ہائے غربت باپ نے دومعصوم بچیوں کو نہر میں پھینک دیا
بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری نہ کرپانے کے دکھ نے اس نہج پر پہنچا دیا، ملزم
اولاد قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے، جس کی خوشیوں کے لئے والدین اپنی جان تک نچھاور کر دیتے ہیں، لیکن بے روز گاری اور غربت وہ لعنت ہے، جس کی نحوست سے اولاد بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ گوجرانوالہ میں پیش آیا جہاں پر محنت کش نے غربت و لاچاری کے باعث اپنی د و کم سن بیٹیوں کو نہر میں پھینک کر قتل کردیا۔
یہ 17 نومبر جمعتہ المبارک کا مبارک دن تھا، بند مارکیٹس کے باعث کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث اِس دن مزدور بھی چھٹی کرتے ہیں۔ اس روز شام کے وقت دو چھوٹے بچے روتے ہوئے سڑک پر دوڑتے جا رہے تھے کہ ہمیں بچاؤ، ہمیں ابو سے بچاؤ۔ راستہ میں لوگوں نے پوچھاکہ کیا ہوا ہے؟ تو بچوں نے بتایاکہ ان کے ابو نے ان کو نہر میں پھینکنے کی کوشش کی ہے اور ہم سے پہلے ہماری دو بہنوں دو سالہ حرم اور آٹھ ماہ کی زینب کو نہر میں پھینک بھی دیا ہے۔
لوگ یہ بات سن کر چونک گئے اور بچوں سے پوچھا کہ ابو کہاں ہیں؟ تو انہوں نے بتایاکہ وہ نہر کے پاس بیٹھے ہیں۔ لوگ وہاں پہنچے تو سلیم کالونی کا رہائشی مبین نامی شخص بیٹھا تھا، جس نے لوگوں کو صاف بتادیا کہ اس نے اپنی دو بیٹیوں کو نہر برد کردیا ہے۔ شہریوں نے فوری ریسکیو 1122 اور پولیس کو فون کردیے۔ ریسکیو ٹیموں نے فوری موقع پر پہنچ کر اپنا کام شروع کردیا۔ پولیس نے پہلے تو اعتبار ہی نہ کیا لیکن مبین نے کہا ہاں اس نے پھینکا ہے اور وہ دوسرے بچوں کو مارنا چاہتا تھا کیوں کہ وہ زندگی سے بہت تنگ آ گیا ہے۔
ایس ایچ او تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن محسن مجید جٹھول نے ایس پی سول لائن کو فون پر صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ بھی موقع پر پہنچ گئے اور مبین کو حراست میں لے کر اس کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لیا اور ان کے گھرجا کر اطلاع کی جس پر ماں کی چیخیں نکل گئیں، جسے سن کر محلے والے جمع ہوگئے، ایس پی سول لائن اور ایس ایچ او نے خاتون خانہ سے بات کی تو اس نے کہا وہ بڑے پیار سے بچوں کو ساتھ لے کر گیا کہ ان کو دکان سے کھانے پینے کی اشیا لے کر دے گا اور آتے ہوئے ان کے لیے گوشت لائے گا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ وہ میری گود اجاڑ نے لگاہے تو کبھی نہ جانے دیتی۔
مبین کی اہلیہ فائقہ کے مطابق ان کے پانچ بچے (چار بیٹیاں اور ایک بیٹا) ہیں، جن میں سے دو کو مبین نے نہر میں پھینک دیا۔ ریسکیو اہلکار، ڈی او ریسکیو عمر گھمن کی نگرانی میں رات گئے تک کام کرتے رہے مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔ رات میں مناسب لائٹس نہ ہونے پر آپریشن موخر کر دیا، اگلے روز شام کے وقت ریسکیو اہلکاروں کو ایک کامیابی ملی اور نہر اپر چناب واپڈا ٹاؤن کے پاس سے چھوٹی آٹھ ماہ کی زینب کی نعش مل گئی۔ بچی کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال لے جایا گیا ایس ایچ او سیٹلائٹ ٹاؤن محسن مجید جٹھول نے ملزم کی اہلیہ فائقہ کی مدعیت میں دونوں بیٹیوں کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔
دوسری بچی کی نعش کے تلاش جاری رہی اور بالآخر پانچویں روز ریسکیو کی غوطہ خور ٹیم کو کامیابی مل گئی۔ ایس پی سول لائن محمد افضل نے بتایا کہ ملزم نے کہا کہ وہ اپنے ہوش میں نہ تھا اسے پتا ہی نہ چلا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ ہم اس کا طبی معائنہ بھی کروائیں گے۔ اکثر ایسے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جو کہ کسی کا غصہ اپنے بچوں اور اہلیہ پر نکالتے ہیں۔
چائلڈ پروٹیکشن آفیسر شفیق رتیال نے گھر پہنچ کر مقتول بچیوں کی والدہ سے افسوس کیا اور پیش کش کی کہ اگر وہ بچوں کی کفالت نہیں کرسکتے تو وہ باقی تین بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن کی تحویل میں دے سکتی ہیں تاکہ بچے اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکیں۔
شفیق رتیال نے کہا کہ ابھی والدہ نے وقت مانگا ہے۔ اس ضمن میں ملزم مبین کا کہنا ہے کہ وہ ہر وقت پریشان رہتا تھا، بچے چھوٹی چھوٹی خواہشات کرتے جو وہ پوری نہ کرپاتا۔ میری بیوی بھی گھر وں میں کام کرکے مدد کرنا چاہتی تھی مگر سب بے سود رہا، یہ سب سوچتے سوچتے میں اس نہج پر پہنچ گیا۔
یہ 17 نومبر جمعتہ المبارک کا مبارک دن تھا، بند مارکیٹس کے باعث کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے باعث اِس دن مزدور بھی چھٹی کرتے ہیں۔ اس روز شام کے وقت دو چھوٹے بچے روتے ہوئے سڑک پر دوڑتے جا رہے تھے کہ ہمیں بچاؤ، ہمیں ابو سے بچاؤ۔ راستہ میں لوگوں نے پوچھاکہ کیا ہوا ہے؟ تو بچوں نے بتایاکہ ان کے ابو نے ان کو نہر میں پھینکنے کی کوشش کی ہے اور ہم سے پہلے ہماری دو بہنوں دو سالہ حرم اور آٹھ ماہ کی زینب کو نہر میں پھینک بھی دیا ہے۔
لوگ یہ بات سن کر چونک گئے اور بچوں سے پوچھا کہ ابو کہاں ہیں؟ تو انہوں نے بتایاکہ وہ نہر کے پاس بیٹھے ہیں۔ لوگ وہاں پہنچے تو سلیم کالونی کا رہائشی مبین نامی شخص بیٹھا تھا، جس نے لوگوں کو صاف بتادیا کہ اس نے اپنی دو بیٹیوں کو نہر برد کردیا ہے۔ شہریوں نے فوری ریسکیو 1122 اور پولیس کو فون کردیے۔ ریسکیو ٹیموں نے فوری موقع پر پہنچ کر اپنا کام شروع کردیا۔ پولیس نے پہلے تو اعتبار ہی نہ کیا لیکن مبین نے کہا ہاں اس نے پھینکا ہے اور وہ دوسرے بچوں کو مارنا چاہتا تھا کیوں کہ وہ زندگی سے بہت تنگ آ گیا ہے۔
ایس ایچ او تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن محسن مجید جٹھول نے ایس پی سول لائن کو فون پر صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ بھی موقع پر پہنچ گئے اور مبین کو حراست میں لے کر اس کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لیا اور ان کے گھرجا کر اطلاع کی جس پر ماں کی چیخیں نکل گئیں، جسے سن کر محلے والے جمع ہوگئے، ایس پی سول لائن اور ایس ایچ او نے خاتون خانہ سے بات کی تو اس نے کہا وہ بڑے پیار سے بچوں کو ساتھ لے کر گیا کہ ان کو دکان سے کھانے پینے کی اشیا لے کر دے گا اور آتے ہوئے ان کے لیے گوشت لائے گا، اگر اسے معلوم ہوتا کہ وہ میری گود اجاڑ نے لگاہے تو کبھی نہ جانے دیتی۔
مبین کی اہلیہ فائقہ کے مطابق ان کے پانچ بچے (چار بیٹیاں اور ایک بیٹا) ہیں، جن میں سے دو کو مبین نے نہر میں پھینک دیا۔ ریسکیو اہلکار، ڈی او ریسکیو عمر گھمن کی نگرانی میں رات گئے تک کام کرتے رہے مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔ رات میں مناسب لائٹس نہ ہونے پر آپریشن موخر کر دیا، اگلے روز شام کے وقت ریسکیو اہلکاروں کو ایک کامیابی ملی اور نہر اپر چناب واپڈا ٹاؤن کے پاس سے چھوٹی آٹھ ماہ کی زینب کی نعش مل گئی۔ بچی کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال لے جایا گیا ایس ایچ او سیٹلائٹ ٹاؤن محسن مجید جٹھول نے ملزم کی اہلیہ فائقہ کی مدعیت میں دونوں بیٹیوں کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔
دوسری بچی کی نعش کے تلاش جاری رہی اور بالآخر پانچویں روز ریسکیو کی غوطہ خور ٹیم کو کامیابی مل گئی۔ ایس پی سول لائن محمد افضل نے بتایا کہ ملزم نے کہا کہ وہ اپنے ہوش میں نہ تھا اسے پتا ہی نہ چلا کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ ہم اس کا طبی معائنہ بھی کروائیں گے۔ اکثر ایسے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جو کہ کسی کا غصہ اپنے بچوں اور اہلیہ پر نکالتے ہیں۔
چائلڈ پروٹیکشن آفیسر شفیق رتیال نے گھر پہنچ کر مقتول بچیوں کی والدہ سے افسوس کیا اور پیش کش کی کہ اگر وہ بچوں کی کفالت نہیں کرسکتے تو وہ باقی تین بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن کی تحویل میں دے سکتی ہیں تاکہ بچے اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکیں۔
شفیق رتیال نے کہا کہ ابھی والدہ نے وقت مانگا ہے۔ اس ضمن میں ملزم مبین کا کہنا ہے کہ وہ ہر وقت پریشان رہتا تھا، بچے چھوٹی چھوٹی خواہشات کرتے جو وہ پوری نہ کرپاتا۔ میری بیوی بھی گھر وں میں کام کرکے مدد کرنا چاہتی تھی مگر سب بے سود رہا، یہ سب سوچتے سوچتے میں اس نہج پر پہنچ گیا۔