’’ اسے دور رکھو۔۔۔۔اس کی نحوست میری بیٹی پر پڑجائے گی ‘‘

 بیواؤں سے متعلق ہمارا رویہ کب تبدیل ہوگا ؟

عورت کبھی نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر مر جائے کیوںکہ وہ جانتی ہے کہ اسے تنہائی کے ساتھ ساتھ رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔فوٹو: سوشل میڈیا

LONDON:
پچھلے دنوں شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اسٹیج پر مہندی کی کوئی رسم چل رہی تھی کہ دلہن کی ماں کو کسی نے مخاطب کیا،'' آپا! نرمین کہاں ہے؟ نظر نہیں آرہی، بلوائیں اسے وہ بھی آکر رسم کرلے۔'' انھوں نے جواباً کہا،'' ارے نہیں بھئی! رہنے دو، اسے نہ ہی بلاؤ تو اچھا ہے، میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کی خوشیوں پر اس کی پرچھائی بھی پڑے۔'' دلہن کی ماں کی بات سن کر میں نے نرمین کے بارے میں جاننا چاہا تو پتا چلا کہ محترمہ دلہن کی سگی پھوپھو ہیں مگر انھیں بھتیجی کی خوشیوں میں اس لیے شریک نہیں کیا جا رہا ہے کیوںکہ وہ خاتون بیوہ ہیں۔ میں حیران پریشان کھڑی سوچتی ہی رہ گئی کہ کیا بیوگی اتنا بڑا جرم ہے کہ انھیں اپنوں کی خوشیوں سے بھی دور کردیا جائے؟

یہ تو قدرت کا قانون ہے کہ انسان جتنی عمر لے کر آتا ہے، اتنی گزار کر اپنے وقت پر دنیا سے چلا جاتا ہے، تو کیا اگر کوئی شخص مرجائے تو اس کی بیوہ کا جینا ہی دشوار ہوجائے؟ ایک تکلیف دہ زندگی اس کا مقدر بن جائے؟

آپ نے بھی اکثر ایسی بیوائیں دیکھی ہوں گی جو اگر ذرا سا بناؤ سنگھار کرلیں، کبھی اچھے کپڑے پہن لیں تو طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں، طنزیہ جملے کسے جاتے ہیں، ان کے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ شوہر کے مرنے پر انتہائی بے دردی سے ان کی چوڑیاں توڑ دی جاتی ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ خود کس کرب میں ہوگی اس کے مسکرانے پر پابندی، ہنسنے بولنے پر پابندی، انھیں خوشیوں میں شامل کرنے پر پابندی، ان کو منحوس خیال کرنا کہ کہیں ان کی نحوست ان کی بچیوں کی خوشیاں نہ چھین لے۔ کبھی دین اسلام کا مطالعہ کیجیے۔ اسلام بیوہ سے نفرت کا درس نہیں دیتا۔ پھر ہم کیوں کسی بیوہ کے لیے ایسے جاہلانہ رواج اپنائیں؟


عورت کبھی نہیں چاہتی کہ اس کا شوہر مر جائے کیوںکہ وہ جانتی ہے کہ اسے تنہائی کے ساتھ ساتھ رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ' منحوس ہے جو اپنے شوہر کو کھا گئی' ایسے فضول جملے سننے پڑیں گے۔ بیوہ اگر جوان ہے تو محلے میں آنے جانے والے مردوں کی نگاہیں، بچے چھوٹے ہوں اور روزگار کا بھی کوئی وسیلہ نہ ہو تو زندگی اور بھی دشوار ہوجائے۔ ایک تو کمانے کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور اگر آنے میں ذرا سی بھی دیر ہوجائے تو آس پاس بسنے والوں کی شکی نگاہیں عورت کا کلیجہ کاٹ ڈالتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم کیوں ایسی سوچ رکھتے ہیں؟ ذرا ایک بار صرف ایک لمحے کے لیے سوچیے کیا یہ سب درست ہے؟

یقیناً نہیں۔ تو ان ہندوانہ رسموں سے پیچھا چھڑائیے، بیواؤں کو بھی عزت دیجیے کسی کو منحوس مت کہیے یہ مت سوچیے کہ وہ آپ کی خوشیوں کو چھین لے گی۔ انسان کی اتنی اوقات کہاں کہ وہ کسی کی خوشیاں چھین سکے یا کسی کو کچھ نواز دے۔ یہ تو ربّ ذوالجلال کے کام ہیں۔ ان خواتین کا احترام کیجیے آپ کی جاننے والی کوئی خاتون بیوہ ہیں تو ان کے پاس جائیے، انھیں روزگار کا مسئلہ ہو تو ان کی مالی مدد کیجیے۔ ان کے ساتھ ہمدردی اور نیکی سے پیش آئیے، اپنی خوشیوں میں انھیں شامل کریں وہ خاتون تو خوش ہوں گی ہی صلے میں آپ کو بھی اجر عظیم ملے گا۔

 
Load Next Story