیں۔ یروشلم کی آزادی کے لیے ہر جمعہ کو ہماری مسجدوں سے یہ دعائیہ کلمات بلند ہوتے رہے ہیں کہ ''یا اللہ بیت المقدس کو آزاد فرما۔''
بیت المقدس جو یروشلم کا دوسرا نام ہے۔ذہن اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ اگر یروشلم یا بیت المقدس کو آزاد کرانے اور یہود و ہنود ونصاریٰ کو برباد کرنے کا کام بھی ساتویں آسمان پر بیٹھے ہوئے خدا کو کرنا ہے تو دنیا کے 52 سے زیادہ مسلمان ملک اپنی افواج پر خطیر رقم کیوں خرچ کرتے ہیں؟ وہ اپنے ناداروں کی ناداری مٹائیں اور بیت المقدس کی آزادی اور دشمنوں کی نابودی کا کام خدا پر چھوڑ دیں۔
ذہن رفتہ رفتہ، حکمرانوں کی زمانہ سازی اور مسلم اُمّہ کی مجبوریوں کو سمجھنا شروع کرتا ہے اور یروشلم کی آزادی ایک خواب سراب بن جاتی ہے۔ کبھی شام کے اخبار اس کی آزادی کے بارے میں کوئی چھوٹی سی خبر لگاتے ہیں اور انھیں بیچنے والے لڑکے چیخ چیخ کر اس اخبار کو اٹھنی یا ایک روپے میں بیچتے ہیں۔ مفلوک الحال خریدار پان کی پیک سے کسی پیپل کے پیڑ کو رنگتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کی خبر ڈھونڈتے ہیں اور ناکام و نامراد ہوکر اپنی محنت کی کمائی کے زیاں پر اخبار کے مالک اور مدیر کو ثقیل سی گالی دے کر دل ٹھنڈا کرتے ہیں اور اس جھونپڑ پٹی کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے اور ان کی آل اولاد کے لیے روشنی کی کرن بھی نہیں۔
یروشلم، فلسطینیوں کے لیے بے وطنی اور دربہ دری کا نام ہے جب کہ مسلم اُمّہ کے لیے ایک رومانوی تصور ۔ قبلہ اول جسے غیروں کے قبضے سے چھڑانا ہے اور روز قیامت خدا کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔فلسطینیوں کو ان کا چھینا ہوا وطن تو کیا ملتا۔ وہ پسپا ہوتے چلے گئے۔ اپنوں کی ہوسِ اقتدار کے ہاتھوں۔ کسی مسلمان بادشاہ نے اپنا تخت بچانے کے لیے انھیں دریا کے کنارے سے دھکیلا اور کسی مسلمان سالار اعظم نے 'ستارئہ اردن' کا ریشمی نیلگوں پٹکا اپنی وردی پر سجانے کے عوض فلسطینیوں کے قتل اور پسپائی میں اپنا حصہ ڈالا۔
اسرائیل سے وہ لڑائی جو فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں نے مل کر لڑی تھی۔ ایڈورڈ سعید، جارج حباش، لیلیٰ خالد، حنان اشروی اور متعدد عیسائی فلسطینیوں نے جس میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ یاسر عرفات جن سب کے متفقہ رہنما تھے۔ اس شاندار جدوجہد کو مذہب کے خنجر سے ادھیڑ دیا گیا۔ آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد جو ایک قومی اور سیاسی جدوجہد تھی وہ کفر واسلام کی جنگ میں بدل گئی۔ ایڈورڈ سعید دوسری دنیا کو سدھارے اور دوسرے عیسائی فلسطینیوں نے ایک سیاسی جدوجہد سے رفتہ رفتہ کنارہ کشی اختیار کی۔
وہ لیلیٰ خالد جس نے فلسطین کے الم ناک مقدمے کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے مسافروں سے بھرا ہوا ایک جہاز اغوا کیا تھا اور ساری دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ اس کی ڈائری کا ترجمہ کشور ناہید نے کیا تھا جس میں اس نے کہا تھا: ''مجھ سے میری سرزمین چھین لی گئی اور مجھ سے میرے حال اور مستقبل دونوں کا وجود نفی کردیا گیا۔ مگر میں جذباتیت کے ہاتھوں زندہ در گور ہونے کو تیار نہیں۔ کہ میرے اندر کا اعتماد مجھے اپنی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کی جانب لیے چلتا ہے۔ دشمن کی بے پناہ قوت کے باوجود میں نظریات اور حربی قوتوں پہ یقین رکھتے ہوئے عوام میں تحریک پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گی''۔
ہماری آج کی نسل کے لیے جارج حباش اور لیلیٰ خالد بھولے بسرے نام ہیں لیکن اب سے لگ بھگ 40 برس پہلے ان فلسطینیوں کے نام ایک الوہی روشنی سے درخشاں نظر آتے تھے۔ ان کے بعد مکالمے اور سفارت کاری کے محاذ پر حنان اشروی سامنے آئیں جو عقیدے کے اعتبار سے عیسائی تھیں اور فلسطینیوں کے حقوق کی سب سے بڑی وکیل ، وہ بھی پسپا ہوئیں اس لیے کہ انھیں بتایا گیا کہ یہ مقدمہ مسلمان لڑیں گے اور پھر اس لڑائی میں فلسطینیوں پر جو کوہ ستم ٹوٹا، وہ ہم سب جانتے ہیں اور آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کے مقدر کا فیصلہ کر دیا۔(جاری ہے)
بندی خانوں میں بیگناہی کی سزا سہتے ہوئے نوجوان جن کی دریدہ لاشیں ان کی مائیں ڈھونڈتی پھرتی تھیں۔ وہ نوجوان فلسطینی لڑکی سوزن ابوالہوا جسے فلسطینیوں پر گزرنے والے عذابوں نے ناول نگار بنادیا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ حنان اشروی تھیں جنھوں نے انٹرنیٹ پر اس کا ایک مضمون پڑھ کر ای میل کیا کہ ''بہت ہی رونگٹے کھڑے کردینے والا مضمون ہے۔ ذاتی، فلسطینی اور انسان دوست۔ اس سے لگتا ہے تم بہت اچھی آپ بیتی لکھ سکتی ہو۔ ہمیں ایسے ہی بیانیہ کی ضرورت ہے، تم نے سوچا ہے اس بارے میں؟''
چنانچہ میرے اندر ابتدائی ہمت پیدا کرنے کی ذمے دار ڈاکٹر اشروی ہیں۔ ایک سال بعد میں جنین گئی جہاں کے پناہ گزین کیمپ سے قتل عام کی خبریں آرہی تھیں اور وہ کیمپ فوجی زون قرار دے کر دنیا بھر کے اخباری نمائندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بند کر دیا گیا تھا۔ وہاں میں نے جو خون خرابہ دیکھا اس نے مجھے جلد سے جلد یہ کہانی لکھنے پر مجبور کردیا۔ جنین کے رہنے والوں کی استقامت، جرأت اور ان کی انسانیت نے مجھے انسپریشن دی''۔
اس کے ناول ''زخم کا نشان'' (مترجم مسعود اشعر) کی ہیروئن نے عرصۂ دراز سے یروشلم کو نہیں دیکھا، وہاں قدم نہیں رکھا، اس لیے کہ فلسطینیوں کو یروشلم جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان میں فلسطینی مسلمان، عیسائی، آئرستانی اور آرتھوڈکس چرچ کو ماننے والے سب ہی شامل تھے۔ وہ اپنے مرحوم والد کے آئرش دوست کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے میں داخل ہونے کے لیے جارہی ہے اور یقیناً یہ ایک نہایت اہم واقعہ ہے جو کسی غریب فلسطینی لڑکی کو پیش آیا ہے۔ اس کا عیسائی چچا اسے دور سے یروشلم کا دیدار کراتا ہے۔
قبۃ الضحرا۔ الاقصیٰ۔ وہ اندرون شہر تنگ گلیوں سے گزرتی ہے جن کے دونوں طرف پتھروں سے بنی ہوئی حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے کی دیواریں ہیں۔ آخرکار منہ بولا عیسائی چچا اور مسلمان فلسطینی بھتیجی سات محرابوں کے نیچے بنے ہوئے یہودیوں کے ایک پرانے قبرستان کے پاس ٹھہر جاتے ہیں۔
تب وہ کہتی ہے: ''یروشلم کا نام آتے ہی میں بہت جذباتی ہوجاتی ہوں۔ حالانکہ میں اس سے نفرت بھی کرتی ہوں۔ اس نے کتنے ہی انسانوں کی قربانیاں لی ہیں۔ مگر اسے دیکھتے ہی، چاہے وہ دور سے ہو یا اس کی بھول بھلیوں کے اندر سے، میرے اندر کچھ پگھلنے سا لگتا ہے۔ اس کا ایک ایک چپہ اپنے اندر قدیم تہذیبوں کا اعتماد چھپائے ہوئے ہے۔ ان تہذیبوں کی موت اور ان کی پیداش کے نقوش شہر کے ایک اک پتھر پر ثبت ہیں۔ مقدس ہستیوں اور پُرتقصیر لوگوں، دونوں نے اس کی ریت پر قدم رکھے ہیں۔ اسے اتنی بار فتح کیا گیا، اس پر قبضہ اتنی بار کیا گیا اور اسے اتنی بار مسمار کیا گیا کہ اس کے ہر پتھر پر ایک تاریخ رقم ہوگئی ہے۔ اس کے ایک ایک قدم پر متبرک عبادتوں اور خونی جنگوں کے نشان موجود ہیں۔ مگر پھر بھی اللہ جانے کیوں، صدیوں کی جنگ و جدل کے باوجود یہاں سے انسانیت نوازی کی خوشبو پھوٹی پڑتی ہے۔ یہ جگہ میرے اندر اپنائیت اور انسیت کا لازوال جذبہ بیدار کرتی ہے۔ ایک نازک اور ناقابل شکست جذبہ۔ اس پر خواہ کوئی بھی قبضہ کرلے یہ میری اپنی جگہ ہے۔ کیونکہ اس کی زمین میں، اس کی مٹی میں میری جڑیں پیوست ہیں۔ میں اس سرزمین کی بیٹی ہوں۔ یروشلم میرے اس ناقابل تردید دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ میرا یہ دعویٰ ہماری جائیدادوں کی کرم خوردہ دستاویزوں، عثمانیہ دور کی زمین کی رجسٹریوں، ہمارے چوری کیے ہوئے گھروں کی فولادی کنجیوں، یا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور سپر پاورز کے احکام سے بھی زیادہ لازوال ہے''۔
سوزن ابوالہوا نے اپنے لفظوں سے انسان پر انسان کے ظلم و تعدی کا جو عمیق اور ناقابلِ یقین کنواں کھودا ہے، ہم اس کی گہرائیوں میں اترتے چلے جاتے ہیں، ہمارے چہرے آنسوؤں سے بھیگ جاتے ہیں اور ہمارے ہاتھ ان لوگوں کے خون سے تر ہوجاتے ہیں، جنھیں ہم نے قتل نہیں کیا اور ہمارے اندر ٹکڑے ہوجانے والے ان بچوں کے لبوں کی خوشبو بس جاتی ہے جن پر ان کی ماؤں کی دودھ کی بوندیں ہیں۔
ہم انسانی خون کی بساند اور بچوں کے ہونٹوں سے آنے والی دودھ کی خوشبو سے بھاگ کر کہاں جائیں؟ ہم ڈپریشن کے اس کنویں سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں کہ دنیا بھر کے ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن چیخنے لگتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ بیت المقدس جو دنیا کے تین عظیم مذاہب کا مقدس مقام ہے، وہ اب صرف یہودیوں کا ہوا۔ یروشلم کے نام سے کان نوعمری سے آشنا ہیں۔ یروشلم کی آزادی کے لیے ہر جمعہ کو ہماری مسجدوں سے یہ دعائیہ کلمات بلند ہوتے رہے ہیں کہ ''یا اللہ بیت المقدس کو آزاد فرما۔''
بیت المقدس جو یروشلم کا دوسرا نام ہے۔ذہن اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ اگر یروشلم یا بیت المقدس کو آزاد کرانے اور یہود و ہنود ونصاریٰ کو برباد کرنے کا کام بھی ساتویں آسمان پر بیٹھے ہوئے خدا کو کرنا ہے تو دنیا کے 52 سے زیادہ مسلمان ملک اپنی افواج پر خطیر رقم کیوں خرچ کرتے ہیں؟ وہ اپنے ناداروں کی ناداری مٹائیں اور بیت المقدس کی آزادی اور دشمنوں کی نابودی کا کام خدا پر چھوڑ دیں۔
ذہن رفتہ رفتہ، حکمرانوں کی زمانہ سازی اور مسلم اُمّہ کی مجبوریوں کو سمجھنا شروع کرتا ہے اور یروشلم کی آزادی ایک خواب سراب بن جاتی ہے۔ کبھی شام کے اخبار اس کی آزادی کے بارے میں کوئی چھوٹی سی خبر لگاتے ہیں اور انھیں بیچنے والے لڑکے چیخ چیخ کر اس اخبار کو اٹھنی یا ایک روپے میں بیچتے ہیں۔ مفلوک الحال خریدار پان کی پیک سے کسی پیپل کے پیڑ کو رنگتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کی خبر ڈھونڈتے ہیں اور ناکام و نامراد ہوکر اپنی محنت کی کمائی کے زیاں پر اخبار کے مالک اور مدیر کو ثقیل سی گالی دے کر دل ٹھنڈا کرتے ہیں اور اس جھونپڑ پٹی کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کے اور ان کی آل اولاد کے لیے روشنی کی کرن بھی نہیں۔
یروشلم، فلسطینیوں کے لیے بے وطنی اور دربہ دری کا نام ہے جب کہ مسلم اُمّہ کے لیے ایک رومانوی تصور ۔ قبلہ اول جسے غیروں کے قبضے سے چھڑانا ہے اور روز قیامت خدا کے سامنے سرخرو ہونا ہے۔فلسطینیوں کو ان کا چھینا ہوا وطن تو کیا ملتا۔ وہ پسپا ہوتے چلے گئے۔ اپنوں کی ہوسِ اقتدار کے ہاتھوں۔ کسی مسلمان بادشاہ نے اپنا تخت بچانے کے لیے انھیں دریا کے کنارے سے دھکیلا اور کسی مسلمان سالار اعظم نے 'ستارئہ اردن' کا ریشمی نیلگوں پٹکا اپنی وردی پر سجانے کے عوض فلسطینیوں کے قتل اور پسپائی میں اپنا حصہ ڈالا۔
اسرائیل سے وہ لڑائی جو فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں نے مل کر لڑی تھی۔ ایڈورڈ سعید، جارج حباش، لیلیٰ خالد، حنان اشروی اور متعدد عیسائی فلسطینیوں نے جس میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ یاسر عرفات جن سب کے متفقہ رہنما تھے۔ اس شاندار جدوجہد کو مذہب کے خنجر سے ادھیڑ دیا گیا۔ آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد جو ایک قومی اور سیاسی جدوجہد تھی وہ کفر واسلام کی جنگ میں بدل گئی۔ ایڈورڈ سعید دوسری دنیا کو سدھارے اور دوسرے عیسائی فلسطینیوں نے ایک سیاسی جدوجہد سے رفتہ رفتہ کنارہ کشی اختیار کی۔
وہ لیلیٰ خالد جس نے فلسطین کے الم ناک مقدمے کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے مسافروں سے بھرا ہوا ایک جہاز اغوا کیا تھا اور ساری دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ اس کی ڈائری کا ترجمہ کشور ناہید نے کیا تھا جس میں اس نے کہا تھا: ''مجھ سے میری سرزمین چھین لی گئی اور مجھ سے میرے حال اور مستقبل دونوں کا وجود نفی کردیا گیا۔ مگر میں جذباتیت کے ہاتھوں زندہ در گور ہونے کو تیار نہیں۔ کہ میرے اندر کا اعتماد مجھے اپنی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کی جانب لیے چلتا ہے۔ دشمن کی بے پناہ قوت کے باوجود میں نظریات اور حربی قوتوں پہ یقین رکھتے ہوئے عوام میں تحریک پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گی''۔
ہماری آج کی نسل کے لیے جارج حباش اور لیلیٰ خالد بھولے بسرے نام ہیں لیکن اب سے لگ بھگ 40 برس پہلے ان فلسطینیوں کے نام ایک الوہی روشنی سے درخشاں نظر آتے تھے۔ ان کے بعد مکالمے اور سفارت کاری کے محاذ پر حنان اشروی سامنے آئیں جو عقیدے کے اعتبار سے عیسائی تھیں اور فلسطینیوں کے حقوق کی سب سے بڑی وکیل ، وہ بھی پسپا ہوئیں اس لیے کہ انھیں بتایا گیا کہ یہ مقدمہ مسلمان لڑیں گے اور پھر اس لڑائی میں فلسطینیوں پر جو کوہ ستم ٹوٹا، وہ ہم سب جانتے ہیں اور آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کے مقدر کا فیصلہ کر دیا۔(جاری ہے)