پاکستان میںچاول پیداوارکمبرآمدات میں ریکوری کاامکان
ایشیا میںچاول کی پیداوار0.4 فیصد کے اضافےسے 65کروڑ 70 لاکھ ٹن رہے گی
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت (ایف اے او) نے خاص طور پر بھارت اورعمومی طور پر پاکستان سمیت ایشیا بھر میں چاول کی پیداوار میں کمی کے خدشات پر رواں سال کے لیے اپریل کی پیش گوئی پر نظرثانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں سال چاول کی عالمی پیداوار گزشتہ جائزے سے 78لاکھ ٹن کم رہے گی۔
گزشتہ روز جاری رائس ماریٹ مانیٹر نامی رپورٹ کے مطابق جولائی کے وسط تک بھارت میں بارشوں میں22 فیصد کمی سے پیداوار کم رہنے کا خدشہ ہے جبکہ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، شمالی کوریا، جنوبی کوریا، برازیل، کمبوڈیا اور مالی میں بھی چاول کی پیداوار میں کمی آئے گی، دوسری طرف چین، انڈونیشیا، تنزانیہ، تھائی لینڈ اور امریکا میں پیداوار میں اضافے کاامکان ہے تاہم مجموعی طور پر عالمی پیداوار 72 کروڑ 45 لاکھ ٹن پیڈی (48کروڑ31لاکھ ٹن ملڈ)رہنے کی امید ہے
جو 2011 کے مقابلے میں معمولی زیادہ ہے، ایشیا میں پیداوار 0.4 فیصد کے اضافے سے 65کروڑ 70 لاکھ ٹن رہے گی، یہ معمولی اضافہ بھارت، تائیوان، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں خراب سیزن کا نتیجہ ہے ورنہ اپریل تک کی پیشگوئی کے تحت پیداوار میں نمایاں اضافے کا امکان تھا۔ رپورٹ کے مطابق افریقہ میں پیداوار3فیصد بڑھنے کا امکان ہے، لاطینی امریکا وکیبریبین میں پیداوار کم، آسٹریلیا میں 32فیصد زیادہ، امریکا میں ریکوری اور یورپی یونین میں کم رہنے کاامکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق چاول کے تجارتی حجم کے جائزے پر بھی نظرثانی کرتے ہوئے اسے 1لاکھ 60 ہزار ٹن کمی سے 3 کروڑ 42لاکھ ٹن رہنے کا امکان ظاہر کیاگیا ہے جو 2011 کی تجارت سے 10 لاکھ ٹن کم ہے، چین، انڈونیشیا وایران کی درآمدات میں کمی ہوئی جبکہ پاکستان، تھائی لینڈ اور ویتنام کی برآمدات میں کمی آئی ہے تاہم تھائی لینڈ، چین، ارجنٹائن، برازیل، میانمار، یوراگوئے اور ویتنام کی برآمدات میں کمی کے باعث پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور امریکا کی برآمدات بڑھ سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چاول کا عالمی استعمال سال 2012-13 میں60 لاکھ ٹن اضافے سے 47 کروڑ 40 لاکھ ٹن اور فی کس کھپت 56.6 کلوسالانہ رہنے کاامکان ہے جبکہ 2012-13 میں سیزن کے اختتام پر چاول کے ذخائر 2 لاکھ ٹن اضافے سے 16 کروڑ 45 لاکھ ٹن (ملڈ) رہنے کی امید ہے جو گزشتہ سیزن سے 6 فیصد زیادہ ہوگا۔
رپورٹ میں مئی میں 2 فیصد کے بعد سے چاول کی عالمی قیمتوں مین استحکام کا حوالے دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چاول کے وافر ذخائر کی وجہ سے آئندہ مہینوں میں قیمتوں میںنمایاں اضافے میں امکان نہیں تاہم غیریقینی کے باعث واضح طور پر مستقبل کی سمت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ روز جاری رائس ماریٹ مانیٹر نامی رپورٹ کے مطابق جولائی کے وسط تک بھارت میں بارشوں میں22 فیصد کمی سے پیداوار کم رہنے کا خدشہ ہے جبکہ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، شمالی کوریا، جنوبی کوریا، برازیل، کمبوڈیا اور مالی میں بھی چاول کی پیداوار میں کمی آئے گی، دوسری طرف چین، انڈونیشیا، تنزانیہ، تھائی لینڈ اور امریکا میں پیداوار میں اضافے کاامکان ہے تاہم مجموعی طور پر عالمی پیداوار 72 کروڑ 45 لاکھ ٹن پیڈی (48کروڑ31لاکھ ٹن ملڈ)رہنے کی امید ہے
جو 2011 کے مقابلے میں معمولی زیادہ ہے، ایشیا میں پیداوار 0.4 فیصد کے اضافے سے 65کروڑ 70 لاکھ ٹن رہے گی، یہ معمولی اضافہ بھارت، تائیوان، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں خراب سیزن کا نتیجہ ہے ورنہ اپریل تک کی پیشگوئی کے تحت پیداوار میں نمایاں اضافے کا امکان تھا۔ رپورٹ کے مطابق افریقہ میں پیداوار3فیصد بڑھنے کا امکان ہے، لاطینی امریکا وکیبریبین میں پیداوار کم، آسٹریلیا میں 32فیصد زیادہ، امریکا میں ریکوری اور یورپی یونین میں کم رہنے کاامکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق چاول کے تجارتی حجم کے جائزے پر بھی نظرثانی کرتے ہوئے اسے 1لاکھ 60 ہزار ٹن کمی سے 3 کروڑ 42لاکھ ٹن رہنے کا امکان ظاہر کیاگیا ہے جو 2011 کی تجارت سے 10 لاکھ ٹن کم ہے، چین، انڈونیشیا وایران کی درآمدات میں کمی ہوئی جبکہ پاکستان، تھائی لینڈ اور ویتنام کی برآمدات میں کمی آئی ہے تاہم تھائی لینڈ، چین، ارجنٹائن، برازیل، میانمار، یوراگوئے اور ویتنام کی برآمدات میں کمی کے باعث پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور امریکا کی برآمدات بڑھ سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چاول کا عالمی استعمال سال 2012-13 میں60 لاکھ ٹن اضافے سے 47 کروڑ 40 لاکھ ٹن اور فی کس کھپت 56.6 کلوسالانہ رہنے کاامکان ہے جبکہ 2012-13 میں سیزن کے اختتام پر چاول کے ذخائر 2 لاکھ ٹن اضافے سے 16 کروڑ 45 لاکھ ٹن (ملڈ) رہنے کی امید ہے جو گزشتہ سیزن سے 6 فیصد زیادہ ہوگا۔
رپورٹ میں مئی میں 2 فیصد کے بعد سے چاول کی عالمی قیمتوں مین استحکام کا حوالے دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چاول کے وافر ذخائر کی وجہ سے آئندہ مہینوں میں قیمتوں میںنمایاں اضافے میں امکان نہیں تاہم غیریقینی کے باعث واضح طور پر مستقبل کی سمت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔