جامعہ کراچی میں واٹر بورڈ افسران کے مکانات کی تعمیر کا انکشاف
رینجرز کی طرح واٹر بورڈ ملازمین بھی جامعہ کی بجلی اور سہولتیں استعمال کررہے ہیں.
جامعہ کراچی میں اسٹیٹ آفس کی روایتی غفلت کے سبب بینک ملازمین اور رینجرز افسران کے غیرقانونی طور پر مقیم ہونے کے بعد اب واٹربورڈ کے افسران اور ملازمین کی جانب سے بھی کیمپس میں مکانات تعمیر کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
واٹربورڈ کے ملازمین بورڈ کے ہائیڈرنٹ کے قریب کیمپس میں باقاعدہ طور پر مکانات تعمیر کر کے اس میں رہائش پذیرہیں،یہ مکانات کئی ہزارگز پر ایک چاردیواری تعمیرکرکے اس کے اندربنائے گئے ہیں جس میں واٹربورڈ کے ملازمین کے کئی خاندان آباد ہیں ، قابل ذکرامریہ ہے کہ یونیورسٹی میں رہائش پذیر بینک ملازمین اور رینجرز افسران کی طرز پر واٹر بورڈکے افسران بھی جامعہ کراچی کی بجلی ،گیس اور یوٹیلٹی کی دیگرسہولتیں استعمال کررہے ہیں۔
جس کے بلوں کی ادائیگی بھی یونیورسٹی انتظامیہ پرایک بوجھ ہے، ادھرجامعہ کراچی اپنے بلند وبانگ دعووؤں کے برعکس تاحال کیمپس میں موجود بھینس کے باڑوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکی اورکیمپس میں اساتذہ کے گھروں کے نزدیک بھینس کا باڑہ تاحال موجود ہے جسے ہٹایا نہیں جاسکا ہے،واضح رہے کہ جامعہ کراچی کا متعلقہ دفتر ''اسٹیٹ آفس'' یونیورسٹی کیمپس میں واٹربورڈ کے ملازمین کی جانب سے مکانات تعمیرکیے جانے کے معاملے سے آگاہ ہے تاہم اسٹیٹ افسر نعیم الرحمن کی جانب سے اس سلسلے میں یونیورسٹی حکام کو بے خبررکھا گیا ہے۔
متعلقہ شعبہ '' اسٹیٹ آفس'' ان کیخلاف کارروائی کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے کی تدابیرکررہا ہے اورکوشش کی جارہی ہے کہ جامعہ کراچی میں غیرقانونی طور پر تعمیرکیے گئے مکانات کے حوالے سے آج ہونے والے اجلاس میں اس معاملے کو شامل نہ کیاجاسکے اور وائس چانسلر پروفیسرکی نظروں سے یہ معاملہ اوجھل رہے ''ایکسپریس''کوذرائع نے بتایا کہ واٹربورڈکے K3 منصوبے کیلیے جامعہ کراچی کیمپس میں دفتر قائم کیا گیا تھا تاہم منصوبہ ختم ہونے کے بعد اس دفترکومکانات کی شکل دے دی گئی، جامعہ کراچی میں غیرقانونی طورپرگھروں پرقابض حاضرسروس اورریٹائرملازمین کیخلاف کارروائی کیلیے اجلاس آج ہورہا ہے۔
واٹربورڈ کے ملازمین بورڈ کے ہائیڈرنٹ کے قریب کیمپس میں باقاعدہ طور پر مکانات تعمیر کر کے اس میں رہائش پذیرہیں،یہ مکانات کئی ہزارگز پر ایک چاردیواری تعمیرکرکے اس کے اندربنائے گئے ہیں جس میں واٹربورڈ کے ملازمین کے کئی خاندان آباد ہیں ، قابل ذکرامریہ ہے کہ یونیورسٹی میں رہائش پذیر بینک ملازمین اور رینجرز افسران کی طرز پر واٹر بورڈکے افسران بھی جامعہ کراچی کی بجلی ،گیس اور یوٹیلٹی کی دیگرسہولتیں استعمال کررہے ہیں۔
جس کے بلوں کی ادائیگی بھی یونیورسٹی انتظامیہ پرایک بوجھ ہے، ادھرجامعہ کراچی اپنے بلند وبانگ دعووؤں کے برعکس تاحال کیمپس میں موجود بھینس کے باڑوں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکی اورکیمپس میں اساتذہ کے گھروں کے نزدیک بھینس کا باڑہ تاحال موجود ہے جسے ہٹایا نہیں جاسکا ہے،واضح رہے کہ جامعہ کراچی کا متعلقہ دفتر ''اسٹیٹ آفس'' یونیورسٹی کیمپس میں واٹربورڈ کے ملازمین کی جانب سے مکانات تعمیرکیے جانے کے معاملے سے آگاہ ہے تاہم اسٹیٹ افسر نعیم الرحمن کی جانب سے اس سلسلے میں یونیورسٹی حکام کو بے خبررکھا گیا ہے۔
متعلقہ شعبہ '' اسٹیٹ آفس'' ان کیخلاف کارروائی کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس معاملے کو پوشیدہ رکھنے کی تدابیرکررہا ہے اورکوشش کی جارہی ہے کہ جامعہ کراچی میں غیرقانونی طور پر تعمیرکیے گئے مکانات کے حوالے سے آج ہونے والے اجلاس میں اس معاملے کو شامل نہ کیاجاسکے اور وائس چانسلر پروفیسرکی نظروں سے یہ معاملہ اوجھل رہے ''ایکسپریس''کوذرائع نے بتایا کہ واٹربورڈکے K3 منصوبے کیلیے جامعہ کراچی کیمپس میں دفتر قائم کیا گیا تھا تاہم منصوبہ ختم ہونے کے بعد اس دفترکومکانات کی شکل دے دی گئی، جامعہ کراچی میں غیرقانونی طورپرگھروں پرقابض حاضرسروس اورریٹائرملازمین کیخلاف کارروائی کیلیے اجلاس آج ہورہا ہے۔